دنیا و آخرت میں ایک مثالی خاتون کو کس طرح ہونا چاہئے؟

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کائنات میں جلوہ گرہو کر بنی نوع انسان کو رہنمائی کے لئے کلام الٰہی کی روشنی میں ہدایت کی راہ پر گامزن کیا انہیں دنیا میں رہنے سہنے کا اور جینے کا طریقہ سکھایا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس لئے بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا والوں کو صرف اللہ رب العالمین سے نہیں مالک سے ہی آگاہی نہیں بخشی بلکہ اپنے والدین، رشتہ داروں، پڑوسیوں ، ملاقاتیوں، عام انسانوں ، ہم مذہب یا غیر مذہب ، محلے والوں، بستی والوں، ملکی غیر ملکیوں کے ساتھ رہنے سہنے کا ڈھنگ، طریقہ آپس کے معاملات سب سکھائے اور سماجی معاملات اور اخلاقیات کا عملاً ثبوت پیش کیا۔

اور جس طرح مردوں کو سماجی معاملات پیش رہتے ہیں اسی طرح مومنہ عورت کے سامنے بھی سماج ہوتا ہے جس کے ساتھ تعلقات ، معاملات، اخلاقیات کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا جتنا سماج کا سامنا ایک عورت کو ہوتا ہے اتنا مرد کو نہیں ہوتا تو وہ سارے اصول ، طریقے اور ضوابط جس کی اسلام مردوں کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ بلند پایہ اوصاف جو اگر وہ اپنے اندر پیدا کرلیں تو پھر وہ عالم اسلام کے لئے ہدایت کا ذریعہ بن جائیںبالکل اسی طرح وہی اصول ، طریقے اور ضوابط عورتوں کے لئے بھی ہیں کیونکہ وہ اس معاشرے کی بنیاد ہیں وہ نسلوں کی پرورش اپنی گودوں میں کرتی ہیںان کو بھی وہ معاملات اور اخلاقیات لازمی سیکھنے چاہئیں جو انہیں سماج کے ساتھ معاملات میں آسانی پیدا کریں کیونکہ جنت ان کی بھی منزل ہے۔ رب کی رضا کا حصول انکی بھی کوشش ہے نیک اعمال اور اخلاقیات جنت میں جانے کے لئے انکا ہتھیار ہیں جزا سزا ان کی بھی ہو گی۔

ارشاد ربانی ہے۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النحل: 97)

جس نے بھی نیک عمل کئے مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم ضرور اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ہم انہیں ضرور ان کا اجر و ثواب ان بہترین اعمال کے بدلے میں دیں گے جو وہ کرتے تھے ۔

اللہ رب العالمین نے مومنہ عورت کو دنیا میں بسنے والے لوگوں کے ساتھ بہترین روش اختیار کرنا سکھائی ہے۔ اسلام صرف مسجد کا مذہب نہیں بلکہ وہ دین کامل ہے جو اپنے ماننے والوں کو پابند کرتا ہے کہ دنیا میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ تعلقات ، معاملات اخلاقیات میں بھی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنی ہے کوئی شخص کتنا ہی نیک عام معنوں میں پارسا اور معروف لحاظ سے کتنا ہی متقی ہو خواہ وہ مرد ہو یا عورت لیکن اگر مخلوق الٰہی کے ساتھ اس کے تعلقات اس طریقے پر استوار نہیںجس کا حکم اللہ کے کلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں آیا ہے تو وہ کبھی سرخرو نہیں ہو سکتے ان کا تعلق اور رابطہ اللہ رب العالمین کے ساتھ اور اللہ کا ڈر خشوع و خضوع نجات کا باعث جب ہی بن سکے گا جب وہ سماج کے ساتھ تعلقات میں بھی بہترین ہونگے۔

اسلام نے مسلمان مرد اور عورت دونوں کو ہر طرح کی راہنمائی دی ہے اور ان میں سے ایک بہترین راہنمائی سماج کے ساتھ تعلقات کی ہے ایک مومنہ عورت سماجی ذمہ داریوں کے حوالے سے مرد کی طرح ذمہ دار ہے وہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے بہرہ ور ہوتی ہے اس کی شخصیت سماجی لحاظ سے اخلاقی طور پر نہایت بلند سطح پر ہوتی ہے اس کے اعلیٰ اخلاق و اوصاف دوسروں کو اسلام کی طرف کھینچتے ہیںاور اسلام ان اعلیٰ اخلاق و اوصاف کو مسلسل اختیار کرنے پر اسے پابند رکھتا ہے اور پھر اس کی پابندی کرنے والوں کے لئے اجر کی نوید سناتا ہے تو پھر اسی طرح ان سے بے پرواہی برتنے والوں کے لئے آخرت کے دن جواب و سزا بھی رکھی ہے ایک مومنہ عورت جو اپنے دین کی تعلیمات کو سمجھتی ہے وہ جس سطح پر بھی ہو وہ نمایاں ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اپنے دینی اقدار کا مظاہرہ کرتی ہے اسلام کا عملی نمونہ ہوتی ہے اور قرآن و سنت ہی وہ قیمتی اہم ذریعہ ہے جس کی روشنی میں باہمی تعلقات و معاملات اور برتاؤ کو لوگوں کے ساتھ وہ معاملات میں بھی بہتر بناتی ہے اپنے نفس کا تذکیہ کر کے اپنی شخصیت کو ایک مثالی مومنہ اور اپنی ذات کو اخلاقی نمونہ بناتی ہے۔

آئیں قرآن و حدیث ان دو بڑے میزانوں کے اندر ایک مثالی مومنہ عورت اور سماجی معاملات میں اس کے بہترین اوصاف کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس خاکہ کی روشنی میں اپنا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی راہنمائی کے لئے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ سارے اوصاف اگرہم جانتے ہیں لیکن معاشرتی برائیوں کے باعث برائیوں کی گَرد پڑ گئی ہے اس گرد کو صاف کرنا مقصود ہے اور یہ نیت کر کے پڑھیں اور سیکھیں کہ اللہ رب العالمین ہمیں بہترین عمل کی توفیق دے اور یاد رکھیں توفیق ان کو ہی ملتی ہے جن کے دلوں میں خود کو بنانے کی تڑپ ہوتی ہے ۔

مومنہ اور حسن اخلاق

ایک مومنہ سب سے بہتر اور اعلیٰ اخلاق کی حامل ہوتی ہے۔ خوش اخلاقی ، نرم مزاج، خود گفتار سب پر مہربان اس لئے کہ وہ ان عظیم ہستی کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتی ہے جن کے اخلاق کے بارے میں اللہ رب العالمین نے خود ضمانت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: 4)

اور بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسن اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔اور یہ وہ صفت ہے جو ایک مسلمان کی انسانی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اللہ رب العالمین کی نگاہ میں سرخرو کرنے اور لوگوں کی نگاہ میں قدر ومنزلت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ القِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا (سنن الترمذي 4/ 370)

بے شک میرے نزدیک سب سے عزیز اور قریب قیامت کے دن وہ لوگ ہونگے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہوں گے۔

ایک اور جگہ فرمایا

إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا (مسلم (4/ 1810)

تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو اخلاق میں سب سے بہتر ہیں۔ اور اس اخلاق حسنہ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم کو تربیت دی۔ اس سے آراستہ ہونے پر ابھارہ، قول و عمل کے ذریعے ان کوسکھانے کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس کیا، ثمرات بتائے مختلف انعامات بشارتیں بتائیں تاکہ انسان عمل کی جدوجہد میں مسلسل قدم آگے بڑھائے کبھی اس کی اہمیت اس کے آگے یوں رکھی کہ

إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ (سنن أبي داود (4/ 252)

بے شک مومن بندہ حسن اخلاق سے روزہ دار اور نمازی کے درجہ پر پہنچ جاتا ہے ۔کبھی اس طرح تربیت کرتے کہ فرماتے حسن اخلاق میں برکت ہے (احمد)۔ کبھی دعا کے ذریعے ترغیب دی جبکہ خود بلند ترین اخلاق کے مینار ہیں لیکن مومنوں کے تزکیہ نفس کے لئے دعا سکھائی خود مانگ کر دکھائی۔

اللَّهُمَّ كَمَا حَسَّنْتَ خَلْقِي فَحَسِّنْ خُلُقِي
(الدعاء للطبراني (ص: 145)

اے اللہ جس طرح آپ نے میری خلق(صورت اور ساخت) بہترین بنائی ہے اسی طرح میرے اخلاق بھی بہترین کردے۔ اور یہی وہ تربیت تھی جو صحابیات رضی اللہ عنھن نے سیکھی اور پیروی کر کے جب خود کو اس رنگ میں رنگ لیا تو نمایاں اخلاق کی حامل نسلیں وجود میں آئیں ایسا مثالی معاشرہ تعمیر کیا کہ جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کسی عہد میں نہیں ملتی ۔

حسن اخلاق پر مزید گہرائی سے مطالعہ کریں تو ایک روشن سمندر ہمارے سامنے آتا ہے جس کے تحت تمام اچھے اخلاقی اوصاف آجاتے ہیں جو اس اخلاق حسنہ کا نچوڑ ہوتے ہیں جن سے انسان شخصیت کو نکھارتا اور نفس کا تذکیہ کرتا ہے جس میں حیاء بردباری، نرمی، سچائی، امانت داری، خیر خواہی اور اس قسم کے اچھے اوصاف اخلاق حسنہ میں شامل ہیں۔ آپ حیران ہونگے کہ اسلام صرف عمومی اخلاقیات نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے اخلاقی مسائل اور جزئیات پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور اتنی مفصل ہدایات اسلام کے علاوہ کسی دوسرے نظام میں موجود نہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو حقیقت تلخ ہی ہے لیکن حقیقت ہے کہ اس مومنہ کردار کے اخلاق کے خاکے کاعملاً ثبوت پیش کرنا ناممکن ہے وہ اعلیٰ اخلاق کی حامل عورتیں لیکن آج ہم بد اخلاقی میں مشہور اور معروف ہیں۔ ہمارے اخلاق کو دیکھ کر لوگ دین اسلام سے متنفر ہوجاتے ہیں بد اخلاقی ہمارے میزان کا بھاری عمل ہے اگر آج ہم مر جائیں تو چند لوگ بھی ہمارے اخلاق کی مثال دینے سے قاصر ہیں ۔ اخلاق حسنہ کے اندر سب سے بلند عظیم قابل قدر صفت سچائی کی ہے۔

مومنہ صادقہ ہوتی ہے

إِنَّ…وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ… وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ… أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (الأحزاب: 35)

بے شک مومن مرد اور عورتیں…………. سچ بولنے والے مرد، سچ بولنے والی عورتیں…………… اللہ نے ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم تیار رکھا ہے۔

ایک مومنہ اس صفت عظیم کی حامل ہوتی ہے اللہ کی رضا کے لئے وہ فسق و فجر جھوٹ سے کوسوں دور رہتی ہے وہ اپنی ذاتیات سے لے کر سماجی معاملات تک سچائی کا سہارا لیتی ہے۔ وہ اس آیت کا عملی نمونہ ہوتی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الأحزاب: 70)

اے ایمان والوں اللہ سے ڈرواور صاف اور سچی بات کہو۔ وہ اپنے قول و عمل سے سراپا صدق ہوتی ہے سچائی کی علمبردار ہوتی ہے وہ جانتی ہے یہ صدق نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو جنت میں لے جائے گی اور پھر درجہ یہاں تک ہو جاتا ہے کہ ’’ حتی یکتب عند اللّٰہ صدیقا ‘‘ یہاں تک کہ اس کا نام اللہ کے ہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم) یوں ایک عورت قلب کی صفائی اور صداقت کی بدولت رب کے پاس قابل قدر منزلت حاصل کر لیتی ہے۔ اور پھرخوش قسمتی کا اعلیٰ مقام شروع ہوتا ہے۔ کہ اللہ کی طرف سے ندا آتی ہے کہ ’’ ان اللّٰہ یحب الصادقین‘‘ بے شک اللہ تعالیٰ سچوں سے محبت کرتا ہے۔اس کے بر عکس ہم اپنا جائزہ لیں تو جھوٹ کی کثرت سے جہنم کی راہ اختیار کر لی ہے اور اس کثرت کی بنا ء پر اللہ رب العالمین کے پاس ’’ حتی یکتب عند اللہ کذابا ‘‘ جھوٹے لکھ دئیے گئے ہیں۔ اور جھوٹے کردار کی شخصیت کے حامل لوگ ہیں نا کوئی اعتماد کرتا ہے نہ لوگوں کی نگاہ میں عزت ہے ۔ قسم لے کر بھی لوگ بے یقینی کا شکار رہتے ہیں کہنے کو ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کبھی جھوٹ نہیں بولتا ۔

مومنہ اور ایفائے عہد

یہ صفت مومنہ کی اخلاقی خوبیوں میں سے ایک ہے اور درحقیقت صدق کی ہم نشین ہے یہ ایک بلند پایا صفت ہے جو اس کی اخلاقی بلندی کو ظاہر کرتی ہے یہ زندگی میں کامیابی کا زینہ اور لوگوں کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ مومنہ کے نزدیک یہ صرف معاشرتی خوبی نہیںبلکہ وہ واقف ہوتی ہے یہ اسلام کے بنیادی اخلاقیات میں شامل ہے ۔جو ایمان کی صحت پر دلالت کرتی ہے۔ فرمان الٰہی ہے۔یا ایھا الذین امنو اوفو بالعقود (المائدہ) اے ایمان والوں اپنے وعدوں کو پورا کرو۔ یہ اللہ رب العالمین کا واضح احکام ہے اس سے منہ موڑنے کی گنجائش نہیں بچتی۔ اس کے برعکس ہم اپنا جائزہ لیں تو لوگ ہم سے دوری اختیار کرتے ہیں ہمارے وعدوں پر اعتماد کرنا دور کی بات ہم سے عہد کرنا پسند نہیں کرتے۔ اور یاد رکھیں میں اور آپ جب تک اس وعدے کو نہیں نبھائیں گے جو ہم نے کلمہ کی صورت میں کیا ہے جب تک دوسرے عہدوں کی پابندی کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ جس رب کی نعمتوں سے ہر گھڑی ہر لمحہ لطف اندوز ہوتے ہیں اور جس نبی کے امتی ہونے پر فخریہ اعلانات کرتے ہیں جب تک ان سے وفا نہیں کریں گے تو ممکن ہی نہیں انسانوں کے ساتھ وفا کریں۔ جو قرآن لے کر ایک وعدہ کیا ہے اس قرآن سے منہ موڑیں گے تو ممکن ہی نہیںکسی اور چیز کو لے کر وفا کریں۔

حیا مومنہ کا زیور

شرم و حیا اس کی فطرت کا حصہ ہوتی ہے یہ وہ صفت ہے جو سراپا خیر ثابت ہوتی ہے ۔جس سماج میں وہ رہتی ہے اس حدیث کے آئینہ کے مطابق خود کے کردار کو رکھتی ہے۔’’ الحیاء خیر کلہ ‘‘ ( مسلم) حیا تو تمام تر خیر ہے۔ وہ صادقہ با حیا ہوتی ہے وہ اپنی ذاتیات میں بھی با حیا ہوتی ہے تو دوسروں کے معاملات میں بھی با حیا ہوتی ہے اس کا قول و عمل اس بات کاعملی ثبوت ہوتا ہے کہ حیا کا درجہ اسے دوسرے انسانوں کو ایذا نہیں دینے دیتا، کسی کی عزت وقار کو نیچے نہیں کرتی وہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں اسلامی شریعت کے خلاف کوئی غلط حرکت نہیں کرتی وہ صرف لوگوں سے ہی نہیں اللہ رب العالمین سے بھی حیا کرتی ہے اور وہ جانتی ہے کہ یہ حیا جو ’’ الحیا شعبۃ من الایمان ‘‘ ( بخاری، مسلم) حیا ایمان کی شاخوں میں سے ایک ہے یہ صرف ایک مومنہ کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ مغرب کی عورت کو یہ مقام کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتا اور نہ ان کو جو اس تہذیب کو کسی صورت بھی اسلامی تہذیب سے بہتر سمجھتی ہیں۔

مومنہ کا منصفانہ رویہ نا پسند لوگوں کے ساتھ

پسندیدہ شخصیات جن سے دل ملتے ہوں ، عقائد ملتے ہوںان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، باتیں کرنا سب کو ہی پسند ہوتا ہے لیکن ایک بلند پایہ اخلاق مومنہ کوزندگی میں ہر طرح کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جو اس کے مزاج کے برعکس دنیا پرست لوگ باطل عقائد کے حامل ہوتے ہیں ۔ اس کا دل ایمان و اسلام کے نور سے منور ہوتا ہے وہ عقائد کی ناپسندیدگی کو شخصیات کی ناپسندیدگی نہیں بناتی وہ ان کی بری صفات سے نفرت کرتی ہے ان کے ساتھ وہ نرمی اخلاق سے پیش آتی ہے ۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت آتی ہے۔ ہم لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں اگر چہ ہمارے قلوب ان پر (ان کے برے مشرکانہ اعمال کی وجہ سے ) لعنت بھیجتے ہیں۔ (بخاری)

اس کے برعکس ہمارا حال ہم ان سے کنارہ کش ہوتے ہیںجو ہمارے اپنے ہوتے ہیں اور جو ہمارے نفس کو ناگوار گزرتے ہیںہم ان سے کلام کرنا بھی پسند نہیں کرتے لوگوں کے ساتھ تعلقات کے اندر خرابی پیدا ہو تو ہم ان کی بے عزتی اور رسوائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

مومنہ نوحہ نہیں کرتی

زندگی ایک عارضی سفر ہے اس حقیقت کووہ خوب خوب یاد رکھتی ہے اور جب اس پر ایسی آزمائش آتی ہے ۔ تو اس کا غم اسے ہوش و حواس سے بیگانہ نہیں کرتا وہ اس کفر کی علامت سے کوسوں دور رہتی ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفریہ علامت کہا ۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’ دو باتیں لوگوں میں ایسی ہیں جو کفر کی علامت ہیں کسی کے نسب پر طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا ہے۔ (مسلم) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا

لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الخُدُودَ، وَشَقَّ الجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الجَاهِلِيَّةِ (بخاري (4/ 184)

وہ ہم میں سے نہیں جس نے نوحہ کیا اور غم میں اپنے رخسار پر مارا یا گریبان چاک کر ڈالا یا جاہلیت کی طرف دعوت دی ۔ وہ غم ملنے کے بعد بھی اپنے غم کو دین کی حدود میں رکھتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بری عادت سے اس قدر کنارہ کش فرماتے کہ ’’بیعت کرتے وقت بھی یہ چیز شامل تھی عورتوں کے لئے کے وہ نوحہ نہیں کریں گی اس کے برعکس ہمارا حال یہ ہے کہ اگر کوئی صبر کی اعلیٰ مثال قائم کر بھی رہا ہو تو ہم اسے اس درجہ اور ثواب پر پہنچنے نہیں دیتے ۔ بے صبری پر اکساتے ہیں ہمارے کیا معیار ہیں ؟اسلام کا کیا معیار ہے؟ جب تک ہم غم کا اظہار بھرپور طریقے سے نہ کریں جب تک ہمیں غم، غم نہیں لگتا

خلاصہ کلام

گزشتہ چند سطور کے اندر صرف ایک طرز کے وہ پہلو سامنے رکھے گئے ہیں جو ایک مسلمان عورت کو سماج کے سامنے اختیار کرنے پڑتے ہیں یہ کردار ایک دریا ہے جس کی ہر موج چاہے وہ اولاد کے ساتھ تعلق میں ہو ، ایک بیوی کی حیثیت سے ہو ، ایک بہن کی حیثیت سے غرض یہ کہ ہر پہلو اور اس کی ذمہ داریاں اور ان کے اوصاف منفرد ہیں۔ یہاں صرف یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ سب پڑھ کر بھی ایسا نہ ہو کہ اس آئینہ میں دوسروں کو پرکھنا شروع کر دیں ہمارا مقصد صرف سب سے پہلے خود کی اصلاح ہے۔ اصلاح ایسی کہ مومنات کا معاشرہ تعمیر ہو جن کی گھٹی ایمان ہو جن کے معاشرتی تعلقات غیر مسلمات کو اسلام سے متاثر کر دیں وہ مومن عورتیں جو ایک ایسا معاشرتی سلوک قائم کریںکہ مغرب کی ہوا خود ان کے خیمے اور بستیاں اجاڑ دے لیکن اسلامی معاشرے پر کوئی آنچ نہ آئے۔ آئیں ایسی ہی اوصاف کی حامل عورتیں بننے کی طرف قدم بڑھائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے