دنیا بھر میں رائے عامہ کی تشکیل اورفکری انقلاب برپا کرنے میں میڈیا کا بہت اہم کردار رہا ہے ان عناصر میں صحافت کے فریضے پر فائز افراد جن کے تجزیہ سے قوم کی بہت بڑی تعداد متاثر ہوتی ہے اس حوالے سے ہر چینل اور اخبار نے ایک سے زائد صحافی حضرات کی خدمات حاصل کی ہوتی ہیں جو ہفتہ وار یا روزانہ کی بنیاد پر مذکورہ چینل سے اپنے پروگرام نشر کرتے ہیں جن کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ ہوتا ہے ۔ عام افراد سے لے کر حکومت تک سب میڈیا کے موجودہ رویے سےشدید شاکی نظر آتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ان کا کسی بھی ضابطہ اخلاق کا پابند نہ ہوتا اور ہمارے معاشرے میں شتر بے مہار کی طرح آزادانہ تبصرے اور آرا جن کی زد میں خواہ کسی کی عزت آ رہی ہو یا کوئی اہم حکومتی معاملہ زیر بحث ہو ۔اور اگر کہیں ان کو ضابطہ اخلاق کے دائرے میں لانے کی بات کی جائے تو گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا گیا ہو ۔ اور ایسے موقع پر سب اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔

اور سب سے اہم ترین رویہ جس کا شکار ہر اینکر نظر آتا ہے وہ تحقیق کے نام پر لوگوں اور حکومتوں کے خفیہ معاملات کو سربازار اچھالنا ہوتا ہے یعنی ہر معاملہ میں اس کے منفی پہلووں کو اس حد تک ذکر کیا جاتا ہے کہ اس معاملے کے اگر کوئی محاسن پائے بھی جاتے ہیں تو وہ مسخ ہو جاتے ہیں۔

دوسرا اہم ترین رویہ کہ عمومی طور پر ہر اینکر اپنے تجزیہ کرنے کے حوالے سے انتہا پسندانہ سوچ کو اختیار کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے اعتدال پرستی ختم ہو جاتی ہے اور افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے بعد کیے تمام تجزیہ یک طرفہ قرار پا جاتے ہیں

تیسرا اہم ترین قابل اعتراض رویہ جس کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اینکرز حضرات کا سیاسی وابستگی اختیار کرنا ہے جبکہ اینکرز حضرات کو کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی اختیار نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس کے بعد ان کے تجزیہ پارٹی پالیسی کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔

اورچوتھا اہم ترین قابل اعتراض پہلو عمومی طور پر زیادہ تر صحافی حضرات جو بطور اینکر ز کے چینلز پر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں ان کے تجزیہ انہی خطوط اور پالیسی کا آئینہ دار ہوتے ہیں جو چینلز کے مالکان نے طے کی ہوتی ہے ۔

یہ اہم ترین چار قابل اعتراض پہلو ہیں جن کی موجودگی میں کسی بھی اینکر کا تجزیہ غیرجانبدارانہ نہیں رہتا اور عدل و انصاف کے جن پیمانوں کا ذکر قرآن مجید اور فرامین رسالت میں کیا جاتا ہے ان کا وجود بالکل ہی غائب ہوجاتا ہے۔

اسلام میں اینکرز حضرات کے لیے سب سے اہم ترین قاعدہ : جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کر دیا جائے (الحدیث)

اور اگر سچ اور جھوٹ کے ضابطوں کو مدنظر رکھا جائے تو ہمارا میڈیا سیاسی مرغوں کی بے مقصد لڑائی کو عوام تک پہنچانے میں اپنا 90 فی صد وقت صرف کر رہا ہے جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ عوام ذہنی انتشار اور سخت کنفیوژن کا شکار ہیں ۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کو اب ختم ہونا چاہیے۔

برسوں سے الیکٹرانک میڈیا جن پروگراموں پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور اس کے لیے سب سے زیادہ وقت صرف کر رہاہے وہ ہے ’’ٹاک شوز‘‘ ۔ جن میں اس قدر یکسانیت آگئی ہے اور ان کا پیٹرن اس قدر مایوس اور بیزار کن ہے کہ اب ان شوز کو عوام سیاسی مرغوںکی لڑائی کا نام دے رہے ہیں اور ان شوز کے اینکر حضرات مرغوں کی لڑائی کے ایسے ماہر ہوگئے ہیں کہ سیاسی شرکا ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان رہتے ہیں ۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھانے کا فن ہمارے اینکرز حضرات سے کوئی سیکھنا چاہے تو بآسانی سیکھ سکتا ہے مثال کو طور پر کچھ عرصہ پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ملالہ یوسف زئی نامی ایک ڈرامہ تخلیق کیا گیا اور پھر ہمارے اینکرز کیا چھوٹے اور کیا بڑے سب اس کی ڈرامائی تشکیل میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے لگے اور جبکہ ایسے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں قصے جا بجا پاکستان کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے ہیں اور پھر 16 دسمبر کا سانحہ آرمی پبلک اسکول تھا جس کو اس انداز میں بیان کیا گیا کہ گویا پاکستان میں یہ واحد ظلم ہوا اور شمالی علاقہ جات میں دینی مدرسہ کے 100 سے زائد بچوں کی ہلاکت شاید وہ انسانوں کے بچے نہ تھے ۔

علی کل حال ہمارے اینکرز حضرات نے کچھ ایسے ہی جانبدارانہ رویے کا مظاہرہ مسئلہ یمن کے حوالے سے بھی کرنا شروع کر دیا میڈیا میں شاید صرف چند نام تھے جو اس حوالے سے غیر جانب دار انہ تجزیہ کر رہے تھے وگرنہ زیادہ تر اینکرز حضرات ایک مخصوص جماعت اور ملک کی ہمنوائی یا نمک حلالی میں دن اور رات ایک کیے ہوئے تھے اور یک طرفہ تجزیے در تجزیے جس کے بعد رائے عامہ کا ذہن کچھ اس طرح بن گیا کہ پاکستان کو اس مسئلے سے مکمل طور پر الگ تھلگ رہنا چاہیے اور اگر اس میں شراکت کی تو پھر فرقہ وارانہ فسادات کی دھمکیوں کو تجزیاتی صورتوں میں بیان کیاجاتا رہا اور بد قسمتی سے ہماری قومی سیاسی جماعتوں میں سے لبرل جماعتوں کی خواہش بھی اسی ایجنڈے کی تکمیل کا ایک حصہ تھا جو سلسلہ اینکرز حضرات نے شروع کیا ہوا تھا ۔

پاکستان کی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی یہ ذمہ داری جو ہمارے اینکرز حضرات نے اٹھا رکھی تھی اسے دیکھ کر اور سن کر تو وہ تاریخی صہیونی اجتماع یاد آ جاتا ہے جس میں 1897میں سوئٹزر لینڈ کے شہر بال میں ۳۰۰ یہودی دانشوروں، مفکروں،فلسفیوں نے ہر ٹزل کی قیادت میں جمع ہو کر پوری دنیا پر حکمرانی کا منصوبہ تیار کیا

اس دستاویز میں ذرائع ابلاغ کو بنیادی اہمیت دی گئی لہذا صحافت کی غیر معمولی اہمیت ، اس کی تاثیر و افادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا:اگر ہم یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے سونے کے ذخائز پر قبضے کو مرکزی اور بنیادی اہمیت دیتے ہیں تو ذرائع ابلاغ بھی ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں۔ ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہو کر اس کی باگ کو اپنے قبضے میں رکھیں گے، ہم اپنے دشمنوں کے قبضے میں کوئی ایسا موٴثر اور طاقتور اخبار نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی رائے کو موٴثر ڈھنگ سے ظاہر کرسکیں، اور نہ ہی ہم ان کو اس قابل رکھیں گے کہ ہماری نگاہوں سے گزرے بغیر کوئی خبر سماج تک پہنچ سکے۔ہم ایسا قانون بنائیں گے کہ کسی ناشر اور پریس والے کے لئے یہ ناممکن ہو گا کہ وہ پیشگی اجازت لئے بغیر کوئی چیز چھاپ سکے۔ اس طرح ہم اپنے خلاف کسی بھی سازش یا معاندانہ پروپیگنڈے سے باخبر ہو جائیں گے ،ہم ایسے اخبارات کی سرپرستی کریں گے جو انتشار و بے راہ روی اور جنسی و اخلاقی انار کی پھیلائیں گے، اور استبدادی حکومتوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مدافعت اور حمایت کریں گے۔ ہم جب چاہیں گے قوموں کے جذبات کو مشتعل کریں گے اور جب مصلحت دیکھیں گے انہیں پر سکون کردیں گے۔ اس کے لئے سچی اور جھوٹی خبر وں کا سہارا لیں گے۔ ہم ایسے اسلوب میں خبروں کو پیش کریں گے کہ قومیں اور حکومتیں ان کو قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں ۔ ہمارے اخبارات و رسائل بندوں کے معبود و شنو کی طرح ہو ں گے، جس کے سینکڑوں ہاتھ ہو تے ہیں، ہمارے پریس کا یہ بنیادی کام ہو گا کہ و ہ مختلف موضوعات اور کالموں کے ذریعے رائے عامہ کی نبض پر ہاتھ رکھیں گے۔ ہم یہودی ایسے مدیروں، مالکان اور نامہ نگاروں کی ہمت افزائی کریں گے جو بدکردار ہوں اور ان کا مجرمانہ ریکارڈ ہو ۔ہمارا یہی معاملہ بدعنوان سیاست دانوں، لیڈروں اور مطلق العنان حکمرانوں کے ساتھ ہو گا،جن کی ہم خوب تشہیر کریں گے، ان کو دنیا کے سامنے ہیرو بناکر پیش کریں گے ،لیکن ہم جیسے ہی محسوس کریں گے کہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں تو فوراً ہم ان کا کام تمام کردیں گے، تاکہ دوسروں کے لئے عبرت ہو۔ ہم یہودی ذرائع ابلاغ کو خبر رساں ایجنسیوں کے زیر کنٹرول رکھ کر دنیا کو جو کچھ دکھا نا چاہتے ہیں ،وہی دنیا کو دیکھانا ہوگا۔ جرائم کی خبروں کو ہم غیر معمولی اہمیت دیں گے ،تاکہ پڑھنے والوں کا ذہن تیار ہو، اس انداز سے کہ دیکھنے والے کو مجرم سے ہمدردی ہو جائے۔

لہذا یہ جو پاکستان میں میڈیا کے بعض عناصر بالخصوص اینکرز حضرات میں غیر جانب داری اور ثالثی کی ہا ہا کار مچی ہوئی ہے یہ سب بے معنی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں تو مشرق وسطی کے کھیل کے ہدایت کار اور اداکار کی پشت پناہی نظر آ ہی جائے گی ۔ اور اس ھدف کے سامنے رکھ کر یک طرفہ موقف کی تشہیر اس طرح کی گئی کہ سعودی عرب کا موقف کسی بھی طور پر میڈیا پر جگہ نہیں پا سکا کہ آخر سعودی عرب ہم سے چاہتا کیا ہے اس حوالے سے صرف ایک انکر پرسن کو کہ ایکسپریس کی نمائندگی کرتے ہیں احمد قریشی انہوں نے اس حوالے سے کچھ پروگرام کیے جو بین الاقوامی میڈیا نے بھی جسے کوریج دی بالخصوص عرب میڈیا نےسوشل میڈیا پر بھی اسے کوریج دی۔

یک طرفہ موقف کی تشہیر کرنے والے جانتے ہیں کہ اگر پاکستان اپنے دوست عرب ممالک کی مدد کو پہنچ گیا تو پھر ان کا سارا کھیل ناکام ہو جائے گااس لیے پاکستان کو مدد سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش شروع ہو گئی اور اس میں سب سے اہم کردار ہمارے اینکرز حضرات نے ادا کیا جنہوں نے مسلسل اسی سوچ کی حمایت میں پروگرام کیے جس کے مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ اپنے گھوڑوں کو دلہا بنا دیا جائے اور ان کے پیچھے باراتی بن کر چلنے والے بے وقوفوں کی تو ویسے بھی ہمارے کمی نہیں ۔

اینکرز حضرات کی اہمیت کی مثال اگر یمن اور سعودی عرب کی تاریخ کے حوالے سے ہی دے دی جائے تو مناسب ہو گا: قوم پرست مصری حکمران جنرل جمال عبدالناصر نے 1960 میں سعودی بادشاہت اور جغرافیے پر حملہ کیا تھا اس جنگ میں بیروت کے ممتاز صحافی اور دانشور نے روزنامہ الحیات کے اپنے کالم شاہ فیصل رحمہ اللہ کی حمایت ، دفاع اور مدد کے لیے وقف کر کے جمال عبدالناصر کی شکست کو دانشورانہ بندوبست کیا تھا جس کا اعتراف بعد شاہ فیصل رحمہ اللہ نے بھی کیا تھا۔

جامعہ اسلامیہ اسلام آباد کے کیمپس میں پروفیسر ڈاکٹر احمد الدریویش حفظہ اللہ نے شاہ فیصل مسجد کے یونی ورسٹی کیمپس میں فضیلۃ الشیخ ابو سعد الدوسری حفظہ اللہ اور دیگر دانشوروں کے ساتھ ایک محفل منعقد کی۔ دس دس بندوں کے جلوس پر اہمارے اینکرز پرسن اپنے پروگرام کرنے والے انہیں یہ اتنا بڑا پروگرام نظر نہیں آیا۔

اور ان اینکرز پرسن نے سب سے زیادہ خطرناک راستہ اختیار کیا جس سے رائے عامہ بری طرح گمراہ ہوئی وہ یہ تھا کہ اپنے اپنے ٹاک شوز میں شیعہ اور وہابی کو آمنے سامنے بیٹھا کر جو نیا محاذ کھولا گیا یہ نظر انداز کرنے والا معاملہ نہیں ہے اور پھر ان لوگوں کے سوالات اس سے زیادہ عجیب ترین ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کو دو دھڑوں میں تقسیم کرنے کی ناپاک اور مذموم سازش ابتدائی طور پر کامیاب بھی ہوئی ۔ افسوس یہ پڑھے لکھے نیوز اینکرز بھی اس جہالت اور اغلاط کو پھیلانے میں کسی سے کم نہیں رہے ۔

حیرانی کی بات ہے کہ جب ایک اینکر پرسن سے یہ بات کی گئی کہ پاکستان کی حکومت کے باغی طالبان کے خلاف آپریشن ضرب عضب اگر ٹھیک ہے تو یمن میں ایک فی صد اقلیت کی بغاوت کس طرح ٹھیک ہو سکتی ہے تو انہوں نے فورا اسے شیعہ سنی رخ دینے کی کوشش کی۔

میں نے جتنے بھی پروگرام دیکھیں ان سب میں حوثی قبائل کے حوالے سے مکمل گمراہ کیا گیا حوثی قبائل کے عقائد کو اگر ان کے بانی بدرالدین الحوثی کے لیکچرز سن لیے جائیں اور اس کی کتب پڑھ لی جائیں تو اہل سنت و جماعت کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ اللہ تعالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، امہات المومنین، جہنم، جنت، فرشتوں کے وجود سے انکار الغرض وہ وہ خرافات ہیں جو قلم کی حیا جس کی اجازت نہیں دیتی۔

لیکن تسلسل کے ساتھ پاکستان کے عوام اور مذہبی جماعتوں نے میڈیا اور پارلیمنٹ کی پاس کردہ قرار داد کے خلاف عوام کو اکٹھا کر کے انہیں اس حوالے سے حقائق بتانا شروع کیے توصورت حال بالکل بدلتی ہوئی محسوس ہوئی بالخصوص جماعت الدعوۃ کے اسلام آباد ، لاہوراور کراچی کے پروگرام، اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کا عظیم الشا ن لاہور کا پروگرام اور کراچی میں مختلف جماعتوں نے تحفظ حرمین شریفین کے حوالے سے پروگرام تسلسل کے ساتھ منعقد کرنا شروع کیے تو پھر جا کر اینکرز حضرات کی خود ساختہ مسموم فضا کی زہر آلودیت کم ہونا شروع ہوئی اور بالخصوص سعودی عرب سے ڈاکٹر عبدالعزیز العمار حفظہ اللہ اور وزیر مذہبی امور ڈاکٹر صالح حفظہ اللہ نے پاکستان آکر دینی اور سیاسی جماعتوں کے سرکردہ افراد سے ملاقاتیں شروع کی تو لوگوں کے سامنے حقائق آنا شروع ہوئے بالخصوص جیو ٹیلیویژن سلیم صافی اپنے پروگرام جرگہ میں ڈاکٹر عبدالعزیز العمار حفظہ اللہ کا تفصیلی انٹرویو نشر کیا جس کی مکمل روداد مجلہ کے صفحات پر موجود ہے گو کہ سلیم صافی صاحب نے نہ تو سعودی عرب کا دفاع کیا اور نہ ہی ایران کی مخالفت بلکہ کھلم کھلا سوالات کیے جس میں بعض سوالات بہت چبھتےہوئے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب نے بہت تحمل سے ان سوالات کو سنا اور جوابات دیے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ شیعہ سنی جنگ نہیں بلکہ سیاسی معاملہ ہے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا اس حکومت نے اپنے مسلمان حکومت سے مدد مانگی ۔

اسی طرح لاہور کے پیغام چینل نے سعودی عرب کے مذہبی امور کے وزیر ڈاکٹر صالح حفظہ اللہ کا مختصر انٹرویو نشر کیا

سابقہ اسطر میں اینکرز حضرات کے اس ہیجان آمیز رویے پر بات کی گئی کہ اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کیے لیے جو منفی پہلو اجاگر کیے جا سکیں سامنے لا ئے جائیں خواہ ان کا تعلق حقیقت سے ہو یا نہ ہو۔

لہذا میں اپنی یہ تحریر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر ختم کر رہا ہوں جس میں نااہل اینکرز ، کالم نگار ، دانشور اور مبصرین کا راج کی منظر کشی کی گئی ہے:

لوگوں پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ہر طرف دھوکہ ہی دھوکہ ہو گا سچے کو جھوٹا اور جھوتے کو سچا بنا کر پیش کیا جائے گا خیانت کرنے والے کو امانت دار اور امانت دار کو خائن کہا جائے گا اور روبیصہ خوب بولے گا عرض کیا گیا یا رسول اللہ یہ روبیصہ کون ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عوام الناس کے اہم معاملات میں بولنے والے نا اہل اور فضول لوگ (سنن ابن ماجہ و صححہ البانی)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے