یہودی دینی مدارس میں کس لئے آئے ؟

بروز جمعہ ۳۱ جنوری ۲۰۱۴ روزنامہ اخبار ’’امت‘‘ کراچی، حیدر آباد میں’’ مسٹر ملا‘‘کے عنوان سے مضمون پڑھا اس میں یہودیوں کی سازش سے پردہ اٹھایا گیا تھا کہ وہ مدارس میں کس طرح انگلش کو داخل کررہے ہیں اس کی خاطر یکم دسمبر سے تیرہ دسمبر ۲۰۱۳ تک پانچ ستاروں والے ہوٹل کراچی میں انگریزوں نے سندھ اور بلوچستان کے مدارس کے اساتذہ و معلمات کو بلایا اور انگلش کی ٹریننگ دی اور ان دین کے مدعیوں کے ذھنوں میں اپنی یہودو نصاری کی محبت کو بٹھایاا ور اپنی ہرطرح کی مدد کی پیش کش اور ان کے ایمان کا سودا کیا، اپنے مدارس میں انگلش زبان سکھانے والے اداروں کو ہر طرح کے تعاون کی پیش کش بھی کی۔ سارے مضمون کو پڑھنا نہایت اہم ہے انٹر نیٹ پر اسکا مطالعہ کیا جا سکتاہے۔

کیونکہ یہود و نصاری کے سامنے مدارس و مساجد ہی وہ اہم ادارے ہیں جن سے وہ ہمیشہ سے خائف ہیں کہ قرآن و حدیث پڑھنے اور پڑھانے والوں کو کسی طرح قرآن و حدیث سے دور کیا جائے۔ تاکہ یہ اپنے اصل مشن سے دور ہو جائیں۔ اوراپنی زندگی کی کامیابی کا راز اور آب حیات انگلش میں حاصل کریں ،کسی طریقے سے علما کرام اور طلبا کے دلوں میں انگلش سے محبت پیدا کی جائے ۔ کہ اس کی بہت اہمیت ہے !اس کے بغیر گزارہ نہیں !سارے لوگ انگلش کی طرف جارہے ہیں مدارس والوں کو بھی اس کی طرف توجہ دینی چاہئے !اگر انگلش نہ سیکھی تو ہم پیچھے رہ جائیں گے !

اور بے روز گاری کا حل بھی انگلش سیکھنے میں نظر آنے لگا!اور کہا جانے لگا کہا کہ اگر اچھی ملازمت حاصل کرنی ہے تو انگلش میں ماہر بنیں !لوگوں کے ہاں قرآن و حدیث سے زیادہ ڈگریوں کی اہمیت ہوگئی !کہ کہیں نہ کہیں ہمیں اچھی ملازمت مل جائے تاکہ زندگی اچھی گزرے !عربی زبان کی اہمیت کس قدر ہے لیکن افسوس کہ پاکستان کے ہزاروں مدارس میں سے صرف ایک مدرسہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی میں عربی بولی جاتی ہے اور نظام تدریس بھی عربی ہے۔ باقی تمام مدارس انگلش کو تقوتیت دے رہے ہیں اور اس کی وجہ سے علما سکولوں اور کالجوں کی طرف جارہے ہیں، اور مدارس ویران ہورہے ہیں۔

ان تمام باتوں کے بعد ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ انگلش زبان سیکھنا کوئی گناہ نہیں ہے ،بعض افراد کو سیکھنی چاہئے تاکہ حسب ضرورت کام آسکے، اور جو انگلش سیکھیں ان کا قرآن وحدیث میں ماہر ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اس زبان میں قرآن وحدیث کی صحیح ترجمانی کرسکے ۔عبرانی زبان کی ضرورت پڑی تو صرف ایک صحابی زید رضی اللہ عنہ کو سکھائی بس۔ یہ نہیں کہا کہ تمام صحابہ کرام وہ زبان سیکھیں۔

اس موقع پر کچھ مفکرین کی آراء کو پیش کرنا چاہتاہوں میری مراد ،شیخ الاسلام محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ،شیخ الحدیث محمد اسحاق حسیونی رحمہ اللہ اور مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ہیں ،اور شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ ہیں

سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ نے قاضی القضاۃ کے عہدے کو قبول نہیں !

محدث دہلوی کے بارے میں امام العصر محمد ابراھیم سیالکوٹی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :حضرت والی بھوپال کی طرف سے قاضی القضاۃ کا (سرکاری)عہدہ پیش کیا گیا لیکن آپ نے روش محدثین کو ملحوظ رکھتے ہوئے بوریہ نشینی درس و تدریس کو کرسی نشینی پر ترجیح دی ۔‘‘(تاریخ اہل حدیث :۴۷۹)سبحان اللہ ۔یہ تھے میرے اکابر ،جو شیخ الکل فی الکل کے نام سے جانے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالی نے محدثین کی جماعتیں پیدا فرمائیں ،اگر وہ چند سرکاری ٹکوں کے پیچھے بھاگتے اور قرآن و حدیث کو چھوڑ دیتے تو تاریخ ان کا کبھی ذکر کرنا پسند نہ کرتی ۔جو شخص اللہ تعالی کے پیغام وحی پر محنت کرے گا اللہ تعالی اس کی بلند مقام عطافرماتے ہیں ۔اور اس پر ہمارا ایمان ہے۔

مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ضایع ہونے سے کیسے بچے؟

مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں: راقم اپنے اسی خیال کے مطابق فراغت کے بعد کراچی ہی جا کر اپنے مستقبل کا مستقل سلسلہ بنانا چاہتا تھا ،لیکن میں جب بھی حضرت مولانا (عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ )سے اس کا تذکرہ کرتا تو وہ کاروباری لائن اختیار کرنے سے روکتے اور لاہور ہی میں رہ کر علمی کام کرنے کی تلقین فرماتے کچھ کچھ وقفوں سے دو تین مرتبہ راقم نے کراچی منتقل ہونے کا پروگرام بنایالیکن حضرت مولانا رحمہ اللہ کے وعظ و نصیحت اور تلقین و ترغیب نے ایسا کرنے سے روک دیا بالآخر یکسوئی کے ساتھ یہ فیصلہ کرلیا کہ کارو بار کی بجائے علم و دین ہی خدمت کرنی ہے ،یہ اگر چہ ایثار و قربانی کا راستہ تھا آسائشوں کی بجائے تلخ کامیوں کا راستہ تھا ،پھولوں کی بجائے کانٹوں سے اٹا ہوا راستہ تھا ۔

اور فی الواقع ابتداء نہایت حوصلہ شکن حالات سے نبرد آزما بھی ہونا پڑا ،نہایت قلیل تنخواہ ،آسائشوں سے محروم انفرادی زندگی ،خویش اقارب سے اور ناقدری عالم سی کیفیت ،ان سب پر مستزاد ۔

تاہم چونکہ زندگی کا ایک ہدف متعین اور نصب العین مقرر کرلیا تھااس لئے راہ کی یہ کٹھنائیاں آسان ہو گئیں ۔اور ایک بلند تر مقصد کے لئے ان تمام چیزوں کو برداشت کرنے کا عزم و حوصلہ اللہ تعالی نے پیدا فرمادیا اور راقم اس جادہ مستقیم پر قائم اور گامزن رہا جو ہمارے اکابر اسلاف کا شیوہ رہا ،ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء ۔

مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ سرکاری امتحان سے کیسے بچے؟

اس دوران بہت سے احباب اور ناصحین مشفقین نے مخلصانہ مشورے دئے کہ سرکاری امتحانات دے کر لیکچرر شپ وغیرہ اختیار کر لی جائے جس میں دنیوی ترقی کے مواقع ہیں ،ایک ذہین آدمی کو محض ملائے کتب بن کر نہیں رہ جانا چاہئے بلکہ اسے بہتر سے بہتر مواقع کے حصول کے لئے جہدو کاوش کرنی چاہئے لیکن راقم جو راستہ متعین کرچکا تھا اور جس نصب العین کو اپنا چکا تھا اس نے دوستوں کے ان مخلصانہ مشوروں کو تمام تر اخلاص و محبت کے با وصف درخور اعتناء نہ سمجھنے دیا اور راقم کسی بھی سرکاری امتحان کے چکر میں پڑنے سے گریز ہی کرتا رہا ۔

طالب علمی کے زمانے میں بھی، جہاں منتہی طلباعام طور پرمولوی فاضل کا سرکاری امتحان دے کر سرکاری ملازمت کی پناہ گاہ حاصل کرلیتے ہیں، راقم نے مولوی فاضل کا امتحان بھی بالقصد نہیں دیا اور محض لوجہ اللہ خدمت دین کے جذبے کو بطور مقصد زندگی اپنائے رکھا اس ذہن و مزاج سازی کے نامساعد حالات ،مشکلات اور ارباب مساجد و مدارس کے حوصلہ شکن رویوں کے باوجود علم ودین کی خدمت سے انحراف نہیں بلکہ ان تمام چیزوں کو پیغمبرانہ مشن اور وراثت انبیاء سمجھ کر برداشت کیا۔ اللہ تعالی کی خصوصی توفیق کے ساتھ حضرت مولانا رحمہ اللہ کی تربیت کا بھی دخل تھا ۔

مخدومی المحترم رحمہ اللہ مدارس دینیہ میں مولوی فاضل اور دیگر سرکاری امتحانات کی وباء کو مدارس کے بنیادی مقاصد کے خلاف سمجھتے تھے اور اس بنا پر ان کے سخت خلاف تھے اور جہاں بھی ان کا بس چلتا تھا وہ اس رجحانات کی حوصلہ شکنی کرتے تھے اپنے طور پر جن طلبا سے ان کا رابطہ وتعلق ہوتا ان کو سمجھاتے اور انھیں مساجد و مدارس سے وابستہ رہ کر دین کی خدمت کرنے کی تلقین فرماتے ۔

مولانا رحمہ اللہ کا یہ نظریہ ہمارے مدارس دینیہ سے فراغت حاصل کرنے والے طلباکے لئے اگرچہ بالعموم ناقابل عمل ہے وہ اسے اپنی معاشی اور دنیوی ترقی کے خلاف سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ منہج نبویﷺ کے مطابق ہمارے اکابر کے کردار کا عکاس اور مدارس دینیہ کی اساس اور مقصدکا مظہر ہے ،سرکاری ملازمین پیدا کرنے کے لئے لاکھوں اسکول ہزاروں کالج اور سینکڑوں یونیورسٹیاں ہیں جن پر کروڑوں بلکہ عربوں روپے خرچ ہورہا ہے ،قوم کا ہر فرد اس دنیوی تعلیم پر اپنی آمدنی کا ایک معتدّ بہ حصہ خرچ کرتا ہے اور حکومت بھی خوب دل کھول کر اس پر قومی خزانہ صرف کرتی ہے اس کے برعکس دینی مدارس حکومت کی امداد سے بالکل محروم ہیں۔

دینی مدارس کیسے افراد تیار کریں ؟

ان مدارس کا دینی مقصد یہ قطعا نہیں ہے کہ یہاں لیکچرار، پروفیسر پیدا ہوں۔ ڈاکٹر و انجینئر تیار ہوں یا سرکاری مناصب کے اہل افراد یہاں سے فارغ ہوں بلکہ ان مدارس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ یہاں سے قرآن و حدیث کے ماہر پیدا ہوں۔ قابل مدرس، عمدہ خطیب و داعی پیدا ہوں، مفسر و فقیہ اور مفتی و محدث تیار ہوں تاکہ اہل دین کی دینی ضروریات پوری ہوں اور دین کے تقاضوں سے عہدہ برآہوا جا سکے اب اگر ان مدارس سے فارغ ہونے والے حضرات بھی لیکچرار و پروفیسر بن جائیں۔ ٹیچر اور کلرک بن جائیں یا کوئی اور سرکاری ملازمتوں میں کھپ جائیں تو ظاہر بات ہے کہ اس طرح ان مدارس کا بنیادی مقصد ہی ختم ہو جاتاہے ۔

بنا بریں مولانا رحمہ اللہ مولوی فاضل اور ایف اے، بی اے وغیرہ ڈگریوں کو مدارس دینیہ سے فراغت حاصل کرنے والوں کے لئے زہر قاتل سمجھتے تھے۔ مولانا مرحوم کی اس رائے کی اصابت و افادیت اب اور نمایاں ہو کر سامنے آگئی ہے۔ جبکہ نوجوان علما کے لئے اسکولوں کے دروازے چوپٹ کھل گئے ہیں اور مدارس سے فارغ ہونی والی نئی پود زہر کا پیالہ آب حیات سمجھ کر نوش جاں کئے جا رہی ہے۔ اور وہ اب سکول وکالج کی نوکری کو ہی معراج کمال اور مقصد زندگی سمجھ بیٹھی ہے رہی سہی کسر سعودی جامعات نے داخلے کی بے پناہ خواہش اور وہاں سے فراغت کے بعد مبعوث بننے کے جذبہ بے پایاں نے پوری کر دی ہے ۔اس تمام صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ دینی وعلمی خدمات کے تمام شعبے رجال کار کی کمیابی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی شدیدمتاثر ہوئی ہے۔ دراں حالیکہ ضرورت کارکردگی میں اضافے کی ہے نہ کہ کمی کی۔

فتنوں کا جواب دینے والے کہاں ہیں ؟

فتنے بڑھ رہے ہیں۔ دین کے خلاف، شکوک و شبھات میں اضافہ ہو رہاہے۔ الحادی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں، لادینیت کا سیلاب اسلامی ملکوں میں امڈا چلا آرہاہے۔ مغربیت کا طوفان انتہائی خوفناک صورت اختیار کرتا چلاجا رہاہے۔ اور اسلام دشمن استعماری طاقتوں کی دسیسہ کاریوں اور ریشہ دوانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ لیکن ان تمام محاذوں پر کام کرنے کے لئے جتنے اور جس طرح کے افراد کی ضرورت ہے۔ مذکورہ رجحانات کی وجہ سے ایسے افراد کی تیاری کا سلسلہ ہی قریب قریب بند ہو گیا ہے۔ نتیجتاً ارتداد کا فتنہ موجود ہے لیکن کوئی ابوبکر رضی اللہ عنہ پیدا نہیں ہورہا۔ کفر دندنا رہاہے لیکن درّہ فاروقی کو حرکت میں لانے والاکوئی نہیں، تاریکی اور اندھیرے بڑھ رہے ہیں لیکن ایمان و ہدایت کی مشعلیں فروزاں کرنے والے نظر نہیں آرہے ہیں۔ بلکہ نوبت بہ ایں جا رسید کہ مسند اجڑ رہی ہیں، مسجدیں ویران ہورہی ہیں، علمی ودینی ادارے زبوں حالی کا شکارہیں۔ اور تحقیق و افتا کے میدان خالی ہورہے ہیں۔

کیا ہمارے نوجوان علما میں ان ضرورتوں کا اداراک نہیں؟ کیا انھیں اپنی ذمہ داریوں کا کوئی احساس نہیں؟ کیا مدارس کے چارہ گروں کو بھی اس کا حل اور اس کا علاج سوچنے کی ضرورت نہیں؟

                                                الیس منکم رجل رشید ؟

افسوس! علما بھی ایثار و قربانی کا راستہ چھوڑ کر مادی منفعتوں اور لذتوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کی پر خار وادیوں کے مقابلے میں دنیوی مناصب اور بھاری بھر کم تنخواہوں کی طرف دوڑ رہے ہیں اورسادگی اور زہد کی بجائے دنیا کی آسائشوں اور راحتوں کے طالب بن گئے ہیں، جس کی وجہ سے غزالی ورازی، ابن تیمیہ وابن قیم وغیرہ تو کجا کوئی داود غزنوی و اسماعیل سلفی کا جانشین بھی پیدا نہیں ہو رہا۔ ابراہیم میر سیالکوٹی اور ثناء اللہ امرتسری رحمہم اللہ تک کی جگہ لینے والا تیار نہیں ہو رہا۔ اور حنیف ندوی و محمد عطاء اللہ حنیف جیسی یگانہ روز گار شخصتیں بھی خواب و خیال معلوم ہونے لگی ہیں۔

دینی مدارس کی زبوں حالی کے اسباب

۱:نوجوان علماء کو ارباب مدارس اور منتظمین مساجد سے یہ شکوہ ہوتا ہے کہ وہ ان کی کما حقہ قدر نہیں کرتے۔ ان کے ساتھ خاطر خواہ عزت و احترام کا سلوک اور ان سے ان کے منصب ووقار کے مطابق معاملہ نہیں کیا جاتا۔ نتیجتاً وہ بد دل یا بے توقیری کا شکار ہو کر دوسری راہ اپنا لیتے ہیں، یہ نکتہ نظر اگرچہ بے بنیاد نہیں ہے۔ اوراس لحاظ سے اہل مدارس و مساجد کا رویہ یقینا نظر ثانی و اصلاح کا محتاج ہے۔ لیکن مولانا رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ عزت و ذلت، انسانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، اس لئے علما و اہل دنیا کا رویہ دیکھ کر بد ظن نہیں ہونا چاہئے بلکہ پورے اخلاص اور بے لوثی سے دین کی خدمت کرتے رہنا چاہئے، اس کی بدولت وہ بار گاہ الٰہی میں عزت وتوقیر کے مستحق قرار پاجائیں گے اور عزت و توقیر وہی ہے جو عنداللہ ہو، عندالناس عزت و توقیر کی کیا اہمیت ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اس لئے علما کو دنیوی جاہ و منصب اور عزت و توقیر کی بجائے اخروی عزت و سرفرازی ہی کو سامنے رکھنا چاہئے۔ دنیا انھیں جو چاہے کہتی اور سمجھتی رہے لیکن وہ دین کے سچے خادم بن کر اگر اللہ کو راضی کرلیں گے تو یقینا وہ فائز المرام ہیں۔

من زحزح عن النار و ادخل الجنۃ فقدفاز وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور۔

۲:دوسرا سبب بڑھتا ہوا پرتکلف معیار زندگی ہے۔ جو مساجد و مدارس سے ملنے والی تنخواہوں میں قائم کرنا اور رکھنا نہایت مشکل ہوتا ہے اس لئے دنیا کے معیار زندگی کو ہی سب کچھ سمجھنے والے نوجوان علمابقول غالب

جس کو ہو جان و دل عزیز

اس کی گلی میں جائے کیوں ؟

وہ کوچے سے ہی دور رہتے ہیں اور اس میں داخل ہونے سے گریز کرتے ہیں، اس بیماری کا علاج مولانا رحمہ اللہ یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ علماء کو پر تکلف اور پر آسائش زندگی کے مقابلے میں سادہ طرز زندگی اختیار کرنا چاہئے تاکہ کم سے کم آمدنی میں وہ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی کفالت کر سکیں۔ نیز فرمایا کرتے تھے کہ آج کل لوگوں نے آسائشوں اور تکلفات کو ’’ضروریات زندگی‘‘میں شمار کرلیا ہے دراں حالیکہ ضروریات زندگی تو مختصر ہیں اور انھیں مہیا کرنا آسان ہے البتہ آسائشوں اورسہولتوں کا حصول ہر شخص کے لئے آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور علما دنیوی آسائشوں کے حصول کے لئے جب ’’پاپڑ بیلنے ‘‘کے چکر میں پڑ جاتے ہیں تو وہ اپنے منصب سے بھی بے وفائی کرتے ہیں اور اپنے وقار کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

اسی دنیوی تمتعات اور مادی منفعت کے زیادہ سے زیادہ حصول کی خواہش نے بہت سے مدارس دینیہ کو اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ درس نظامی کی مروجہ تعلیم کے مخمل میں انگریزی اور کالجی طریقہ تعلیم کے ٹاٹ کا پیوند لگائیں تاکہ اس میں کچھ جاذبیت پیدا کی جا سکے۔

بدقسمتی سے یہ رَو بھی ،مدارس دینیہ میں، دیکھا دیکھی بڑی پھیلتی جارہی ہے۔ (خاص نمبر ہفت روزہ الاعتصام لاہور بیاد مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ ص:۴۱۹تا۴۲۳)

محدث دہلوی کے بارے میں امام العصر محمد ابراہیم سیالکوٹی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حضرت والی بھوپال کی طرف سے قاضی القضاۃ کا (سرکاری)عہدہ پیش کیا گیا لیکن آپ نے روش محدثین کو ملحوظ رکھتے ہوئے بوریہ نشینی درس و تدریس کو کرسی نشینی پر ترجیح دی۔‘‘ (تاریخ اہل حدیث :۴۷۹) سبحان اللہ۔ یہ تھے میرے اکابر، جو شیخ الکل فی الکل کے نام سے جانے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالی نے محدثین کی جماعتیں پیدا فرمائیں، اگر وہ چند سرکاری ٹکوں کے پیچھے بھاگتے اور قرآن و حدیث کو چھوڑ دیتے تو تاریخ ان کا کبھی ذکر کرنا پسند نہ کرتی۔ جو شخص اللہ تعالی کے پیغام وحی پر محنت کرے گا اللہ تعالی اس کی بلند مقام عطافرماتے ہیں اور اس پر ہمارا ایمان ہے۔

کالجوں اسکولوں نے کتنے علماء پیدا کئے؟

جی پیدا تو کئے ہیں لیکن ان کا تعلق کتنا دین سے ہے؟

ان سے فیض حاصل کرنے والوں نے اسلام کی کتنی خدمت کی؟

اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کے مقدس دین کی آبیاری کے لئے کتنی جدو جہد کی؟

کتنے افراد کو نمازی بنایا؟

کتنے افراد کا عقیدہ درست کیا؟

انھوں نے کتنا اسلامی لٹریچر عام کیا؟

منبرو محراب کے مالک کتنے پیدا کئے؟

ہاں ایک کام کیا اور وہ مادیت کی طرف دعوت اور کچھ نہیں

جب اچھے اچھے افراد نے مدارس کو چھوڑ کر سکولوں اور کالجز سے لو لگائی تو مدارس کار زلٹ خسارے میں ہوا۔ اچھے ذہن والے مدرسین بھی نہ رہے جو طلبا کو اچھا ذہن دے سکیںا س سے مدارس کی بقا خطرے میں نظر آنے لگی دس دس سال قرآن و حدیث پڑھانے والوں کو جونہی موقع ملا مادیت کی نوکری کی طرف اسی وقت قرآن و حدیث کو چھوڑ دیا اور کالجز و یونیورسٹیوں کا رخ کیا؟

کل قیامت کو وہ کیا جواب دیں گے جب رسول اللہﷺ روز قیامت شکوہ کریں گے کہ یارب ان قومی اتخذوا ھذاالقرآن مھجورا‘‘۔

جو اہل علم اپنی پوری زندگی دین کے لئے وقف کرکے گئے اور اس مشن کو جاری رکھنے کی تلقین کی صرف ایک صدی کے اندر سارا رخ ہی بدل گیا نہ وہ پڑھائی، نہ وہ نصاب، نہ وہ فکر اور نہ وہ طریقہ کار۔ ہم ان اسلاف کی جانشین ہیں جن میں سے اکثر ایک ایک فرد نے دنیا کی کایا پلٹ دی اور اپنے پیچھے ہزاروںا فراداور علمی وتحقیقی اپنی تالیفات چھوڑیں، اور ان کے الفاظ پکار پکار کہہ رہی ہیں کہ اسی مشن کو لازم پکڑنے میں کامیابی ہے اسی کی طرف آجاؤ، دیگر چکروں میں نہ پڑیں ۔ اب ہم کیا چھوڑ کر جارہے ہیں؟

مولانا محمد یوسف راجووالوی رحمہ اللہ کا اپنے ہونہار بیٹے عبداللہ سلیم رحمہ اللہ کے بارے میں ارادہ تھا کہ وہ دینی تعلیم کے حصول کے بعد باپ کی مسند کو رونق بخشیں اور جامعہ کمالیہ کے انتظام و انصرام کی ذمہ داریاں پوری کریں۔ لیکن مولانا عبداللہ سلیم کی طبع کے لئے دینی مدارس کے حصول تعاون کا طریقہ کار گراں محسوس ہوتا تھا اس لئے انھوں نے ابتداء ہی اپنا روز گار ہی اوٹی مدرس گزارنے کا انتخاب کرلیا تھا جبکہ مولانا محمد یوسف اوٹی کے حق میں نہ تھے۔(مرحوم دوست عبداللہ سلیم کی یاد میں ص:۱۱)

ذرہ تقابل کر لیں کہ کون پرسکون زندگی گزار رہاہے ؟

دینی علماء یا کوئی اور ؟

انبیاء کے وارث کون ؟

دینی علمایا کوئی اور؟

روحانیت کی تربیت کون کرتے ہیں ؟

دینی علماء یا کوئی اور؟

انسان میں انسانیت کون پیدا کرتے ہیں ؟

دینی علماء یا کوئی اور؟

تاریخ کس کی زندہ ہے ،نام کس کا زندہ ہے ؟کام کس کا زندہ ہے ؟

دینی علما یا کوئی اور ؟

لوگ مادہ پرستوں کو یاد کرتے ہیں یا دینی علما کو ؟

جنازے ہی دیکھ لو

مادیت پرست کی نظر میں اول آخر پیسہ اور مغربی تہذیب ہے وہ تہذیب جس میں ماں بہن اور بیٹی کی تمیز ہی نہیں ہوتی۔

حیاداری اور روحانیت کی تعلیم کہاں دی جاتی ہے اور کون دیتے ہیں؟

دینی علمایا کوئی اور؟

سکولوں، کالجز کا نصاب ہر سال بدلتے رہتے ہیں اور خواہش پرست حکمران مغربی تہذیب کی عکاسی کرتے ہوئے مسلمان نسل کو بھی حیا باختہ نصاب پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے ،ایسا نصاب جو عقل مند اپنی بیٹی اور بیٹے کے لئے پسند نہیں کرتا۔ مسلمان کا نصاب قرآن و حدیث تھا جس کو مسلمان نے چھوڑ دیا۔ جس میں حیا کی تعلیم غیرت کی تعلیم اور انسان میں انسانیت پیدا کرنے اہم اصول موجود تھے اس سے دور کردیاگیا؟ آخر اس کا کون ذمہ دارہے؟

محمد اسحاق حسینوی رحمہ اللہ شیخ الحدیث کی مسند تک کیسے پہنچے ؟

شیخ الحدیث محمد اسحاق حسینوی لاہوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: آپ مجھے پڑھانے کے لئے بھیج رہے ہیں میں نے اپنے لئے دو منصوبے سوچ لئے ہیں اور ان کے لئے کام بھی شروع کر دیا ہے پہلا منصوبہ تو یہ ہے کہ میں نے مولوی فاضل کرنا ہے اب بی اے تک انگریزی میں امتحان دے کر بی اے کرلوںگا پھر کسی کالج میں لیکچرار کی ملازمت مل سکتی ہے میں نے اس کی تیاری کے لئے میٹرک کی ایک کتاب بھی خرید لی ہے اور تیاری شروع کر دی ہے۔ دوسرا منصوبہ یہ کہ طب یونانی کا کوئی امتحان دے کر گاؤں یا شہر میں بیٹھ کر طبابت کرلوں اللہ تعالی مسبب الاسباب ہے کوئی معاش کا بہانہ بنا دے گا؟ مجھے تو آپ معذور ہی سمجھئے کسی اور آدمی کا انتظام کیجئے مولانا (عطاء اللہ حنیف )میری یہ گزارش سن کر ناراض ہو گئے اور کہنے لگے تمہیں اس لئے دین پڑھایا ہے اور تم پر محنت کی ہے کہ انگریزی کی خدمت کرو گے یا طب پڑھ کر طبابت کرو گے یہ کام سب دنیا کرتی ہے علم دین کی خدمت کرنے والے لوگ نہیں ملتے بس اب ایک ہی بات ہے اب اپنے یہ منصوبے چھوڑو اور اوڈاں والا جانے کے لئے تیار ہوجائے، میں نے کہا: میں ایک لڑکی کو پڑھاتا ہوں اس کا امتحان ہونے ہی والا ہے فرمانے لگے اس کو چھوڑو وہ بھی دنیا کے لئے مولوی فاضل کررہی ہے، اس کا بھی خدا حافظ ہے، بس زیادہ باتیں نہ بناؤ میں زیادہ باتیں سننے کے لئے تیار نہیں ہوں، چونکہ میں نے تجربہ کیا ہوا تھا کہ مولانا کے مشورے پر عمل کرنا میرے لئے بہت مفید رہتا تھا اس لئے میں نے ان کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور کہہ دیا کہ جس طرح آپ کہتے ہیں میں تیار ہوں مولانا خوش ہو کر بولے بس اوڈاں والا جانا ہے اور محنت اور دیانت داری کے ساتھ کام کرو اللہ تعالی برکت عطافرمائے گا۔ (خاص نمبر ہفت روزہ الاعتصام لاہور بیاد مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ ص:۳۴۹،۳۵۰)

میں اللہ تعالی کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ جن تین عظیم شخصیتوں کے راقم نے واقعات لکھے ہیں اگر وہ تینوں دین چھوڑ کر سکولوں یا کاروباروں کی طرف چلے جاتے تو آج ان کا نام بھی زندہ نہ ہوتا اور نہ وہ تاریخ کا حصہ ہوتے نہ ہی ان کے کوئی قابل فخر شاگرد ہوتے۔

یہی تین شخصیتیں اپنے دور کے عظیم شہسوار بنے ان میں سے دو اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی خدمات اظہر من الشمس ہیں ان کی تالیفات، تحقیقات، تراجم اور شاگردوں کا جم غفیر پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔

اورتیسرے ہمارے درمیان موجود ہیں میری مراد ہمارے ممدوح شیخ التفسیر علامہ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ حیات ہیں اور دن رات دین کی سر بلندی کے لئے کوشاں ہیں، انٹرنیشنل ادارے دارالسلام کی برانچ لاہور کے مدیر ہیں اور بے شمار قیمتی کتب کے مولف ہیں ان کی صرف ایک کتاب تفسیر احسن البیان کو اتنا شرف ملا کہ جو پوری دنیا میں پہنچ چکی ہے اور عر ب حکومت اس کو اپنے خرچے پر شائع کرکے کروڑوں کی تعداد میںتقسیم کر چکی ہے اور مسلسل کررہی ہے۔

پوری دنیا میںان معزز تین شخصیتوں کا نام اور کام قیامت تک زندہ رہے گااور یقین ہے کہ روز قیامت خدام دین میں شمار ہوں گے اور دنیا و آخرت میں عزت کے مستحق ٹھہریں گے ان شا ء اللہ۔ لیکن افسوس ان لوگوں پر جو اس فکر کو چھوڑ رہے ہیں اور اپنی قیمتی ترین زندگی کو چند ٹکوں کی خاطر داؤ پر لگا دیتے ہیں، جی آپ اپنی مرضی کریں تاریخ اس مرضی کا رزلٹ دکھا دے گی اور کون کیا ہے سب معلوم ہو جائے گا۔

مورخ اہل حدیث محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :’’یہ گریڈوں اور سکیلوں کا دور ہے۔ علمائے کرام بھی اسی دور سے متاثر ہیں۔‘‘

(برصغیر میں اہل حدیث کی سرگزشت ص:۱۳۵)

دل کی آواز،شایدکہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات:

اپنے دل کی آواز کو بیان کرنے کا شاید سلیقہ نہیں ہے میں پھر بھی کہہ دیتا ہوں کہ شاید کوئی اس میںمیری اصلاح ہی کردے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمدناصرا لدین الالبانی رحمہ اللہ اور امام العصر، مجددملت محمد ناصرالدین الالبانی رحمہ اللہ ان میں کیا پسند کریں گے؟چانسلر محمد گوندلوی رحمہ اللہ اور محدث العصر حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ میں سے کون سا معیار اور نام محبوب ہے۔

صدر پاکستان عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ

شیخ الاسلام عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ

کیا تقابل صدر اور شیخ الاسلام کا !

عظیم صحافی ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ

عظیم محقق، محدث العصر ارشادالحق اثری حفظہ اللہ۔

کس کو کس سے پیار ہے وہ وہی راستہ اختیار کرے گا ۔

اور مرنے کے بعد گزری ہوئی زندگی میں کس منصب سے پیار تھا اسی سے یاد کیا جائے گا۔

اے دنیا والو!اے عقل مند حضرات کیا کوئی ہے نسبت!

جنرل ضیاء الحق کو محدث اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ سے اور صدر پرویز مشرف کو شیخ الاسلام حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ تعالیٰ سے !

آئیں مدارس کو عروج و ترقی دیں، جدید سے جدید انداز میں مدارس قائم کریں۔ ذہین سے ذہین افراد کو مدارس کی طرف لائیں۔ تاکہ دینی قلعوں کی بقاء رہے، اور کفر ان سے خائف رہے۔

یہ جملہ معترضہ تھا کسی کی دل آزاری نہیں تھی، ایک پروفیسر دوست کے گھر گیا ان سے بات ہوئی اور راقم نے کہا کہ محترم نو سالوں میں کیا انقلاب لائے کالج میں؟ تو وہ رونے لگے اور کہنے لگے کہ بھائی ابراہیم سچ کہوں تو نو سال ضائع کر دئیے بس حوادثات زمانہ نے ادھر دھکیل دیا، کچھ نہیں کیا، ایک طالب علم کو نمازی نہیں بنا سکا، پورے نوسالوں میں۔ اور کہنے لگے کہ بھائی! یقین جانئے جب بھی کوئی عالم دین کالج یا سکول کی طرف آتا ہے تو اس کا جذبہ دین کا ہوتا ہے لیکن جب اس ماحول میں داخل ہو جاتا پھر دوسرے کو دیکھ دیکھ کر بد ترین دنیا دار بن جاتا ہے دین کی غیرت ختم ہوجاتی ہے۔ اور اس پروفیسر دوست نے مجھ سے وعدہ کیا کہ آپ اللہ تعالی سے دعا کریں میں ضرور دینی علوم کی تدریس کی طرف آؤں گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے