اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی ضروریات کی تکمیل کا پورا سازو سامان کیا ۔ وہ اس طرح کہ ، ایک تو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل و بصیرت سے کام لے کر کائنات میں اللہ کی پیدا کردہ چیزوںکو جوڑ جوڑکر یا ان کو مختلف صورتوں میں ڈھال کر ایسی ایسی چیزیں بنالیتا ہے جن سے انسان کو تمدنی سہولتیں اور جسمِ انسانی کو راحتیں حاصل ہوتی ہیں۔گویا کچھ چیزیںازخود ہی انسان کی خدمت میں مصروف ہیں اور وہ یہ خدمت صرف اللہ کے حکم سے سر انجام دیتی ہیں۔ انسان کی اپنی رسائی تو وہاں تک ہے ہی نہیں۔ جیسے شمس و قمر کانظام ہے۔ سورج اپنے وقت پر نکلتا ہے اور اپنے وقت پر غروب ہوتاہے ۔ اسی طرح چاند کا اور دیگر مسخر (انسانی خدمت پر معمور) اشیاء کا معاملہ ہے اور کچھ چیزوں کو انسان نے اپنے ہنراور محنت و کاش سے اپنی خدمت کے قابل بنادیا ہے۔لوہے کی صنعت سے اس نے ہوائی جہاز، کار، بس، ریل وغیرہ بنائے، اے سی، پنکھے،ہیٹر،فریج،اور اس طرح کی بے شمار چیزیں بنائیں۔انسان کو یہ بصیرت اور عقل وشعور کس نے عطاکیا؟یہ بھی اللہ ہی کاعطا کردہ ہے۔

اس اعتبار سے وہ چیزیں جو اللہ کے حکم سےانسان کی خدمت میںلگی ہوئی ہیںیا انسان نے اللہ کی پیدہ کردہ چیزوں میںتصرف کر کے ان کو مختلف شکلوں میںڈھال لیا ہےیااللہ کی پیدہ کردہ غذائی اجناس کو مرکبات کی شکل دیکر انوع واقسام کے ذائقوںمیں تبدیل کرلیا ہےتو یہ سب اللہ ہی کی عطاکردہ نعمتیںاور اس کے احسانات ہیں۔ یہ نعمتیں اور احسانات ان گنت ہیں، یعنی اتنے ہیں کہ انہیں شمار نہیں کیا جاسکتا۔جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’

’وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

اور (ان مذکورہ بالا نعمتوں ہی پر کیا منحصر، وہ تو اتنی ہیں کہ) اگر تم لوگ اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو تو تم کبھی بھی انکو شمار نہیں کر سکو گے، (اسقدر نعمتوں پر بھی اس کی یہ ناشکری؟ اور پھر بھی اس کی طرف سے یہ چھوٹ، بخشش اور رحمت؟) بیشک اللہ بڑا ہی درگزر کرنے والا، انتہائی مہربان ہے۔ (سورہ نحل: آیت: ۱۸)

اِن اَن گنت نعمتوں اور بے پایاںاحسانات کے بدلے میںاللہ تعالیٰ انسان سے کیا چاہتاہے؟اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان صرف اسی ایک اللہ کی عبادت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کامقصدِ تخلیق یہی بیان کیا ہے

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْن

اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا اور کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں ۔ (سورہ الذاریات: آیت:۵۶)

ایک فارسی کے شعر میں اس بات کو اس طرح ادا کیاگیا ہے۔

ابرودومہ وخورشید وفلک درکار اند

تاتو نانے بکف آری وبغفلت نخوری

ہمہ از بہر تو سرگشتہ وفرماں بردار

شرط انصاف نباشد کہ تو فرمانبری

یعنی بادل، ہوا، چاند ، سورج اور آسمان سب خدمت میں لگے ہوئے ہیںتاکہ تجھے روٹی میسر آجائے اور تو غفلت کا ارتکاب نہ کرے۔ سب تیرے لیے سرگرم اور فرمانِ الٰہی کی بجاآوری میں مصروف ہیں، یہ انصاف کی بات نہیں ہوگی کہ تو اللہ کی فرماں برداری کامظاہرہ نہ کرے ۔

انسان کو اللہ نے اپنی عبادت کاجو حکم دیا ہے وہ اس لیے نہیں کہ اللہ کی بادشاہت اور سلطنت میںیااس کی قوت وشوکت میں اضافہ ہوجائےگا اور انسان اللہ کی عبادت نہیں کرے گا تو اس کی سلطنت یا قوت و شوکت میںکوئی کمی آجائے گی، ایسا ہرگز نہیںہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بے نیاز ہے اور بلا شرکتِ غیرے تمام اختیارات اور قوتوں کا مالک ہے، انسان اللہ کی عبادت کرے گا تو اس میںاسی کا فائدہ ہے اور اگر انسان اللہ کی نافرمانی کاراستہ اختیار کرےگا،تو اس سے اللہ کاکچھ نہیں بگڑے گاانسان خود ہی اپنی تباہی و بربادی کاسامان کرے گا۔ اس بات کو حدیثِ قدسی میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’

يا عبادي ، لو أن أولكم وآخركم وإنسكم وجنكم كانوا على أتقى قلب رجل واحد منكم ما زاد ذلك في ملكي شيئا ، يا عبادي لو أن أولكم وآخركم وإنسكم وجنكم كانوا على أفجر قلب رجل واحد ما نقص ذلك من ملكي شيئا ، يا عبادي لو أن أولكم وآخركم وإنسكم وجنكم قاموا في صعيد واحد فسألوني فأعطيت كل إنسان مسألته ما نقص ذلك مما عندي إلا كما ينقص المخيط إذا أدخل البحر‘‘

’’اے میرے بندو! اگر تمہارے اوّل اور آخر اور اسی طرح تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو (یعنی کوئی بھی نافرمان نہ رہے)تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اوّل وآخر، تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں جو تم میں سب سے بڑا نافر مان اور فاجر ہو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! اگرتمہارے اوّل وآخر، انسان اور جن سب ایک میدان میںجمع ہوجائیں اور مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق ادا کردوں تو اس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں کمی ہوتی ہے ‘‘(أخرجه مسلم في صحيحه.)

مسند احمد میں حدیثِ قدسی ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ ابن آدم، تفرغ لعبادتي، أملأصدرك غنى،وأسد فقرك، وإلا تفعل، ملأت صدرك شغلا، ولم أسد فقرك”

’’اے ابنِ آدم ! تو میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا، میں تیرا سینہ تونگری سے بھر دوں گااور تیری حاجتیں پوری کر دوں گا، اگر تونے ایسا نہ کیا تو میں تیرے سینے کو اشغال سے بھر دوں گااور تیری حاجت مندی کا راستہ بند کر دوںگا‘‘ (مسند احمد)

علامہ ابنِ کثیر نے تفسیر ابنِ کثیر میںسورہ الذاریات آیت56کے تحت لکھا ہے : ’’بعض آسمانی کتابوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابنِ آدم ! میں نے تجھے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ، لہٰذا تو اس سے غفلت نہ کر ۔ تیرے رزق کا میں ضامن ہوں ، تو اس میں بے جا تکلیف نہ کر ، مجھے ڈھونڈ تاکہ تو مجھے پالے جب تونے مجھے پالیا تو یقین مان کہ تونے سب کچھ پالیا اور اگر میںتجھے نہ ملا تو سمجھ لے کہ تمام بھلائیاں تونے کھودیں۔ سن! تمام چیزوں سے زیادہ محبت تیرے دل میں میری ہونی چاہیئے‘‘

اللہ تعالیٰ سورہ طلاق میں فرماتاہے :

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ   ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا

اللہ وہ ہے جس نے پیدا فرمایا (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے) سات آسمانوں کو اور زمین سے بھی انہی کے مانند ان سب کے درمیان اتر تے رہتے ہیں اس کے احکام (تکوینی و تشریعی اور تمہیں یہ اس لئے بتا دیا گیا ہے کہ) تاکہ تم لوگ یقین جان لو کہ اللہ (پاک) ہرچیز پر پوری قدرت رکھتا ہے اور (تا کہ تم لوگ اس کا بھی یقین کر لو کہ) بلاشبہ اللہ نے ہرچیز کو اپنے احاطہ میں لے رکھا ہے علم کے اعتبار سے ‘‘ (الطلاق،آیت: ۱۲)

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے واضح ہواکہ تخلیقِ کائنات اور اس میں انتظامی احکامات جاری کرنے سے مقصود اللہ تعالیٰ کی صفات کااظہار اور اس کے کمالات کا تعارف کرانا ہے۔

بہر حال انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک ، محسن و منعم اور کائنات کے مدبر و منتظم کاحاق پہچانے اور پھر اسے ادا کرنے کی کو شش کرے ۔ اللہ تعالیٰ کے یہ حق کون کون سے ہیں ؟ اور انہیں کس طرح اداکرنا ہے ، اس کی مختصر تفصیل ذیل میں کی جاتی ہے ۔

پہلاحق: توحیدِالٰہی

توحید کامسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے ۔ ہر رسول اور نبی نے سب سے پہلے اپنی قوموں کو اسی تو حید کی دعوت دی ، ہر ایک نے یہی کہا: ’’يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ‘‘   ’’اے میری قوم کے لوگو، تم بندگی کرو اللہ ہی کی، کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، ‘‘ (سورہ الاعراف، آیت: 59)

اللہ تعالیٰ نے پیغمبرِ آخر الزماں محمد رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ

’’ اور ہم نے آپ سے پہلے اے پیغمبر! جو بھی کوئی رسول بھیجا اس کو یہی وحی کی کہ کوئی معبود نہیں سوائے میرے پس تم سب لوگ میری ہی بندگی کرو‘‘ (سورہ الانبیاء،آیت : ۲۵)

نبی اکرم ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل tسے پوچھا:

’’يا معاذ، هل تدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ، وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ، وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا‘‘

’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا:اللہ اور اس کا رسول ہی زیا دہ جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں، اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ،اسے عذاب نہ دے۔ ‘‘ (صحیح بخاری ، حدیث :۲۸۵۶)

اور یہ حق تمام حقوق سے پہلے ہے ۔ نہ کوئی حق اس سے پہلے ہے، نہ اس سے بڑھ کر ہے۔ سورہٗ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

’’وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا

ۭ ‘‘اور تمہارا رب یہ فیصلہ کر چکا کہ تم نے بندگی نہیں کرنی مگر اسی کی، اور اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہے‘‘ (سورہ ، بنی اسرائیل:آیت : 23)

اور سورہ انعام میں بھی فرمایا:

قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا

’’ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں جو کچھ حرام کیا ہے تم پر تمہارے رب نے یہ کہ اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرانا کسی چیز کو، اور اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا‘‘ (سورہ بنی اسرائیل، آیت :151)

چونکہ یہ تمام حقوق سے افضل ہے، دین کے تمام احکام کی بنیاد ہے، اسی لیے نبئ کریم ﷺ مکہ مکرمہ کی تیرہ سالہ زندگی میں لوگوں کو اسی حق کے قائم کرنے کی دعوت دیتے رہےاور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کے شریک ہونے کی نفی کرتے رہے۔ قرآنِ کریم کی بیشتر آیات میں بھی اسی حق کو ثابت کیا گیا ہے اور اس کے بارے میں شبہا ت کی نفی کی گئی ہے ۔ ہر نمازی فرض نماز پڑھے یا نفل ، یہ الفاظ کہہ کر اسی حق کو ادا کرنے کا عہد کرتاہے۔

’’اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ‘‘

’’ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیںاور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘(سورہ فاتحہ ،آیت : 5)

توحید کی یہ حقیقت اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھی ہے

عبادت کا مطلب کیا ہے ؟

عبادت کا مطلب ہے ، کسی عظیم ہستی کو تمام اختیارات کاما لک سمجھ کر اس کے سامنے اپنی عاجزی، بے بسی اور لاچارگی کا اظہار کرنا۔

ایسی ہستی جس کی عظمت و قدرت کے سامنے انسان اپنے آپ کو بے بس محسوس کرے اور جو کچھ مانگنا ہو، اس کا عاجز بندہ بن کر صرف اسی سے مانگے۔ اسی کاخوف دل میںرکھے۔ اپنی امید یں صرف اسی سے وابستہ کرے ، نذرو نیاز صرف اسی کے نام کی دے ۔ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس طرح سمجھنااور کرنا یہ اللہ کی عبادت ہے۔اسی طرح نماز ادا کرنا، روزہ رکھنا ، بیت اللہ کاحج کرنا، زکوٰۃ دینا ، یہ بھی عبادات ہیں جو صرف اللہ ہی کے لیے کی جاسکتی ہیں ۔ نماز صرف اللہ کے لیے ، روزہ صرف اللہ کے لیے ، بیت اللہ کا حج اور اسکا طواف صرف اللہ کے لیے زکوٰۃ و انفاق صرف اللہ کے لیے۔ ان میں سے کوئی بھی کام اللہ کے سوا کسی اور کے لیے نہیں کیا جاسکتا، اگر کیا جائے گا تو یہ شرک ہوگا۔

ایک عام گمراہی:

اکثرلوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عبادت صرف اللہ کے لیے نماز پڑھنا اور صرف روزے رکھنا ہی ہے ۔ چنانچہ وہ اللہ کے سوا کسی کے لیے نماز نہیں پڑھتے ، کسی کے لیے روزے نہیں رکھتے ، لیکن کسی اور کے نام پر نذر و نیاز دینا ، کسی اور سے ماورائے اسباب طرقے سے استغاثہ و فریاد کرنا یعنی دعا کرنا ، اس کو وہ جائز سمجھتے ہیں اور فوت شدہ لوگوں کے نام کی نذر و نیاز بھی دیتے ہیں اور ان کو مدد کے لیے بھی پکارتےہیں ، حالانکہ نذرو نیاز بھی عبادت ہے اور ماروائے اسباب طریقے سے کسی کو حاجت روا، مشکل کشا، دور اور نزدیک سےہر ایک کی فریاد سننے والاباور کر کے اسے پکارنااور اس سے دعا کرنابھی عبادت ہے۔ اس آخری دو صورتوں میں غیر اللہ کی یہ عبادت عام ہے۔

شرک، انسانی فطرت کے خلاف ہے :

صحیح مسلم میں نبئ کریم ﷺ کافرمان ہے:

’’مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلاَّ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ وَيُمَجِّسَانِهِ ‘‘

’’ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے ، پھر بچے کے والدین اسے یہودی، عیسائی اور مجوسی بنادیتے ہیں‘‘

یہاں فطرت سے مراد وہی توحید ہے جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے ، جو اسلام کاامتیاز ہے ۔ دنیا میں پہلے صرف توحید ہی ےتھی شرک بعد میں پیدا ہوا۔اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں فرماتا ہے :

كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً   ۣ فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ۠ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ

’’سب لوگ شروع شروع میں ایک ہی طریقے پر تھے پھر ان میں اختلاف پڑنے پر اللہ نے اپنے پیغمبروں کو بھیجا خوشخبری دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر اور ان کے ساتھ اپنی کتابیں بھی اتاریں حق کے ساتھ تاکہ اس طرح وہ فیصلہ فرمائے لوگوں کے درمیان ان تمام باتوں کے بارے میں جن میں وہ اختلاف میں پڑے ہوئے تھے ‘‘ (سورہ البقرہ، آیت: 213)

شرک کا آغاز اور اس کی بنیاد:

سیدنا نوح علیہ السلام کی قوم نے سب سے پہلے شرک کیا ، اور اس کا آغاز اس وقت ہوا ، جب انہوں نے نیک لوگوں کی تعظیم میںغلو کیا۔ انہوںنے اپنے بڑے بڑے پانچ بت بنالیے تھے اور ان کی بابت وہ اتنے سخت تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا قول نقل کیاہے جیسا کہ اللہ تعالی سورہ نوح میں ارشاد فرماتاہے:

وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا ڏ وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا

’’اور انہوں نے (اپنے پیرؤوں سے) کہا کہ تم لوگ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور نہ ہی تم ود ، سواع اور یغوث، یعوق اور نسر کو کسی قیمت پر چھوڑنا‘‘

(سورہ النوح، آیت : 23)

امام بخاری سیدناعبداللہ بن عباسrسے روایت کرتے ہیں کہ ’’کہ یہ نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوںکے نام تھے ۔ ان کے انتقال کرنے پر شیطان نے ان کی قوم کے دلوں یہ بات ڈالی کہ ان مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے ، (ان کی یاد تازہ کرنے کے لیے) مورتیاں بنا کر رکھو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن اس نسل کےلوگوں نے ان مورتیوں کی پوجا نہ کی ۔ ان کی پوجا اس وقت شروع ہوئی، جب مورتیاں رکھنے والے فوت ہوگئے اور لوگ ان کی اصل حقیقت بھول گئے‘‘

اسی طرح امام ابنِ قیم فرماتے ہیں:

’’سلف میں کئی ایک نے کہا ہے کہ جب وہ نیک لوگ فوت ہوگئے تو انہوں نے ان کی مورتیاںبنا ڈالی اور پھر کافی مدت گزرنے کے بعد ان کی پو جاشروع ہوگئ۔‘‘

آپ غور کریںگے کہ شرک کس طرح شروع ہوا؟آپ کو معلوم ہو جائے گاکہ اس کی بنیادی وجہ بزرگوں کی محبت میںغلو ، یعنی انہیں ان کے مقام سے بڑھادینا ہی ہوتاہے۔ عیسائیوں کو بھی اسی غلو نے گمراہ کیا، انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی شان نے اتنا مبالغلہ کیا کہ انہیں اللہ یا ابن اللہ یعنی اللہ کا بیٹابنادیا ۔ آج کل کے بہت سے مسلمان بھی اسی غلو اور عقیدت کاشکار ہو کر مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا ہیں۔ وہ بھی بہت سے فوت شدہ بزرگوں کو الٰہی صفات کاحامل ٹھہراکر انہیں حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے پکارتے ہیں ۔ ان سے استغاثہ و فریاد کرتےہیں اور ان سے ضرر کااندیشہ اور نفع کی امید رکھتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ کے سوا کسی اور کی بابت اس قسم کا عقیدہ رکھنا شرک ہے اور شرک اتنا بڑا جرم ہے کہ کبھی معاف نہیں ہوگا۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا

’’ بیشک اللہ نہیں بخشتا اس (جرم) کو اس کے ساتھ شرک کیا جائے (کہ شرک بغاوت ہے) اور وہ بخش دے گا اسکے سوا دوسرے گناہوں کو جس کے لیے چاہے گا، اور جس نے شرک کیا اللہ کے ساتھ تو یقینا اس نے ارتکاب کیا بہت بڑے گناہ کا‘‘ (سورۃ النساء،آیت : 48)

اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں دوسرے مقام پھر یہی بات فرمائی:

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا

’’بیشک اللہ نہیں بخشے گا اس بات کو کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور وہ بخش دے گا اس کے سوا جو بھی گناہ ہوگا، جس کے لئے چاہے گا، اور جس نے شرک کیا، تو وہ یقینا (راہ حق سے) بھٹک کر جاپڑا دور کی گمراہی میں‘‘ ( سورۃ النساء،آیت : 116)

ایک اور مقام پر اللہ تعلی نے فرمایا:

ۭاِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ ۭوَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ

’’بلاشبہ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرایا تو یقینا اللہ نے حرام فرما دیا اس پر جنت کو، اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ الانعام میں فرماتا ہے :

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ

’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے آلودہ نہیں کیا اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ، انہی کے لیے ہے امن، اور وہی ہیں سیدھی راہ پر۔‘‘

سیدنا ابو ھر یرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا :

’اِجتَنِبُوا المُوبِقَاتِ: الشِرکُ بِااللہِ وَالسِحرُ‘‘

’’ شرک اور جادو سے بچو ، یہ ہلاک کرنے والے ہیں‘‘

سیدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا:اللہ اور اس کا رسول ہی زیا دہ جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ تھہرائیں، اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ،اسے عذاب نہ دے ‘‘

(صحیح بخاری ، حدیث :۲۸۵۶)

سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبئ اکرم ﷺ نے فرمایا:

” أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَبَشَّرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِی لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ‘‘

’’میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھے بشارت دی کہ میری امت میں سے جو شخص اس حال میں مرگیا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہوگا تو اس کے لیے جنت ہے ۔ میں نے کہا ، اگرچہ اس نے چوری کی ہو ، زنا کیا ہو ۔ جبریل علیہ السلام نے کہا:ہا ں ، اگر چہ اس نے چوری کی ہو زنا کیا ہو۔‘‘ ( صحیح بخاری : حدیث،6268)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

” إن الله يقول لأهون أهل النار عذابا: لو أن لك ما في الأرض من شيء كنت تفتدي به؟ قال: نعم، قال: فقد سألتك ما هو أهون من هذا وأنت في صلب آدم، أن لا تشرك بي، فأبيت إلا الشرك “

قیامت کے روز دوزخیوں میںسے سب سے کم عذاب والے سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگرزمین کی کل چیزیں تیری ہوں تو کیا ان سب کے بدلے میں اس عذاب سے نجات حاصل کرناپسند کرے گا ؟ وہ کہے گاہاں ! پسند کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائےگا کہ جب تو آدم کی پیٹھ میں تھا تو میں نے تجھ سے اس سے بھی کم چیز کا مطالبہ کیا تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شر یک نہ ٹھہرانامگر تونے انکار کیا اور شرک ہی کیا۔‘‘

ان آیات اور احادیث سے ثابت ہواکہ شرک سے بڑا گناہ کوئی نہیں ا ور یہ ناقابلِ معافی ہے۔ دوسرے گناہ معاف ہو سکتے ہیں لیکن شرک معاف نہیں ہوگا ۔

شرک کی اقسام اور مختلف شکلیں :

مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں اب دیکھنا یہ ہے کہ ہما رے ہاں شرک کس کس شکل میں موجود ہے ۔

اللہ کے سواکسی دوسرے کو سجدہ کرنا شرک ہے ، لہٰذا جو لوگ قبروں کو سجدے کرتے ہیںیا تصاویر او ر بتوں کو سجدے کرتے ہیں وہ مشرک ہیں ۔

اللہ کے برابر کسی دوسرے کاعلم ماننا ، یہ بھی شرک ہے۔ بہت سے لوگ نبئ اکرم ﷺکاعلم اللہ کے علم کےبرابر مانتے ہیں، چنانچہ ایسے لوگ بھی مشرک ہیں۔

ہماری دعائیں اللہ کے سواکوئی نہیں سن سکتا، اگر ہم یہ خیال کرلیں کہ فلاں فلاں بزرگ بھی ہماری دعائیں سنتے ہیںتو یہ بھی شرک ہے۔

اللہ تعالیٰ سورۃ الروم میں فرماتے ہیں :

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ۭ هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ‘‘

’’اللہ وہی تو ہے جس نے تمہیں پیدا فرمایا پھر اس نے تمہاری روزی کا بندوبست کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے (اور دے گا) پھر وہی تم کو زندگی بھی بخشتا ہے (اور بخشے گا) کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کر سکے وہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں‘‘(سورۃ الروم ، آیت : 40)

لاإلٰہ إلا اللہ کے صرف الفاظ کہہ دینے کافی نہیں ، اس کے معانی بھی جاننے ضروری ہیں اور وہ معانی صرف زبان سے اس بات کا اظہار کردینانہیں ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، بلکہ ان الفاظ کی روح معلوم ہونی چاہیے۔ ہم پورے خلوص سے اس روح پر کاربند ہوں ۔ وہ روح یہ ہے کہ آپ کے دل میں اس کے سواکوئی اور نہ ہو۔ اللہ کے سوا کسی پر آپ کا بھروسہ نہ ہو ۔ صرف زبان سے توحید کااظہار کچھ بھی مفید نہیں ، جب تک کہ دل لاإلٰہ إلا اللہ کاقائل نہ ہو ۔شاعرِمشرق نے کیا خوب کہاہے۔

زباں سے کہہ بھی دیالا الٰہ تو کیاحاصل

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے