تعارف:

قرآن مجید بنی نوع انسان کے لیے نور ہدایت ہے ویسے تو قرآن مجید ’’الحمد للہ ‘‘ سے ’’والناس‘‘ تک ہدایت پر ہی مشتمل ہے لیکن کچھ آیات بطور خاص اس اعتبار سے ہماری توجہ کی محتاج ہیں۔ بالخصوص وہ آیات جو ’’قل‘‘ سے شروع ہوتی ہیں یا ’’یَسْئَلُوْنَکَ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔ اسی طرح کچھ آیات ’’یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا‘‘ کے خطاب سے شروع ہوتی ہیں ایسی تمام آیات کے جمع کرنے سے دین اسلام کی جامعیت اور اکملیت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے لہذا ان آیات کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں اللہ رب العالمین نے خصوصی طور پر اپنے مؤمن بندوں کو خطاب فرمایا ہے اور جب کوئی عام بندہ یعنی ہم انسان ہی آپس میں یا اپنے کسی خاص قریبی سے مخاطب ہوتے ہیں تو اس میں اپنائیت اور محبت واضح طور پر جھلک رہی ہوتی ہے اسی طرح اللہ رب العالمین اپنے فرما نبردار بندوں سے خصوصی خطاب کر رہا ہے۔

ان آیات میں نہایت ہی اہم اور ضروری ہدایات ہیں جو ہر مسلمان کو دینا و آخرت میں کام آنے والی ہیں اور ان پر عمل پیرا ہو کر ہی تکمیل ایمان، تحصیل سعادت، فلاح و فوز اور دخول جنت اور دوزخ و جہنم سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ کیونکہ ان آیات میں عقائد، عبادات دینیہ، تزکیہ نفوس، اخلاق حسنہ و فاضلہ، آداب شرعیہ اور معاملات نافعہ و ضارہ کا بیان ہے اور ان آیات میں احکام عامہ و خاصہ کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔

اسی طرح ان نداءت کی ابتداء بھی آداب سے متعلق ہی ہے چونکہ اس کے بغیر انسان معراج انسانی سے گر کر حیوانیت کی پستی و ظلمت کی انتہائی عمیق ترین سطح میں جاگرتا ہے۔

اور آخری تعلیم و نداء ’’توبہ نصوح‘‘ پر مشتمل ہے کہ جس کی بدولت انسان ذلت و رسوائی اور انتہائی تذلیل کن اور دردناک عذاب سے بچ کر فلاح و فوز کے انتہائی مقام پر فائز ہو کر دخول جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

پس ہم ان آیات و نداءت کی بالترتیب پہلی نداء کو ذکر کرتے ہیں کہ جس میں اللہ رب العالمین احکم الحاکمین اپنے مومن بندوں کو ’’الادب مع الرسول صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ کی تعلیم سے بہرہ ور فرماتاہے۔

یہ آیت ’’یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا‘‘ کے الفاظ سے شروع والی قرآن کریم کی پہلی آیت اور سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 104 ہے۔ کہ جس میں اللہ رب العالمین فرماتاہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

اے ایمان والو! راعنا نہ کہا کرو (بلکہ) انظرنا کہا کرو اور سن رکھو (یعنی جان لو) کہ کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔[البقرة: 104]

تفسیر و تشریح:

’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کو مومنین کی حیثیت سے خطاب فرماتےہیں کیونکہ ایمانی دولت کے ذریعے ہی انسان سننے سمجھنے اور تدبر کرنے کی کوئی صلاحیت و طاقت رکھتا ہے وگرنہ وہ ’’اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلّ‘‘یہ چوپائے یا اس سے بھی بدتر رہیں کے مصداق ٹھہرتا ہے۔

اور دوسری اہم بات یہ کہ جو سنتا سمجھتا ہے تدبر، غور وخوض اور فکر کرتا ہے وہی اس پر عمل پیرا بھی ہوتا ہے۔

اللہ رب العالمین کا اس طرح اپنے بندوں کو خطاب کرنے کا مقصد ان کی فلاح وفوز اور کامیابی و ترقی اور سعادت مندی کے کام کرنے کا حکم دینا یا بصورت دیگر ان کو حرام و ممنوع اور نقصان والے کاموں سے روکنا ہوتا ہے۔ اسی سلسلے میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ مجھے نصیحت فرمائیں تو آپ نے اس سے فرمایا کہ اللہ رب العالمین کے ان خطابات کو غور سے سنو جو قرآن مجید میں ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا‘ ‘کے ساتھ آئے ہیں اور انہیں محفوظ کر لو کیونکہ ان خطابات میں تمہیں یا تو کسی بھلائی کا حکم دیا گیا ہے یا کسی برائی سے تمہیں روکا گیا ہے۔

اسی طرح اس آیت کریمہ میں بھی غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو لفظ ’’ رَاعِنَا‘‘ سے روکتے ہوئے انظرنا کہنے کی ہدایت کرتا ہے۔

اس آیت کریمہ کا پس منظر اور شان نزول یہ ہے کہ یہودی منافقین آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ’’رَاعِنَا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے جس کا عربی زبان میں مفہوم و معنیٰ یہ ہے کہ ہماری طرف بھی توجہ فرمائیے۔

مگر وہ در پردہ اپنی بدنیتی کی وجہ سے استہزاء و مذاق کے طور پر استعمال کرتے تھے کیونکہ ان کی عبرانی زبان میں یہ لفظ برے معانی میں استعمال ہوتا تھا۔ اور اللہ رب العالمین تو دلوں کے بھید اور ان کے مکر و فریب اور مسخرے پن کو خوب جانتا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی کہ اے میرے مومن بندو! تم ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہا کرو کہ جس کے معانی و مفہوم واضح اور صاف ہوں۔

دوسرا یہ کہ اللہ ربّ العالمین استہزاء و مسخرے پن اور برے القابات سے پکارنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایک اور جگہ فرماتا ہے۔

بقیہ: اے ایمان والو.. !‏

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا ‏أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‏

اے ایمان والو! نہ مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے کیا عجب ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے کیا عجب ہے کہ وہ جن پر ہنستی ‏ہیں وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ باہم ایک دوسرے میں عیب نکالو اور نہ ایک دوسرے کو برے نام و لقب سے پکارو اور کتنا ہی برا ہے کہ ایمان کے بعد پھر ‏گناہ و فسوق کا نام لگے اور جو (ان باتوں سے) باز نہ آئیں گے تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہیں۔ (الحجرات: ‏‏)‏

‏ وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ‏

اور اس بات کو اچھے طریقے سے جان لو سمجھ لو کہ جو کوئی یعنی اللہ کے احکامات سے رو گردانی کرے گا اعراض کرے گا یا اللہ کے احکامات و قوانین پر ہرزہ ‏سرائی کرے گا تو ایسے لوگوں کے لیے اللہ نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ والعیاذ باللہ

اس آیت کریمہ کے ضمن میں جن احکامات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے یا اس کے کلام کی تلاوت کی جائے تو ‏نہایت ہی خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی سماعت کی جائے۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نہ صرف عزت و تکریم اور ادب و احترام کرنا بلکہ اس کا اظہار کرنا بھی ہم پر واجب ہے اس لیے جب آپ کی احادیث مبارکہ کا ‏بھی ذکر ہو تو وہ بھی ہمیں کان لگا کر اور نہایت توجہ سے کے ساتھ سننی جائیں۔

اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احکامات کی حفاظت کرنے اور ان کو سمجھنے کی صلاحیت مرحمت فرما کر ہمیں ان سے انتقاع اٹھانے کی ‏توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے