اَنجان کو سلام نہ کرناقیامت کی علامت ہے

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُسَلِّمَ الرَّجُلُ عَلَى الرَّجُلِ لَا يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِلَّا لِلْمَعْرِفَةِ (مسند الإمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ: مُسْنَدُ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی اللہ عنہ} (3846)

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: یہ بات قیامت کی علامات میں سے ہے کہ انسان صرف اپنی جان پہچان والےکو سلام کرے۔

خواتین کوسلام کرنا

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ کَانَتْ فِينَا امْرَأَةٌ تَجْعَلُ عَلَی أَرْبِعَائَ فِي مَزْرَعَةٍ لَهَا سِلْقًا فَکَانَتْ إِذَا کَانَ يَوْمُ جُمُعَةٍ تَنْزِعُ أُصُولَ السِّلْقِ فَتَجْعَلُهُ فِي قِدْرٍ ثُمَّ تَجْعَلُ عَلَيْهِ قَبْضَةً مِنْ شَعِيرٍ تَطْحَنُهَا فَتَکُونُ أُصُولُ السِّلْقِ عَرْقَهُ وَکُنَّا نَنْصَرِفُ مِنْ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ فَنُسَلِّمُ عَلَيْهَا فَتُقَرِّبُ ذَلِکَ الطَّعَامَ إِلَيْنَا فَنَلْعَقُهُ وَکُنَّا نَتَمَنَّی يَوْمَ الْجُمُعَةِ لِطَعَامِهَا ذَلِکَ (صحیح بخاری: كِتَابُ الجُمُعَةِ ، بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى:{فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاَةُ فَانْتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ} [الجمعة: 10] ،(938))

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم میں ایک عورت تھی جو اپنے کھیت میں نہر کے کنارے چقندر بویا کرتی تھی، جب جمعہ کا دن آتا تو چقندر کی جڑوں کو اکھاڑتی اور اسے ہانڈی میں پکاتی، پھر جو کاآٹا پیس کر اس ہانڈی میں ڈالتی، تو چقندر کی جڑیں گویا اس کی بوٹیاں ہو جاتیں، اور ہم جمعہ کی نماز سے فارغ ہوتے تو اس کے پاس جا کر اسے سلام کرتے، وہ کھانا ہمارے پاس لا کر رکھ دیتی اور ہم اسے چاٹتے تھے، اور ہم لوگوں کو اس کے اس کھانے کے سبب سے جمعہ کے دن کی تمنا ہوتی تھی۔

بچوں سے سلام میں پہل کرنا

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ مَرَّ عَلَی صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ وَقَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ (صحیح بخاری: كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ ، بَابُ التَّسْلِيمِ عَلَى الصِّبْيَانِ ،(6247)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ وہ بچوں کے پاس سے گزرتے تو انھیں سلام کرتے اور کہتے کہ نبی کریم ایسا ہی کرتے تھے۔

بول وبراز کےوقت سلام کا جواب نہ دیں

عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا مَرَّ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبُولُ فَسَلَّمَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ (صحیح مسلم: كِتَابُ الْحَيْضِ ، باب ترك ردّ السّلام أثناء البول ِ،(369،370)

سیدنا ابن عمر w سے روایت ہے کہ ایک آدمی گزرا اور نبی کریم پیشاب کر رہے تھے اس نے سلام کیا آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔

اپنے گھر والوں کوسلام کرنا

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ لِيۡ رَسُوۡلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بُنَيَّ إِذَا دَخَلْتَ عَلَی أَهْلِکَ فَسَلِّمْ يَکُنْ بَرَکَةً عَلَيْکَ وَعَلَی أَهْلِ بَيْتِکَ قَالَ أَبُو عِيسَی هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ (جامع ترمذی: أَبْوَابُ الِاسْتِئْذَانِ وَالْآدَابِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ ،(2698))

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اکرم نے مجھے فرمایا: اے بیٹے جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو سلام کیا کرو۔ اس سے تم پر بھی برکت ہوگی اور گھر والوں پر بھی۔ اِمام ابوعیسیٰ (امام ترمذی رحمہ اللہ) فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

ناراضگی میں بھی اہلیہ کو سلام کرنا

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: انہوں نے ان لوگوں کا واقعہ بیان کیا جنہوں نےان پرتہمت لگائی تھی اور اللہ نے ان کی پاکیزگی کا اعلان کیا، زہری نے کہا کہ ان میں سے ہر ایک نے اس حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا ان میں سے بعض ایک دوسرے سے زیادہ یاد رکھنے والے اور بیان کرنے میں معتبر تھے اور ان میں سے ہر ایک کی حدیث کو جو انہوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سےنقل کی ہے میں نے یاد رکھا اور ان میں ایک روایت دوسرے کی تصدیق کرتی ہے ان لوگوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول نقل کیا کہ رسول اکرم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ان میں سے جس کا نام نکل آتا اس کو ساتھ لے جاتے ایک جنگ میں (غزوہ بنی مصطلق) جانے کے لیے قرعہ اندازی کی، تو میرا نام نکل آیا میں آپ کے ساتھ روانہ ہو گئی یہ واقعہ پردہ کی آیت اترنے کے بعد کا ہے میں ہودج میں سوار رہتی اور ہودج سمیت اتاری جاتی ہم لوگ اسی طرح چلتے رہے یہاں تک کہ جب رسول اکرم اپنے اس غزوہ سے فارغ ہوئے اور لوٹے (واپسی میں) ہم لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو رات کے وقت آپ نے روانگی کا اعلان کردیا جب آپ نے روانگی کا اعلان کیا تو میں اٹھی اور چلی یہاں تک کہ لشکر سے آگے بڑھ گئی جب میں اپنی حاجت سے فارغ ہوئی اور اپنے ہودج کے پاس آئی میں نے اپنے سینہ پر ہاتھ پھیرا تو معلوم ہوا کہ میرا جزع اظفار کا ہار ٹوٹ کر گر گیا میں واپس ہوئی اور اپنا ہار ڈھونڈنے لگی اس کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی جو لوگ میرا ہودج اٹھاتے تھے آئے اور اس ہود کو اٹھا کر اس اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی وہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ میں اس ہودج میں ہوں اس زمانہ میں عورتیں عموما ہلکی پھلکی ہوتی تھیں بھاری نہ ہوتی تھیں ان کی خوراک قلیل تھی اس لیے جب ان لوگوں نے ہودج کو اٹھایا تو اس کا وزن انہیں خلاف معمول معلوم نہ ہوا اور اٹھا لیا مزید برآں میں ایک کم سن لڑکی تھی، چنانچہ یہ لوگ اونٹ کو ہانک کر روانہ ہوگئے لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار مل گیا میں ان لوگوں کے ٹھکانے پر آئی تو وہاں کوئی نہ تھا میں نے اس مقام کا قصد کیا جہاں میں تھی اور یہ خیال کیا کہ وہ مجھے نہ پائیں گے تو تلاش کرتے ہوئے میرے پاس پہنچ جائیں گے میں اسی انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی کہ نیند آنے لگی اور میں سوگئی صفوان بن معطل جو پہلے سلمی تھے پھر ذکوانی ہو گئے لشکر کے پیچھے تھے صبح کو میری جگہ پر آئے اور دور سے انہوں نے ایک سویا ہوا آدمی دیکھا تو میرے پاس آئے اور (مجھ کو پہچان لیا) اس لیے کہ پردہ کی آیت اترنے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھ رکھاتھا، صفوان کے ( انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھنے سے میں جاگ گئی وہ میرا اونٹ پکڑ کر پیدل چلنے لگے یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچ گئے جب کہ لوگ ٹھیک دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لیے اتر چکے تھے، پس ہلاک ہوگیا وہ جسے ہلاک ہونا تھا اور تہمت لگانے والوں کا سردار عبداللہ بن ابی بن سلول تھا (جس نے صفوان کے ساتھ مجھ پرتہمت لگائی) خیر ہم لوگ مدینہ پہنچے اور میں ایک مہینہ تک بیمار رہی تہمت لگانے والوں کی باتیں لوگوں میں پھیلتی رہیں اور مجھے اپنی بیماری کی حالت میں شک پیدا ہوا کہ نبی کریم اس لطف سے پیش نہیں آتے تھے جس طرح (اس سے قبل) بیماری کی حالت میں لطف سے پیش آیا کرتے تھے اب تو صرف تشریف لاتے سلام کرتے پھر پوچھتے تو کیسی ہے؟ (پھر چلے جاتے) مجھے اس کی بالکل خبر نہ تھی یہاں تک کہ میں بہت کمزور ہوگئی (ایک رات) میں اور مسطح کی ماں مناصع کی طرف (رفع حاجت کے لیے) نکلیں ہم لوگ رات ہی کو جایا کرتے تھے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ ہم لوگوں کے بیت الخلاہمارے گھروں کے قریب نہ تھے اور عرب والوں کے پچھلے معمول کے موافق ہم لوگ جنگل میں یا باہر جا کر رفع حاجت کرتے تھے میں اور اُمِّ مسطح بنت ابی رُھم دونوں چلے جا رہے تھے کہ وہ اپنی چادر میں اٹک کر گر پڑیں اور کہا کہ مسطح ہلاک ہوجائے، میں نے اس سے کہا تو نے بہت بری بات کہی ایسے آدمی کو برا کہتی ہو جو بدر میں شریک ہوا، اس نے کہا اے بی بی! کیا تم نے نہیں سنا، جو یہ لوگ کہتے ہیں؟ اور اس نے مجھ سے تہمت لگانے والوں کی بات بیان کی یہ سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا، جب میں اپنے گھر واپس آئی تو میرے پاس رسول اکرم تشریف لائے اور فرمایا: تو کیسی ہے؟ میں نے عرض کیا مجھے اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیجئے اور اس وقت میرا مقصد یہ تھا کہ اس خبر کی بابت ان سے تحقیق کروں، رسول اکرم نے مجھے اجازت دیدی میں اپنے والدین کے پاس آئی تو میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ لوگ کیا بیان کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا بیٹی تو ایسی باتوں کی پرواہ نہ کر جو عورت حسین ہو اور اس کے شوہر کو اس سے محبت ہو اور اس کی سوکنیں ہوں تو اس قسم کی باتیں بہت ہوا کرتی ہیں، میں نے کہا سبحان اللہ اس قسم کی بات سوکنوں نے تو نہیں کی ایسی بات تو لوگوں میں مشہور ہو رہی ہے میں نے وہ رات اس حال میں گزاری کہ میرے آنسو نہ تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آئی پھر جب صبح ہوئی تو رسول اکرم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو جب وحی اترنے میں دیر ہوئی بلایا اور اپنی بیوی کو جدا کرنے سے متعلق ان دونوں سے مشورہ کرنے لگے اسامہ چونکہ جانتے تھے کہ آپ کو اپنی بیویوں سے محبت ہے اس لیے انہوں نے ویسا ہی مشورہ دیا اور کہا میں آپ کی بیویوں میں بھلائی ہی جانتا ہوں،لیکن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ تعالیٰ نے آپ پر تنگی نہیں کی،ان کے علاوہ عورتیں بہت ہیں اور لونڈی (بریرہ رضی اللہ عنہا) سے دریافت کیجئے! وہ آپ سے سچ سچ بیان کرے گی رسول اکرم نے بریرہ رضی اللہ عنہاکو بلایا اورفرمایا: اے بریرہ !کیا تو نے عائشہ رضی اللہ عنہا میں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو تجھے شبہ میں ڈالے؟ بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو عیب کی ہو بجز اس کے کہ وہ کم سن ہیں اور گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کرسوجاتی ہیں اور بکری آکر کھا جاتی ہے رسول اکرم اسی دن خطبہ دینے کھڑے ہوگئے اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے مقابلہ میں مدد طلب کی اور آپ نے فرمایا: کون ہے جو میری مدد کرے؟ اس شخص کے مقابلہ میں جس نے مجھے میرے گھر والوں سے متعلق اذیت دی حالانکہ بخدا میں اپنے گھر والوں میں بھلائی دیکھتا ہوں اور جس مرد کے ساتھ تہمت لگائی اس میں بھی بھلائی ہی دیکھتا ہوں، وہ گھر میں میرے ساتھ ہی داخل ہوتا تھا، یہ سن کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ میں آپ کی مدد کے لیے تیار ہوں اگر وہ قبیلہ اوس کا ہے تو میں اس کی گردن اڑادوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائی خزرج کے قبیلہ کا ہے تو جیسا حکم دیں عمل کروں گا، یہ سن کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے کھڑے ہوئے، اس سے پہلے وہ مرد صالح تھے لیکن حمیّت نے انہیں اکسایا اور کہا اللہ کی قسم نہ تو اسے مار سکے گا اور نہ تو اس کے قتل پر قادر ہے پھر اسید بن حضیر کھڑے ہوئے اور کہا تو جھوٹ کہتا ہے اللہ کی قسم ہم اس کو قتل کردیں گے تو منافق ہے منافقوں کی طرف سے جھگڑا کرتا ہے اوس و خزرج دونوں لڑائی کے لیے ابھر گئے یہاں تک کہ آپس میں لڑنے کا ارادہ کیا جب کہ رسول اکرم منبر پر ہی تشریف فرما تھے آپ منبر سے اترے اور ان سب کے اشتعال کو رفع کیا، یہاں تک کہ وہ لوگ خاموش ہوگئے اور آپ بھی خاموش ہوگئے اور میں سارا دن روتی رہی نہ تو میرے آنسو تھمتے اور نہ مجھے نیند ہی آتی صبح کو میرے پاس والدین آئے میں دو رات اور ایک دن روتی رہی یہاں تک کہ میں خیال کرنے لگی تھی کہ رونے سے میرا کلیجہ شق ہوجائے گا وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے اور میں رو رہی تھی کہ اتنے میں ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اسے اجازت دے دی وہ بیٹھ گئی اور میرے ساتھ رونے لگی ہم لوگ اس حال میں تھے کہ رسول اکرم تشریف لائے اور بیٹھ گئے حالانکہ اس سے پہلے جب سے کہ میرے متعلق تہمت لگائی گئی کبھی نہیں بیٹھے تھے ایک مہینہ تک انتظار کرتے رہے لیکن میری شان میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی آپ نے تشہد پڑھا پھر فرمایا :اے عائشہ! تمہارے متعلق مجھ کو ایسی ایسی خبر ملی ہے اگر تو بَری ہے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پاکیزگی ظاہر کردے گا اور اگر تو اس میں مبتلا ہوگئی ہے تو اللہ سے مغفرت طلب کر اور توبہ کر اس لیے کہ جب بندہ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے جب رسول اکرم نے اپنی گفتگو ختم کی تو میرے آنسو دفعتہ رک گئے یہاں تک ایک قطرہ بھی میں نے محسوس نہیں کیا اور میں نے اپنے والد سے کہا کہ میری طرف سے رسول اکرم کو جواب دیجئے انہوں نے کہا بخدا میں نہیں جانتا کہ رسول اکرم کو کیا جواب دوں پھر میں نے اپنی ماں سے کہا کہ میری طرف سے رسول اکرم کو جواب دیجئے انہوں نے کہا بخدا میں نہیں جانتی کہ رسول اکرم کو کیا کہوں ام المؤمین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں کمسن تھی اور قرآن مجید زیادہ نہیں پڑھا تھا میں نے عرض کیا کہ بخدا میں جانتی ہوں کہ آپ نے وہ چیز سن لی ہے جو لوگوں میں مشہور ہے اور آپ کے دل میں بیٹھ گئی ہے اور آپ نے اس کو سچ سمجھ لیا ہے اگر میں یہ کہوں کہ میں بَری ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بری ہوں تو آپ میری بات کو سچا نہ جانیں گے اور اگر میں کسی بات کا اقرار کرلوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بَری ہوں تو آپ مجھے سچاسمجھیں گے اللہ کی قسم! میں نے اپنی اور آپ کی مثال سیدنا یوسف کے والد کے سوا نہیں پائی جب کہ انہوں نے فرمایا تھا: کہ صبر بہتر ہے اور اللہ ہی میرا مدد گار ہے ان باتوں میں جو تم بیان کرتے ہو پھر میں نے بستر پر کروٹ بدل لی مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ میری پاکدامنی ظاہر فرما دے گا لیکن اللہ کی قسم مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میرے متعلق وحی نازل ہوگی اور اپنے دل میں اپنے آپ کو اس قابل نہ سمجھتی تھی کہ میرے اس معاملہ کا ذکر قرآن میں ہوگا، بلکہ میں سمجھتی تھی کہ رسول اکرم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ میری پاکدامنی ظاہر کر دے گا پھر اللہ کی قسم آپ اس جگہ سے ہٹے بھی نہ تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ آپ پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ پر وہی تکلیف کی حالت طاری ہوگئی جو نزول وحی کے وقت طاری ہوا کرتی تھی سردی کے دنوں میں بھی آپ کی جبین اطہر سے پسینے کے قطرات موتیوں کی مثل نمودار ہوئے، جب وحی کی کیفیت سے آپ باہر آئے، تو خوشی سے آپ کاچہرہ انور چمک رہا تھا، اور وہ سب سے پہلا جملہ جو آپ نے ارشاد فرمایا: آپ نے مجھ سے فرمایا : اے عائشہ! اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہاری پاک دامنی بیان کردی ہے، مجھ سے میری ماں نے کہا کہ اٹھو! اور رسول اکرم کا (شکریہ) ادا کرو میں نے کہا نہیں! اللہ کی قسم! میں ان کا شکریہ ادانہیں کروں گی، میں توصرف اللہ کا شکریہ ادا کروں گی(جس نے میرے آنسو اپنے دامنِ رحمت سے پونچھے ہیں) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

(اِنَّ الَّذِيْنَ جَا ءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ)

آخر آیت تک جب اللہ تعالیٰ نے میری برات میں یہ آیت نازل کی تو ابوبکر صدیق نے جو مسطح بن اُثاثہ کی ذات پر اس کی قرابت کے سبب خرچ کرتے تھے انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں مسطح کی ذات پر خرچ نہیں کروں گا کیونکہ اس نے عائشہ پر تہمت لگائی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت

وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ډوَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْااَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

نازل فرمائی، سیدنا ابوبکر کہنے لگے میں تو اللہ کی قسم پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو بخش دے پھر مسطح کو وہی دینا شروع کردیا جو برابر دیتے تھے اور رسول اکرم زینب بنت جحش سے میرے متعلق پوچھتے تھے اور فرماتے اے زینب کیا تو جانتی ہے؟ اور تو نے کیا دیکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا میں اپنے کان اور اپنی آنکھ کو بچاتی ہوں اللہ کی قسم میں تو ان کو اچھا ہی جانتی ہوں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہی میری ہم سر تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو پرہیزگاری کے سبب بچا لیا تھا۔ (صحیح بخاری: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ، بَابُ تَعْدِيلِ النِّسَاءِ بَعْضِهِنَّ بَعْضًا ،(2661)

(جاری)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے