ماہ ذوالحجہ کے آتے ہی ایک پررونق فضا پھیل جاتی ہے ایک عجیب ہی سماں نظر آتا ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے منڈیاں سچ جاتی ہیں ۔ چھوٹے بڑے سب ہی مصروف نظر آنے لگتے ہیں ۔ بھیڑ ، بکری ، گائے وغیرہ کی خریدوفروخت بڑے شوروں پر ہوتی ہے ہر جگہ لوگوں کاجمگھٹا نظر آتا ہے کوئی یہاں سے وہاں اور کوئی وہاں سے یہاں آنے جانے میں مشغول نظر آتا ہے ، یہ بات بڑے زور وشور سے ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہے جی عید قربان آرہی ہے قربانی کرنی ہے ۔

خطباء وواعظین سے کچھ مسائل سن کر جستجو میں رہتے ہیں کہ جی جانور عیب دار نہ ہو کیونکہ اس قسم کے جانور کی قربانی کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے ۔

قارئین کرام! اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ جانور خوبصورت عمدہ ہو دیکھنے میں بھلا لگتا ہو ، کسی قسم کا کوئی عیب نہ ہو ، اس جیسی چیزوں کا خیال رکھنا ضروری لیکن ان تمام تر کاوشوں کے پیچھے چھپی حقیقت کو کم ہی لوگ جانتے ہیں یعنی اس قربانی کے مقاصد سے چند لوگ ہی آشنا ہیں آج ہم اس مناسبت سے مختصراً مقاصد قربانی کو ذکر کریں گے تاکہ کوئی جانور کو ذبح کرنے کی حد تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس کے مقاصد واہداف سے بھی باخبر رہے۔

جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ قربانی کے اہداف ومقاصد تو بہت ہیں ہم چند ہی ان میں سے ذکر کرتے ہیں۔

۱۔الرضا بالقضاء (اللہ تعالیٰ کے ہر (حکم) اور فیصلے پر راضی رہنا)

قربانی کا سیرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑا گہرا تعلق ہے اگر حیات ابراہیم علیہ السلام پر طائرانہ نظر گھمائیں تو معلوم ہوتا ہےکہ ان کی زندگی میں بڑے بڑے امتحان وابتلاء آتے رہے بڑے کٹھن مراحل آئے لیکن ان تمام چیزوں کو خندہ پیشانی سے جھیل کر درجہ اول پر فائز رہے۔

جیسا کہ ابتدائ میں ہی حکم الٰہی کے تحت جب لوگوں کو دعوت دین دینے لگے تو اس کی بدولت پرائے تو کیا اپنے بھی ان سے بیگانے ہوگئے خود ان کا والد اعداء کی صف میں جاکھڑا ہوا جس سے مشرکین کا رد عمل بڑا سخت تھا بلآخر وہ دن بھی آیا جب ابراہیم علیہ السلام نے عید کے روز ان کے خود ساختہ معبودوں کو توڑ پھوڑ دیا جس پر انہوں نے بڑی برہمی کا اظہار کیا ، ان کے اور ابراہیم علیہ السلام کے مابین مکالمہ ہوا جس میں ان کو بڑی خجالت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ابراہیم علیہ السلام نے ان پر حجت تمام کر دی اور ان کی ضلالت وسفاہت کو ایسے طریقے سے ان پر واضح کر دیا کہ وہ لا جواب ہوگئے تو چونکہ وہ توفیق ہدایت سے محروم تھے اور کفر وشرک نے ان کے دلوں کو بے نور کر دیا تھا اس لیے بجائے اس کے کہ وہ شرک سے تائب ہوتے، الٹا ابراہیم علیہ السلام کے خلاف سخت اقدام کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنے معبودوں کی دہائی دیتے ہوئے انہیں آگ میں جھونک دینے کی تیاری شروع کر دی۔

محترم قارئین! اس کڑے اور کٹھن وقت میں بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدم ڈگمگائے نہیں اور نہ ہی اپنی زبان مبارک سے ایسے الفاظ ادا کیے جو اللہ جل جلالہ کی ناراضگی کا سبب بنیں ورنہ دیکھا جائے تو اپنے پرائے ساتھ چھوڑ کر چلے گئے اس پر مستزاد یہ کہ خون کے پیاسے بن گئے اس نازک حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر راضی رہے اپنے مولا سے لا تعلقی کا اظہار نہیں کیا اپنے رب سے ناتہ نہیں توڑابلکہ بڑے عمدہ الفاظ میں اپنے مولا کو یاد کرتے رہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جارہا تھا تو اس وقت ان کے لبوں پر یہ دعا تھی :

حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ

(البخاری ، کتاب التفسیر ، رقم الحدیث : 4563)

دنیا والوں نے دیکھا جب ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کو نہ بھولے تو اللہ تعالیٰ نے کیسے ایک کو تمام پر غالب کر دیا جو آگ آسمان سے باتیں کر رہی تھی وہی دھکتی آگ ابراہیم علیہ السلام پر گلزار بن گئی۔

محترم قارئین ! جب ابراہیم علیہ السلام اپنا وطن اعزہ واقارب اور سب کچھ چھوڑ کر ایسی جگہ جارہے تھے جہاں وہ اپنے رب تعالیٰ کی عبادت بلا روک ٹوک کر سکیں ، اسی اثناء میں وہ یہ دعا بھی کرتے رہے۔

رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ

اے میرے رب! مجھے نیک بخت(لڑکا) عطا فرمایئے۔ (الصافات:100)

اس دعا کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ان کو اولاد نرینہ عطا فرمائی ۔

فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ

’’تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔‘‘(الصافات : 101)

جب اس بچے کی ولادت ہوئی تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اس بچے اور اس کی ماں کو اس جگہ چھوڑ آؤ جہاں انسان تو کیا کوئی پرندہ تک نہیں رہتا ، کھانے کی چیز کیاپینے کا پانی تک نہیں یعنی ایسی بے آب وگیاہ جگہ کہ سیدہ ہاجرہ بھی بول اٹھی کہ ’’ اے ابراہیم علیہ السلام ہمیں ایسی جگہ چھوڑ کر کہاں جارہے ہو جہاں کوئی انسان ہی نہیں بستا؟ (بخاری ، کتاب أحادیث الانبیاء، رقم الحدیث : 3364)

لیکن اس عالم میں بھی ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم پر دل میں کوئی تنگی محسوس نہیں کی کہ اکلوتہ بیٹا جو ابھی شیر خوار ہے اس کو ایسی جگہ کیسے چھوڑ آؤں یہ توبچے پر ظلم ہوگا اس کی ماں کے ساتھ ناانصافی ہوگی ، وہاں کھانے پینے کا کوئی سامان نہیں ان کا کیا بنے گا ۔۔۔

لیکن اس کے برعکس ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہیں یہاں تک کہ جب بیوی وبچے کو وہاں چھوڑا تو پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔

یہ ہوتا ہے اللہ کے ہر فیصلے اور حکم پر راضی رہنا اسی عنوان کے ساتھ تعلق رکھنے والا یہ قصہ ذکر کرنا چاہوں گا ۔

جب یہ ہی بیٹا کچھ بڑا ہوا ، دوڑا دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو اب حکم ہوا کہ اپنے اس کلیجے کے ٹکڑے کو ذبح کرو ۔ ارشاد الٰہی ہے :

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى

’’ پس جب وہ ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو انہوں نے کہا : اے میرے پیارے بچے بے شک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ واقعی میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو تم دیکھو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ (الصافات : 102)

محترم قارئین ! ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر تھوڑی دیر کے لیے سوچیں وہ کیسی کیفیت ہوگی مطالبہ کسی گائے ،بکرے،اونٹ وغیرہ کی قربانی کرنے کا نہیں بلکہ ایک باپ اپنے اکلوتے پھول جیسے بچے کو ذبح کرنی باتیں کر رہا ہے آج ہمارا تو یہ حال ہے جانور کی قربانی کرتے وقت بارہا سوچتے ہیں کوئی سستا مل جائے کوئی بہانا بنا لیتے جی طاقت نہیں مفروض ہوں وغیرہ ۔

لیکن قربان جاؤں ایسے باپ اور بیٹے پر جنہوں نے حکم الٰہی کے سامنے ذرا سی بھی لب کشائی نہیں کی بلکہ باپ ذبح کرنے اور بیٹا ذبح ہونے کے لیے تیار ہوگئے حتی کہ زمین پر بھی لٹا دیا اتنے میں آواز خداوندی آئی۔

وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ o قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ

’’ اور ہم نے اسے آواز دی ، اے ابراہیم ! واقعی تم نے خواب سچ کردکھایا۔‘‘(الصافات : 104۔105)

اس سے واضح ہوگیا کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں ابراہیم علیہ السلام کو کوئی چیز بھی عزیز نہ تھی حتی کہ ان کا اکلوتہ بیٹا بھی یقینا یہ بہت بڑا امتحان تھا جس میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام سرخرو ہوکر درجہ اول پر فائز ہوئے جس کی گواہی اللہ کا قرآن بھی دیتا ہے ۔

إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ

ــــ’’ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔‘‘(الصافات : 106)

مذکورہ واقعات سے یہی پتا چلا کہ قربانی کا مقصد اول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر راضی رہنا کسی مشکل گھڑی میں اپنی زبان سے کوئی نازیبہ جملہ نہ بولیں ، جیسا کہ گزشتہ سیلاب میں گھرے لوگوں کی باتیں سنیں جو یہ کہہ رہے تھے کہ ’’ اللہ تعالیٰ کو ڈبونے کے لیے صرف ہم ہی ملے ، مصیبتیں صرف ہم ہی کو دیناتھیں ، ہمیں تکلیف دے کر اللہ کو کیا ملا ۔‘‘ (نعوذ باللہ من ذلک )

ایسی باتیں کفر ہیں اللہ کے شان میں توہین ہے تو ایسے الفاظ کو زبان پر تو کیا دل میں بھی نہیں لانا چاہیے۔

حصول تقوی :

قربانی کا دوسرا بڑا مقصد تقوی کا حصول ہے ظاہر ہے کہ قربانی کا گوشت یا اس کی کھال وغیرہ کوئی چیز اللہ کی طرف تو نہیں جاتی مقصد اس سے انسان کے اندر موجود وہ تقوی وپرہیزگاری ہے جسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ بندے کی قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ

’’ اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کو خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ ‘‘ (الحج:37)

جب انسان کے دل میں تقوی کا مادہ جاگزیں ہوگا تو اس کے ہاتھ ، پاؤں ، آنکھ ، کان ، زبان بلکہ پورا جسم ہی محرمات سے اجتناب برتے گا۔

اگر انسان کا دل تقوی نامی چیز سے عاری اور خالی ہو تو پھر چاہے وہ آدمی کتنی مہنگی ، اچھی اور عمدہ قربانی کیوں نہ کرے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قربانی کا پھوٹی کوڑی کے برابر بھی وزن نہ ہوگا اس ذبیحہ کی کوئی وقعت نہ ہوگی ایسے ہی آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں نے بھی قربانی پیش کی تھی ان میں سے ایک کا دل تو نور تقویٰ سے منور تھا ، تقوی جیسی عظیم نعمت سے مالا مال تھا جبکہ دوسرے کا دل اس بنجر زمین کی طرح تھا جو تقوی کے شریں پانی سے محروم تھا جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب میں فرمایا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ

’’ آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا کھرا کھراحال بھی انہیں سنا دو ، ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا ، ان میں سے ایک کی نذر تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ میں تجھے مارہی ڈالوں گا ، اس نے کہا اللہ تعالیٰ تقوی والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔ ‘‘ (المائدۃ : 27)

اس سے واضح ہوگیا کہ قربانی کا مقصد تقوی کا حصول ہے جس کے بغیر قربانی رائیگاں ہوجاتی ہے ۔

اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و سلم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع واطاعت ہر امر میں بہت ضروری ہے جس کی اہمیت کا ذکر ہمیں قربانی کے اس باب میں بھی ملتا ہے چنانچہ کوئی کتنا ہی صاحب عزم واستقلال متقی وپرہیزگار اور محب ومخلص کیوں نہ ہو جب تک آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے نقشہ قدم پر عمل پیرا نہ ہوگا تو ساری زندگی کی کیے ہوئے اعمال جو حجم میں پہاڑوں کے برابر ہیں لیکن ان سب کو پراگندہ ذروں کی طرح کردیا جائے گا جس کے لیے کوئی ترازو نہیں لگایا جائے گا ۔ زندگی بھر کی کمائی چٹ ہوجائے گی۔ ارشاد خداوندی ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ

’’ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔‘‘ ( محمد : 33)

بالکل اسی طرح ، عزم واخلاص اور تقوی وپرہیزگاری ہونے کے باوجود اگر طریقہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نہ ہوا تو یہ قربانی نہیں کہلاتی جس کی دلیل سنن ابی داؤد میں موجود یہ حدیث ہے ۔

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید الاضحیٰ کے دن عید کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا جس میں آپ نے فرمایا کہ جس نے ہماری جیسی نماز پڑھی اور ہماری جیسی قربانی کی تو اس نے قربانی کی (یعنی اس کو قربانی کا ثواب ملے گا) اور جو شخص عید کی نماز سے پہلے قربانی کرلے تو وہ تو بس بکری کا گوشت ہے (یعنی اس کو قربانی کا ثواب نہیں ملے گا) یہ سن کر ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے تو نماز کو جانے سے پہلے قربانی کر لی۔ اور میں یہ سمجھا کہ یہ دن تو کھانے پینے کا ہے پس میں نے جلدی کی میں نے خود بھی کھایا اور اپنے اہل وعیال کو بھی کھلایا اور اپنے پڑوسیوں کو بھی۔ آپ نے فرمایا یہ بکری تو گوشت کی بکری ہوئی (یعنی قربانی نہ ہوئی) تو ابوبردہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے پاس ایک جذعہ بکری ہے وہ گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہے کیا وہ میرے لئے قربانی کے طور پر کافی ہوگی؟ آپ نے فرمایا ہاں! مگر تیرے سوا کسی کے لئے پھر کافی نہ ہوگی ۔(سنن ابی داؤد ، کتاب الضحایا ، باب ما یجوز فی الضحایا ، رقم الحدیث : 2800، شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیاہے)

حضرات گرامی! اس حدیث کو بغور پڑھیں کہ نماز عید سے پہلے قربانی کرنے والے صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جن کی نیت یہ ہی تھی آج تو سارے ہی قربانی کریں گے کیوں نہ میں سب سے پہلے قربانی کرکے لوگوں تک اس کا گوشت پہنچاؤں ، اور ان کی اس نیت صالحہ پر کسی کو کوئی شک بھی نہیں لیکن طریقہ ٔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ہٹ کر ہونے کی وجہ سے وہ قربانی ایک عام بکری کے گوشت میں تبدیل ہوگئی اور اس کی جگہ ان کو دوسری قربانی کرنی پڑی۔

معلوم ہوا کہ ہمارے معاملے میں اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و سلم بہت ضروری ہے جس کے بغیر کوئی عمل کتنا اچھا کیوں نہ ہو وہ قبول نہیں ہوگا ۔

قارئین کرام ! اس تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ قربانی کے کئی ایک مقاصد ہیں جن میں سے چند کو ہم نے اپنے ناقص علم کے مطابق آپ احباب کے سامنے پیش کیا ۔

۱۔ اللہ تعالیٰ کی مشیئت ، فیصلے اور حکم پر راضی رہنا ۔

۲۔ تقویٰ کا حاصل ہونا۔

۳۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نقش قدم پر چلنا ۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام اہل ایمان کی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں منظور مقبول فرمائے اور جملہ مقاصد قربانی حاصل ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے