الدرس الأول: سبق نمبر 1

قرآن کو قرآن کی زبان میں سمجھئے

گذشتہ شمارے میں سلسلہ فہم قرآن کا تعارف پیش کیا گیا تھا اس شمارے میں اللہ کی مدد و نصرت سے پہلے سبق کا آغاز کیا جا رہا ہے۔

لفظ کلمۃ اور اس کی اقسام

اللہ رب العزت کے انعامات میں سے ایک بڑا عظیم انعام یہ بھی ہے کہ اس نے انسان کو قوت گویائی عطا کی ہے جس کی مدد سے وہ اپنے ذہن میں اٹھنے والے خیالات کو الفاظ کی صورت میں ظاہر کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور انسان کی یہی صفت اس کو باقی تمام مخلوقات سے ممتاز و ممیز کرتی ہے۔

لفظ

ہماری زبان سے نکلنے والی ہر آواز کو عربی میں لفظ کہا جاتا ہے لفظ کی جمع الفاظ ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد گرامی ہے:

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ

وہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود ہوتا ہے۔ (سورۃ ق 18)

لیکن یہ ضروری نہیں کہ انسان کے منہ سے نکلنے والے ہر لفظ کے معنی بھی ہوں جیسے ایک چھوٹا بچہ اپنے منہ سے کتنے ہی بے شمار الفاظ نکالتا ہے جس کے کوئی معنی نہیں ہوتے اور بسا اوقات ہم بھی اپنی گفتگو میں ایسے بے معنی الفاظ استعمال کرتے ہیں جیسے پانی وانی، چائے وائے، روٹی ووٹی وغیرہ

اس لیے ہم الفاظ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

(۱) کلمۃ (۲) مہمل

(۲) مُھْمَل: بے معنی الفاظ، عربی میں سِلَّۃٌ ٹوکری کو کہتے ہیں اور ’’سلۃ المھملات‘‘ ردی کی ٹوکری کو، لہذا کسی بھی زبان میں مہمل الفاظ کو زیر بحث نہیں لایا جاتا کیونکہ اس کی جگہ ردی کی ٹوکری ہی ہے۔ باقی رہی پہلی قسم (کلمۃ) تو، کلمۃ: اسم، فعل اور حرف پر مشتمل ہوتا ہے۔

کلمۃ کو مزید تین اجزاء میں تقسیم کیا گیا ہے جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے۔

یہ تینوں اجزاء کلام (Parts of speach) کہلاتے ہیں ذیل میں ان تینوں اقسام کی وضاحت کی جاتی ہے۔

کلمۃ کی پہلی قسم (NOUN) اسم

وہ لفظ جس کو سننے کے بعد انسان کے ذہن میں کسی شے کی صورت واضح ہو جائے مثلاً: کرسی، قلم، کتاب وغیرہ ان میں سے ہر نام کے مطابق اس کی صورت ذہن میں  آجاتی ہے لہٰذا یہ تینوں مختلف چیزوں کے نام ہیں اور عربی زبان میں نام کو اسم کہا جاتا ہے۔ اس کی جمع (اسماء) ہے۔

اسم کی اقسام

تعریف کے لحاظ سے اسم کی دو اقسام ہیں۔ (۱) اسم ذات (۲) اسم صفت

(۱) اسم ذات (NOUN) وہ لفظ جسے سن کر ہمارے ذہن میں کسی چیز/ کسی وجود (Person) کا نقشہ نمودار ہو جیسے اَلوَلَدُ (لڑکا) لڑکا ایک گوشت پوست سے بنے ایک وجود کا نام ہے اسی طرح مآءٌ (پانی) نَجْمٌ (ستارہ) وغیرہ۔

(۲) اسم صفت: (Adyective)

جس لفظ میں کسی کی برائی، اچھائی یا کوئی اور خاصیت بیان کی جا رہی ہو اسے اسم صفت کہا جاتا ہے۔

مثلا جیسے صَالِحٌ (نیک) صَادِقٌ (سچا) فَاسِقٌ (نافرمان)

کلمۃ کی دوسری قسم (Verb) ’’فعل‘‘

وہ الفاظ جن میں کسی کام کے کرنے کا ذکر ہو مثلاً نَعْبُدُ (ہم عبادت کرتے ہیں) نَسْتَعِیْنُ (ہم مدد طلب کرتے ہیں) یَسْتَغْفِرُونَ (وہ گناہوں کی معافی مانگتے ہیں)

مندرجہ بالا تینوں مثالوں میں کسی نہ کسی کام کے کرنے کا ذکر ہے اس لیے یہ تمام الفاظ افعال ہیں۔ اور فعل کی تین قسمیں ہیں۔

b فعل ماضی: جس میں گزرے ہوئے کام کو بتایا جائے۔

b فعل حال: جس میں کوئی کام جاری ہوتا ہے حال (Present)

b فعل مستقبل: کوئی کام مستقبل میں ہونے والا ہوتا ہے (Future)

یعنی لفظ فعل کا تعلق لازمی طور پر ان تینوں میں سے کسی ایک زمانے سے ہوتا ہے۔

کلمۃ کی تیسری قسم: حرف (letter/Partical)

اسماء اور افعال کو الگ کرنے کے بعد جو الفاظ بچ گئے عربی گرام ترتیب دینے والوں نے ان کو ایک طرف رکھ دیا (کنارے پر کر دیا) عربی میں کنارے کو حرف کہتے ہیں اس لیے ان الفاظ کو جو نہ اسم تھے نہ فعل ’’حرف‘‘ کہا گیا حرف اکیلا اپنا معنی ادا نہیں کر سکتا جب تک اس کے ساتھ کوئی دوسرا لفظ نہ مل جائے مثلاً عربی میں (سے) کے لیے (مَنْ) استعمال ہوتا ہے اب اگر کوئی جتنی بار بھی مِن مِن کہتا ہے سننے والے کو کچھ سمجھ نہ آئے گا لیکن اگر کوئی سوال کرے کہاں سے آئے ہو تو جواب میں کہے (مَنِ الْمَسْجِدِ) (مسجد سے) المسجد کے ساتھ مِن لگایا تو معنی سمجھ آیا۔

علامات اسم

اسم کی پہچان کے لیے کچھ علامات (نشانیاں) وضع کی گئی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

(۱) الف لام (ال) وہ الفاظ جن کے شروع میں (ال) لگا ہوا ہو اسماء ہوتے ہیں جیسے الکتاب، القلم

(۲) تنوین: دو زبر، دو زیر، دو پیش کو تنوین کہتے ہیں جس لفظ کے آخری حرف پر تنوین ہو وہ اسم ہوتا ہے جیسے مُسْلِمٌ، مَسجدٌ

(۳) (ال) اور (تنوین) کا عمل: جن اسماء کے شروع میں الف الام ہوگا ان اسماء پر تنوین نہیں آ سکتی جیسے المسلم اور اسی طرح جس لفظ کے آخر میں تنوین ہو گی اس پہ الف لام داخل نہیں ہو گا۔

نون اور تنوین میں فرق

نون (ن) حروف تہجی میں سے ہے جبکہ کسی لفظ پر تنوین کی وجہ سے نون (ن) کی آواز پیدا ہوتی ہے ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب لفظ کے آخری حرف پر دوہری حرکت (تنوین) آ جائے۔

الف لام کا استعمال: قرآن مجید کے الفاظ پر غور و خوض کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جن اسماء کے شروع میں الف لام ہوتا ہے ان میں سے کچھ اسماء کے ساتھ الف لام پڑھا جاتا ہے اور کچھ میں الف لام کا جو لام (ل) ہے وہ پڑھنے اور بدلنے میں نہیں آتا مثلاً اَلْرَحْمٰنُ نہیں بلکہ الرَّحمٰن کہتے ہیں یہاں لام کی آواز (Silent) ہے جبکہ الکتاب میں الف اور لام دونوں پڑھے جا رہے ہیں۔

اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کن الفاظ میں الف لام کا لام پڑھا جائے گا اور کن میں نہیں اس کی آسان علامت یہ ہے کہ جب لام (ل) کے بعد والے حرف پر تشدید موجود ہو تو ہو لام نہیں پڑھا جائے گاجیسے (الشّمْسُ) یہاں شین (ش) پر تشدید ہونے کی وجہ سے لام نہیں پڑھا گیا جبکہ (اَلْقَمَرُ) یہاں (ق) پر شد نہ ہونے کی وجہ سے (ل) پڑھا گیا۔

عربی کے حروف تہجی کے وہ حروف جن سے پہلے آنے والا لام نہ پڑھا جائے ان کو حروف شمسیہ کہتے ہیں

اور حروف تہجی کے وہ حرور جن سے پہلے آنے والے لام کو پڑھا جائے ’’حروف قمریہ‘‘ کہلاتے ہیں۔

حروف شمسی اور حروف قمری

عربی زبان کے کل حروف تہجی 28 ہیں (الف حروف تہجی میں شمار نہیں ہوتا اگر اسے شامل کیا جائے تو 29 ہوں)

ان حروف میں سے چودہ کو حروف شمسی کہتے ہیں اور چودہ کو حروف قمری کہتے ہیں۔

حروف شمسی:

ت، ث، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ل، ن۔

حروف قمری:

ء، ب، ج، ح، خ، ع، غ، ف، ق، ک، م، و، ھ، ی۔

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے