میرے والد محترم مجھے ریاض پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے لیکن اس اجازت کی ایک صورت ہو سکتی ہے کہ جب وہ مطمئن ہو جائیں کہ آپ میرے ساتھ ہیں اور آپ لوگ مجھے شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔اللہ کی قسم میں دنیاوی مال و اسباب میں سے کچھ بھی نہیں لینا چاہتا میرے لیے ایک روٹی ہی کافی ہے جو مجھے یہاں والد کے گھر میں بآسانی مل سکتی ہے لیکن میں یہاں نہیں رہ سکتا اور جلاوطنی کی ذلت کو میں برداشت نہیں کر سکتا۔اللہ کی قسم میں آپ لوگوں کے ساتھ سب سے آگے سینہ سپر رہوں گا اور اگر مجھے راستے میں کچھ ہو جائے تو آپ میرا بدلہ بھی نہ لیں اگر اللہ تعالی کا فضل ہو جائے اور وہ ہمارے لیے دروازے کھول دے تو وہ تمام بھائیوں کے لیے ہوں گے ہم سب برابر ہوں گے میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہماری سلب شدہ عزت جو میری اور آپ کی عزت ہے وہ بحال ہوجائے۔

یہ وہ کلمات تھے جو 24 سالہ شہزادہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے چچا زاد بھائیوں کے سامنے اس وقت کہے جب وہ ریاض پر حملہ کرنا چاہتے تھے ان کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف قبضہ اور تسلط مقصد نہ تھا بلکہ کچھ اور ہی تھا جو آنے والے دنوں میں اس خطے نے عملی طور پر دیکھا۔

رات کے اندھیرے میں صرف چالیس سوار ، 30 بندوقیں اور 200 ریال کا حقیر زاد راہ لے کر کویت سے نکلے اور یہ چھوٹی سی فوج وفاداری جاں نثاری اور ایمانی جذبات سے بھرپور رات کو چلتی اور دن کو آرام کرتی، بھوک پیاس کے مسائل کا ساتھ 3 شوال کو ریاض کے قریب شقیب تک پہنچ گئے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس مختصر فوج کو بھی تین حصوں میں تقسیم کر کے 15 جنوری 1902 کو رات میں شمسی باغات پہنچے ۔ اور یہ تاریخ کی عجیب ترین فوج تھی روداد ہے کہ نوجوان دلیر شہزادہ نے صرف 7 بہادر نوجوانوں کو اپنے ساتھ لیا اور باقی 33 کو چھوٹے بھائی محمد کی قیادت میں چھوڑا اور ان سے کہا کہ کل تک ہمارا پیغام نہ ملے تو فورا یہاں سے نکل جانا اور سمجھ لینا کہ ہم اللہ کی راہ میں شہید ہو چکے ہیں ۔تاریخ کے اوراق نے اپنے ان بیٹوں کے نام بھی محفوظ کیے ہوئے ہیں: عبدالعزیز، فہد عبداللہ، عبداللہ ، ناصر، معشوق، سلطان آخر الذکر دونوں شہزادہ عبدالعزیز کے ذاتی ملازم تھے۔

وقت کے اعتبار سے یہ مختصر ترین لڑائی تھی جو کہ 15 جنوری 1902 میں ابن رشید کے کارندے عجلان کے خلاف کی گئی 7 کا مقابلہ 80 سے زائد افراد سے تھا جس کا نتیجہ یہ تاریخی اعلان تھا : شہزادہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود ریاض میں داخل ہو گئے ہیں اس طرح امت مسلمہ کی سرکردگی کے شاندار دور کا اغاز جس معرکے سے ہوا وہ 16 فروری 1901 میں ہوا اور اختتام 22 جون 1925 میں اس وقت ہوا جب 1924 میں جدہ داخل ہوئے اس سے قبل 1924 میں مکہ اور 1925 میں مدینہ حاصل کیا گیا ۔اس کے بعد اس کے استحکام کی منصوبہ بندی اس منظم انداز میں کی گئی کہ دنیا حیران رہ گئی اور یہاں یہ بات بھی مدنظر رہے کہ یہ پروگرام مکمل تسلط کے بعد شروع نہیں کیا گیا بلکہ 1912 میں شروع کیا گیا جب ابھی مکمل طور پر غلبہ حاصل نہیں ہوا تھا اس کے ساتھ فلاحی ریاست کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی دوراندیشی ظاہر ہوتی ہے ۔اور یہ بھی واضح رہے کہ پہلی جنگ عظیم کے وقت جزیرہ عرب کے علاقے دنیا میں مختلف طاقتوں کے زیر تسلط تھے انہیں انتہائی قلیل مدت میں ایک لڑی میں پرونا یہ ایک ایسا عظیم الشان کارنامہ تھا جو عدیم المثال ہے۔ملک شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کسی یونی ورسٹی یا اعلی تعلیمی ادارے کے متخرج نہیں تھے لیکن ان کے اصلاح معاشرہ کے ہمہ جہتی پروگرام کو تفصیل سے بیان کرنا ان سطور میں ممکن نہیں لیکن یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ تھا : قبائلی اور خانہ بدوشی کے انداز میں زندگی گزارنے والے قبائیلیوں کو رہائش فراہم کرنا ، تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا اور انہیں زراعت کے طریقے سکھانا اس مقصد کے حصول کے لیے ہمہ جہتی منصوبہ بندی کی گئی ، ہر گاوں میں ایک عالم دین کا تقرر کیا تاکہ وہ لوگوں کو عقیدہ توحید و رسالت کی تعلیم دے اور انہیں اخلاق حسنہ سکھائے کہ یہ اسلامی تعلیم کی بنیاد ہے ۔اور یہ کہ ان کی طبیعت اور عادات کی اصلاح کر کے احترام انسانیت اورکلمہ کی بنیاد پر محبت کو رائج کرنا اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس کے ذریعے باہمی اتحاد اور وحدت کی تربیت بھی شامل تھی۔ یہ علماء مملکت کے ساتھ اخلاص ، رواداری اور علم و انصاف کا درس دیتے۔ اس کے علاوہ ہر گاوں کی تعمیر میں تمام سہولیات کو مدنظر رکھا گیا اور پانی کے کنویں کھودے گئے اور ہر گاوں میں ایک مسجد تعمیر کی گئی اس طرح شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے زراعتی، تعلیمی ، دینی محاذوں پر بے مثال کامیابی حاصل کر کے ایک مضبوط اور مستحکم ریاست کی بنیاد رکھی یعنی بدوی زندگی سے نکال کر شہری زندگی اختیار کرانا انہیں جذبہ جہاد سے سرشار کرنا جزیرہ عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بدوی حضرات کو ملکیت پر مختلف قطعات اراضی دیے گئے۔

اگر ہم اس پروگرام کو مختصر بیان کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اس پروگرام سے عرب کے باسیوں کی زندگی میں عملا انقلاب بپا ہو گیا تھا پابند صوم و صلوۃ ، زرعی ماہر، تعلیم و تربیت کا حصول، مختلف اقسام کی مصنوعات تجارت مثلا اونی سامان، قالین بافی، چمڑے کی تیاری وغیرہ کے طریقے سیکھ گئے۔مختلف گاوں کے مابین روابط کے لیے راستوں کی تعمیر اور ضروریات زندگی کے لیے بازاروں کا قیام، مختلف امور پر مشاورت کے لیے مساجد کے ساتھ ہی دارالندوۃ کا قیام عمل میں لایا گیا۔یعنی اس تمام پروگرام کے مثبت پہلووں پر غور کیا جائے تو مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں : ایک نیا معاشرہ کا قیام جس کے باسی صحٰح عقیدہ کے حامل ہوں، شہریوں کے مابین اراضی کی ملکیت کی بنیاد پر تقسیم، ہر شعبہ حیات کو منظم انداز میں مرتب کیا گیا، علماء و مشائخ کا تقرر بغرض تعلیم و تربیت، ہر گاوں میں تعمیر مسجد، قبائلی لڑائی جھگڑوں کا خاتمہ، ایک جماعت کا تصور، اقتصادی تنظیم نو، باقاعدہ ایک منظم فوج کا قیام، دارمشاورت۔

ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ بے مثال قوت حافظہ اور بے نظیر یادداشت کے حامل،علم الانساب کے ماہر تھے عرب کے تمام قبائل کے بارے میں مکمل معلومات حاصل تھی اس کی بنیاد ان کے والد کی وہ مجالس تھیں جس میں مختلف علماء اور قبائلی سرداروں کی آمدورفت جاری رہتی تھی ان مجالس میں تبادلہ خیالات کیا جاتا تھا جس سے وہ بہت کچھ سیکھتے تھے ۔شاہ عبدالعزیز ایک مثالی زندگی کے حامل تھے یہ ایک روایتی بادشاہ کی زندگی نہ تھی بلکہ ایک قائد ، ایک عظیم لیڈر ، انسانیت کے ایک محسن ، عالم اسلام کے ایک عظیم لیڈر کی زندگی تھی جس نے صحرا میں رہتے ہوئے زندگی کے مقاصد کو حاصل کیا ۔

شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی افواج نے جب مکہ المکرمۃ میں داخل ہونا چاہا تو باقاعدہ پہلے علماء سے فتوی حاصل کیا کہ مکہ المکرمۃ میں کس طرح داخل ہونا چاہیے۔علماء کرام نے فتوی دیا : کہ آپ مکہ المکرمۃ میں داخل ہو سکتے ہیں لیکن حج و عمرہ کی نیت سے اور جب مکہ المکرمہ میں داخل ہوں تو آپ کے اسلحے کا رخ زمین کی طرف ہونا چاہیے ساتھ ہی وہاں کے رہنے والوں کے لیے امن و امان کے نعرے لگانے چاہیے وہاں کے علماء اور امراء سے بات چیت کرنا چاہیے اور لڑائی مطلقا حرام ہے۔

شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس فتوی کی روشنی میں اپنے سپہ سالاروں کو ہدایت جاری کی کہ اس کی مکمل پابندی کی جائے اور مکہ المکرمۃ میں داخل ہوتے وقت آل سعود کی افواج تلبیہ زور زور سے پڑھ رہے تھے اور یہ تایخی جملہ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مکہ روانہ ہونے سے قبل ادا کیا تھا کہ : میں مکہ المکرمۃ جا رہا ہوں ان پر مسلط ہونے کے لیے نہیں بلکہ ان سے ظلم دور کرنے کے لیے تاکہ شریعت کا نفاذ ہو کیونکہ کہ آج کے بعد کوئی حکمران نہ ہوگا بلکہ شریعت ہو گی اور ہمیں چاہیے کہ ہمارے ماتھے صرف اللہ تعالی کے آگے ہی جھکیں۔

اس طرح 25 سالہ جہود کی تکمیل سعودی عرب کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے اور اس کے بعد آل سعود کی حکمرانی کی سب سے بڑی خوبی علماء کرام کے ساتھ مشاورت تھی اور مکہ المکرمہ میں شہریوں اور علماء اور عمائدین کے اجلا س سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے جس نے محبت کی اس نے اللہ تعالی سے محبت کی جس نے ان کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی اور توحید کا مقصد اللہ تعالی پر ایمان عبادات میں خلوص اور صرف اللہ تعالی کی عبادت ہے ۔اور یہ کہ ہمارے بارے میں یہ زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا کہ ہم نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں پڑھتے اور اسے شرک سمجھتے ہیں جبکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی اور ہم اسے نماز میں پرھتے ہیں اور یہ بھی مشہور کیا گیا کہ ہم شفاعت رسول کے منکر ہیں ہم تو دعا کرتے ہیں کہ : یا اللہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرما۔ ہم میں سے کوئی بھی اولیاء کرام سے بغض نہیں رکھتا لیکن حقیقی محبت یہ ہے کہ تقوی میں ان کے طریقے پر عمل کیا جائے ہم چاروں آئمہ کرام کا احترام کرتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے ۔ہمارے لیے حجت صرف کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔

اور اس کا ایک مظہر شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ علماء کرام کی حد درجہ تکریم کیا کرتے تھے کہ جمعہ کا دن عصر کے بعد ان کے لیے مختص کر دیا اور پہلی مجلس میں یہ فرمایا : میں ہر وقت آپ سے ملنا چاہتا ہوں اور آپ سے کھل کر بات کرنا چاہتا ہوں۔

اور عوام الناس کے حوالے سے آپ کا اعلان تھا کہ میں ان سربراہان مملکت میں سے نہیں ہوں جو تکبر و غرور کرتے ہیں میرادروازہ ہر ایک کے لیے کھلا ہے میں ہر بات سننے کے لیے تیار ہوں ہر شخص اپنی رائے سے مجھے آگاہ کرے جو زبانی بات کر سکتا ہے وہ کرے جو لکھ کر دینا چاہے وہ بھی دے سکتا ہے اگر کسی چیز کی ضرورت ہو اس تو اس کے بارے میں بھی مجھے آگاہ کرے۔

پورے حجاز پر غلبہ کے بعد سب سے پہلے جس امر پر آپ نے توجہ دی وہ امن و امان کی بحالی تھی اور اس ضمن میں ایک بہت بڑا کارنامہ مجلس شوری کا قیام تھا جس کے اراکین خود حجاز کے اہل افراد تھے۔

23ستمبر کا دن اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ ایک شاہی حکم نامے کے ذریعے جزیرہ نمائے عرب کا نام مملکت سعودی عرب رکھا گیا اس اعلان کی قدر و قیمت کا اندازہ وہی فرد لگا سکتا ہے جس نے تیسری آل سعود کی حکومت قائم ہونے سے قبل انتشار اور قبائلی عصبیت کے بارے میں کتب میں پڑھا ہو اور جب یہ شاہی فرمان جاری ہوا تو مفسدین کے لیے صوبائیت یا قبائلی عصبیت کی آگ بھڑکانا ممکن نہیں رہا اور سعودی عرب کے کونے کونے میں اس اعلان کو خوش آمدید کیا گیا بلکہ شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز رحمہما اللہ نے مکہ میں ایک اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: آج کے دن مجھے اتنی خوشی ہے کہ میں اظہار نہیں کر سکتا آج کے دن اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس ملک کے لوگ ایک قوم کی صورت میں متحد ہو گئے ۔

شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کو تین باتوں نے کامیابی بخشی جو کہ درج ذیل ہیں: اللہ تعالی کی توحید اور عبادت، شریعت محمدی، وحدت اور آپ کی سیاسی حکمت عملی انہی تین نکات کے گرد گھومتی رہی بلکہ اس امر کی نصیحت آپ نے اپنے جانشینوں کو بھی کی۔

آپ کے ذاتی خصائل وفاداری اور اخلاص ، عالی ہمتی، والد کا احترام، اپنے اور عوام الناس کے درمیان فاصلے نہ پیدا ہونے دینا، وسیع دستر خوان، حجاج کرام کے لیے سہولتیں، خون بہانے سے نفرت، خود اعتمادی، احترام علماء ، انکساری، سخاوت ، مہمان نوازی ، عدل و انصاف، بالغ سیاسی شعور، معاف کرنا، شجاعت،   وغیرہ سے تعبیر ہیں۔

شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عظیم بیٹے اپنے عظیم باپ کے بارے میں کیا سوچتے تھے درج ذیل سطور سے اس امر کا اندازہ ہو سکتا ہے:

شاہ فیصل رحمہ اللہ: میرے والد کی بنیادی صفت ان کی قوت ایمانی اور اللہ تعالی پر غیر متزلزل ایمان، شجاعت، حکمت عملی قابل ذکر ہیں

شاہ خالد رحمہ اللہ : میرے والد شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس مملکت کو وحدت میں پرو دیا اور ان میں رہنے والوں کو کلمہ توحید پر متحد کر دیا

شاہ فہد رحمہ اللہ: مملکت سعودی عرب کی موجودہ ترقی و استحکام تمام تر سہرا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیاسی فراست ، عقل مندی ، انسانی ہمدردی، اورعسکری فطانت کو جاتا ہے

شاہ عبداللہ حفظہ اللہ: ان کا اللہ تعالی کی ذات پر غیر متزلزل ایمان، عوامی مقاصد کا حصول ، عوام کا اعتماد، مصائب و مشکلات پر صبر اورحصول مقاصد کے لیے ان کے اقدامات کسی تعارف کا محتاج نہیں ہیں۔

شہزادہ سلطان رحمہ اللہ: میرے والد محترم بہادری کا نشان ایک سچے مسلمان اور صبر واستقلال کے پیکر تھے مسلسل جدو جہدان کا طرہ امتیاز تھا۔

شہزادہ نائف رحمہ اللہ : اگرچہ ان کے پاس افرادی قوت اور سامان حرب کم تھا لیکن دل میں ایسی ایمانی قوت تھی جس کا منبع توحید الہی اور ارشادات رسالت تھا ۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے