جمال اور میرے درمیان اختلاف تھا ، جمال کا کہنا تھا کہ اسلامی مدارس پرانے ہوچکے ہیں ان میں چودہ سو سال پرانی تعلیم دی جاتی ہے ان کا سلیبس پرانا ہے ان کی کتابیں پرا نی ہےان کی گرائمر اور زبانیں پرانی ہیں ان میں دی جانے والی تعلیم کا اسٹائل پرانا ہے ان کے اساتذہ پرانے ذہنوں اور پرانے خیالات کے مالک ہیں ان میں دی جانےوالی تعلیم کا طریقہ فرسودہ اور قدیم ہے اور ان کے لباس ، ان کی ہیئت اور ان کے خیالات ان کی زبان اور ان کا طرز معاشرت قدیم ہے۔ یہ مدرسے آج کے عصر ی تقاضے پورے نہیں کرتے لہٰذا انہیں بند کر دینا چاہیے یا انہیں جدید شکل دے دی جائے۔

ان کے طالب علموں کو پینٹ کوٹ پہنائے جائیں انہیں میز کرسی پر بٹھایا جائے انہیں انگریزی میں تعلیم دی جائے انہیں چمچ اور کانٹے سے کھانے کا طریقہ سکھایا جائے اور انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ میوزک کی تربیت بھی دی جائےوغیرہ وغیرہ ،میں نے اس کی ساری باتیں سنی اور اس کے بعد اس سے عرض کیا۔

’’بھائی جمال تمہاری ساری باتیں غلط ہیں تمہیں شاید معلوم نہیں دنیا میں پہلا مذہبی مدرسہ یہویوں نے بنایا تھا ، سیدنا یوسف علیہ السلام جب مصر کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے اور ان کے تمام بھائی کنعان سے مصر منتقل ہوئے تو ان کے بھائیوں میں سے ایک بھائی کی اولاد نے تعلیم و تربیت کو اپنا روزگار بنایا ان لوگوں نے مصر میں مذہبی تربیت کا ایک مدرسہ قائم کیا یہ لوگ ان مدرسوں میں علمائے کرام پیدکرتے تھے یہ علماء کرام ان مدارس سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں میں تبلیغ کرتے تھے۔

انہیں مذہبی شعار سکھاتے تھے یہ سلسلہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور تک قائم رہا۔ سیدنا موسی علیہ السلام کی پیدائش سے بہت پہلے مصر میں یہودیوں پر برا وقت آچکا تھا۔ یہ لوگ بری طرح فرعون کے ظلم کا شکار تھےفرعون نےان کی عبادت گاہیں اور مدارس تباہ و بر باد کردیے تھے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ چھپ چھپا کر اپنی تعلیمات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے ، سیدنا موسی علیہ السلام جب اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکلے تو مدارس اور ان میں دی جانے والی تعلیمات کا یہ سلسلہ بھی مصر سے باہر آگیا۔

یہ لوگ جب فلسطین پہنچے تو انہوں آج سے ساڑھے چار ہزار سال پہلے بیت المقدس میں باقاعدہ مدرسہ قائم کیا یہ مدرسہ یہودیوں نے قائم کیا تھا اس وقت یہ قانون پاس ہوا تھاکہ دنیاکے جس کونے یہودیوں کی عبادت گاہ بنے گی وہاں یہودی تعلیمات کا مدرسہ بھی قائم ہوگا، چنانچہ ساڑھے چار ہزار سال گزرنے کے باوجود آج تک دنیا کے جس کونے میں سینی گاگ بنتا ہے وہا ںیہودیوں کا مدرسہ بھی قائم ہوتا ہے ، دنیا میں 99 فیصد ایسی مساجد ملیں گی جو محض مساجد ہیں اور ان میں کوئی مدرسہ نہیں مساجد میں زیادہ سے زیادہ امام مسجد یا اس کا کوئی ساتھی صبح کے وقت چھوٹے بچوں کو ناظرہ قرآن کی تعلیم دیتاہوا ملے گا لیکن آپ کو دنیا میں کوئی ایساسینی گاگ نہیں ملے گا جس میں باقاعدہ اسکول موجود نہ ہو اور اس میں بچوں کو یہودیت کی باقاعدہ تعلیم نہ دی جاتی ہو دنیا کے سو فیصد سینی گاگ میں مذہبی اسکول موجود ہیں جبکہ پچاس فیصد سینی گاگ یہودیوں کو عالم فاضل بننے کی تعلیم دیتے ہیں۔

دوسرا پچھلے ساڑھے چار ہزار سال سے دنیا کے تمام سینی گاگ میں ایک ہی سلیبس پڑہایا جارہا ہے تمام سینی گاگ طالب علموں کو عبرانی زبان کی تعلیم دیتے ہیں، ان کا سلیبس ان کی کتابیں ان کی گرائمر ان کی زبان اور ان کی ثقافت ہر چیز پرانی اور قدیم ہے ان کے اساتذہ اپنے نظریات میں کٹر اور متشدد واقع ہوئے ہیں ان کا حلیہ ساڑھے چار ہزار سال پرانا ہے یہ لوگ ساڑھےچار ہزار سال سے سر ڈھانپتے ہوئے چلے آرہے ہیں ہم مسلمان کورشیے سے بنی جو ٹوپی استعمال کرتے ہیں یہ ٹوپی یہود یوں نے ایجاد کی ہے ، یہودیوں اور مسلمانوں کی اس ٹوپی میں صر ف رنگ کا فرق ہے ، یہودی صر ف سیاہ اور مسلمان سفید اور باقی تمام رنگوں کی ٹوپیا ں استعمال کرتے ہیں، دنیا میں ہیٹ یہودیوں نے ایجاد کیا تھا، ان کے مذہبی راہنما سیاہ رنگ کا ہیٹ سر پر رکھتے تھےان کی دیکھا دیکھی یہ ہیٹ دوسرے لوگوں نے بھی استعمال کرنا شروع کردیا، آ ج بھی آپ یہودیوں کی کسی بستی میں چلے جائیںآپ کو وہاں کے نوے فیصد مردوں کے سروں پر سیاہ ہیٹ ملے گا۔ دنیا میں یہودی پہلی قوم ہے تھی جس نے داڑھی کو مذہبی فریضہ بنا یا۔ آج آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں آپ کو نوے فیصد یہودی باریش ملیں گے۔

تسبیح یونانیوں نے ایجاد کی تھی لیکن اس کا باقاعدہ استعمال یہودیوں نے کیا تھا، ان کے کھانے پکانے کا سٹائل ، دسترخوان، شادی بیاہ کی رسمیں مردے دفن کرنے کا طریقہ ، حلیہ ، تعلیمی نظام، عادات ، رونا دھونا ، لڑائی جھگڑے اور تعلقات کی نوعیت ہر چیز تین ساڑھے تین ہزار سال قدیم ہے لیکن دنیا کا کوئی شخص ان کے کیے پر اعتراض کرتا ہے ، ان کے مدرسے پر انگلی اٹھا تا ہے اور نہ ہی انہیں برابھلا کہتا ہے، آج تک دنیا کے کسی جدید اور ماڈرن دانشور نے یہودیوں کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ آپ اپنے مدرسوں کو ماڈرن کردیں آپ ان کا ساڑھے تین ہزا ر سال پرانا سلیبس ، کتابیں اور زبان تبدیل کردیں، آپ اپنے ’’طالبان‘‘ کا حلیہ عادتیں بدل دیں۔ آج تک کسی نے ان کے مدرسوں کو فرسودہ اور پرانا نہیں کہا جب کہ یہ دنیاکے قدیم ترین مدارس ہیں‘‘

جمال میری بات سن کر خاموش ہوگیامیں نے اس سے کہا: ’’اب تم عیسائیوں کی طرف آؤ دنیا کے تمام چرچوں کا دورہ کرو تمہیں ہر چرچ کے ساتھ ایک مدرسہ ملے گا ، مدارس کی یہ روایت دوہزار سال پرانی ہے ،ویٹی کن سٹی میں 18 سوسال پہلے مدرسہ بنا تھا وہ آج تک قائم ہے ، عیسائی یہودیوں سے دو قدم آگے ہیں ان کے مشنری دنیا کے جس کونے میں گئے وہاں انہوں نے 3 قسم کے ادارے قائم کیے ایک مذہبی مدارس ، یہ ادارے چرچ کے ساتھ وابستہ ہوتے تھے اور ان کا سلیبس ، ان کی کتابیں، ان کے اساتذہ اور تعلیم دینے کا انداز تک سینٹرل چرچ طے کرتا اور یہ ساری چیزیں دو ہزار سال پرانی ہیں۔

دوسرا یہ لوگ عام لوگوں کے لیے جنرل اسکول بناتے تھے۔ یہ اسکولز کیتھڈرل، سینٹ جوزف، یا سینٹ میری کے نام سے قائم کیے جاتے تھے، ان کے پرنسپل اور اساتذہ پادری ہوتے تھے اور ان میں دنیاوی تعلیم کی آڑ میںعیسائیت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ان تمام اسکولز کے اندر ایک چھوٹا ساچرچ ہوتا تھا جس میں تمام مذاہب کے بچوں کو لے جایا جاتا تھا اور ان کے سامنے عیسائی دعائیں پڑھی جاتی تھیں۔ یہ اسکول بھارت اور پاکستان سمیت دنیا کے ان تمام علاقوں میں آج تک موجود ہیں جو مغربی ممالک کی کالونی رہے ہیں اور تیسرا یہ لوگ ان علاقوں میں ہسپتال بنایا کرتے تھے۔ ان ہسپتالوں میں چلے جائیں، آپ دیکھیں گے وہاں لوگ نرس کو ’’سسٹر‘‘ کہہ کر بلا رہے ہوں گے، نرس کو ’’سسٹر‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کا پس منظر بھی بہت دلچسپ ہے۔

عیسائیت میں پادری کو فادر اور نن کو سسٹر کہا جاتاہے۔ دنیا میں ہسپتالوں کا انسٹی ٹیوٹ چرچ نے قائم کیا تھا لہٰذا شروع شروع میںکلیسا کے مالکان تمام ننوں کو نرسنگ کی ٹریننگ دے کر انہیں ہسپتال بھجوادیا کرتے تھے۔ یہ ننیں دس سے پندرہ سال تک ہسپتال میں مریضوں کی خدمت کرتی تھیں، یہ خواتین نن ہوتی تھیں چنانچہ مریض اور ان کے لواحقین انہیں ’’سسٹر‘‘ کہہ کر بلاتے تھے یہ عمل اس قدر آگے بڑھ گیا کہ آج دنیا کی تمام نرسوں کو ’’سسٹر‘‘کہاجاتا ہے، اسی طرح 1950ء تک ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو فادر کہاجاتا تھا، اس کی وجہ یہ تھی شروع شروع میں پادری ہی ڈاکٹر ہوتے تھے، اسی طرح ہسپتالوں کا ساراعملہ سفید کوٹ پہنتا ہے، یہ سفید کو ٹ پادریوں کی باقیات ہے۔ دنیا کے تمام ’’فادر‘‘ سفید گاؤن، سفیدکوٹ یا سفید چکن پہنتے ہیں۔ یہ لوگ جب چرچ میں ہوتے تھے تو کوٹ کے بٹن کھول دیتے تھے یہ کوٹ آہستہ آہستہ ہسپتالوں کی زندگی کا حصہ بن گئے، لہٰذا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عیسائی چرچ ، مدارس اور مذہبی تعلیمات کے معاملے میں یہودیوں سے چند قدم آگے نکل آیا اور اس نے اپنی تعلیمات کو معاشرے کا باقاعدہ حصہ بنا دیا۔

اگر ہم عیسائیت کی دوہزار سالہ تاریخ نکال کر دیکھیں تو پتہ چلے گا ان دوہزاربرسوں میں چرچ کے ماحول، زبان، ثقافت، سلیبس اور کتابوں میں کوئی فرق نہیں آیا، سیدنا عیسی علیہ السلام کھردری لکڑی کی میز اور کرسی استعمال کرتے تھے لہٰذا آج تک کلیساؤںمیںکھردری لکڑی کی میز اور تختوں والی سخت کرسیاں پڑی ہیں اور تو اور آپ آمش لوگوں کی ثقافت دیکھیں آمش لوگ 3 سو سال پہلے یورپ سے امریکا پہنچے یہ لوگ امریکا میں رہ رہے ہیں لیکن ان کا طرز رہائش ، بودوباش قدیم عیسائیوں جیساہے۔ یہ لوگ بجلی استعمال نہیں کرتے، داڑھی رکھتے ہیں ، سر ڈھانپ کر رکھتے ہیں ان کی خواتین پورا جسم پوشیدہ رکھتی ہیں۔ ان لوگوں نے آج تک اپنے دیہات میں سڑک نہیں بننے دی ، یہ لوگ موٹر گاڑیاں استعمال نہیں کرتے، شراب نہیں پیتے، جوا نہیں کھیلتے، سور نہیں کھاتے، مٹی کے برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں کھیتی باڑی کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو روایتی طریقے سے تعلیم دیتے ہیں لیکن دنیا نے آج تک یورپ اور امریکہ کے چرچوں پر انگلی اٹھائی اور نہ ہی آمش لوگوں کی روایات پر، لہٰذا جمال مجھے سمجھ نہیں آتی دنیا کو یہودیوں کے مدارس قبول ہیں اور عیسائیوں کے مدارس پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن مسلمانوں کے مدارس پوری دنیا کو تکلیف دے رہے ہیں، پوری دنیا ان مدارس کا کلچر اور سلیبس بدلنا چاہتی ہے، آج تک دنیا کے کسی دانشور نے یہودیوں اور عیسائیوں کو نہیں کہا: ’’تم لوگ اپنی زبان، سلیبس اور مدارس تبدیل کرو‘‘۔

انہیںکسی نے نہیں کہا ’’تم لوگ پرانی کتابیں پڑھنا بند کردو‘‘ مجھے سمجھ نہیں آتی ایساکیوں ہے؟ تم پوری دنیا گھوم کر دیکھو اور پھر مجھے بتاؤ کیایہودیوں کے کسی سیسی گاگ میں قائم کسی مدرسے میں کمپیوٹر ، ملٹی میڈیا اور انگریزی زبان موجود ؟ تمہیں یہ جان کر حیرت ہوگی دنیاکے کسی چرچ کسی مدرسے میں کمپیوٹر اور ملٹی میڈیا نہیں لہٰذاپھر سوال پیدا ہوتاہے، اعتراض کرنے والے لوگ پہلے ان مدارس میں یہ چیزیں رائج کیوں نہیں کرتے؟ وہ وہاں یہ کلچر پیدا کیوں نہیں کرتے؟

جمال کے پاس میرے اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میں نے اس سے کہا:’’جمال اگر تم مدارس کی تاریخ میں مسلم مدارس کی درجہ بندی کروتو تمہیں یہ مدارس ماڈرن اور تازہ ملیں گے ۔ یہودیوں کے مدارس اور ان میں دی جانے والی تعلیم ساڑھے تین ہزار سال پرانی ہے۔ عیسائی مدارس 2ہزار سال سے قائم ہیں جبکہ مسلمانوں کے مدارس کو قائم ہوئے ابھی محض 14 سوسال ہوئے ہیں گویا یہ مدارس تازہ ترین بھی ہیں اور ماڈرن بھی‘‘

جمال نے ہنس کر پوچھا :’’لیکن پھر مسئلہ کیا ہے؟ میں نے ہنس کر جواب دیا:’’مسئلہ مدارس کی تعداد اور مسلمانوں کا ایمان ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے مدارس میں تعلیم پانے والے طالبعلموں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مداس بھی بڑھے ہیں اور ان کے طالب علم بھی۔ آج سے چودہ سوسال پہلے مسجد نبوی کے ایک چھوٹے سے چبوترے سے ان مدارس کا آغاز ہوا اور آج عالم اسلام میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے چبوترے اور مدرسے موجود ہیں جن پر بیٹھ کر مسلمان اللہ کا کلام سنتے اور سمجھتے ہیں، ان چبوتروں اور مدرسوں سے فارغ التحصیل ہونے والے کروڑوں طالب علم اس وقت دنیا کا حصہ ہیں ۔ دوسرا مسئلہ دنیا میں اسلام کا غلبہ ہے پچھلے پچاس برسوں میں اسلام کے سوا دنیا کے تمام مذاہب کا سائز چھوٹا ہوتا ہے فرانس جیسے ملک میں دس سال میں اڑھائی سو چرچ بند ہوئے ہیں۔ امریکا میں دس سال میں ایک لاکھ عیسائی مسلمان ہوئے ہیں اور یورپ میں مسلمان دوسری بڑی طاقت بن کر ابھرے ہیں۔ دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیمات پر عملدرآمد اور جس کے اثر و نفوذ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ السلام علیکم بڑی تیزی سے ’’ہیلو‘‘ اور ’’ہائے‘‘ کی جگہ لے رہا ہے چنانچہ دنیا اس بات سے پریشان ہے ان لوگوں کا خیال ہے اگر اسلام کے پھیلتے دائرے کا روکا نہ گیا تو شاید بیس پچیس برسوں میں یہ دائرہ پوری دنیا کو اپنی آغوش میں لے لے۔ شاید پوری دنیا مسلمان ہو جائے۔

جمال نے ذرا سوچا اور گردن ہلا دی۔ میں نے اس سے کہا: ’’میرے عزیز! میرے دوست! ہمارے مدرسے پرانے نہیں ہیں بس نیاز مانہ ان سے خائف ہے نیازمانہ جانتا ہے اگر اس نے ان کے سامنے بند نہ باندھا تو یہ مدرسے اور ان کی ثقافت اس قدر جاندار ہے کہ یہ نئے زمانے کی ساری حدیں توڑ دے گی۔ یہ نئی تہذیب کو جڑوں سے اکھاڑ دے گی۔

مسلم خوابیدہ اٹھ ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو

وہ چمک اٹھا افق ، گرم تقاضا تو بھی ہو

 

 

جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم

جو چلے تو جاں سے گزر گئے

 

 

منزل اپنی فتح مبین ہے منزل کو ہم پائیں گے

 

 

پھر دلوں یاد آ جائے گا پیغام سجود

پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی

————

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے