تعلیم ایک ایسا زیور ہے جسے نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی چوری کیا جا سکتا ہے، بلکہ اہل علم اسے جیسے چاہیں ویسے استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ ایک لازوال دولت ہے جو خرچ کرنے سے کبھی نہیں گھٹتی۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی پسماندگی کا شکار ہے۔ ایک مشہور مقولہ کے مطابق ’’علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔ لیکن آج کے دور میں چین جانا تو دور کی بات ، اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی علم حاصل کرنے کا راستہ دشواری سے بھر پور ہے۔ غریب آدمی دو وقت کی روٹی سے بمشکل اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ بھرے یا پھر اپنے بچوں کواپنا پیٹ کاٹ کے تعلیم دلوائے۔ کچھ صاحبِ حیثیت لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ تو کر دیتے ہیں مگر اسکا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نا انصافی ہی انکا مقدر بنتی ہے۔ اس ملک کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے۔ کچھ سرمایہ کار اور جاگیردار ہر طرح سے تعلیم کو اپنی میراث سمجھتے ہیں اور انہی کی وجہ سے حقداروں کا حق مارا جاتا ہے۔ ملک کے اعلیٰ عہدوں پہ یہی جاگیردار اور انکی بگڑی اولادیں نسل در نسل براجمان رہتی ہیں۔ اس سے ملک میں پڑھے لکھے افراد کے لیے روزگار کے مواقع اور کم ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب ایسے حالات میں طلبہ کو علم حاصل کرنے میں نہایت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

طلبہ کی رہنمائی اور مشاورت کے لئے تعلیمی اداروں میں کوئی واضح کار کردگی سامنے نہیں آسکی۔ اب تو صورت حال اس قدر پریشان کن ہوچکی ہے کہ میٹرک پاس طلبہ و طالبات کی کوئی وقعت نہیں۔ میٹرک پاس طلبہ کو ملازمتیں ملنا تو کجا انہیں کوئی اپنے پاس بطور مزدور رکھتے ہوئے بھی سوچ رہا ہوتا ہے کہ تعلیم کم ہے۔ جس کی وجہ سے طلبہ و طالبات گریجویشن کرنے کو خود پر لازمی سمجھنے لگے ہیں تاکہ ملازمت کے حصول میں آسانی ہو۔ تاہم جب وہ معاشرے میں پڑھے لکھے افراد کو بے روزگار اور نوکری کے حصول کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے بلند حوصلے پسپا ہونے لگتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حوصلہ شکنی کا شکار ان طلبہ و طالبات کا اعلیٰ تعلیم میں رجحان کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

بعض طلبہ و طالبات گھر میں عدم توجہ کا شکار رہتے ہیں جسکی وجہ سے انکی ذہنی سطح کا معیار نہایت کم ہو جاتا ہے۔ پھر وہ بات بات پہ چڑ چڑاہٹ ظاہر کرتے ہیں اور بہت جلد احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گھر میں توجہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ باہر کے ماحول میں دل لگی کا سامان تلاش کرتے ہیں جسکی وجہ سے بہت سے نوجوان بچے اور بچیاں غلط صحبت اختیار کر لیتے ہیں اور یہی غلط صحبت ان کے اسکولوں، کالجوں اور کوچنگ سینٹرز سے غیر حاضری کا سبب بنتی ہے۔ طلبہ اپنے والدین کی آنکھوں میں دھول جھونک کے تعلیمی اداروں کا کہہ کر گھر سے نکلتے ہیں لیکن در حقیقت وہ سارا وقت سیر سپاٹوں ، آوارہ گردیوں اور تفریحی مقامات پر گزار کر گھر وں کو لوٹ جاتے ہیں۔ لاپرواہ والدین یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ انکے بچے تعلیم حاصل کر کے آ رہے ہیں۔ اگر غلطی سے کبھی والدین کو اپنے بچے کی کر توتوں کے بارے میں کہیں سے بھنک لگ جائے اور وہ اپنے بچوں کو کچھ روک ٹوک کریں تو بچے اپنے والدین سے باغی ہو جاتے ہیں اور ایک عجیب سی جنونی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ اس حد تک اپنے جنون کے غلام ہو چکے ہوتے ہیں کہ انہیں نہ تو ماں باپ کی تمیز رہتی ہے اور نہ کسی چھوٹے بڑے کی۔ ایسے بچے اکثر منشیات کی بری لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی کڑی بھی انہی سب باتوں سے جڑ ہے۔

اگر طلبہ کو ابتداء سے ہی صحیح تعلیمی معیار اور نمائندگی فراہم کی جائے تو انہیں معاشرے کے سنگین جرائم اور برائیوں سے نہ صرف بچایا جاسکتا ہے، بلکہ معاشرے کو ایسے نوجوان دیے جاسکتے ہیں جن کی اس معاشرے کو ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور گھروں میں والدین کو چاہیے کہ ہر بچے کو برابر اور خصوصی توجہ دیں ۔ یہ توجہ ایسی نہ ہو کہ جس سے ان میں بغاوت پیدا ہو اور ان کے رویوں اور ذہن میںمخالفت جیسے جذبات پیدا ہوں۔ جب کسی بیج کو صحیح طرح بویا جائے اور اسے بروقت پوری توجہ دی جائے تو وہ درخت طاقتور اور ثمردار ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر طلبہ کو ابتداء سے ہی معیاری تعلیم اور توجہ فراہم کی جائے تو ایسے نوجوان معاشرے میں نہ صرف ترقی کرسکتے ہیں بلکہ ملک و قوم کا نام بھی روشن کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے