يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

اے ایمان والو تم پر روزےرکھنا فرض کیا گیاجس طرح کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا، تا کہ پرہیزگار ہو جاؤ۔

صوم کا لغوی مطلب :

امساک ، رک جانایا منع ہو جانا ہے، اور اصطلاحی اعتبار سے : صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ ہمبستر ی کرنے سے ،صرف اللہ کی عبادت کی نیت سے ، اسی کی رضا کے لئے رکے رہنا ہے۔

یہ عبادت چونکہ تزکیہ نفس اور طہارت کے لئے بہت اہم ہے اسی لئے اسے پہلی تمام امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔

چونکہ روزے کی حقیقت یہی ہے کہ کھانے پینے کی خواہش اور جنسی لذت حاصل کرنے کی خواہش پر کچھ وقت کے لئے پا بندی لگائی جائے ، مگر یہ بات خلاف عادت ہونے کی وجہ سے عام طبیعتوں پر گراں بھی ہو سکتی تھی اس لئے اللہ تعالی نے اس کی فرضیت کا حکم دینے کے ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی بتا دی کہ ر وزہ صرف تم پر ہی فرض نہیں کیا گیا ہے بلکہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیا جا چکا ہے اور لوگ روزہ رکھ بھی چکے ہیں اور یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے جو تم سے نہ ہو سکے ، اللہ تعالی کے اس ارشاد کو عربی کی اس ضرب المثل کی روشنی میں دیکھنا چاہیئے، عربی ضرب المثل کہ المصیبة اذا عمت خفت کوئی بھی مصیبت جب عام ہو جاتی ہے تو ہلکی لگنے لگتی ہے۔ پچھلے لوگوں پر بھی روزہ فرض ہونے کی اطلاع کا منشا یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ بات اس لئے ذکر کی گئ کہ روزہ دارروں کو معلوم ہو جائے کہ یہ کوئی ایسا حکم نہیں کہ جس پر عمل نہ ہو سکے۔

اس سے متصل آگے والی آیات میں اللہ رب العالمین نے روزوں کی اہمیت ، فرضیت و فضیلت اور احکامات ذکرکئے ہیں ، ان احکامات میں رمضان کے روزے کسی بیماری ، سفر یا دیگر کسی مجبوری کی وجہ سے چھوڑنا اور پھر بعد میں ان کی گنتی پوری کرنا یا پھر روزے میں کچھ ایسی غلطیاں کر گزرنا جن کا کفارہ ادا کرنا پڑے یا پھر ایسے مریض جو مرض کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکتے ہوں انہیں پھر ہر روزے کے بدلے مین فدیہ طعام ادا کرنا ہو گاجس کی مقدار تقریبا دو کلو گیہوں یا اس کی قیمت ہے۔

روزہ افضل ترین بدنی عبادات میں سے ہے جس کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ روزے دار کے خلوف یعنی منہ سے نکلنے والی مہک اللہ تعالی کے ہاں مشک و عنبر کی خوشبو سے بہتر ہے۔

خلوف عربی زبان میں منہ کی مہک کو کہتے ہیں جو روزے کی وجہ سے بدل جاتی ہے۔

ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺنے ارشاد فرمایا : جو شخص روزے پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے اجر و ثواب کی امید سے روزہ رکھتا ہے تو اس کے اگلے پچھلے۔قابل معافی۔ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

رمضان کے فرضی روزوں کے علاوہ نبیﷺؐ نے باقی گیارہ مہینوں میں مختلف مواقع پر روزے رکھنے کی ترغیب دلائی ہے جن میں شوال کے چھ روزے جنکی فضیلت کے بارے میں نبی کریم ﷺؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھےگا تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔ اسی طرح ذی الحجہ کی ۹ تاریخ یعنی یوم عرفہ کے روزے کی بھی ترغیب دلائی اور فرمایا کہ یوم عرفہ کا روزہ اگلے پچھلے دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے اور پھر اسی طرح محرم میں یوم عاشورہ کا روزہ جو کہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے اور پھر اسی طرح نبیﷺ ؐ نے ہر مہینے کے تین روزوں کی بھی ترغیب دلائی ہے یعنی ہر ماہ کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے جو کہ ایام بیض کے روزے کہلاتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کا ثواب ایسے ہے جیسے کوئی ہمیشہ ہی روزے رکھے اور اسی طرح نبیؐﷺ پیر اور جمعرات کے روزے بھی رکھتے تھے۔

روزے میں کچھ روحانی اجتماعی فوائد بھی حاصل ہوتے ہین، روحانی فائدہ تو یہ ہے کہ اس کے ذریعے روزہ دار صبر کا خوگر و عادی ہو جاتا ہے جس سے صبر کرنا آسان ہو جاتا ہے اور نفس کو قابو میں رکھنے کا علم ، تقوی اور خدا ترسی کا ملکہ پیداہو جاتا ہے ۔

روزے کے اجتماعی زندگی میں فوائد یہ ہوتے ہیں کہ پوری ملت اسلامیہ ایک مقررہ نظام زندگی کی عادی ہو جاتی ہے ، پورے رمضان کے مہینے میں ساری دنیا کے مسلمان ایک مقررہ خصوصی نظام زندگی پر عمل پیرا دیکھے جا سکتے ہیں اور اسی کے ذریعے ہمارے ملی اتحاد کا بھی مظاہرہو تاہے، عدل و انصاف اور مساوات باہمی کا جذبہ مزید محبوب ہو جاتا ہے اور روزے دار میں حسن اخلاق و جذبہ ترحم بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ ان وجوہ سے پوری ملت اسلامیہ اس زمانے میں بہت سے شر و فساد سے محفوظ رہتی ہے ۔

آخر میں اللہ رب العالمین سے خصوصی دعا کہ اللہ رب العالمین ہمیںاپنے ایک ایک احکام شرعیہ کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہو کر دوسرے مسلمانوں تک پہنچانے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین–

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے