انسانی زندگی کی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت رزق کمانا بھی ہے اور اس ضرورت کی تکمیل کے لئے اللہ عزوجل نے مردوں پریہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ اس کی جائز کوشش کریں ، اس جدید دور میں مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اس ضرورت کو اپنا مقصد حیات بنالیا ہے ، ہر شخص اپنے سے اوپر والے کے ساتھ معاشی موازنہ کرنے میں مصروف اور اس سے آگے نکلنے کے چکر میں اسلام کے بنیادی احکامات کی بجا آوری میں کوتاہی کا شکار ہے ،مگر اس قدر بھاگ دوڑ بھی اس کی خواہشات کے گڑھے کو پُر کرنے میں ناکام ہے۔ اسلام ایک معتدل دین ہے جو کہ مسلمانوں کی ہر پریشانی کا واحد حل ہے ، اسلام انتہائی ترتیب کے ساتھ اپنے ماننے والوں کو یہ بات سمجھاتا ہے کہ

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ مَا أُرِيْدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيْدُ أَنْ يُطْعِمُوْنِ إِنَّ اللهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ) (الذاریات:56-58)

’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں اورنہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے ‘‘۔
اسلام اس ضرورت کو پورا کرنے کے دوحل بتا تا ہے :

-1جائز طریقے سے معیشت کے لئے جد جہد کرنا۔
-2چند شرعی اسباب کو اختیار کرنا، جن میں سے پانچ اسباب درج ذیل ہیں :

-1توبہ اور استغفار:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ، جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ

’’جس نے کثرت کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی طلب کی اللہ تعالیٰ اس کوہر مشکل سے نکال دیں گے اور  اسے ہر غم سے نجات دیں گےاوراسے وہاں سے رزق مہیاں کریں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہوگا‘‘۔(ابو داو د:1518)

-2تقوی:

وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًاوَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ  (الطلاق:3-2)

’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے چھٹکارے کی صورت نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا کردیتا ہے جس کا اسے وہم و گمان میں بھی نہ ہو‘‘۔
فرمانِ نبوی ﷺ:

مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُمَدَّ لَهُ فِي عُمْرِهِ، وَيُوَسَّعَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، وَيُدْفَعَ عَنْهُ مِيتَةُ السُّوءِ، فَلْيَتَّقِ اللهَ

’’جوشخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے مال میں اضافہ کردیا جائے اوراس کی عمر کو دراز کردیا جائے اور اس کو بری موت مرنے سے بچا لیا جائے ، اس کو چاہئے کہ اللہ کا تقوی اختیار کرے ‘‘۔(احمد:1213 )

-3توکل :

وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللہِ فَهُوَ حَسْبُہ (الطلاق:3)

’’اور جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرے تو وہ (اللہ )اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے ‘‘۔
حدیث:

لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ، لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا

’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر اسی طرح سے بھروسہ کرو، جیسا کہ ان پر بھروسہ کرنے کا حق ہے ، تو تمہیںاسی طرح رزق دیا جائے، جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتاہے صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر پلٹتے ہیں‘‘۔(احمد:370)

-4صلہ رحمی :

مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُّبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ (بخاری:5986)

’’جو شخص اپنے رزق میں فراخی اور اپنی عمر میں اضافہ پسند کرے اس کو چاہیےکہ وہ صلہ رحمی کرے ‘‘۔

-5انفاق فی سبیل اللہ  :

وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (سبأ:39)

’’ اور تم لوگ (اللہ تعالیٰ کی راہ میں )جو خرچ کرو ، وہ اس کا بدلہ دیں گے اور وہ بہترین رزق دینے والے ہیں ‘‘۔
نبی علیہ الصلاۃ السلام کی حدیث ہے :

قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَا ابْنَ آدَمَ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ

’’ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:اے ابن آدم تو خرچ کر ، میں تجھ پر خرچ کروں گا‘‘۔(مسلم:993)
رزق میں بے برکتی کے اسباب
محترم بھائیو!  جس طرح اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری رزق و روزی میں اضافے کا باعث بنتی ہے اسی طریقے سے اللہ عزوجل کی نافرمانی رزق میں بے برکتی اور تنگی کا با عث بنتی ہے ذیل میں چند ایسی باتوں کا ذکر کیا جارہا ہے کہ جن کے ارتکاب سے رزق کی کشادگیاں ختم ہوکر تنگی اور بے برکتی میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔

-1اللہ کے ذکر سے کنارہ کشی اختیار کرنا:

وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَإِنَّ لَهُ مَعِيْشَةً ضَنْكًا

’’اور جو میرے ذکر سے کنا رہ کشی اختیار کرے گا تو میں ایسے شخص کی معیشت کو تنگ کردوں گا‘‘۔ (طہ:124)

ان تینوں انبیا علیہم السلام کی زندگیوں سے جو باتیں سامنےآتی ہیں وہ یہ ہیں کہ انقلاب لانے والے کا کردار کیا ہے ۔ انقلاب لانے والا کس چیز کی طرف دعوت دے رہا ہے اس کا خود کا عمل کیا ہےوہ جس مشن پر ہے اس پر کتنا ثابت قدم ہے وہ اللہ کو اپنا حاکم مانتا ہے یا نہیں۔ در حقیقت انقلاب چہرے بدلنے کا نام نہیں بلکہ انقلاب اس تبدیلی کا نام ہے جو عقیدہ توحید برپا کر سکتا ہے ۔ تبدیلی ایمان کی تبدیلی دلوں کے حالات کی تبدیلی ۔ دوسرا نکتہ جو بہت اہم ہے یہ انقلاب عورت کی عصمت کو تار تار کر کے نہیں لایا جاسکتا اسلام نے عورت کو شہزادی بنا کر رکھا ہے۔ ہاں انقلاب وہ لوگ لائیں گے جن کی تربیت میں ان عورتوں کا ہاتھ ہوگا۔ سورۃ الاحزاب میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں،  فرمانبرداری کرنے والی عورتیں، سچ بولنے والی عورتیں، صبر کرنے والی عورتیں، اللہ سے ڈرنے والی عورتیں۔۔۔۔۔۔ اللہ نے ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہے۔ اسی سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ فرمایا۔ ترجمہ: اور تم اپنے گھروں میں قرار پکڑے رکھواور پہلی جہالت کی حرکتوں کی طرح نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ۔یہ انقلاب اپنی عورتوں کا روڈوں پر ان کی عزتوں ان کی عصمتوں کو نیلام کرنے سے نہیں آتا۔باہر روڈوں پر لا کر فحاشی و عریانیت کا سیلاب لانے سے یہ انقلاب نہیں آتا۔ مومن عورتوں کو یہ زیب نہیں دیتا۔

توحید کا اہم باب یہی ہےیہ زمین اللہ کی ہے اس پر حکم ، اس پر دستور اللہ کا ہی چلے گا حلال و حرام ، جائز و ناجائز سب اللہ کے فرمان کےمطابق ہوگالیکن آج ہم اس میں اللہ کی حاکمیت کا مقام اپنے ذہنوں سے نکال چکے ہیں ۔ زمین پر انسان کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے ہونے لگے ہیں سیاست کوعبادت سے جدا کر دیا گیا ہے اللہ کے دین کو بطور قانون ریاستوں میں قائم نہیں کیا گیا ۔ اللہ کی شریعت کو ماننا ، ریاستوں کی پالیسی قرآن سے لینا، دوستی دشمنی کے اصول سنت سے دیکھنا ، ہیرو کون زیرو کون ، عزت والا کون ذلت والا کون، حکمرانی کا حقدار کون ، ان سب کی ہدایت اور خداؤں سے لینا ، کبھی پارلیمنٹ کو خدا کے درجے پر لے آنا ، کبھی کسی اور کو۔ یہ سب جب تک چلتا رہے گاانقلاب نہیں آسکتا ۔ ہر کوئی انقلاب کا دلدادہ ہے لیکن اس میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں یاد رہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدلے۔یہ وقت ہے خود پر غور کرنے کا اپنے اندر تبدیلی لانے کا یہ وقت کا تقاضہ ہے۔ جو دوسروں سے نہیںآپ خود سے کریں۔

-2گناہ کی کثرت :

 إِنَّ الْعَبْدَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيبُهُ

’’بے شک آدمی کو اس کے گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتاہے ‘‘۔(احمد:22438)

3-حرام کمائی :

فَمَنْ يَأْخُذْ مَالًا بِحَقِّهِ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ يَأْخُذْ مَالًا بِغَيْرِ حَقِّهِ فَمَثَلُهُ، كَمَثَلِ الَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ

’’جو مال کو اس کے حق کے ساتھ حاصل کرتا ہے اس کے لئے مال میں برکت آجاتی ہے اور جو بغیر حق کے اس کو حاصل کرتا ہے وہ اس آدمی کی طرح ہے کہ جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا ‘‘۔( مسلم:1052)

4-کاروبار میں جھوٹ:

البَيِّعَانِ بِالخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَذَبَا وَكَتَمَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا

’’دو خرید و فروخت کرنے والے جب تک جدا نہ ہوں ان کو (سودا فسخ کرنے کا)اختیار ہوتا ہے اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر چیز کی وضاحت کریں تو اس سودے میں ان دونوں کے لئے برکت ہوتی ہے اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور (عیوب ونقائص)چھپائیں تو اس سودے سے برکت ختم ہوجاتی ہے ‘‘۔(بخاری:2110)

5-کنجوسی:

 مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ العِبَادُ فِيهِ، إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلاَنِ، فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُوُل الآخَرُ: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا (بخاری:1442)

’’جب بندے ہر روز صبح اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے اے اللہ مال خرچ کرنے والے کو اور دے اور دوسرا کہتاہے اے اللہ خرچ نہ کرنے والے کے مال کو ضائع کردے ‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی فرمانبرداری والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نافرمانی کے کام کرنے سے اپنی پناہ میں رکھے بے شک وہ اس بات پر پوری طرح قادر ہے ،آمین!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے