اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات کی ابتدا ہی تعلیم و تعلّم کی ترغیب سے ہوئی، علم کے متعلق جتنا بھی کچھ لکھاجائے کم ہوگا کیونکہ اس کی قدرومنزلت انتہائی بلند ہے۔ انسانیت کی ترقی کا اہم راز یہی علم ہے، دونوں جہاں کی سعادت مندی، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ فطری برتری میں چار چاند لگانے کا اہم سبب بھی یہی علم ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر علم کے حامل شخص اور علم سے نابلد شخص کا موازنہ ان الفا ظ سےکیا گیا کہ’’ قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون‘‘ کیا عالم اور جاہل برابر ہوسکتے ہیں؟؟

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فرامین میں بھی علم کی فضیلت اور اہمیت کو اجاگر کیا ، حتیٰ کہ طلب علم کے رستے پر چلنے والے مسافر کو ان الفاظ میں نوید سنائی کہ: ’’جو شخص طلب علم کے لئے کسی راستہ پر چلا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔‘‘

(صحیح مسلم، کتاب الذکر)

علم کی اہمیت و فوائد سے متعلق احادیث محدثین کی نظر میں:

امام بخاری رحمہ للہ اپنی صحیح میں ”کتاب العلم“ کے عنوان کے تحت 86مرفوع حدیثیں اور 22 آثارِ صحابہ وتابعین ہیں،اسی طرح صحاحِ ستہ کی دیگر کتب اور ”موطا مالک“ میں بھی علم کا علیحدہ اور مستقل باب ہے۔ ”مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ“ کی ترتیب سے متعلق کتاب ’’الفتح الربانی“ میں علم سے متعلق 81احادیث ہیں، حافظ نورالدین ہیثمی رحمہ اللہ کی ”مجمع الزوائد“ میں علم کے موضوع پر احادیث 82صفحات میں پھیلی ہوئی ہیں، ”مستدرک حاکم“ میں علم سے متعلق حدیثیں 44صفحات میں ہیں، مشہور اور جلیل القدر محدث حافظ منذری رحمہ اللہ کی ”الترغیب والترہیب“ میں علم سے متعلق 14 احادیث ہیں اور علامہ محمد بن سلیمان رحمہ اللہ کی ”جمع الفوائد“ میں صرف علم کے حوالے سے154 حدیثیں بیان کی گئی ہیں۔

علم اور خواتین:

یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل جمیلہ سے مزین کرنے میں اس قوم کی خواتین کا اہم، بلکہ مرکزی اور اساسی کردار ہوتا ہے اور قوم کے نونہالوں کی صحیح اٹھان اور صالح نشوونما میں ان کی ماؤں کا اہم رول ہوتا ہے، اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ماں کی گود بچے کا اولین مدرسہ ہے، اس لیے شروع ہی سے اسلام نے جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کی تمام تر راہیں ہموار رکھی ہیں ان کو ہر قسم کے مفید علم کے حصول کی نہ صرف آزادی دی ہے، بلکہ اس پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے، جس کے نتیجے میں قرنِ اول سے لے کر آج تک ایک سے بڑھ کر ایک کج کلاہِ علم وفن اور تاجورِ فکر وتحقیق پیدا ہوتے رہے اور زمانہ ان کے علومِ بے پناہ کی ضیاپاشیوں سے مستفیض ہوتا رہا، بالکل اسی طرح اس دین حنیف نے خواتین کو بھی تمدنی، معاشرتی اور ملکی حقوق کے یہ تمام وکمال عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق بھی اس کی صنف کا لحاظ کرتے ہوئے مکمل طور پر دئیے، چنانچہ ہر دور میں مردوں کے شانہ بہ شانہ دخترانِ اسلام میں ایسی باکمال خواتین بھی جنم لیتی رہیں، جنہوں نے اطاعت گزار بیٹی، وفاشعار بیوی اور سراپا شفقت بہن کا کردار نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے علم وفضل کا ڈنکا بجایا اور ان کے دم سے تحقیق و تدقیق کے لاتعداد خرمن آباد ہوئے۔

خواتین کی تعلیم و تربیت کا عمومی ماحول کا اثر

تعلیم وتربیت کے اسی عمومی ماحول کا اثر ہے کہ جماعتِ صحابیات رضی اللہ عنہن میں بلند پایہ اہل علم خواتین کے ذکرِجمیل سے آج تاریخ اسلام کا ورق ورق درخشاں وتاباں ہے، چنانچہ یہ امر محقق ہے کہ امہات المومنین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا وسیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا وحدیث و تفسیر اور مسائل ِ دینیہ میں رتبہٴ بلند رکھنے کے ساتھ ساتھ تحقیق ودرایت کے میدان کی بھی شہہ سوار تھیں، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پروردہ تھیں، ان کے بارے میں تاریخ کا بیان ہے کہ:

”کَانَتْ أَفْقَہَ نَسَاءِ أھلِ زَمَانِھا“

( الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج:۲،ص:۷۵۶۔) کہ اپنے زمانے کی فقیہ ترین عورت تھیں،

سیدہ ام الدردادء الکبری رضی اللہ عنہا اعلیٰ درجے کی فقیہ اور عالمہ صحابیہ تھیں۔(تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، ج:۱۱، ص:۴۰۹۔)

سیدہ سمرہ بنت نہیک اسدیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں لکھا ہے کہ: ”وہ زبردست عالمہ تھیں، عمر دراز پائیں، بازاروں میں جاکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرتی تھیں اور لوگوں کو ان کی بے راہ روی پر کوڑوں سے مارتی تھیں۔“(الاستیعاب، ابن عبدالبررحمہ اللہ، ج:۲،ص:۷۶۰۔)

پھر یہ زریں سلسلہ دورِ صحابیات تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ تابعیات اور بعد کی خواتین کے زمانوں میں بھی ہمیں اس طبقے میں بڑی بڑی عالمہ، زاہدہ اور امت کی محسنہ وباکمال خواتین ملتی ہیں، چنانچہ مشہور تابعی، حدیث اور فن تعبیر الرؤیا کے مستند امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کی بہن حفصہ رحمہا اللہ نے صرف بارہ سال کی عمر میں قرآنِ کریم کو معنی ومفہوم کے ساتھ حفظ کرلیا تھا(تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانیؒ، ج:۱۱، ص:۴۰۹)

یہ فن تجوید وقراء ت میں مقامِ امامت کو پہنچی ہوئی تھیں، چنانچہ ابن سیرین رحمہ اللہ کو جب تجوید کے کسی مسئلے میں شبہ ہوتا، تو شاگردوں کو اپنی بہن سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے۔(صفة الصفوہ، ابوالفرج عبدالرحمن ابن الجوزی رحمہ اللہ ، ج:۴،ص:۱۶)

نفیسہ رحمہا اللہ جو حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب کی صاحبزادی اورامام اسحاق بن جعفر رحمہ اللہ کی اہلیہ تھیں، انہیں تفسیر وحدیث کے علاوہ دیگر علوم میں بھی درک حاصل تھا، ان کے علم سے خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بھی متعدد تعداد نے سیرابی حاصل کی، ان کا لقب ”نفیسة العلم والمعرفہ“ پڑگیا تھا، حضرت امام شافعی رحمہ اللہ جیسے رفیع القدر اہل علم دینی مسائل پر ان سے تبادلہٴ خیال کرتے تھے۔(تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، طالب الہاشمی ص:۱۲۲-۱۲۳۔)

مذکورہ حقائق سے یہ بات تو روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام جس طرح صنفِ لطیف کو دیگر حقوق بخشنے میں بالکل عادلانہ، بلکہ فیاضانہ مزاج رکھتا ہے، ویسے ہی اس کے تعلیمی حقوق کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے، بلکہ عملی سطح پر انھیں عطا کرنے کا بھی حد سے زیادہ اہتمام کرتا ہے۔

لہٰذا خواتین سے متعلقہ شعبہ جات کے علم کے لئے خواتین ہی کو علم حاصل کرنا ضروری بلکہ طب کے شعبہ میں انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کی تعلیم میں امورِ خانہ داری کی تربیت بھی شامل ہونی چاہیے، کہ یہ ان کی معاشرتی زندگی میں انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، سلائی، کڑھائی، پکوان کے مختلف اصول اور بچوں کی پرورش کے طریقے بھی ان کے نصابِ تعلیم کا حصہ ہونے چاہئیں، ان سے نہ صرف لڑکیاں گھریلو زندگی میں بہتر طور پر متوقع رول ادا کرسکتی ہیں، بلکہ ازدواجی زندگی کی خوش گواری، اہل خاندان کی ہردل عزیزی اور مشکل اور غیرمتوقع صورتِ حال میں اپنی کفالت کے لیے یہ آج بھی بہترین وسائل ہیں، ساتھ ہی لڑکیوں کے لیے ان کے حسبِ حال آدابِ معاشرت کی تعلیم بھی ضروری ہے، کیوں کہ ایک لڑکی اگر بہترین ماں اور فرماں بردار بیوی نہ بن سکے تو سماج کو اس سے کوئی فائدہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےخود بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرماتے تھے اور ان کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ ان کے لیے ایک دن مقرر کردیا تھا۔ (صحیح بخاری، کتاب العلم، باب ہل یجعل للنساء یوما علی حدة فی العلم ج:۱،ص:۵۷، عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ان کے حسب حال نصیحت فرماتے، چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ”خواتین کی دل بہلائی کا بہترین مشغلہ سوت کاتنا ہے۔“( کنزل العمال، باب اللہو واللعب والغنی، حدیث:۴۰۶۱۱) کیوں کہ سوت کاتنا اس زمانے میں ایک گھریلو صنعت تھی، بلکہ آج سے نصف صدی پیشتر تک بھی بہت سے گھرانوں کا گزرانِ معیشت اسی پر تھا۔

البتہ مخلوط نظام تعلیم سے متعلق بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اس کے نقصانات بھی عیاں ہے۔

دینی علوم اور خواتین:

تاریخ اسلامی کی مختلف جھلکیوں سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کے اندر حصولِ علم کے تئیں کس قدر شوق اور جذبہٴ بے پایاں پایا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے شوقِ طلب اور ذوقِ جستجو کی قدر کرتے ہوئے، ان کی تعلیم وتربیت کا کتنا اہتمام فرماتے تھے۔

فی زمانہ مختلف شعبہ جات میں جہاں خواتین تعلیم حاصل کر رہی ہیں، وہیں دینِ اسلام کی معرفت کا علم جو کہ امّ العلوم ہے، حقیقی علم بھی جس میں دین و دنیا دونوں کی کامرانی ہے۔ اس میدان میں بھی خواتین کا کردار انتہائی مستحسن ہے۔ خاتون اگر تعلیم یافتہ ہو تو وہ بہترین تربیت کرنے والی ماں جس کی گود انسان کی پہلی درسگاہ ہے، اصلاح کرنے والی بیوی جس کے ساتھ انسان کا کوئی راز پوشیدہ نہیں رہ سکتا سمیت کئی بےشمار فوائد حاصل ہوسکتے ہیں اور ایک بہتر معاشرہ قائم ہوسکتا ہے۔ نیز امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ بھی بخوبی انجام دیا جاسکتا ہے۔ (مزید ملاحظہ فرمائیں، مضمون: ’’دعوت و تبلیغ میں خواتین کا کردار‘‘، ماہنامہ اسوہ حسنہ ، کراچی، شمارہ5،ماہِ مئی2014 )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے