صدقۃ الفطر ہر مسلمان پر فرض ہے اور فرض کے متعلق اللہ تعالی نے حدیث قدسی میں فرمایا:

وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْه(بخاری:6137)

محبوب ترین اعمال جن کے ذریعے میرا بندہ میرا قرب حاصل کرتا ہے فرائض ہیں۔

نیز نبی اکرم نے فرمایا:

أما غنيكم فيزكيه الله وأما فقيركم فيرد الله عليه أكثر مما أعطى (ابو داؤد:1621)

تمہارے مالدار کو اللہ پاک کردیتا ہے اور تمہارے فقیر کو اس سے زیادہ لوٹادیتا ہے جو اس نے دیا ہو (یعنی صدقۃ الفطر کے ذریعے)۔

نیز سیدناابن عباس ؄ نےفرمایا:

فَرَضَ رَسُولُ اللهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنْ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ  وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ

رسول اللہ نے صدقۃ الفطر کو فرض قرار دیا روزے دار کوپاک کرنے اور مسکین کی خوراک کے لئے۔(صحیح ابی داؤد:1427)

نیز وکیع بن جراح رحمہ اللہ نے کہا :

زَكَاةُ الْفِطْرِ لِشَهْرِ رَمَضَانَ كَسَجْدَتِي السَّهْوِ لِلصَّلاةِ، تَجْبُرُ نُقْصَانَ الصَّوْمِ كَمَا يَجْبُرُ السُّجُودُ نُقْصَانَ الصَّلاةِ.(المجموع للنووي،6/140)

صدقۃ الفطر سجدۃ السھو کی طرح ہے ،جس طرح سجدۃ السھو نماز کی کمی کوتاہی کو دور کردیتا ے اسی طرح صدقۃ الفطر روزے کو کمی کوتاہی سے پاک کردیتا ہے۔

وجہ تسمیہ:

زکواۃالفطر کامعنی ہے :روزہ چھوڑنے کا صدقہ،یعنی وہ صدقہ جو روزوں کے اختتام پر دیا جائے،”الفطر“فطرت سے ماخوذ ہے ،جو اصل خلقت (جسم)پر بولا جاتا ہے، اسی بنا پرصدقۃ الفطرمالی حیثیت کا اعتبار کئے بغیر جمیع ابدان پر فرض کیا گیا۔

حکمت و شرعی حیثیت :

یہ ہر مسلمان مرد و عورت،چھوٹے بڑے،آزاد و غلام پر فرض ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَآتُوا الزَّكَاةَ  ’’زکواۃادا کرو‘‘(البقرۃ:43)

اس میں زکواۃمالیہ،اور زکواۃزرعیہ عشرونصف عشر،اورزکواۃبدنیہ صدقۃ الفطر شامل ہیں۔

نیز رسول اللہ نے صدقۃ الفطر کو فرض قرار دیا روزے دار کوپاک کرنے اور مسکین کی خوراک کے لئے،نیز اس میں مواسات و مواخات اسلامیہ اور باہمی اتفاق و اتحاد، ایک دوسرے کے احساس اور ایک دوسرے کی کفالت کے مظاہر بھی پائے جاتے ہیںنیز اس میں اللہ تعالی کے شکر کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔

کن پر فرض ہے:

یہ ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ مالدار ہو یا مسکین (بشرطیکہ وہ ایک صاع غلے کا مالک ہو)،حتی کے ایک دن کے بچے پر بھی فرض ہے،البتہ اسکی ادائیگی ذمہ داران کریں گے، مثلا،غلام کی طرف سے اسکا آقا ،بچے کی طرف سے اسکا والد اور عورت کی طرف سے اسکا والد یا خاوند،  چنانچہ ابن عمر ؄نے کہا کہ:

أمر رسول الله  صلى الله عليه وسلم  بصدقة الفطر عن الصغير والكبير والحر والعبد ممن تمونون

رسول اللہ نےصدقۃ الفطرہر چھوٹے ،بڑے ، آزداورغلام کی جانب سے نکالنے کا حکم دیاجن کے تم کفیل ہو۔

(بیہقی کبری:7685،سنن دارقطنی:12،الارواء:835)

نافع رحمہ اللہ نے کہاکہ:

أنه كان يعطي صدقة الفطر عن جميع أهله صغيرهم وكبيرهم عمن يعول وعن رقيقه ورقيق نسائه

ابن عمر؄ اپنے زیر کفالت ہر چھوٹے ،بڑے،اپنے غلاموں،اپنی بیوی کے غلاموںکی طرف سے صدقۃ الفطرادا کرتے۔ (سنن دارقطنی:13،الارواء:835

(تنبیہ)حمل کی طرف سے صدقۃ الفطر کی ادائیگی فرض نہیں نہ ہی ثابت ہے اس سلسلے میں ”یجمع خلق احدکم فی بطن امہ“ والی روایت سے استدلال درست نہیں کیونکہ اس میں” جنین“ کا ذکر ہے جبکہ صدقۃ الفطر” صغیر “پر فرض ہے ،اور” جنین“ پر لفظ” صغیر“ کا اطلاق نہیں ہوتا ، نیز سیدناعثمان ؄کا اثر منقطع ہے اور ابو قلابہ رحمہ اللہ کا قول وجوب پر دلالت نہیں کرتا ،جیسا کہ حافظ عراقی نے،شرح المجتبی،22/266 میں ذکر کیا ہے۔

وقت اداء:

صدقۃ الفطر نماز عید کی ادائیگی کے لئے اپنے گھر سے نکلنے سے دو دن پہلے تک صدقۃ الفطرجمع کرنے والوں کو کسی بھی وقت دیا جاسکتا ہے،جیسا کہ عبد اللہ بن ثعلبہ بن صعیر العذری ؄نے کہا:

خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمَيْنِ فَقَالَ أَدُّوا صَاعًا مِنْ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى كُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ وَصَغِيرٍ وَكَبِيرٍ

رسول اللہ نے لوگو ں سے عید الفطر سے دو روز قبل خطاب کیا اورصدقۃ الفطر جمع کرانے کا حکم دیا، گندم یا 

(مسند احمد:22663،ابوداؤد:1623،صحیح ابی داؤد:1434)

چنانچہ ابن عمر ؄ نے کہا کہ:

أن النبي صلى الله عليه و سلم أمر بزكاة الفطر قبل خروج الناس إلى الصلاة

رسول اللہ و نے حکم دیا کہ صدقۃ الفطر لوگوں کے نماز عید کی جانب نکلنے سے پہلے نکال دیا جائے۔(بخاری:1438)

نیز نافع رحمہ اللہ نے کہا:

كان ابن عمر رضي الله عنهما يعطيها الذين يقبلونها وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين

ابن عمر ؄ ان لوگوں کو صدقۃ الفطر دیتے جو اسے قبول کرتے ہیں(یعنی جمع کرنے والوں کو)اور لوگ(یعنی صحابہ) ایک یا دو دن پہلے دیا کرتے تھے۔ (بخاری:1440)

نیز نبی مکرم نے فرمایا:

من أداها قبل الصلاة فهي زكاة مقبولة ومن أداها بعد الصلاة فهي صدقة من الصدقات

جس نے اسے نماز عید سے قبل ادا کیا تو یہ صدقہ قبول ہے اور جس نے اسے نماز کے بعد دیا تو یہ عام (نفلی)صدقہ شمار ہوگا۔(صحیح ابی داؤد:1427)

جنس یا نقد:

صدقۃ الفطر کا بنیادی مقصد مساکین کو عید کے دن سوال کرنے سے بچانا اور انہیں عام مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ہے،عہد رسالت میں درہم و دینار عام نہ تھے ،نیز بہت کم تھے ،لوگ عام طور پر اشیاء کے تبادلے کے ذریعے خرید و فروخت کیا کرے تھے ، اسی لئے احادیث میں اجناس کا ذکر آیا ہے،لیکن دور حاضر میں مساکین کی حاجت پوری کرنے کا بہترین ذریعہ نقد ہے نہ کہ جنس،لہذاعصرحاضر میں صدقۃ الفطر نقد کی صورت میں نکالنا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے،جیسا کہ عہد صحابہ میں اجناس کی مقدار میں اختلاف ہوگیا تھا ،اور اس اختلاف کی وجہ احادیث میں مذکور اجناس کی قیمتوں میںتفاضل و تباین تھا،یعنی شام کی نصف صاع گندم کہ قیمت وہی تھی جو مدینہ کی ایک صاع کھجور کی،ایسے ہی عمر؄ نے گندم کا نصف صاع باقی اشیاء کے ایک صاع کے برابر قرار دیا تھا،اس زمانے میں صحابہ کی کثرت کے باوجود اس اختلاف کی وجہ ایک صاع مقدار میں مختلف اشیاء کی قیمتوں میں کمی بیشی تھی،نیز یہ اختلاف بھی ان اشیاء میں ہوا جو احادیث میں بصراحت مذکور ہیں، سیدناعمر؄ اورسیدنامعاویہ ؄ قیمتوں کے اختلاف کے اس نکتے کو سمجھ چکے تھے اسی لئے انہوں نے مقدار میں تبدیلی کی اور چند ایک کو چھوڑ کر لوگ اس پر عمل کرنے لگے،علاوہ ازیں سلف صالحین سے قیمت لینا منقول ہے ، جیسا کہ حسن بصری رحمہ اللہ اورعمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے،لہذا نقد دینا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے ،یہ مسکین کی حاجت پوری کرنے کا موثر ذریعہ ہے، البتہ معیار گندم یا چاول کو بنایا جاسکتا ہے جو کہ ہمارے ہاں عام ہیں۔

(مصنف ابن ابی شیبہ،رقم:1047110472-الجامع لأحكام الصيام لأبي إياس محمود بن عبد اللطيف )

مقدار:

احادیث میں ایک” صاع“ کا لفظ آیا ہے جو چار” مد“ کا ہوتا ہے،اور، مد، ”مجمع الکفین“یعنی دونوں ہاتھوں کی ایک لپ کو کہتے ہیں

(لسان العرب:13/53– النھایۃ :4/308-بحار الانوار: 4/568-القاموس المحیط:407-المجموع:6/129– من المحتاج :1/382-المصباح المنیر:1/415-الایضاح و التبیان فی معرفۃ المکیال والمیزان:56،57-احکام زکواۃو عشر: 53-فتاوی ہیئۃ کبار العلماء)

اگر ان میں گندم ڈالی جائے پھر اسے نکال کر تولا جائے ،پھر اس میں کھجور ڈال کر تولی جائے ،اسی طرح اس میں مختلف اجناس ڈال کر تولی جائیں تو سب کا وزن مختلف ہوگا ،نیز انکی قیمتیں بھی مختلف ہیں ،لہذا وزن کا اعتبار نہیں کرنا چاہیئے،نہ ہی رقم مخصوص کرنی چاہیئے ، بہتر طریقہ یہ ہے کہ : درمیانے قد کا انسان چار مرتبہ دونوں ہاتھوں سے لپیں بھرے ،اور اسکا صدقہ کردے ، عہد رسالت میں یہ طرز عمل ایک صاع شمار ہوتا تھا،یا اگر انکی قیمت صدقہ کرنا چاہتا ہے تو انکا وزن نکال کر انکی قیمت معلوم کرے اور قیمت بطور صدقۃ الفطر نکال دے۔

مستحقین:

صدقۃ الفطر کے مستحق صرف فقراء ومساکین ہیں،جیسا کہ نبی نے فرمایا:

أما غنيكم فيزكيه الله وأما فقيركم فيرد الله عليه أكثر مما أعطى

تمہارے مالدار کو اللہ پاک کردیتا ہے اور تمہارے فقیر کو اس سے زیادہ لوٹادیتا ہے جو اس نے دیا ہو۔

نیز فرمایا:

طعمة للمساكين(ترجمہ)مسکین کے لئے خوراک ہے۔

مسکین وفقیرکی تعریف:

مسکین: وہ شخص ہے جسکی بنیادی ضروریات تک پوری نہ ہوں جیسا کہ نبی نے فرمایا:

ولكن المسكين الذي لا يجد غنى يغنيه

مسکین وہ شخص ہے جسکے پاس اسقدر رزق بھی نہ ہو جو اسے کفایت کر جائے۔(صحیح بخاری:1409)

فقیر:

اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو(مختار الصحاح،ص:213-القاموس المحیط،ص:588-لسان العرب،10/299)

فقیر اور مسکین کے مقابلے میں غنی (مالدار)آتا ہے اور نبی نے غنی اس شخص کو قرار دیا جس کے پاس 50درہم یا اس کے مساوی سونا ہو۔

(سنن ابی داؤد:1628-الصحیحۃ:499)

(وضاحت)جدید حساب کے مطابق 50 درہم تقریبا  ”سوا  بارہ“  تولے چاندی کے مساوی ہوتے ہیں۔

عید الفطر فضائل و احکام

وجہ تسمیہ:

یہ دو لفظوں سے ملکر بنا ہے ،”عید“جسکا معنی ہے لوٹنا،اور ”الفطر“جسکا معنی ہے روزہ چھوڑنا،مراد خوشی کا وہ دن ہے جو ہر سال رمضان المبارک کے اختتام پر آتا ہے،جس میں مسلمان اپنے رب کے احسانات اور اسکی نعمتوں کا اجتماعی طور پر شکر بجا لاتے ہیںاور ان پر فرحت و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔

شرعی حیثیت و حکمت:

نبی اکرم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ اہل مدینہ سال میں دو دن عید مناتے ہیں،ایک نوروز دوسرا مہرجان،تو نبی نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ  عزَّ وجل  قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا , يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى(ابوداؤد:1136)

اللہ عز وجل نے تمہیں ان دو دنوں کے بجائے یوم الفطر اور یوم الاضحی عطا فرمائے ہیں۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ:

mاسلام میں سالانہ عیدیں صرف دوہیں،عید الفطر اور عید الاضحی،تیسری سالانہ عید کا نظریہ باطل اور بدعت ہے۔

mنبی مکرم نے ان دو دنوں کو زمانہ جاہلیت کے دو دنوں،نوروز اور مہرجان کے مقابلے میں پیش کیا ،چنانچہ اسلام آجانے کے بعد ان دود دنوں کا منانا اہل جاہلیت کے ساتھ مشابہت اور خلاف شریعت ہے۔

mیہ دو دن مسلمانوں کی خوشی منانے کے دن ہیں،عید الفطر کی خوشی کی وجہ ماہ رمضان کے روزوں کی تکمیل ہے، جیسا کہ نبی نے فرمایا:

لِلصَّائمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِه

روزے دار کے لئے خوشی کے دو موقعے ہیں ایک جب وہ روزے رکھنا چھوڑتا ہے( تو وہ روزوں کی تکمیل پر خوش ہوتاہے)،دوسرا جب وہ اپنے رب سے ملے گا (اور وہ اسے جزا دے گا) تو وہ اپنے روزے پر خو ش ہوگا۔

(بخاری:1805)

ایک روایت میں ہے”فرح بفطرہ(مسلم:2762) روزوں کے چھوٹنے یعنی انکی تکمیل پر خوش ہوتا ہے(نہ کہ افطار کے وقت کھانے پینے پر)کہ اللہ تعالی کی توفیق سے ماہ رمضان کے روزے رکھے ،گناہ بخشوائے، درجات بلند کروائے،اعمال نامے میں حسنات کا اضافہ کیا وغیرہ ،چنانچہ عید کے روز اللہ تعالی کے ان انعامات پر خوش ہوتا ہے اور اللہ تعالی کا شکر بجالاتا ہے۔

آداب و مستحبات عید:

عید کا دن چونکہ مسلمانوں کی اجتماعی خوشی اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرنےکادن ہے لہذاس دن کے احکامات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے تاکہ یہ دن صحیح معنوں میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کا دن ثابت ہواور مسلمان اس دن خوشی میں بے قابو ہوکر شرعی حدود و قیود کو پامال نہ کریں۔

(1)نبی نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔(بخاری)

(2)یکم شوال ،غروب آفتاب سے نماز عید تک با آواز بلند تکبیرات پڑھنا،جیسا کہ اللہ تعالی نےماہ رمضان کے تذکرے میں فرمایا:

وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرلو اور اللہ نے تمہیں جو توفیق دی اس پر اسکی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم شکر بجا لاؤ(البقرۃ)

امام حاکم نے فرمایا:

هذه سنة تداولها أئمة أهل الحديث و صحت بہ الرواية عن عبد الله بن عمر و غيره من الصحابة

تکبیرات پڑھنا سنت ہے جسے محدثین نے ایک دوسرے سے نقل کیا ہے اور عبد اللہ بن عمر وغیرہ صحابہ سے اسکی روایت صحیح ثابت ہے۔ (المستدرک،کتاب صلاۃ العیدین،رقم:1105)

نیز نبی بھی اس موقع پر تکبیرات پڑھا کرتے تھے،جیسا کہ ابن عمر؄  نے کہا کہ:

كَانَ رَسُولُ اللهِ  ﷺ  يُكَبِّرُ يَوْمَ الْفِطْرِ مِنْ حِينِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ حَتَّى يَأتِىَ الْمُصَلَّى

نبی عید الفطر کے روزاپنے گھر سے نکلتے وقت تکبیرات پڑھتے حتی کہ عید گاہ پہنچ جاتے۔

(مستدرك حاکم: 1105 , دارقطنی: ج 244 ح6 ,بیهقی: 5926 ,  الإرواء تحت حديث: 650 , وصَحِيح الْجَامِع: 5004،الصحیحۃ،رقم:171)

تکبیرات کے الفاظ:

(ا)اللهُ أَكْبَرُ , اللهُ أَكْبَرُ , اللهُ أَكْبَرُ، لَا إلَهَ إِلَّا اللهُ، اللهُ أَكْبَرُ , اللهُ أَكْبَرُ , وَللهِ الْحَمْدُ(ارواء الغلیل،تحت رقم:654)
(ب) الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله اكبر ولله الحمد(ارواء الغلیل،تحت رقم:654)
(ج)الله أكبر الله أكبر الله أكبر ولله الحمد الله أكبر وأجل الله أكبر على ما هدانا(ایضا)
(د)الله أكبر كبيرا الله أكبر كبيرا الله أكبر وأجل الله أكبر ولله الحمد(ایضا)
(ہ)اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا اللَّهُمَّ أَنْتَ أَعْلَى وَأَجَلُّ مِنْ أَنْ تَكُونَ لَكَ صَاحِبَةٌ أَوْ يَكُونَ لَكَ وَلَدٌ أَوْ يَكُونَ لَكَ شَرِيكٌ فِى الْمُلْكِ أَوْ يَكُونَ لَكَ وَلِىٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا ، اللَّهُمَّ ارْحَمْنَا(بیھقی کبری،باب کیف التکبیر:6282)

(3)نماز عید کے لئے غسل کرنا:

امام نافع رحمہ اللہ نے کہا:

أن عبد الله بن عمر كان يغتسل يوم الفطر قبل أن يغدو إلى المصلى

ابن عمر؄عید الفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل غسل کرتے۔(سنن ابن ماجہ:1315)

نیز زاذان رحمہ اللہ نے کہا کہ:

سَأَلَ رَجُلٌ عَلِيًّا رضي الله عنه  عَنِ الْغُسْلِ , قَالَ: اغْتَسِلْ كُلَّ يَوْمٍ إِنْ شِئْتَ , فَقَالَ: لَا , الْغُسْلُ الَّذِي هُوَ الْغُسْلُ  قَالَ: يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَيَوْمَ عَرَفَةَ، وَيَوْمَ النَّحْرِ، وَيَوْمَ الْفِطْرِ.

ایک شخص نے علی؄ سے غسل کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ: ہر روز غسل کر اگر تو چاہے ،اس نے کہا :نہیں،میں غسل خاص کے متعلق پوچھ رہا ہوں ،تو انہوں نے کہا:جمعہ کے دن،عرفہ کے دن،عید الاضحی کے دن اور عید الفطر کے دن۔

(بیهقی:5919 ،ارواء الغلیل،تحت حدیث رقم:146)

(4)خوبصورت لباس پہننا ،خوشبو لگانااور زینت اختیار کرنا،جیسا کہ نبی نے فرمایا:

إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ جَعَلَهُ اللهُ لِلْمُسْلِمِينَ , فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ , وَإِنْ كَانَ طِيبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ , وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ

یہ عید کا دن ہے اللہ نے اسے مسلمانوں کے لئے مقرر کیا ہے ،لہذا جو جمعہ کے لئےآئے وہ غسل کرلے اور اگر ہو تو خوشبو لگا لے،اور مسواک ضرور کیا کرو۔

(ابن ماجة: 1098 , طبرانی اوسط: 7355،  صَحِيح الْجَامِع: 2258 , صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب:707)

نیزسیدنا ابن عباس ؄نے کہاکہ:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَلْبَسُ يَوْمَ الْعِيدِ بُرْدَةً حَمْرَاءَ

نبی کریم عید کے روز سرخ چوغہ پہنتے تھے۔ (طبرانی اوسط:7609،الصحیحۃ:1279)

امام نافع رحمہ اللہ نے کہا:

أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَلْبَسُ فِي الْعِيدَيْنِ أَحْسَنَ ثِيَابِهِ

ابن عمر؄ عیدین میں اپنا سب سے عمدہ لباس زیب تن کرتے۔(بیہقی،اسکی سند حسن ہے،فتح الباری لابن رجب:6/68)

(5)عید گاہ جاتے ہوئے گھر سے کچھ کھا کر نکلنا، جیسا کہ انس ؄ نے کہا کہ:

كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يغدو يوم الفطر حتى يأكل تمرات ويأكلهن وتراً

نبی عید کے روز گھر سے کھجور کھا کر نکلتے اور طاق تعداد میں کھاتے۔(بخاری:910، ابن ماجہ:1756)

(6)گھر کی خواتین اور بچوں کو بھی لے کر نکلنا:جیسا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنھا نے کہا:

أمرنا أن نخرج العواتق وذوات الخدور

ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم قریب البلوغ لڑکیوں اور پردےدار خواتین کو بھی نکالیں (بخاری:931)

نیز کہا:

أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْحُيَّضَ، يَوْمَ الْعِيدَيْنِ، وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ، وَيَعْتَزِلُ الحُيَّضُ عَنْ مُصَلاَّهُن
قَالَتِ امْرَأَةٌ : يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا

ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عیدین کےروز حیض والی خواتین اورپردہ نشینوں کو بھی نکالیں پس وہ مسلمانوں کی جماعت اور انکی دعا میں شریک ہوں البتہ حیض والی خواتین انکی عید گاہ سے الگ رہیں ، ایک عورت نے کہا:ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو؟ آپ نے فرمایا:اسے اسکی بہن اپنی چادر کا کچھ حصہ اسے اوڑھادے۔     (بخاری:344)

نیزسیدناابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا کہ:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بَنَاتَهُ وَنِسَاءَهُ أَنْ يَخْرُجْنَ فِي الْعِيدَيْنِ

رسول اللہ اپنی بیٹیوں اور گھر والیوں کو حکم دیتے کہ وہ عیدین کی نماز میں حاضر ہوں۔

(مسند احمد:2054،الصحیحۃ،رقم:2115)

نیز: سیدناعبد الله بن عمر؄نے کہا کہ:

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْرُجُ فِي الْعِيدَيْنِ مَعَ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللهِ، وَالْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ، وَجَعْفَرٍ، وَالْحَسَنِ، وَالْحُسَيْنِ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَزَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَأَيْمَنَ بْنِ أُمِّ أَيْمَنَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ رَافِعًا صَوْتَهُ بِالتَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ، فَيَأْخُذُ طَرِيقَ الْحَدَّادِينِ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُصَلَّى، وَإِذَا فَرَغَ رَجَعَ عَلَى الْحَذَّائِينَ حَتَّى يَأْتِيَ مَنْزِلَهُ

رسول اللہ عیدین میں فضل بن عباس، عبد اللہ ،عباس، علی، جعفر، حسن،حسین،اسامۃ بن زید، زید بن حارثہ، ایمن،رضی اللہ عنھم کے ساتھ با آواز بلند تکبیر و تہلیل پڑھتے ہوئے حدادین کے راستے سے ، عید گاہ پہنچتے ،اور جب فارغ ہوتے توحذائین کے راستے سے واپس آتے حتی کہ گھر پہنچ جاتے۔

(بیہقی کبری:6130،الصحیحۃ،رقم:171)

(7)پیدل چل کر جانا،واپس بھی پیدل آنا:

ابن عمر؄نے کہا کہ:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ إِلَى الْعِيدِ مَاشِيًا، وَيَرْجِعُ مَاشِيًا

رسول اللہ عید کے لئے پیدل جاتے اور پیدل ہی واپس آتے۔(ابن ماجہ:1295 ،صحیح الجامع:636)

البتہ واپسی میں راستہ بدلنا،جیسا کہ جابر بن عبد اللہ ؄نے کہا کہ:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلَّم إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ خَالَفَ الطَّرِيقَ(بخاری:943)

رسول اللہ عید کے دن راستہ بدلتے۔

(8)تکبیرات پڑھتے ہوئے جانا،جیسا کہ ابن عمر ؄ نے کہا:

كَانَ رَسُولُ اللهِ  صلى اللهُ عليه وسلَّم يُكَبِّرُ يَوْمَ الْفِطْرِ مِنْ حِينِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ حَتَّى يَأتِىَ الْمُصَلَّى

نبی اکرم عید الفطر کے دن اپنے گھر سے نکلتے وقت تکبیرات پڑھتے حتی کہ عید گاہ پہنچ جاتے۔

(المستدرک:1105,دارالقطنی: ج2،ص44 ،ح6 , بیہقی کبری:4974 , إرواءالغلیل، تحت حديث: 650 , صَحِيح الْجَامِع: 5004)

خواتین بھی تکبیرات پڑھتے ہوئے جائیں،جیسا کہ ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ:

الْحُيَّضُ يَخْرُجْنَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ يُكَبِّرْنَ مَعَ النَّاسِ

ہمیں حکم دیا جا تا کہ حائضہ عورتیں بھی نکلیں اور وہ لوگوں سے پیچھے رہ کر تکبیرات پڑھیں۔ (مسلم:2092) البتہ آواز پست رکھیں۔

(9)نکلنے سے قبل صدقۃ الفطر ادا کردینا:(ملاحظہ ہو صدقۃ الفطر کے مسائل، گذشتہ صفحات میں)

(10)کسی بھی دوسرے کام سے پہلے نماز عید ادا کرنا،جیسا کہ ابو سعید خدری  ؄نے کہا:

كَانَ رَسُولُ اللهِ  صلى الله عليه وسلم  يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى , فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلَاةُ

نبی مکرم عیدین کے روز عید گاہ جاتے اور سب سے پہلے نما زعیدپڑھاتے۔(بخاری:913)

(11)چھوٹے بچوں اوربچیوں کو اشعار گانے کی چھوٹ دینا:

(12)مردوں کا بھی کھیل کود کرنااور خواتین کا اسے ملاحظہ کرنا،جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا:

دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثٍ  فَاضْطَجَعَ عَلَى الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ , وَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَانْتَهَرَنِي وَقَالَ: مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ” دَعْهُمَا ” , فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا , وَقَالَتْ: كَانَ يَوْمُ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ , فَإِمَّا سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِمَّا قَالَ: ” تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ؟ ” , فَقُلْتُ: نَعَمْ , فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ , خَدِّي عَلَى خَدِّهِ , وَهُوَ يَقُولُ:”دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ “حَتَّى إِذَا مَلَلْتُ قَالَ:” حَسْبُكِ؟ ” , قُلْتُ , نَعَمْ , قَالَ ” اذْهَبِي “

رسول اللہ میرے پاس(عید کے روز) تشریف لائےتو دوبچیاں جنگ بعاث کے اشعار ترنم کے ساتھ پڑھنے لگیں،آپ بستر پر لیٹ گئے اور چہرہ پھیر لیا،پھر سیدنا ابوبکر ؄داخل ہوئے تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ: رسول اللہ کی موجودگی میں شیطان کا گانا ؟چنانچہ نبی انکی طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے:انہیں رہنے دو،پھر جب آپ کسی دوسری جانب متوجہ ہوئے تو میں نے انہیں ٹہوکا لگایاتو وہ دونوں چلی گئیں،نیز کہاکہ:عید کے روز حبشی چمڑے کی ڈھالوں اور چھوٹے نیزوں کے ساتھ کھیل رہے تھے،تو یا میں نے آپ سے پوچھا یا آپ نے مجھ سے کہ:کیا تو دیکھنا چاہتی ہے؟میں نے کہا :جی ہاں،پھر آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کرلیا ،میرا گال آپکے گال سے مس کررہا تھا اور آپ فرمارہے تھے:آگے بڑھو اے بنی ارفدۃ،حتی کہ میں تھک گئی تو آپ نے پوچھا:کافی ہے؟میں نے کہا:جی ہاں،آپ نے فرمایا:چلی جا۔(بخاری:907)

(13)مرد و زن کا اختلاط نہ کرنا، جیسا کہ اسید ؄ نے کہا کہ:

قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم وَهُوَ خَارِجٌ مِنْ المَسْجِدِ، وَقَدْ اخْتَلَطَ الرِّجَالُ مَعَ النِّسَاءِ فِي الطَّرِيقِ. فَقَالَ: “اسْتَأْخِرْنَ فَلَيْسَ لَكُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِيقَ، عَلَيْكُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِيقِ” فَكَانَتْ المَرْأَةُ تُلْصِقُ بِالجِدَارِ حَتَّى إِنَّ ثَوْبَهَا لَيَتَعَلَّقُ بِالجِدَارِ مِنْ لُصُوقِهَا بِهِ.

رسول اللہ مسجد سے باہر نکلے تو راستے میں مرد و زن کا اختلاط ہورہا تھا ،تو آپ نے فرمایا: عورتوں پیچھے رہو ،تمہیں راستے کے بیچ میں چلنے کا حق نہیں،تم راستے کے کناروں پر ہی رہا کروچنانچہ عورت دیوار کے ساتھ لگ کر چلتی حتی کہ اسکا کپڑا دیوار کے ساتھ اٹکتا۔(ابوداؤد:5274،الصحیحۃ:856)

(14)فحاشی و عریانیت سے بچنا،اللہ تعالی نے فرمایا:

قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آَبَائِهِنَّ أَوْ آَبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اے نبیمومنوں سے کہیں کہ: وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں،یہ انکے لئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے مومن خواتین سے کہیں کہ:وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں،اور اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کیا کریں،سوائے اپنے خاوندوں ،یا اپنے باپوں یا اپنے سسروں یااپنےبیٹوں یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں یااپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں یا اپنی عورتوں کے،یا اپنی لونڈیوں کے یا ایسے نوکروں کے جو شہوت والے نہ ہوں،یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے واقف نہ ہوں اور (یہ بھی کہہ دیں کہ)چلتے وقت اپنے پیروں کو زمین پر مارکر نہ چلیں تاکہ انکی پوشیدہ زینت معلوم کرلی جائے اور اے ایمان والو تم سب اللہ کے ہاں توبہ کرتے رہو تاکہ فلاح پاجاؤ۔ (النور)

(15)اسراف اور فخر و ریاء سے بچنا:

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (الاعراف:آیۃ31)

اے اولاد آدم ہر عبادت کےوقت اپنی زینت اختیار کرو ،اور کھاؤ ،پیو ، اور فضول خرچی نہ کرو ،کیونکہ وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ  وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ (لقمان:آیۃ19)

اور لوگوں کے سامنے اپنے گال مت پھلا،نہ ہی زمین میں اکڑ کر چل،کیونکہ اللہ کسی بھی گھمنڈی ،اور شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا،اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز کو پست رکھ ،بے شک سب سے بری آواز گدھے کی آوازہے۔

(16)غرباء و مساکین کا خاص خیال رکھنا،جیسا کہ ابو سعید خدری؄ نے کہا کہ:رسول اللہ عید کے خطبے میں ارشاد فرماتے:

تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا

صدقہ کرو،صدقہ کرو،صدقہ کرو۔(مسلم 2090)

تاکہ مسلمان فقراء و مساکین بھی عیدکی خوشیوں میں برابر شریک ہوسکیں۔

نماز عید کے مسائل:

(1)کھلے میدان میں پڑھنا،جیسا کہ ابو سعد خدری؄ نے کہا کہ:

كان النبي صلى الله عليه وسلم يخرج في الفطر والأضحى إلى المصلى

نبی مکرم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ جایا کرتے ۔(بخاری:913)

(2)طلوع آفتاب کے بعد پڑھنا،جیسا کہ یزید بن حمیر الرحبی رحمہ اللہ نے کہا کہ:

خَرَجَ عَبْدُ اللهِ بْنُ بُسْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلَّم  مَعَ النَّاسِ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ فَقَالَ: إِنَّا كُنَّا قَدْ فَرَغْنَا سَاعَتَنَا هَذِهِ وَذَلِكَ حِينَ التَّسْبِيحِ

سیدناعبد اللہ بن بسر صحابی رسول ؄ عید کے روز لوگوں کے ساتھ نکلے اور امام کی تاخیر کو ناپسند کیا اور کہا کہ:اس وقت تک تو ہم فارغ ہوجایا کرتے تھے،اور یہ نماز چاشت کا وقت تھا۔ (ابوداؤد:1135,ابن ماجہ:1317،إرواءالغلیل 632)

(3)نماز سے پہلے یا بعد نفل نہ پڑھنا، جیسا کہ ابن عباس ؄نے کہا کہ:

اَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ أَضْحَى، أَوْ فِطْرٍ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا

رسول اللہ عید کے روز نکلے،دو رکعت نماز پڑھائی اور نہ اس سے پہلے نماز پڑھی نہ اسکے بعد۔ (بخاری:921)

(4)پہلے نماز پڑھنا پھر خطبہ پڑھنا،جیسا کہ جابر بن عبد اللہ ؄نے کہا:

إن النبي صلى الله عليه وسلم  خرج يوم الفطر فبدأ بالصلاة قبل الخطبة

نبی اکرم عید کے دن نکلے اور خطبے سے قبل نماز پڑھائی۔(بخاری:915)

پہلے خطبہ اور پھر نماز کی بدعت مروان نے جاری کی،جیسا کہ طارق بن شھاب رحمہ اللہ نے کہا کہ:

أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ قَبْلَ الصَّلاَةِ مَرْوَانُ

عید کے دن نماز سےقبلخطبہ سب سے پہلے مروان نے دیا۔(مسلم:18)

(5)سترہ لگانا،جیسا کہ ابن عمر ؄ نے کہا کہ:

قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم لَا تُصَلِّ إِلَّا إِلَى سُتْرَةٍ

رسول اللہ نے فرمایا:سترے کے بغیر نماز نہ پڑھ(ابن خزیمہ:800 , ابن حبان:2362 ،حسن، صفۃ الصلاۃ، ص82)

(6)دو رکعات نماز پڑھنا:(ملاحظہ ہومسئلہ نمبر:3)

(7)نماز سے قبل آذان یا اقامت نہ کہنا، جیسا کہ جابر بن عبد اللہ ؄نے کہا:’’نبی عید کے دن نکلے اور خطبے سے قبل نماز پڑھائی آذان و اقامت کے بغیر۔(بخاری:915)

(8)پہلی رکعت میں سات زائد تکبیرات اور دوسری میں پانچ زائد تکبیرات پڑھنا،جیسا کہ عمرو بن عوف؄ نے کہا کہ:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ٓ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  كَبَّرَ فِي الْعِيدَيْنِ سَبْعًا فِي الْأُولَى، وَخَمْسًا فِي الْآخِرَةِ

رسول اللہ نےعیدین میں پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات کہیں۔

(صحیح ابن ماجہ:1057)

(9)زائد تکبیرات میں رفع الیدین کرنا،جیسا کہ ابن عمر؄نے کہا کہ:

ويرفعُهما في كل تكبيرة يكبرُها قبلَ الرُّكوع حتى تنقضيَ صلاتُه

رسول اللہ رکوع سے قبل ہر تکبیر میں رفع الیدین کیا کرتے تھے۔

(اسے علامہ البانی(ارواء الغلیل،تحت حدیث: 640 )شیخ الارناؤط (ابو داؤد:722) او زبیر علی زئی نے صحیح کہا ہے،امام بیھقی(سنن کبری:6188) اور ابن المنذر النیسابوری (ارواء الغلیل،تحت حدیث:640) نے اس حدیث سے زوائد تکبیرات عیدین میں رفع الیدین کرنے پر استدلال کیا ہے، نیزامام اوزاعی (احکام العیدین للفریابی،رقم:124)، امام مالک (ایضا،رقم:125) ،امام شافعی (کتاب الام،1/237)،امام احمد (مسائل الامام احمد بروایۃ ابی داؤد،ص:60)،امام یحیی بن معین (تاریخ ابن معین بروایۃ الدوری، 2284)بھی ان تکبیرات میں رفع الیدین کے قائل تھے۔)

(10)پہلی رکعت میں سورۃ”الاعلی“ اور دوسری میں سورۃ ”الغاشیۃ“ یاپہلی میں” ق“اور دوسری میں” القمر“ پڑھنا۔

(ابو داؤد:1124،مسلم:2096،الارواء:643)

(11)اگر کسی کی نماز عید رہ جائے تو وہ دو رکعت ادا کرے نیز گاؤں میں بھی نماز عید ادا کرنا،جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:

أمر أنس بن مالك مولاهم ابن أبي عتبة بالزاوية فجمع أهله وبنيه وصلى كصلاة أهل المصر وتكبيرهم

سیدناانس بن مالک ؄نے اپنے غلام کو مضافات میں جانے کا حکم دیا ،پھر انہوں نے اپنے گھر والوں اور بیٹوں کو جمع کیا اور انہیں شہر والوں کی طرح نماز پرھائی اور تکبیرات پڑھیں۔

(صحیح بخاری تعلیقا قبل الحدیث:944،و رواہ ابن ابی شیبۃ موصولا،کتاب الصلاۃ،باب الرَّجُلُ تَفُوتہُ الصَّلاَۃفِي الْعِيدَيْنِ،کَمْ يُصَلِّي؟،الارواءتحت حدیث:648)

(12)نماز کے بعد توجہ سے خطبہ سننامستحب و افضل ہے،جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن سائب ؄نے کہا کہ:

شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلَّم  الْعِيدَ , فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ قَالَ: إِنَّا نَخْطُبُ , فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ لِلْخُطْبَةِ فَلْيَجْلِسْ , وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَذْهَبَ فَلْيَذْهَبْ

میں نبی کریم کے ساتھ عید کے اجتماع میں حاضر ہوا ،جب آپ نے نماز پڑھالی تو فرمایا:ہم خطبہ دیں گے جو سننا چاہے وہ بیٹھا رہے اور جو جانا چاہے وہ چلا جائے۔(ابوداؤد:1157،ارواءالغلیل:629)

(13)اگر عذر ہو تو مسجد میں نماز عید ادا کرنا،بلا عذر مسجد میں نماز عید ادا کرنا بدعت ہے،علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا:احادیث صحیحہ میں وارد شدہ سنت نبویہ ہے کہ نماز عید شہر سے باہر کھلے میدان میں پڑھی جائے،صدر اول میں اسی پر عمل رہا،وہ مساجد میں عید نہیں پڑھتے تھے،الا یہ کہ بارش وغیرہ کا عذر ہو، ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ اہل علم کا بھی یہی مذہب ہے،اور میں اس سلسلے میں کسی کی مخالفت نہیں جانتا سوائے امام شافعی کے،وہ مسجد میں نماز عید کی افضلیت کے قائل ہیں جبکہ وہ جمیع اہل بلد کو محیط ہو،اور اسکے باوجود وہ کھلے میدان میں نماز عید میں حرج نہیں سمجھتے تھے،اور اگر مسجد جمیع اہل بلد کو محیط نہ ہو تو انہوں نے صراحت کی ہے کہ اس میں عیدین کی نماز مکروہ ہے،چنانچہ یہ احادیث صحیحہ،صدر اول کا عمل، اور اقوال علماء-حتی کہ امام شافعی کے قول کے مطابق بھی -یہ سب دلالت کرتے ہیں کہ فی زمانہ عیدین کی نماز مساجد میں پڑھنا بدعت ہے، کیونکہ ہمارے شہروں میں ایسی کوئی مسجد نہیں جو سب شہر والوں کو محیط ہو۔(صلاۃ العیدین فی المصلی ھی السنۃ،للالبانی،ص:35)

(14)اگر جمعہ کے دن عید آجائے تو جمعہ نہ پڑھنے کی رخصت ہے،جیسا کہ زید بن ارقم ؄نے کہا: کہ ایک دن جمعہ اور عید دونوں ایک دن میں جمع ہوگئے تو نبی نےجمعہ نہ پڑھنے کی اجازت دی اور فرمایا:

مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّىَ فَلْيُصَلِّ

جو پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے۔ (ابوداؤد:1072،صحیح ابی داؤد:981)

خطبہ عید کے مسائل:

(1)صرف ایک خطبہ دینا:کیونکہ جن روایات میں دو خطبوں کا ذکر ہے وہ ضعیف ہیں،(الضعیفۃ:5789) اور خطبہ عید کو خطبہ جمعہ پر قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ عبادات میں قیاس کادخل نہیں،نیز یہاں قیاس ممکن بھی نہیں کیونکہ جمعہ میں خطبہ پہلے ہے جبکہ عید میں نماز پہلے ہے،خطبہ جمعہ سننا فرض ہے جبکہ خطبہ عید سننا مستحب ہے ۔

(2)نیزخطبہ عید کے لئے منبر کا استعمال نہ کرنا:کیونکہ نبی سے نماز عید میں منبر کا استعمال ثابت نہیں ،سب سے پہلے اسکا استعمال مروان نے کیا۔(ملاحظہ ہو ،بخاری:913،الضعیفۃ:963)

(3)خطیب کاعصا پکڑنا، خطبہ حاجت پڑھنا اور وعظ و نصیحت کرنا،جیسا براء بن عازب؄ نے کہا کہ:

أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُووِلَ يوم العيد قوساً، فخطب عليه

نبی کریم کو عید کے دن کمان پکڑائی گئی تو آپ نے اس پر ٹیک لگاکر خطبہ دیا۔(صحیح ابی داؤد:1039) نیز جابر بن عبد اللہ؄ نے کہا کہ:

فَلَمَّا قَضَى الصَلَاةَ قَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى بِلَالٍ فَحَمِدَ اللهَ , وَأَثْنَى عَلَيْهِ , وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ

جب آپ نے عید کی نماز ادا کرلی توسیدنا بلال ؄پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے،اللہ کی حمد و ثنا بیان کی،اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی۔

(نسائی:1575،اسکی اصل صحیح مسلم ”2085“میں ہے،الارواء:646)

(4)اگر ضرورت ہو تو خواتین کو الگ سے وعظ و نصیحت کرنا،جیسا کہ ابن عباس ؄نے کہا کہ:

أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَصَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ قَالَ  ثُمَّ خَطَبَ فَرَأَى أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ فَأَتَاهُنَّ فَذَكَّرَهُنَّ وَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ وَبِلاَلٌ قَائِلٌ بِثَوْبِهِ فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِى الْخَاتَمَ وَالْخُرْصَ وَالشَّىْءَ.

میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ نے خطبے سے قبل نماز پڑھائی،پھر خطبہ دیا،پھر آپ نے خیال کیا کہ خواتین تک آپکی آواز نہیں پہنچی، چنانچہ آپ انکے پاس گئے،اورانہیں وعظ و نصیحت کی اور صدقہ کرنے کا حکم دیا،چنانچہ بلال نے کپڑا پھیلایا،تو خواتین اپنے زیور سے صدقہ کرنے لگیں۔(بخاری ،مسلم)

متفرقات:

(1)اجتماعی دعا کرنا جیسا کہ نبی نے خواتین کوعید گاہ میں لانے کے متعلق فرمایا کہ:

فيشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم

وہ مسلمانوں کے اجتماع اور انکی دعا میں شریک ہوں۔(بخاری:344)

(2)عید کی مبارکباد دینا،جیسا کہ جبیر بن نفیر؄ نے کہا کہ:

كان أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض : تقبل الله منا ومنك

نبی مکرم کے صحابہ عید کے روز جب ایک دوسرے سے ملتے تو کہتے:تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنکَ

یعنی اللہ تعالی ہمارے اور آپکے نیک اعمال قبول کرے  (تمام المنۃ للالبانی،1/354،الضعیفۃ،تحت حدیث:5666)

(تنبیہ)عید کی نماز کے بعد مروجہ مصافحہ یا معانقہ کتاب وسنت یا صحابہ کرام سے ثابت نہیں لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے