رمضان کے آخری عشرے کی بڑی فضیلت ہے کیونکہ طاق راتیں اسی میں آتی ہیں اور لیلۃ القدر بھی اسی میں تلاش کی جاتی ہے جس کی فضیلت یہ ہےکہ اس ایک رات میں کی گئی عبادت ہزار مہینے سے بہتر اور افضل ہے اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اعتکاف کرے تاکہ وہ اس رات کو پاسکے اور اعتکاف مسجد کے بغیر کہیں نہیں ہوتا، جیسا کہ نبی کریم بھی کیا کرتے تھے، اعتکاف ایک عظیم عبادت ہے، جو اس کی قدرت رکھتا ہو رمضان کی آخری دس راتوں میںاس کا اہتمام کرے، یہ عبادت اللہ کے قرب، بندے کے درجات میں بلندی اور گناہوں کی معافی کے لیے عظیم نعمت ہے۔

اگر اعتکاف نہیں کرسکتاتو لازم ہے کہ اس آخری عشرے میں عبادات کا خصوصی اہتمام کرے قیام ، تلاوت قرآن اور دعاؤں کی کثرت کرے اور اس عشرے کی بابرکت راتوں سے بھر پورفائدہ اٹھائے اور ان مبارک ساعتوں کا نیند و غفلت کی نذر ہونے سے بچائے، دن میں ذراآرام کرے تاکہ رات کی عبادت اچھی طرح کرسکے۔

سیدہ عائشہ رr فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول   رمضان کے آخری دنوں میں بہت زیادہ عبادت فرماتے اور اپنی کمر کس لیتے ، خود رات کو جاگتے اور عبادت کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے ۔

اسی طرح اللہ کے رسول غرباء ومساکین کو بھلائی پہنچانے میں سب لوگوں سے زیادہ سخی (صدقہ) کرتے تھے ( بخاری)

اور رمضان میں جب جبرئیل علیہ السلام آپ  سے ملتے تو آپ  اور زیادہ سخاوت کرتے۔ نبی مکرم علیہ السلام رمضان میں ہر رات رمضان گزرنے تک (آپ ) سے ملتے رہتے اور آ پ سے قرآن کا دور کرتے۔

بے حد فضیلت والے آخری دس دنوں میں جو کرنے کے کام ہیں وہ درج ذیل ہیں :

۱۔ اعتکاف :

اس عشرے میں بہت زیادہ فضیلت والا عمل اعتکاف ہے۔

اعتکاف کے معانی جم جانا ۔ رمضان کے آخری عشرے کی یہ عمدہ عبادت ہے اللہ کے رسول مدینہ میں ہر سال اعتکاف کیا کرتے تھے۔ بس ایک ہی سال کسی سفر کی وجہ سے اعتکاف نہ کر سکے تو آپ  اگلے سال بیس دن اعتکاف کیا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب اللہ کے رسول اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھ کر اعتکاف میں داخل ہوجاتے۔ (بخاری)

قرآن حکیم میں ہے : 

 وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ  فِي الْمَسٰجِدِ (البقرۃ:187)

اور تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھنے والے ہو۔

جب اللہ کے رسول مسجد میں اعتکاف کرتے تھے تو ہمیں بھی مسجد میں اعتکاف کرنا چاہیے۔

۲۔ لیلۃ القدر

اللہ نے اس رات کی فضیلت سے آگاہ کرنے کے لیے پوری سورت القدر اتاری اللہ کے رسول نے اس رات کی فضیلت کے بارے میں فرمایا : 

مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ(بخاری ومسلم)

جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کے ارادے سے قدر والی رات میں قیام کیا اس کے پہلے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

صحیح بخاری میں ایک اور حدیث ہے سیدنا عبادہ بن صامت tفرماتے ہیں :’’ اللہ کے رسول   گھر سے نکلے تاکہ وہ ہم کو لیلۃ القدر بتائیں راستے میں دو مسلمان لڑ پڑے آپ  نے فرمایا کہ میں آپ کو شب قدر بتلانے کے لیے نکلا تھا لیکن فلاں فلاں کے لڑنے سے شب قدر کی تفصیل اٹھا لی گئی‘‘

قارئین کرام! غور فرمائیے اللہ اتنی بڑی رحمت ونعمت دو مسلمانوں کے آپس میں لڑنے کی وجہ سے واپس چلی گئی جہاں لڑائی جھگڑا ہو وہاں سے اللہ رحمتیں اٹھالیتاہے ہمیں تو بالکل بھی نہیں لڑنا جھگڑنا چاہیے خصوصاً رمضان میں تو بچ کر نیکیاں سمیٹی جائیں۔ رسول اللہ  نے فرمایا : کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو تو وہ طاق راتیں یہ ہیں : ۲۱۔۲۳۔۲۵۔۲۷۔۲۹

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ سے پوچھا کہ اگر اس رات کو پالے تو کیا پڑھے؟ تو آپ  نے فرمایا وہ اس رات یہ دعا پڑھے ۔

اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّي

’’ اے اللہ!بے شک تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند فرماتا ہے لہذا مجھے معاف کر دے۔(مسند احمد )

صدقہ فطر :

غریبوں ،مسکینوں اور بے سہاروں کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کی زبانی صدقہ فطر کو مسلمانوں پر آزاد ،مرد ، عورت، چھوٹے،بڑے پر فرض فرمایا ہے وہ کھجور یا جَو کا ایک صاع ہے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نماز عید کے لیے گھر سے نکلنے سے پہلے پہلے صدقہ فطر ادا کر دیا جائے ۔ (صحیح بخاری)

عید الفطر : 

عید مسلمانوں کے لیے خوشی کا دن ہے جس میں بچے،بوڑھے، جوان بھی نئے نویلے کپڑے پہنے خوشبو لگائے روزوں کے ختم ہونےپر یکم شوال کو اکٹھے خوشیاں مناتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سال میں دو خوشیاں عطا کیں ہیں ایک بڑی عید (عید الاضحی) اور دوسری عید الفطر ۔ تمام مسلمانوں کا اس خوشی میں شامل ہونا ضروری ہے۔ عید کی نماز اللہ کے رسول کھلے میدان میں پڑھتے تھے اس نماز کے لیے اذان ہے نہ اقامت صرف دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں۔

پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ سات بار اللہ اکبر کہا جائے گا اور دوسری رکعت قرأت سے پہلے پانچ بار اللہ اکبر کہا جائے گا۔

پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی اور دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ پڑھنااور نماز کے بعد خطبہ بھی مسنون ہے۔

قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے ڈھیروں فضیلتوں اور خوشیوں والا آخری عشرہ ہماری قسمت میں کر دیا ہے تو آئیں تیاری کریں کہ اس کی فضیلتوں اور بے بہا خوشیوں کو سمیٹیں اور سبھی کو اپنے ساتھ ملائیں تاکہ یہ سب ہماری نجات کی دلیل بن جائے ۔ آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے