اس دنیا میں انسان کیلئے سب سے بڑا فتنہ مال ہے ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ِ مبارک ہے کہ :

لاَ تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ، عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلاَهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ

قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اللہ رب العزت کے پاس سےاس وقت تک نہیں ہٹ سکیں گے جب تک پانچ چیزوں کے بارے میں اس سے باز پرس نہ کرلی جائے عمر کس کام میں صرف کی ؟جوانی کیسے گذاری ؟مال کہاں سے کمایا ؟مال کہاں خرچ کیا؟ جو کچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا؟ (سنن الترمذي (4/ 190)

ان پانچ چیزوںمیں مال وہ واحد چیز ہےجس کےبارے میں اللہ تعالیٰ دو طرح سے سوال کرے گا:” من أين اکتسبه وفيم أنفقه ” یعنی کمایا کیسے تھا ؟اور خرچ کیسے کیا؟ یہ خرچ عام بھی ہوتا ہے اور خاص بھی جو انسان اپنی اولاد پر کرتا ہے تو اس خرچ میں کبھی انسان کا نفسی میلان اپنی اولاد میں سے کبھی کسی بیٹے یا بیٹی ( یا کسی اور عزیز ) کی طرف زیادہ ہوتا ہےاس لئے اسکی کوشش ہوتی ہے کہ   وہ اپنے اس بیٹے یا بیٹی کو دوسرے بیٹوں یا بیٹیوں پر فوقیت دے کیونکہ وہ ظاہری طور پر اپنے اس بیٹے میں صلاحیتیں اور خصوصیات دیکھ رہا ہوتا ہےکہ یہ میرا بیٹا دوسروں کی بہ نسبت زیادہ سود مند ثابت ہو سکتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی نفی فرمائی ہے۔ فرمایا:

آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ( النساء: 11)

تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے۔

دنیا میں بھی ہم نے مشاھدہ کیا ہے کہ اکثر اوقات اسکے بر عکس ثابت ہوتا ہے کہ جس بیٹے سے زیادہ توقعات ہوتی ہیں وہی زیادہ تکلیف کا باعث بنتا ہے۔اس لئے ہمیں شریعت نے عدل کا درس دیا ہے کہ ہم اپنی اولاد کے د رمیان عدل کریں جیسا کہ حدیث نعمان بن بشیرt اس پر واضح دلالت کرتی ہے۔

سیدنا نعمان بن بشیرwفرماتے ہیں کہ میرے والد مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لیکر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سےفرمانے لگے کہ : میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام بطور تحفہ دیا ہے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : کیا تم نے اپنی سب اولاد کو اس طرح تحفہ دیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا نہیں ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا اسے واپس لے لو ۔

اور ایک روایت میں یوں ہے کہ : میرے ابو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں گئے تاکہ آپ کو اس تحفہ پر گواہ بنا سکیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : کیا تم نے یہ معاملہ اپنے تمام بچوں کے ساتھ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے مابین عدل کیا کرو ۔ ( یہ سن کر ) میرے ابو لوٹ گئے اور وہ صدقہ اور تحفہ واپس لے لیا۔ (متفق عليه)

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تو تم اس پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنالو ، پھر فرمایا : کیا تم چاہتے ہو کہ تمہاری تمام اولاد فرمانبردار ہو ، فرمایا :کیوں نہیں پھر فرمایا : تب ایسا نہ کرو ( یعنی ایک کو دے دو اور دوسروں کو محروم کردو ) (صحيح مسلم)

اب اس حدیث میں بالکل واضح فردیا کہ جس طرح ایک والد یہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد سب کی سب اس کی فرمانبرداری کرے تو اسے چاہئے کہ مال کی تقسیم میں عدل کرے کیونکہ اگر عدل نہ کیا گیا تو یہ عمل دوسروں کو نافرمان بنادے گا ۔

مذکورہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تعلیم دی کہ تقسیمِ مال کے وقت ہم اپنی اولا د کے درمیان مساوات پیدا کریں وگر نہ یہ ان پر ظلم ہوگا جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے ظلم پر گواہ مت بناؤ۔اگر کچھ اولاد کو نوازا جائے اور اور کچھ کو محروم رکھا جائےتو اس کے نتیجے میں ان کے مابین منافرت پیدا ہو گی اور باپ بیٹے کے رشتے میں بھی سقم اور کمزوری پیدا ہوگی جسکا ہمارے معاشرے میں بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

مال چونکہ ایسا عظیم فتنہ ہے کہ اس سے بھائی بھائی کا ، باپ بیٹے کا اور بیٹا باپ کا دشمن ہوجاتا ہے ۔ خاندان کے خاندان اجڑ جاتے ہیں اسی رسا کشی میں کہ ہمیں زیادہ مل جائے دوسروں کو کم ، اس نازک صورت حال کے پیشِ نظر اسلام نے تقسیمِ مال سے متعلق انتہائی رہنما اصول وضع کئے ہیں جن کی پیروی کرتے ہوئے انسان نہ صرف دنیاوی واخروی سعادت حاصل کرلیتا ہے ،بلکہ اولاد اور خاندان کے مابین ہونے والے مالی تنازعات کا تصفیہ بھی بخوبی ہوجاتا ہے ۔

تقسیم ِ مال کے حوالے سے اسلام کا نظامِ وراثت ایسا عادلانہ نظام ہے جسکی مثال دوسری امتوں اور غیر اسلامی نظاموں میں نہیں ملتی۔ اسلامی نظام وراثت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےخود ورثاء کا بھی تعین کیا ہے اور ان کے حصوں کا بھی اور بعد میں فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ علم والا اور حکمت والا ہے ‘‘۔ یعنی وہ جانتا ہے کہ کون زیادہ فائدہ مند ہے اور رب کی تقسیم حکمت پر مبنی ہے ۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (النساء:11)

اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں تاکیداً حکم دیتا ہے کہ مرد کاحصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا۔ اگر اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں اور وہ دو سے زائد ہوں تو ان کا ترکہ سے دو تہائی حصہ ہے اور اگر ایک ہی ہو تو اس کا ترکہ کا نصف حصہ ہے۔ اگر میت کی اولاد بھی ہو اور والدین بھی تو والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اگر میت کی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف والدین ہوں تو ماں کا تہائی حصہ ہے اور اگر اس کے بہن بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے اور یہ تقسیم میت کا قرضہ اور اس کی وصیت ادا کرنے کے بعد ہوگی۔ تم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں۔ یقینا اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

نیز فرمایا :

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ (النساء: 12، 13)

اور تمہاری بیویوں کی اگر اولادنہ ہوتوانکےترکہ سے تمہارا نصف حصہ ہے اور اگر اولاد ہو تو پھر چوتھا حصہ ہے۔ اور یہ تقسیم ترکہ ان کی وصیت کی تعمیل اور ان کاقرضہ ادا کرنے کے بعد ہوگی۔ اور اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو بیویوں کا چوتھا حصہ ہے اور اگر اولاد ہو تو پھر آٹھواں حصہ ہے اور یہ تقسیم تمہاری وصیت کی تعمیل اور تمہارے قرضے کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ اگر میت کلالہ ہو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو اور اس کا ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اگر بہن بھائی زیادہ ہوں تو وہ سب تہائی حصہ میں شریک ہوں گے اور یہ تقسیم میت کی وصیت کی تعمیل اور اس کے قرضہ کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ بشرطی کہ اسکےقرضہ کی ادائیگی یا وصیت کی تعمیل میں کسی کو نقصان نہ پہنچ رہا ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور بردبار ہے

پھر رب تعالیٰ نے فرمایا:

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (النساء:176)

لوگ آپ سے کلالہ کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ: اللہ تمہیں اس بارے میں یہ فتویٰ دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص لاولد مرجائے اور اس کی ایک بہن ہی ہو تو اسے ترکہ کا نصف ملے گا۔ اور اگر کلالہ عورت ہو (یعنی لاولد ہو) تو اس کا بھائی اس کا وارث ہوگا۔ اور اگر بہنیں دو ہوں تو ان کو ترکہ کا دو تہائی ملے گا۔ اور کئی بہن بھائی یعنی مرد اور عورتیں (ملے جلے ہوں) تو مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔ اللہ تمہارے لیے یہ وضاحت اس لیے کرتا ہے کہ تم بھٹکتے نہ پھرو۔ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تقسیم کو حدود قرار دیا اور جو شخص حدود کی پاسداری کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو ان حدود میں تجاوز کرے گا نامراد ہوگا ۔

مندرجہ بالا آیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہر حقدار کا حق بیان کر دیا ہےتاکہ ظلم وزیادتی کے پہلو کو ختم کردیا جائے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں کم علمی، اور دین سے دوری کے باعث زندگی کے بیشتر مقامات پر ان تعلیمات سے انحراف پایا جاتا ہے ۔ ذیل میں چند ایسے امور بیان کئے جا رہے ہیں جو ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ، لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان پر عمل پیرا ہے لیکن شرعی نقطہ نگاہ سے وہ اعمال ظلم وزیادتی اور شریعت کی نافرمانی کے زمرے میں آتے ہیں ۔

وصیّت:

وصیت بذات خود ایک جائزاور مشروع عمل ہے۔ لیکن شریعت نے اس کی چند حدود وقیود متعین فرمائی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں متعدد لوگ اس حق کو استعمال کرتے وقت غلطی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

شریعت نے وصیت کو جائز قرار دیا ہے لیکن اس کے لئے دو شرطیں متعین کی ہیں وصیت کرتے وقت ان کوملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔

پہلی شرط: وصیت وارث کیلئے نہیں ہونی چاہئے ۔

رسول اللہe نے فرمایا :

إِنَّ اللهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ (سنن ابن ماجه (2/ 905)

اللہ تعالی نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (یعنی آیت میراث میں ہر ایک کا حصہ مقرر کر دیا) لہٰذا اب وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔

دوسری شرط: وصیت کل مال کے ایک تہائی [3/1] سے زیادہ نہ ہو۔

اگر کوئی شخص ا پنے مال سے متعلق کسی کیلئے وصیت کرتا ہے، تو وہ ایک تہائی تک ہونی چاہئے یا اس سے کم ، ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ۔

زندگی میں جائداد کی تقسیم میں ظلم کا پہلو پایاجانا :

بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جب وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی دولت کی تقسیم کرتے ہیں تو اپنی اولاد میں سے بیٹیوں کو جائدادسےمحروم رکھتے ہیں، یا بیٹوں میں سے چند پر خوب مہربان ہوتے ہیں انہیں نواز دیتے ہیں جبکہ بعض کو محروم رکھتے ہیں۔ اور عذر یہ بتاتے ہیں کہ فلاں فلاں سے زیادہ ہمارے لئے بہتر ہے۔ وہ ہمارا فرمانبردار ہے، ہمارے کاروبار کو سنبھالتا ہے، ہمیں اس سے زیادہ محبت ہے، ہمارے لئے وہ زیادہ فائدہ مند ہے۔ یہ آج کی سوچ ہے لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو بالکل یہی سوچ ایام جاہلیت میں مشرکین کی ہوا کرتی تھی کہ وہ لوگ اپنی اولاد میں صرف طاقتور اور کام آنے والے بیٹوں میں جائداد اور وراثت تقسیم کرتے تھے ۔بوڑھوں ، بچوں ، اور عورتوں کو محروم کردیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ : ہم وراثت کاحق صرف اسے دیں گے جو گھڑ سواری کا ماہر ہو ، غنیمت سمیٹنے والا ہو ، کنبے قبیلے کی حفاظت کرنے والا ہو،لیکن اسلام نے اس سوچ کو بالکل تبدیل کیا اور ہر ایک کو وراثت سے حق دیا، چاہے وہ طاقت ور ہو یا ضعیف وکمزور ہو ۔ حدیث نعمان بن بشیرtمیں یہی مذکور ہے، ہاں اگر زندگی ہی میں کوئی شخص اپنی مکمل جائداد تمام اولاد کے درمیان برابر تقسیم کر دیتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔مگر برابری ہونی چاہئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے :اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں عدل کیا کرو ۔

وراثت سے “عاق “کر دینے کا حکم:

وراثت کے کئی اسباب ہیں جن میں سے ایک قرابت[رشتہ داری ]بھی ہے جو کسی صورت میں ختم نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی کو ختم کرنے کا اختیار ہے ۔ الا یہ کہ وہ رشتہ دار کافر ہو ۔البتہ نکاح طلاق سے ختم ہو جاتا ہے اور وہ بھی اگر بیوی کو شوہر اپنے آخری ایام میں میراث سے محروم کر نے کی نیت سےطلاق دے تو اس کے نیت کے برعکس معاملہ کیا جائے گا ۔

والدین کی جانب سے اپنی اولاد میں بعض کو جو عاق کرنے کا رواج عام ہے اس سے متعلق فضیلۃ الشیخ عبدالستار حماد dسے سوال کیا گیاتو آپ نے مندرجہ ذیل جواب دیا۔ وہ سوال بمع جواب افادہ عامہ کیلئے یہاں تحریر کیا جاتا ہے ۔

سوال: اخبارات میں جو عاق نامہ دیا جاتا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا والد کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے نافرمان بیٹے کو وراثت سے محروم کرسکے ؟

جواب: انسان کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد کو تقسیم کرنے کا طریقہ کار خود اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ ہے ۔ اس میں کسی کو ترمیم واضافہ کا حق نہیں ہے ، جوحضرات قانون وراثت کو پامال کرتے ہوئے آئے دن اخبارات میں اپنی اولاد میں سے کسی کے متعلق ’’عاق نامہ ‘‘ کے اشتہارات دیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑے خوفناک عذاب کی دھمکی دی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں کہیں تو عورتوں کو وراثت سے مستقل طور پر محروم کردیا جاتا ہے اور کہیں دوسرے بچوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف لڑکے کو ہی وراثت کا حق دار ٹھہرادیا جاتا ہے ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ ضابطہ میراث کے خلاف کھلی بغاوت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو ، خواہ وہ مال تھوڑا یا بہت ہواور یہ حصہ ( اللہ کی طرف ) سے مقرر ہے۔‘‘ (النساء : ۷)

اس آیت کریمہ کے پیشِ نظر کسی وارث کو بلاوجہ شرعی وراثت سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ماہرین وراثت نے ان وجوہات کو بڑی دلیل سے بیان کیا ہے جو وراثت سے محرومی کا باعث ہیں عام طور پر اس کی دو اقسام ہیں :

پہلی قسم میں وہ موانع ہیں جو فی نفسہ وراثت سے محرومی کا باعث بنتے ہیں ان میں غلامی ، قتل ناحق اور اختلاف ملت یعنی کفر وارتداد وغیرہ ہیں ۔

دوسری قسم میں وہ موانع ہیں جو فی نفسہ تو رکاوٹ کا باعث نہیں ، البتہ بالتبع محرومی کا ذریعہ ہوتے ہیں ان میں وارث اور مورث کا اشتباہ برسرفہرست ہے ، جیسے ایک ساتھ غرق ہونے والے ، آگ میں جل کر اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں ۔ اگر ان کے درمیان وراثت کا رشتہ قائم ہو تو ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے بشرطیکہ پتہ نہ چل سکے کہ ان میں پہلے اور بعدمیں کون فوت ہوا ہے ۔ احادیث میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے :’’ جو کسی کی وراثت کو ختم کرتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے مقرر کیا ہے ، اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی وراثت کو ختم کردیں گے ۔‘‘( شعب الايمان للبيهقی : ۱۴ ، ۱۱۵ )

اس طرح حضرت انس tسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جو اپنے وارث کو حصہ دینے سے راہ فرار اختیار کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا حصہ جنت سے ختم کردیں گے۔ ( ابن ماجہ : ۲۷۰۳)

اگرچہ مؤخر الذکر روایت میں ایک راوی زید العمی ضعیف ہے ، تاہم اس قسم کی روایت بطور تائید پیش کی جاسکتی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اگر بیٹا نافرمان ہے تو وہ اپنی سزا اللہ تعالیٰ کے ہاں پائے گا ۔ لیکن والد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے جائیداد سے محروم کردے ۔ بعض لوگ محض ڈرانے کے لئے ایسا کرتے ہیں لیکن ایسا کرنا بھی کئی ایک قباحتوں کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ لہذا رائج الوقت ’’ عاق نامہ ‘‘ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ۔ (فتاوی اصحاب الحديث جلد اول ، صفحه 328) ( واللہ اعلم )

مذکورہ بالا تحریر سے مترشح ہوا کہ عاق نامہ ایک ظلم پر مبنی قول وتحریر ہے ۔ جس سے ایک مسلمان کو احتراز کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مال کی تقسیم عدل کو اپنانے اور ظلم سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے