حذیفہ کلاس میں کیا کر رہے ہو ۔ سب تمہیں باہر ڈھونڈ رہے ہیں۔ کل ہمارا اسکول میںرمضان سے پہلے آخری دن ہے ۔ پارٹی کرنے کا Planہے۔ آکر بتاؤ کچھ۔ انس نے حذیفہ کو آواز دی ۔ آیا ۔ ابوہریرہ کی کاپی رکھنے آیا تھا کام کے لئے لی تھی بس آیا۔ حذیفہ نے وہ ڈائری جلدی سے انس کے آنے پر چھپالی تھی۔ یہ ڈائری ابوہریرہ کی تھی جو اس کی ڈیسک پر کھلی پڑی تھی جس میں یہ نظم ابھی کی لکھی لگتی تھی۔

عید آئی لیکن میری کہاں ہے

میری خاموشی میری زبان ہے

کپڑے پھٹے ہیں جوتے پرانے

عید آگئی ہے مجھ کو رلانے

مت اب سناؤ نغمے سہانے

دنیا لگی ہے آنکھیں چرانے

عید آئی لیکن میری کہاں ہے

میں ہوں یتم اور معصوم بچہ

سارے جہاں کا مظلوم بچہ

بد قسمتی سے محکوم بچہ

بدقسمتی سے محروم بچہ

عید آئی ہے میری کہاں ہے

کلاس سے باہر آکر حذیفہ اپنے دماغ میں بہت کچھ سوچ رہا تھا۔ کیسا مسلمان تھا وہ اس کو اپنے ہی ساتھ پڑھنے والے بچوں کے حالات کا علم نہیں تھا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی بہت غریب تھے لیکن انہیں کتنی دلچسپی تھی دین سیکھنے کی ۔ ایک دفعہ انہیں بہت شدید بھوک لگی تھی تو نبی اکرم سمجھ گئے تھے اور انہوں نے انہیں پینے کو دودھ دیا تھا۔ یہ واقعہ کل ہی حذیفہ کے والد نے اسے رات میں سنایا تھا اب اس کے پاس ایک Planتھا۔

کل ہم پارٹی نہیں کریں گے۔ حذیفہ نے آکر کہا کیوں نہیں کریں گے ؟ اس نے کہا ابو ہریرہ کے علاوہ باقی سب ہی تو کل اسکول آئیں گے۔ ہم سب کا Planہے۔ میرے پاس اس سے اچھا Planہے ۔ کیا تم لوگوں نے سوچا ابو ہریرہ ہمارے ساتھ کیوں شامل نہیں ہوتا۔ کیونکہ حذیفہ بس اسے پڑھنے کا شوق ہے ۔ طحہٰ نے جواب دیا۔ نہیں طحہٰ ابو ہریرہ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے۔ وہ اسکول سے جانے کے بعد ایک مکینک کے پاس رات دیر تک کام کرتا ہے ۔ اور ان پیسوں سے وہ اپنے اسکول کا خرچا خود اٹھاتا ہے وہ بھی تو ہماری طرح 6th Grade میں ہی ہے ۔ لیکن وہ محنت کرتا ہے ، قدر کرتا ہے ۔ ہماری طرح اس کے والدین اس کیafforad fees نہیں کرسکتے۔ اب میں تو Partyنہیں کرونگا بلکہ کیا ہم سب مل کر پیسے جمع کر کے اس کے لئے جوتے کپڑے نئے خرید کر عید کے لئے نہیں دے سکتے ؟ آج میں نے اس کی کاپی لی تھی کام کے لئے جب میں واپس رکھنے گیا تو اس کی ڈیسک پر ڈائری رکھی تھی۔ اور اس میں یہ نظم لکھی تھی۔ حذیفہ نے ان سب کو وہ نظم سنائی۔ کیوں ابو ہریرہ کبھی پارٹی میں نہیں آتا مجھے آج سمجھ آیا اور ہم اس کی مدد کر کے اس پر کوئی احسان نہیں کریں گے بلکہ یہ ہمارا فرض ہے پھر وہ سب مل کر پلاننگ کرنے لگے۔

ابو ہریرہ آج چاند رات ہے کل کیا پہنو گے۔ امی نے تھوڑے پیسے لایا ہوں رات بھر شام پر کام کر کے آپ جا کر سارا کو سوٹ دلا لائیں میں تو کوئی سا بھی سوٹ پہن لونگا۔ ابوہریرہ نے تابعداری سے کہا۔ کھٹ کھٹ کھٹ۔ میں دیکھتی ہوں بیٹا۔ ابو ہریرہ دیکھو حذیفہ ، انس تمہارے اسکول کے دوست آئے ہیں۔ السلام علیکم ، حذیفہ۔ وعلیکم السلام ابو ہریرہ۔ ابو ہریرہ تم آخری دن نہیں آئے ہم سب نے ایک دوسرے کو تحفے دئیے تھے۔ تمہارے لئے بھی لائے تھے۔ چلو کوئی بات نہیں اب آگئے تم سے ملنے یہ تحفے دینے آئے تھے تمہیں۔ نہیں حذیفہ مجھے تحفے نہ دو میرے پاس دینے کے لئے ۔۔۔ چھوڑو ابو ہریرہ تم ہم سب کو کتنا کچھ دیتے آئے ہو۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا تم سمجھاتے ہو کاپی بھی دیتے ہو کام کے لئے۔ بار بار پوچھنے پر بھی بتادیتے ہو۔ چلو یہ تحفے تمہارے لئے ہیں۔ نبی اکرم نے فرمایا۔ مفہوم ترجمہ: تم ایک دوسرے کو تحفہ دو اس سے محبت بڑھتی ہے۔ چلو ! اب ہم چلتے ہیں کل کھیلنے ضرور آنا ساتھ عید منائیں گے۔ نماز پڑھنے بھی ساتھ چلنا۔ حذیفہ انس کے جانے کے بعد ابو ہریرہ نے تحفے کھولے تو حیران رہ گیا۔ اس میں اس کے لئے اور اس کی بہن دونوں کے لئے کپڑے اور جوتے تھے جو بالکل نئے تھے۔ الحمد للہ ! اللہ کا بہت شکر کہ ہم بھی نئے کپڑے پہن کر عید منا سکیں گے ابو ہریرہ خوشی میں اپنی بہن سے گلے ملنے لگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے