پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے، اور اسلام پر اچھی طرح کار بند رہو۔

مسلمانو!

اللہ تعالی نے کچھ لیل و نہار کو ایک دوسرے پر فضیلت دی، اور مہینوں میں سے ایک ماہ کو پورے سال کے ماتھے کا جھومر قرار دیا، اس مہینے کو خصوصی فضل و کرم بخشا، جس کا دن صیام اور رات قیام میں گزرتی ہے، اس ماہ میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے، جہنم کے دروازے اچھی طرح بند کر دیے جاتے ہیں، اور جنت کے دروازے چوپٹ کھول دیے جاتے ہیں، نیکیاں بڑھ جاتی ہیں، اور گناہ مٹا دیے جاتے ہیں، یہ معافی و مغفرت کی بہار ہے، یہ ماہ خیر و برکات کا مہینہ ہے۔

رمضان میں نفس غفلت کی غلامی اور سستی و کاہلی کی بیڑیوں سے عبادت و اطاعت کی بہار میں آ جاتا ہے، اس ماہ میں زبانیں گڑگڑاتی ہیں، نفس اللہ سے لو لگائے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے عبادت میں لذت آتی ہے، حتی کہ من مسرور، اور وقت میں برکت حاصل ہوتی ہے۔

روزوں سمیت دیگر تمام عبادت صرف اللہ کیلئے بجا لانا دین کا بنیادی اصول ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو اخلاص کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

 فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ (الزمر : 2)

’’ آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ اپنی عبادت کے بارے میں واضح کر دیں کہ آپ کی عبادت صرف اخلاص پر مبنی ہے، چنانچہ آپ کو حکم دیا گیا:

قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ (الزمر : 11)

’’آپ کہہ دیں: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں صرف اللہ کی عبادت کروں، اسی کیلئے دین خالص کرتے ہوئے۔

اور اسی بات کا حکم تمام اقوام کو دیا گیا، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (البينة : 5)

 اور انہیں حکم یہی دیا گیا تھا کہ دین صرف اللہ کیلئے مختص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں، پوری طرح یکسو ہو کر نماز قائم کریں ، زکوٰۃ ادا کریں ، یہی درست دین ہے

نماز کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت کی ابتدا سے ہی نماز کا حکم دیا کرتے تھے، جیسے کہ ہرقل نے جب ابو سفیان سے کہا تھا: “وہ -یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم -تمہیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟” تو ابو سفیان نے کہا تھا: “وہ نماز، زکاۃ، پاکدامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے” (متفق علیہ)

نماز اللہ تعالی کے ہاں سب سے پسندیدہ عمل ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، “اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ عمل کونسا ہے؟” تو آپ نے فرمایا:’’سب سے پہلے وقت پر نماز پڑھنا، اور اس کے بعد والدین کیساتھ حسن سلوک سے پیش آنا‘‘ (متفق علیہ)

قرآن مجید کی متعدد آیات میں نماز کیساتھ زکاۃ کو ملا کر بیان کیا گیا ہے، کیونکہ زکاۃ بھی دین کی اساس ہے، زکاۃ نفس کو بخل اور کنجوسی سے پاک کرتی ہے، نیز مال بڑھا کر اس کی حفاظت بھی کرتی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا(التوبة : 103)

 ان کے مال سے زکاۃ وصول کریں، آپ اس کے ذریعے ان کے مال پاک صاف کرینگے۔

زکاۃ کی ادائیگی انسان کو گناہوں کی سزاؤں، اور بڑی بڑی مصیبتوں سے بچا کر معاملات آسان کر دیتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى (5) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى (6) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى (7) وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى (8) وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى (9) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى (الليل : 510)

جو شخص عطیہ دے اور متقی رہے اچھی باتیں تسلیم کرے تو ہم اسے آسان راہ پر چلنے کی سہولت دیں گےاور جس شخص بخیلی کی اور لا پرواہ رہا اچھی باتوں کو مسترد کر دیا تو ہم اسے تنگی کی راہ پر چلنے کی سہولت دیں گے۔

ماہِ رمضان صدقات اور عطیات دینے کا مہینہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں انتہائی سخی ہوتے تھے۔

اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال ضرور واپس کیا جاتا ہے، اور قرض کی طرح لوٹایا جاتا ہے، صدقہ کرنے سے مال میں اضافہ ہوتا ہے کبھی اس میں کمی نہیں آتی، انسان قیامت کے دن اپنے صدقات [کے سائے] میں ہوگا۔

رمضان میں کچھ ایسی عبادات ہیں جو انسان کے گناہوں کو مٹا دیتی ہیں، چنانچہ اس ماہ کے روزے انسان کی غلطیاں کوتاہیاں مٹا دیتے ہیں، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: ’’جس شخص نے ایمان کیساتھ ثواب کی امید سے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘‘ ( متفق علیہ)

اور جو شخص اس ماہ کے روزے پابندی سے رکھے تو یہ اس کیلئے آگ سے بچاؤ کا ذریعہ ہونگے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے:’’روزہ ڈھال ہے‘‘ (متفق علیہ)

ابن حجر رحمہ اللہ اس کی شرح میں کہتے ہیں: “جب انسان دنیا میں اپنے آپ کو روزہ رکھ کر نفسانی خواہشات سے بچائے تو اس کے بدلے میں یہ روزہ آخرت میں آگ سے بچاؤ کا باعث ہوگا”

جو شخص اس ماہ کی راتوں کو قیام کرے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: ’’جس شخص نے ایمان کیساتھ ثواب کی امید سے رمضان میں قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘‘ (متفق علیہ )اور نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “یہاں قیام سے مراد نمازِ تراویح ہے”

یہ ماہ برکتوں والا مہینہ ہے، جس میں عمرہ حج کے برابر ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام نے ایک انصاری خاتون سے فرمایا:’’تم ہمارے ساتھ حج کرنے کیوں نہیں جاتیں؟‘‘ تو اس نے کہا: “ہمارا ایک جوان اونٹ ہے جس پر میرا خاوند اور بیٹا (حج پر)جا رہا ہے، جبکہ دوسرے اونٹ پر ہم پینے کیلئے پانی لاتے ہیں” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب رمضان آئے تو اس میں عمرہ کر لینا؛ کیونکہ رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے) بخاری، ابن جوزی رحمہ اللہ اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: “اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ افضل وقت کی وجہ سے نیکی کے ثواب میں بھی اضافہ ہوتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے حاضر قلبی، اور اخلاص سے ثواب زیادہ ہو جاتا ہے”

اللہ کی کتاب قرآن مجید بھی رمضان میں نازل کی گئی ، فرمانِ باری تعالی ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقرة : 185)

’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل موجود ہیں ‘‘

یہ ماہ کثرت سے قرآن کی تلاوت کا مہینہ ہے، چنانچہ جبریل علیہ السلام اسی مہینے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ مل کر قرآن مجید کی دہرائی کرتے تھے، مسلمان جس قدر قرآن مجید کی تلاوت کرے اتنا ہی جنت میں بلند ہو جائے گا، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (حافظ قرآن سے کہا جائے گا: پڑھتا جا، چڑھتا جا، جیسے تو دنیا میں پڑھا کرتا تھا، بیشک تیری منزل وہی ہو گی جہاں تیری آخری آیت مکمل ہوگی) احمد

دعا مشکل کشائی کی کنجی ، اور خیر بھلائی کی سیڑھی ہے، اور یہ اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے کہ روزے دار کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (تین لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں: روزے دار کی دعا، عادل حکمران کی دعا، جبکہ مظلوم کی دعا کو اللہ تعالی بادلوں سے بھی اوپر اٹھا کر اس کیلئے آسمان کے دروازے کھول دیتا ہے، اور فرماتا ہے: “مجھے میری عزت کی قسم! میں تمہاری ضرور مدد کرونگا، چاہیے کچھ وقت کے بعد”( ترمذی)

یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ اس نے رمضان میں فضائل در فضائل رکھے ہیں، چنانچہ رمضان کے آخری عشرے کو رمضان کا زبدہ بنا دیا ، اس میں ایک رات ایسی ہے جس کی عبادت ایک ہزار ماہ کی عبادت سے بھی افضل ہے، اللہ کے ہاں اس رات کے مقام و مرتبہ اور رحمت و برکت کی کثرت کے باعث اس رات میں فرشتے اترتے ہیں، اور فرشتے رحمت و برکت کیساتھ نزول کرتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں اعتکاف کرتے اور لیلۃ القدر تلاش کرتے ، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: “نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف اپنی ساری زندگی کرتے رہے” متفق علیہ، ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف سنت مؤکدہ ہےکیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشہ عمل کیا، اس لئے مؤمنوں کو اعتکاف کیلئے اپنے نبی کی اقتدا کرنی چاہیے”

مسلمان اعتکاف میں مخلوق سے رابطہ ختم کر کے خالق کی عبادت کیلئے ہمہ تن مصروف ہو جاتے ہیں، چنانچہ جس وقت اللہ تعالی کیساتھ تعلق مضبوط ہو جائے تو وہ اپنے بندے پر راضی بھی ہو جاتا ہے۔

ابن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں: “مسلمانوں پر تعجب ہے! کہ انہوں نے اعتکاف چھوڑ دیا ہے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں داخل ہونے کے بعد ہر سال آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا، یہاں تک کہ آپ یہاں سے کوچ فرما گئے”

روزے کے منافی اور روزہ توڑ دینے والے امور سے بالکل پرہیز کریں، دیکھنا کہیں کسی مسلمان کی آبرو تار تار مت کرنا، اپنی زبان، سماعت، اور بصارت کو حرام کاموں سے دور رکھنا۔

امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: “روزے دار کو اپنی زبان سے اپنا روزہ محفوظ رکھنا چاہیے، اس لیے گفتگو کرتے ہوئے حد سے تجاوز نہ کرے، سلف روزہ رکھ کر مسجد میں ڈیرے لگا لیتے کہ : اس طرح ہم غیبت سے بچیں گے اور اپنے روزے کی حفاظت کر سکیں گے”

اور اگر کسی جاہل سے واسطہ پڑ بھی جائے تو برابری کی بنیاد پر بھی جواب نہ دے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: ’’جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو بیہودہ باتوں اور غل غپاڑے سے بچے، اور اگر کوئی برا بھلا کہہ بھی دے تو جواب میں کہہ دے: “میرا روزہ ہے” (بخاری)

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: {وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (آل عمران : 133)

’’اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، اسے متقی لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے‘‘

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا اور تنہا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!

دل کا علاج پانچ چیزوں میں ہے: قرآن مجید کی تدبر کیساتھ قراءت، خالی پیٹ رہنا، رات کو قیام کرنا، سحری کے وقت دعا کرنا، اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا۔

ماہِ صیام میں آپ نیکیوں، تہجد، اور قرآن کے راہی بنیں، ماہِ صیام کو نفسانی خواہشات کے خلاف اقدامات کا مہینہ بنائیں، اور عبادت و اطاعت کے ذریعے قرب الہی تلاش کریں، قرآنی آیات کو سمجھیں، رات کو قیام کریں، یہ ماہ توبہ کا مہینہ ہے، اور توبہ کا دروازہ کھلا ہے، اللہ تعالی اس ماہ میں خصوصی کرم نوازی فرماتا ہے۔

اس لیے اللہ کی طرف رجوع کرنے میں تاخیر مت کرو، بارگاہِ الہی کا دروازہ کھٹکھٹاؤ، کثرت سے استغفار کرو، اور ان قیمتی لمحات کو غنیمت سمجھو، کیونکہ یہ تھوڑے سے دن ہیں، فضیلتوں والے اوقات گزرتے جا رہے ہیں، رمضان کے قیمتی خزانوں کو لہو و لعب اور غیر مفید چیزوں میں ضائع مت کرو۔

عقلمند وہی ہے جو اپنی حالت پر نظر رکھے، اپنے عیوب کے بارے میں سوچے، اور اچانک موت کے آنے سے پہلے پہلے اپنی اصلاح کر لے ۔

یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا(الأحزاب: 56)

’’اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو‘‘

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد،

اللہ کے بندو!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النحل: 90)

 اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔

تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے