الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ، أما بعد

اس وقت مجموعی طور پر عالم اسلام مختلف قسم کی سازشوں کا شکار ہے کہیں خانہ جنگی کا منظر ہے ، کہیں مسلمانوں میں کالی بھیڑیں پیدا کرکے ان کے ذریعے اسلامی قوت کو کمزور کیا جارہا ہے، کہیں مسلمانوں کو کھلے انداز میں گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہاہے، کہیں مسلمانوں کو اسلامی تہذیبی امور اور عبادات کرنے میں مشکلات کا سامناہے، کہیں میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش کی جاتی ہے تو کہیں مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے مقدس ہستیوں اور کتب پر حملے کیے جاتے ہیںانہیں جلایا جاتاہے مقدس ہستیوں کے کارٹون بنائے جاتے ہیں۔ ان تمام تر ہتھکنڈوں میں سب سے بھیانک اور سب سے خطر ناک معاملہ مقدس ہستیوں پر حملے کے ساتھ ساتھ مقدس جگہ اور اسلام کے مراکز کو اپنے ناپاک ارادوں کے ذریعے(اللہ نہ کرے) صفحۂ ہستی سے مٹانے کی سازش کا ہے۔ اور پھر یہ سازش بھی کئی روپ اختیار کئے ہوئے ہے۔

کہیں مسلمانوں میں موجود کالی بھیڑیں حرمین کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ کہیں برملا حرمین پر تسلط کا نعرہ لگایا جاتاہے اور ناپاک عزائم کا اظہار کیا جاتاہے کہ اگر ہمارا یہاں تسلط ہوا تو معاذ اللہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک پر حد نافذ کریںگے ، کہیں حج کے منسوخ ہونے کے فتوی دیئے جاتے ہیں،کہیں ائمہ حرمین کے پیچھے نماز ادا کرنے سے روکا جاتاہے۔

یہ سب تو نام نہاد مسلمان کر رہے ہیں اور دشمن اسلام کیا کر رہا ہے وہ کھل کر سامنے آنے کی بجائے دیگر ہتھکنڈوں اور دور رہتے ہوئے کرائے کے ٹولوں سے حرمین کو اپنی باطل جسارت کا نشانہ بنانا چاہتاہے، اس کی بڑی مثال حال میں حوثی باغیوں کی یورش کا معاملہ ہے۔ جو علی الاعلان حرمین پر حملے کا اظہار کر چکے ہیں اور اسلامی نصوص میں جس علاقے کی فضیلت ثابت ہے ’’یمن‘‘ اس میں بھی بغاوت کو عام کئے ہوئے ہیں ایسے میں اسلام کے مرکز کے دفاع کا بہترین اور بروقت فیصلہ یہی تھا کہ ایسے باغیوں کی زبانوں کو ایسا بند کیا جائے کہ دوبارہ یہ جرأت کس کو نہ ہو، حکو مت سعودیہ کا یہ فیصلہ تعریف کُن ہے مگر افسوس نام نہاد مسلمان نے رائے بھی دی تو اس میں کہیں محبت حرمین جھلکتی نظر نہ آئی ایسے لوگوں کیلئے بس یہی کہا جاسکتاہے۔

شرم تم کو مگر نہیں آتی!!

حرمین پر قبضے کا خواب اک دھوکہ!!

دراصل حرمین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے دھوکے کا شکار ہیں اور وہ دھوکہ جو انہیں لگا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ظاہری اسباب اور مسلمانوں میں پیدا کی ہوئی کالی بھیڑوں پر اس قدر بھروسہ کر لیا ہے کہ رب وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بآسانی حرمین پر قابض ہوسکتے ہیں۔

ان کی یہ سوچ خاک میں ملنے والی ہے بلکہ مل گئی ہے اور یہ انہیں دھوکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حقیقی حرمین کے دفاع کے حامی مٹھی بھر ہیں حالانکہ یہ ایسا دھوکہ ہے جو ابرہہ کو لگا تھا وہ اپنی طاقت کے غرور میں نکلا تھا ابرہہ حکومت حبشہ نائب السلطنت تھا یہ عیسائی تھا اور اپنے دل میں بیت اللہ کے بارے میں حد درجہ بغض وعداوت رکھنے والا شخص تھا، اور اس کے مقابلے میں عرب بھر میں صنعاء جو کہ یمن کا دارالخلافہ تھا اس مقام پر دیکھنا چاہتاتھا، اس کا بنایا ہواگرجاگھر بھی کعبہ کے مقابلے میں زیادہ مزین دکھنے والا تھا لیکن اہل عرب کے دل میں بیت اللہ کی محبت راسخ تھی، اللہ ایسے میں کسی نے اس گرجا گھر میں پاخانہ کرکے بیت اللہ سے محبت کا والہانہ اور انوکھا اظہار کر دیا بس پھر کیا تھا وہی ہوا جو 11/9 کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ہوا ۔ ابرہہ نے اس بنیاد پر بیت اللہ کو گرانے کی ٹھان لی۔ ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل لشکر لے کر جس میں (13)تیرہ ہاتھی بھی تھے بیت اللہ کی جانب نکل پڑا اور خود بھی ایک اعلیٰ درجے کے محمود نامی ہاتھی پر سوار ہے، اپنی طاقت کے فتنے میں دھت اور اہل حرم کی کمزوری نے اسے مزید جری کر دیا،اور اس دھوکے میں مست یہ کعبہ کو گرانے کا ناپاک ارادہ لیئے نکلا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی مبارزت کوئی نہیں کرے گا لیکن اللہ نے بیت اللہ کے دفاع کیلئے انتہائی حقیر اور اس کے لشکر کے مقابلے میں انتہائی کمزور لشکر کا انتخاب کیا جس نے آسمان سے چھوٹی چھوٹی کنکریاں برسا کر اسے رہتی دنیا تک عبرت بنا دیا اور عرب نے اس واقعے کو اپنے اشعار وقصائد میں ذکر کیا اور قرآن مجید میں بھی یہ عبرت انگیز داستان آخری پارے میں سورۃ الفیل میں موجود ہے۔

بہر حال اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ابرہہ کو بھی یہی دھوکا تھا کہ ہم مضبو ط ہیں اور اہل حرم کمزور اور یہی دھوکا آج کے اسلام دشمن سازشوں کوہے۔ حرم کے حقیقی پاسبان(سلفی) مٹھی بھر ہیں یہ ہمارا کیا بگاڑیں گےمگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جس ذات کا وہ گھر ہے وہ ذات بڑی قوی ہے کہ اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور جس نے بھی حرم کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا اللہ نے اسے عبرت بنادیا حتی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

ایک لشکر کعبہ پر حملے کیلئے نکلے گا اور(مدینہ اور مکہ کے درمیان صحرائی علاقہ) بیداء پر پہنچے گا کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میںدھنسا کر رکھ دے گا۔ (صحیح البخاری : 2118)

معلوم ہوا کہ قرب قیامت بھی ایسا معاملہ ہوگا( اور درمیان میں بھی ہوتارہےگا) اور اللہ تعالیٰ انہیں عبرت بناتا رہے گا۔

مسلمان اور حرمین کا تعلق :

مسلمانوں کا پہلا قبلہ بیت المقدس تھا لیکن رسول اللہﷺ کی دلی خواہش یہی تھی کہ مسلمانوں کا قبلہ’’کعبہ‘‘ بن جائے، جن کا ذکر دوسرے پارے میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 144 میں موجود ہے ۔

قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَا ۠فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭوَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَهٗ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ

ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب آپ کو ہم اس قبلہ کی طرف متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں ۔ اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں ۔

اس آیت میں نبی ﷺ کی دلی خواہش کا ذکر ہے نہ آپ ﷺ بیت اللہ کو مسلمانوں کا قبلہ دیکھنا چاہتے تھے اور بالآخر مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ کو بنا دیا گیا اور اس شہر کی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو مقام پر قسم اٹھائی سورۃ البلدآیت نمبر 1 اور سورۃ التین آیت نمبر 3۔

قسم کسی چیز کی تاکید کے لیے اٹھائی جاتی ہے اور شریعت اسلامیہ نے ہمیں اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھانے سے روکا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم اٹھاتاہے اور اس قسم اٹھانے کے کئی ایک مقاصد ہوتے ہیں ۔

۱۔ جس کی قسم کھائی جائے اس کی فضیلت کو ثابت کرنا۔

۲۔ حس چیز کے اثبات کے لیے قسم اٹھائی جارہی ہے اس کی فضیلت کو ثابت کرنا۔

سو اس شہر کی فضیلت یہ ہے کہ اس کی قسم اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے پھر اس شہر کو امن والا شہر قرار دیا۔

ہجرت کے موقع پر بھی رسول اللہ ﷺ نے مکہ سے والہانہ محبت کا اظہار کیا اور کہا کہ تجھے چھوڑنے کا دل نہیں چاہتا لیکن تیرے رہنے والوں نے آج اس قدر مجبور کر دیا ہے کہ چھوڑنے پر مجبور ہوں اور یہی محبت صحابہ کے دلوں میں تھی یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے بعد ایک عرصے تک مکہ کا تذکرہ کیا جاتا اوراصحاب مکہ کی گلیوں،جڑی بوٹیوں کا تذکرہ اپنے اشعار میں کرتے،اور ابتداء یثرب کو وبا کا علاقہ سمجھتے تھے۔ بہر حال یہ مکہ سے محبت ان کے دلوں میں تھی اور مدینہ کے لیے یہی محبت رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے دلوں میں تھی چنانچہ جب بھی رسول اللہ ﷺ کسی سفر سے لوٹنے تومدینہ کو دیکھ کر خوش ہوجاتے سواری کی رفتار بڑھا دیتے۔ (صحیح البخاری : 1886)

اس کے حرم کو آپ ﷺ نے مقرر کیااور صحابہ کے دلوں میں بھی یہ محبت راسخ تھی اور بعید کے ادوار میں سلف میں بھی یہ محبت موجود تھی حتی کہ امام مالک رحمہ اللہ مدینہ کی گلیوں میں ننگے پاؤں چلتے اس شہر کی تکریم کی وجہ سے۔

بہر حال ان دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ مسلمانوں کے مرکز ہونے کی حیثیت سے حرمین سے دلی محبت اور تکریم ایمانی تقاضہ ہے اور جس کے دل میں یہ محبت نہیں اس کا ایمان خطرے میں ہے، موجودہ صورتحال میں حرمین سے محبت کا تقاضا ہےیہی ہے کہ اس کے دفاع کے لیے پر عزم ہوکر اپنی اپنی بساط کے مطابق ہر پلیٹ فارم پر یہ شعور دلایا جائے کہ ان کے دفاع کی کیا حیثیت ہے؟ اور ان لوگوں پر تعجب اور افسوس ہے کہ جو خود کو مسلمان بھی کہیں لیکن ان کی تمام تر کوششیں ،کاوشیں اغیار کومضبوط کرنے کے لیے ہوں!!!

بدنصیب اور بزدل لوگ :

وہ لوگ جو کھلے لفظوں میں حرمین کے دفاع سے کترارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس لڑائی میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے ان کی یہ سوچ بزدلی پر مبنی ہے ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے،کم ازکم ان کی سوچ سے بہتر سوچ تو عبد المطلب کی تھی جس نے خود کو ابرہہ سے کمزور سمجھ کر صرف اپنے اونٹ چھڑوائے اور کہا کہ بیت اللہ کی حفاظت خود اللہ کرے گا لیکن ان نام نہاد مسلمانوں کی زبانوں سے تو کوئی ایسی صدا بھی نہ آئی اور آبھی کیسے سکتی ہے؟ ان کے دلوں میں میل ہے۔

مکہ اور مدینہ مرکز ہدایت:

یہ دونوں شہر ہدایت کے مرکز ہیں یہاں نور ہدایت پھوٹتاہے جو پوری دنیا کے کونوں میں پھیلتاہے بیت اللہ کو قرآن مجید میں مرکز ہدایت قرار دیا گیا چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ(آل عمران:96)

’’بلاشبہ سب سے پہلا گھر(عبادت گاہ) جو لوگوں کیلئے تعمیر کیاگیا وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے اس گھر کو برکت دی گئی اور تمام جہان والوں کیلئے مرکز ہدایت بنایاگیا۔‘‘

اس آیت میں بیت اللہ کو جہانوں کے لیے ہدایت قرار دیاگیاہے ۔ اس طرح مدینہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ القُرَى، يَقُولُونَ يَثْرِبُ، وَهِيَ المَدِينَةُ، تَنْفِي النَّاسَ كَمَا يَنْفِي الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ

اس حدیث میں واضح انداز میں یہ بتلایا گیا ہے کہ مدینہ نفاق،کفر کو نکال کر پھینک دیتاہے جس طرح بھٹی زنگ آلود لوہے سے زنگ کو علیحدہ کر دیتی ہے۔(بخاری:1871)

مکہ اورمدینہ مراکز ہدایت ہیں لہٰذا ہمیں اپنے عقائد، عبادات،معاملات وغیرہ کا حرمین کے ساتھ موازنہ کرنا چاہیے کہ میرا عقیدہ،نماز ،روزہ ودیگر عبادات افکار ونظریات،سوچ وفکر ایسی ہے یا نہیں اگر نہیں ہے تو میرا اپنا عقیدہ ونماز اور تمام عبادات ومعاملات ویسی جیسی وہاں ہیں۔

بدقسمتی کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہوتا تو یہی چاہیے تھا کہ ہم دین وہاں سے سکھتے لیکن اس کے برعکس لوگ اپنے مسالک ومذاہب اور باطل آراء کو وہاں تھوپنا چاہتے ہیں اور اسی تعصب مذہبی کی بنیاد پر حرمین کے دفاع سے کتراتے ہیں ایسے لوگ گمراہی کی دلدل میں دھنسے ہوئے نظر آتے ہیں انہیں اپنا احتساب کرناچاہیے اور اپنا عقیدہ،نظریات وہاں تھوپنے کے لیے سرگرم ہونے کی بجائے وہاں سے دین کو سیکھاجائے۔

وما علینا إلا بلاغ المبین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے