تازہ خوا ہی داشتن گرداغ ہائے سینہ را

گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را

(اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں تو کبھی کبھی یہ پرانے قصے بھی پڑھ لیا کر)

سید الاولیاء عارف باللہ سید عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ تقویٰ اور علم دین میں یکتائے روز گار تھے۔

ولادت، نام و نسب:

امام سید عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق آپ 1230 ہجری بمطابق 1811ء میں قلعہ بہادر خیل کے مقام پر جو شہر غزنی کے مضافات میں واقع ہے پید اہوئے یہ جگہ افغانستان میں خواجہ ہلال کے پہاڑ کے قریب واقع ہے۔

آپ کا نام و نسب محمد اعظم بن محمد بن محمد شریف رحمہم اللہ ہے۔ والدین نے آپ کا نام محمد اعظم رکھا مگر آپ نے اپنا نام عبداللہ رکھ لیا اس لیے کہ اس نام میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور بندے کی عبودیت کا اظہار اور فروتنی کا اقرار ہے آپ کے جد اعظم محمد شریف ولی الکامل تھے آ پ کے والد بزرگوار کا شمارہ بھی اولیاء و صلحائے امت میں ہوتا ہے اس لحاظ سے آپ کریم ابن کریم ابن کریم تھے آپ اور آپ کے آباء و اجداد اور آپ کی اولاد و احفاد سب اقلیم فقر کے فرماں روا تھے سب نشہ درویشی سے سرشار اور ملا و جاہ سے یکسر بے نیاز تھے۔

تعلیم:

آپ نے بچپن میں علما ئے غزنی سے کسب فیض کیا علوم متداولہ کی تحصیل وہیں کی، علمی ذوق کو تسکین نہ ملنے پر قندھار کے طویل ترین اور دشوار گزار راستے کو طے کرتے ہوئے قندھار حضرۃ الشیخ حبیب اللہ قندھاری رحمہ اللہ کے چشمہ علم سے اپنی علمی تشنگی دور کرنے کے تشریف لے جاتے حضرۃ الشیخ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ شہر قندھار تمہارے ملک سے بہت دور ہے اور تم سخت مصائب و تکالیف اٹھا کر آتے ہو۔ فرمانے لگے حضرۃ میرا آنا صرف دین کی خاطر ہے سفر کی صعوبتیں ہی میرے لیے ذریعہ نجات ہیں۔

منازل سلوک و طریقت:

بازار عشق وسوق محبت کے جاں فروش

لپکیں کہ چل چلاؤ ہے دنیائے دون کا

سیکھں طریق وصل ولقائے خدائے پاک

دل بیچکر خرید لیں سودا جنوں کا

فرماتے تھے کہ بچپن میں مجھے اس بات کا شوق تھا کہ جنگل میں جا کر تنہائی میں دعا کروں اس زمانہ میں بعض اہل اللہ فرمایا کرتے تھے تمہاری پیشانی میں نور چمکتا ہے خبردار علمائے سوء کی صحبت میں رہ کر اپنے قلب و دل کو خراب نہ کر لینا عوام کیا خواص بھی آپ کی للہیت اور پرہیز گاری کو دیکھ کر حیرت زدہ تھے عہد شباب جس میں بڑے بڑے بہادر جو سیل حوادث سے منہ نہیں موڑتے وہ خواہشات و مالوفات کی موجوں میں تنکوں کی طرح بہہ جاتے ہیں اور دل کی خود فروشیاں انہیں منزل مقصود سمجھ لیتیں ہیں مگر آپ کی للہیت اور پرہیز گاری کے کیا کہنے کہ عہد شباب میں ہی آپ کو عنایت ربانی اور جذبہ غیبی نے پا لیا۔

در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری است

وقت پیری گرگ ظالم ہم میشود پرہیزگار

آپ پر جذب اس قدر غالب تھا کہ مخلوق سے گریزاں اور سب رشتہ داروں سے الگ تھلگ خواجہ ہلال کی پہاڑیوں میں اقامت گزیں ہو گئے حسب ارشاد نبویﷺ جب اللہ کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کے لیے مقبولیت زمین میں رکھ دی جاتی ہے۔ لوگ اس جگہ بھی آپ پیچھے پہنچ جاتے۔

حضرت کا فیضان:

بعض لوگ محض آپ کی صحبت میں بیٹھنے سے اور بعض صرف آپ کی زیارت سے صاحب حال ہوگے اور ان پر روحانی کیفیات طاری ہو گئیں دور دراز سے علما و مشائخ آپ سے فیض حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوتے۔

دنیا داروں سے گریز:

امیروں اور دنیا داروں کی محبت سے تادم زیست گریزاں رہے اپنے بچوں کو بھی ہمیشہ یہی نصیحت فرماتے کہ دنیا داروں کی صحبت سم قاتل ہے۔ چنانچہ آپ کے بیٹے مولانا سید احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

کہ جب میں قریہ خیر دین میں والد صاحب کی خدمت میں غزنی سے حاضر ہوا ایک دن محمد حسن خان کا خط جو اس احقر کو بلانے کے لیے اس نے لکھا تھا والد محترم کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ میری گزر اوقات تنگ ہے اگر آپ کی مرضی ہو تو میں اس کی ملازمت اختیار کر لوں وگرنہ (فصبرٌ جمیلٌ) فرماتے ہیں کہ والد صاحب دو تین دن تک خاموش رہے ایک دن خواب مراقبہ سے بیدار ہوئے جلدی سے مسجد میں آئے اور مجھ کو بلا کر چند کلمات ایسے جوش دل سے ارشاد فرمائے جو میرے دل میں فولادی میخ کی طرح گڑ گئے میں نے فورا لکھ لیے تاکہ میرے لیے اور دیگر فرزندوں کے لیے باعث عبرت ہو۔

وصیت:

فرمانے لگے میرے بیٹے فقیر نے اپنے بیٹوں کے لیے نہ تو درہم و دینار چھوڑے ہیں نہ متاع دنیا کی میراث نہ جاہ و حشمت۔ میں نے اپنی میراث توحید الٰہی جل و علیٰ چھوڑی ہے اس میراث کو مجھ سے قبول کر لو فقیر نے بطور امانت اپنے فرزندوں کو اللہ کے سپرد کر دیا ہے ذات الٰہی امین ہے وہ میری امانت کو ہرگز ضائع نہیں فرمائیں گے جب میرے فرزند تنگ دست ہوں تو اللہ سے عرض کریں یااللہ ہمارے والد نے ہمارے لیے دنیاوی اسباب اور روپے پیسے میں سے کچھ نہیں چھوڑا میں تیرے اس بندے کا بیٹا ہوں جو ہمیں تیرے ہاتھ میں بطور امانت سپرد کر گیا ہے۔ لیس ان شاء اللہ من حیث لا یحتسب کشادگی ہو گی اور ہوش رکھو کہ:

ازر کون و میلان ظلمہ و اہل ازمراد خانان پر حذر باید بود کہ ہم نشینی و اختلاط با اوشان سمّ قاتل است

ظالموں اور اہل دولت کی طرف جھکنے اور میلان سے پُر حذر رہو کیونکہ اس سے ہم نشینی اور ان سے جول سم قاتل ہے۔ (مکتوبات ولی الٰہی مکتوب نمبر 21 ص 135)

اتباع و احیائے سنت:

افغانستان میں اس وقت عوام اور خواص بدعات و رسومات میں مبتلا تھے آپ کو الہام اور خواب کے ذریعے ان بدعات سے سخت روکا جاتا اور کتاب وسنت کی ترغیب دی جاتی آپ حیران و ششدر تھے کہ اس ملک میں جہاں بدعات و رسومات کا غلغلہ ہے یہاں کتاب و سنت کا کام کیسے انجام پائے گا پس جلد ہی تائید الٰہی آپ کا ہم رگاب ہوگئی آپ نے اتباع سنت وا حیائے اسلام کے لیے کمر باندھی مشرکانہ رسومات کے خلاف صدائے حق بلند کی۔

جوروستم کے تاریک بادل:

توحید خالص اور اتباع سنت اور مشرکانہ رسوم کے خلاف آواز کا اٹھنا تھا کہ خواص و عوام میں بہت سے لوگ علماء و حکام جو آپ کے ارادت مندتھے مخالف ہو گئے اور ایذاء رسانی کے درپے ہوئے اس علاقے کے علماء آپ کے ساتھ عمل بالحدیث خلاف مذہب کے مسئلہ پر مباحثہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے جلد ہی خائف ہو کر جنگ کا ارادہ کیا مگر چونکہ آپ کے پیرو محبین بہت تھے مخالفین آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکے ناچار حکام وقت کے دروازے پر دستک دی رنگا رنگ جھوٹ اور بہتان طرازی کا انبار لگا دیا امیر دوست محمد کے کان میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ اگر اس شخص کو یوں ہی مہلت دے دی گئی تو تمہاری بادشاہت کو برباد کر دے گا نظام حکومت میں خلل ڈالے گا تمام امراء وزراء اور عہدیدار اس شخص کے معتقد اور مرید ہیں مصلحتاً آپ امیر دوست محمد کے طلب کرنے سے قبل ہی کابل جا پہنچے اور حقیقت حال سے امیر کو آگاہ کیا مخالف علما بھی آ گئے جن میں خان ملا درانی، ملا مشکی انڈری، ملا نصر اللہ لوہانی اور ان کے علاوہ وقت کے سینکڑوں ملا اکٹھے ہوئے اور خفیہ مشورے سے یہ بات طے کر لی کہ اگر علمی مباحثہ ہوا تو ہم کبھی اس پر غالب نہیں آ سکیں گے اس کے سوا کوئی تدبیر نہیں کہ اس کے خلاف جھوٹی گواہی دے دی جائے سچ ہے علمائے سو کی بابت:

ہم بڑی چیز سمجھتے تھے پہ میخانے میں

نکلا اک جام کی قیمت بھی نہ ایمان اپنا

مخالفین نے مناظرہ سے انکار کرتے ہوئے جھوٹے گواہوں کے ذریعے حضرۃ پر منکر رسول، منکر شفاعت، اور خود نبوت کے مدعی کا الزام لگایا امیر سمجھ گیا کہ یہ سب کذب بیانی و زبان درازی کے علاوہ کچھ نہیں مگر ملک کے علمائے سو اور ان کے فساد اور ہنگامہ برپائی سے خائف ہو کر مصلحتاً حضرۃ کو جلاوطنی کا حکم دے دیا۔

جلا وطنی:

جب دیکھا کہ زمانہ کی حالت دگرگوں ہو گئی ہے اور حکومت وقت بھی دنیا سازوں دین بازوں اور ایمان فروشوں کے قبضے میں چلی گئی ہے حتی کہ گوشہ نشینوں کے لیے بھی امن نہ رہا تو ترک وطن پر آمادہ ہو گئے اور افغانستان کو چھوڑ دیا کیا خوب لکھا ہے مولانا ابو الکلام آزاد نے تذکرہ میں ’’کہ ارباب صدق و صفاء ہمیشہ قید وطن ودیار سے آزاد رہے ہیں خدا کی ساری خدائی ان کا وطن اور ساری زمین ان کا گھرانا ہے جن بے نیازان دنیا و نیاز مندان حق کو وطن میں رہ کر بھی ناز و نعمت دنیوی کے مزے نہیں لوٹنے ہیں بلکہ اپنی بوریائے فقر پر قانع رہ کر علم و حق کی خدمت و چاکری ہی کرنی ہے ان کے لیے دنیا کے کسی ایک گوشے میں کیا دھرا ہے جو دوسرے گوشے میں میسر نہ آئے گا وہ جہاں کہیں بھی رہیں گے دو گز زمین اور ایک پھٹی چٹائی مل ہی جائے گی ان کے علم و حق کی جنس تو وہ متاع عالمگیر ہے جس کے لیے خدا کی ساری زمین دنیاء وبازار کا حکم رکھتی ہے وہ اپنی جھولی میں حق و صداقت کا تخم رکھتے ہیں ان کو لے کر جس سر زمین پر بھی جا نکلیں گے اپنی فصل و کاشت خود تیار کرلیں گے‘‘

پس امیر دوست محمد نے آپ کو جلاوطن کر دیا آپ ملک سوات وہاں سے کوٹھ اور پھر ہزارہ تشریف لے گئے ایک دنیا اس سفر میں آپ سے فیض یاب ہوئی ہزارہ سے آپ خود دہلی پہنچ گئے وہاں حضرت سید نذیر حسین محدث دیلوی صاحب سے کسب فیض پایا اور کتب احادیث کی سند حاصل کی یہ وہی دور تھا جب 1857 کی جنگ آزادی عروج پر تھی دہلی میں قتل و غارت کا بازار گرم تھا دہلی سے پنجاب تشریف لے آئے کچھ عرصہ پنجاب میں اقامت گزیں رہنے کے بعد براستہ ڈیرہ اسماعیل خان اپنے وطن پہنچے خیال تھا کہ اتنی مدت گزر گئی ہے امیر دوست محمد خان کے خیالات اب بدل چکے ہوں گے مگر ابھی وطن میں ایک مہینہ ہی اقامت پذیر رہے ہوں گے کہ پھر آپ کے اخراج کا پروانہ آ گیا وہاں سے ملک نادہ چلے گئے امیر دوست نے وہاں سے بھی نکالنے کا حکم بھیج دیا پھر اپنے اہل وعیال کو لے کر یاغستان کے پہاڑوں میں سکونت پذیر ہوئے۔

امیر دوست کی وفات اور وطن واپسی:

انہی دنوں امیر دوست نے شہر ہرات میں وفات پائی پھر آپ وطن واپس پہنچے امیر دوست محمد کا بیٹا امیر شہر علی خان اس ملک کا امیر ہوا علمائے سوء نے امیر شیر علی خان کو بھی آپ کے خلاف بھڑکا یا نتیجتاً پھر اخراج کا حکم نامہ جاری ہوا۔

غار میں پناہ:

یکایک اخراج کا پروانہ ملنے پر آپ حیران تھے کہ کس طرف رخ کریں بالاخر جنگل کے ایک غار میں جاکر چھپ گئے اسی زمانہ میں امیر شہر علی کا تختہ الٹ دیا گیا وہ ذلیل نامراد ہو کر ہرات پلٹا پھر محمد افضل خان امارت کے عہدے پر فائز ہوا علمائے سوء نے پھر جھوٹی تہمتوں اور بہتان طرازیوں کا بازار گرم کر دیا امیر وقت محمد افضل خان کے حکم پر آپ کو گرفتار کیا گیا اور امیر دوست محمد کے بیٹے سردار محمد عمر خان کے پاس بھیج دیا گیا۔

نعرۂ حق:

سردار عمر خان آپ کا نورانی چہر ہ دیکھ کر ہی نرم پڑ گیا بڑے ادب سے عرض کرنے لگا کہ آپ اس راستے کو ترک کیوںنہیں کر دیتے جو کچھ علمائے وقت کہتے ہیں مان کیوں نہیں لیتے سردار عمر کا جرنیل بولا اسے میرے حوالے کر دو میں اسے توپ سے اڑا دوں گا۔ آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی آپ نے ایمان افروز کلمات کہے۔

’’میں قصد محکم او رعزم مصمم رکھتا ہوں کہ جب تک میرے بدن میں جان باقی ہے میرے جسم پر سر سلامت ہے کتاب و سنت کی خدمت نہایت گرم جوشی سے کرتا رہوں گا میں تو یہی چاہتا ہوں کہ اس راستے میں میرے پرزے اڑا دیئے جائیں میری انتڑیاں جنگلوں کی خار دار جھاڑیوں پر پھینک دی جائیں اور کوّئے ان پر چونچیں ماریں‘‘۔

سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کے لیے جن اہل اللہ کا شرح صدر کر دیتا ہے ان کی استقامت کو کوئی طاقت متزلزل نہیں کرسکتی۔

الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون

کابل کی طرف روانگی:

سردار عمر خان نے امیر افضل خان اور اعظم خان کے حکم پر آپ کو کابل روانہ کر دیا دنیا پرست ملاؤں نے امیر افضل خان اور امیر اعظم خان سے کہا کہ اس شخص کاکفر ہم امیر دوست خان کے عہد میں ثابت کر چکے ہیں لہذا دوبارہ تصدیق کی ضرورت نہیں۔

قتل کا فتویٰ:

سب نے متفق ہو کر قتل کا فتویٰ دیا مگر سرکاری ملاؤں سے ملا مشکی انصاف پسند تھا اس نے قتل کے فتویٰ پر دستخط نہ کئے بڑی گفتگو کے بعد قتل کا فتویٰ واپس لیا گیا علمائے سوء کے فتویٰ کے مطابق آپ کو درے مارے گئے سر اور داڑھی کو مونڈ دیا گیا چہرہ مبارک سیاہ کر دیا گیاگدھے پر سوار کر کے گشت کرایا گیا پس دیوار زندان پھینک دیا گیا۔ ہائے یہ سزائیں جن سے اہل حق کو ہر دورمیں دوچار ہونا پڑا منصور عباسی کے عہد میں امام مالک کوبھی اسی قسم کی وحشیانہ سزاؤں سے دوچار ہونا پڑا تھا یہ کیا چیز تھی کہ عین اسی وقت جب امام دارالہجرت مالک بن انس رحمہ اللہ کی پشت کو دروں سے داغدار کیا جا رہا تھا اور اونٹ پر انہیں داڑھی اور سر مونڈ کر تذلیل و تشہیر کے لیے سوار کرایا گیا تھا۔ وہ پکار پکار کر کہہ رہے تھے۔

من عرفی فقد عرفی ومن لم یعرفنی فانا مالک بن انس اقول ان الطلاق المکرہ لیس بشیء

جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے جو نہیں جانتا سو جان لے میں مالک بن انس ہوں اور اسی مسئلے کا اعلان کر رہا ہوں جس کے اعلان سے مجھے جبراً روکا جا رہا ہے کہ جبری طلاق واقع نہیں ہوتی۔

اللہ اکبر اسی طرح حضرت الامام سید عبد اللہ غزنوی رحمہ اللہ کی پشت کو دروں سے داغدار کیا گیا آپ معمر اور ضعیف تھے اسی اثنا میں ایک ظالم آگے بڑھا محتسب کے ہاتھ سے درہ چھین کر زور زور سے مارنے لگا۔ بالاخر لوگ بول اٹھے اے ظالم تو نے تو انہیں مار ڈالا درہ اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔

حضرت فرمایا کرتے تھے جس دن کابل میں مجھے درے مارے جا رہے تھے مجھے اس کی خبر تک نہ تھی مولوی عبدالواحد خان پوری نے ایک دن عرض کی حضرت میرے حق میں دعا کرو اللہ تعالیٰ مجھے ایمان میں استقامت دے فرمانے لگے کہ میںتو اس شخص کے حق میں بھی دعا کرتا ہوں جو مجھے کابل میں نہایت سختی سے درے مارا کرتا تھا۔ حضرت سید صاحب دو سال اپنے بیٹوں سمیت قید میں رہے۔

جلا وطنی اور حکام کا انجام:

امیر افضل خان اکتوبر 1847ء کو بعارضہ وبا ہلاک ہوگیا اس کے بعد امیر اعظم تخت نشین ہوا اس نے اس عہد میں ہی آپ رحمہ اللہ کو پیادہ پشاور کی طرف نکال دیا۔ امیر دوست محمد خان کے خاندان کو اللہ عزوجل نے اپنی قدرت کاملہ سے ایسا ذلیل و رسوا کیا ان سے بعض پشاور اور پنجاب میں نصاری کے ہاتھوں قید و بند کی سختیاں جھیلتے رہے بعض جنگلوں اور پہاڑوں میں  پریشان اور سرگرداں رہے سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے:

من عادلی ولیا فقد بارزنی بالحرب

جو میرے کسی ولی سے ساتھ دشمنی کرتا ہے وہ حقیقت میں میرے خلاف جنگ کرتا ہے۔

شہر امرتسر میں:

پشاور میں کچھ مدت قیام فرمایا پھر امرتسر چلے گئے یہاں کتاب و سنت کی اشاعت میں مصروف عمل رہے اتباع سنت اور عقائد پر بہت سی کتابوں او ررسالوں کے فارسی اور اردو زبان میں ترجمے کرواتے رہے اور عام لوگوں کے لیے فی سبیل اللہ تقسیم کرتے رہے۔

وفات:

آخر عمر میں ضروری بات کے علاوہ کوئی بات نہ کرتے تھے ہر وقت اللہ کی طرف متوجہ رہتے تسبیح و دعا کے علاوہ کوئی دوسرا شغل آپ کا نہ رہا یہاں تک کہ ربیع الاول 1298ھ بمطابق 1873ء میں آدھی رات کے وقت ہمیشہ ہمشہ کے لیے دارفناء سے دار بقا کو رخصت ہو گئے آپ کو قبل از ظہر بعد از زوال شہر امرتسر میں دروازہ سلطان ونڈ کے باہر عبدالحمید کاشمیری کے تالاب کے کنارے سپرد خاک کر دیا گیا۔

رضی اللہ عنہ وارضاہ وجعل الفردوس ماواہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے