حافظ محمد دین تلمیذ فقہی جماعت محمد صدیق سر گودھوی سے خاندانی مراسم تھے ان کے بیٹے جدہ میں تجارت کرتے ہیں۔ عزیزم عبد الرؤف صاحب نے باپ کی وفات کے بعد دعوت دی ، حافظ جی کا والدین اساتذہ کا ادب و احترام اور بے لوث دینی خدمات کا ثمر دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا اللہ سبحانہ وتعالی ان کے بیٹوں کو بڑے بھائی کی امارت میں باہمی امور اتفاق سے سر انجام دنیے کی توفیق دے اور ان کے علم وعمل اور کاروبار میں برکت عطا فرمائے۔

برادرم حافظ جی کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمااللہ کے فضل وکرم اور عزیزوں کی شفقت کی بدولت عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی چشم دید جائزہ کی روشنی میں سعودی حکومت سے متعلق غلط فہمی کا ازالہ تحریر کیا۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے خاتم النبیین ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند کردیا قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ(آل عمران: 104)

’’تم میں سے ایک جماعت ہونی چاہیے جو تم کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے‘‘

عالم اسلام میں خلافت عثمانیہ تک اسلام کی سرپرستی رہی جبکہ بر صغیر میں خاندان مغلیہ تک قاضی نظام قائم رہا جہاں تنازعوں کے شرعی قانون کے تحت فیصلےہوتے وہاں علاقے میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔

یورپی اقوام کے تسلط کے دوران یہ سلسلہ منقطع ہوگیا پھر یہ بحال نہ ہوسکااس وقت سعودی عرب کو یہ شرف حاصل ہےکہ وہاں مکہ معظمہ و مدینہ منورہ کے اہم مقامات پر تعینات جو زائرین کی شرعی لحاظ سے راہنمائی کرتے ہیں بر صغیر کے لوگ واپسی پر اعتراض کرتے ہیں کہ مقدس مقامات پر ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کہ کار کن ہمیں کرنے نہیں دیتے چنانچہ ان کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرتاہوں۔

نواسہ رسول ﷺ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کربلا میں بے دردی سے شہید ہوئے تمام مسلمان ان کی شہادت کی فضیلت کا اعتراف کرتے ہیں لیکن ایک طبقہ اس حد تک غلو کرتاہےکہ وہ کربلا کی مٹی کو ہمہ وقت اپنے پاس رکھتے ہیں جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو اس خاک پر پیشانی رکھنے کو اعزاز سمجھتے ہیں جبکہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنمہا کی ماں فاطمہ الزہرہ جنت البقیع میں دفن ہیں اگر ان کے احترام کے تحفظ کے لیے دعوت و ارشاد کے لیے کارکن مامور نہ ہوتے تو خاک حاصل کرنے اور قبر کو بوسہ دینے کی دھینگا مشتی میں قبر کا احترام باقی رہتا یا بے ادبی ہوتی۔

بنی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں سیدہ خدیجۃ الکبریٰ آپ ﷺ کی تین صاحبزادیاں ، تین صاحبزادے اور دیگر صحابہ فوت ہوئےسرورکائنات ﷺ نے ان میں سے کسی کی قبر کو پختہ بنایا؟ اگر نہیں تو سعودی حکومت پر الزام تراشی کیوں؟

اونچی قبر سے متعلق سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا طرز عمل کیا تھا؟

فعن أبي الهياج الأسدي “حيان بن حصين” عن عليٍّ – رضي الله عنه – قال: “ألا أَبعَثُكَ على ما بعثني عليه رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم-، ألا تدعَ تمثالاً إِلا طَمَستَه، ولا قبرًا مُشرِفًا إِلا سَوَّيتهُ”

ابوہیاج (حیان بن حصین اسدی) کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا: تم کوئی بھی اونچی قبر نہ چھوڑنا مگر اسے برابر کر دینا، اور نہ کسی گھر میں کوئی مجسمہ (تصویر) چھوڑنا مگر اسے مٹا دینا۔

سنن نسائی،كتاب الجنائز،حدیث نمبر: 2033تخریج دارالدعوہ:صحیح مسلم/الجنائز ۳۱ (۹۶۹)، سنن ابی داود/الجنائز ۷۲ (۳۲۱۸)،

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بحکم رسول مقبول ﷺ جو کام سرا نجام دیا تو گویا سعودی حکومت نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی پیروی کی ہے کوئی شرعی جرم نہیں کیا ۔

برصغیر میں فوت شدہ اولیاء کرام کی قبروں پر ڈھول کی ٹھاپ پر بھنگڑے ڈال کر چادر پوشی کی جاتی ہے، قبر کے ارد گرد چکر لگانے کو حاضری کا جزو سمجھا جاتاہے قبر کی دہلیز پر پیشانی رکھ کر مرادیں مانگی جاتی ہیںاہل سنت کا علمی طبقہ اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا، جنت البقیع جہاں ازواج مطہرات اور آپﷺ کے بیٹے اور بیٹیاں محو استراحت ہیںموجودہ دور کے سارے ولی مل جائیں ایک صحابی کی شان کو نہیں پہنچ سکتے سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ کرام جنت البقیع میں دفن ہیں اگر وہاں دعوت وارشاد والے نہ ہوتے تو ھجوم کی وجہ سے قبروں کے احترام کا تحفظ خطرہ میں پڑجاتا ، ہمارے علاقے کے بھولے بھالے وہا ں وہ امور سر انجام دیتے سرور کائنات ﷺ نے جن سے سختی سے منع فرمایا ہے ۔ وہ ان کی بلندی درجات کےلیے وہاں کی مٹی حاصل کرنے کی تگ ودو کرتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سید الانبیاء ﷺ سے بے حد عقیدت تھی ، آپ ﷺ وضو کرتے صحابہ پانی کو زمین پر گرنے نہیں دیتے اُسے بچالینا سعادت سمجھتے وہ آپ ﷺ کے پسینے کو محفوظ کر لیتے اسے عطر کے طور پر استعمال کرتے حجامہ کے دوران نکلنے والے خون کو زمین پر انڈیلنے کے بجائے ایک صحابی نے بچا لیا مخبر صادق ﷺ نے منع نہیں فرمایا بلکہ پینے والے کو خبر دی کہ تم پر دوزخ حرام ہوگئی ہے۔

بعض صحابہ کا ادب حد سے تجاوز کرگیا جنہوں نے عرض کیا کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ کو سجدہ کریں آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے علاوہ کسی اور کا سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندکو سجدہ کریں۔

پیکر صد وفامحمدرسول اللہﷺ نے کوہ صفا پر کھڑے ہوکر اللہ کی توحید کی دعوت دی آپ ﷺ نے قریش کے طعنے سن لیے گلیوں میں کانٹوں پر چلنا پسند کر لیا، سرپر کوڑا کرکٹ ڈلوانا گوارا کرلیا طائف کی وادی میں پتھر کہا کہا کر جسم کو لہو لہان کرالیا، احد کے میدان میں دندان مبارک شہید ہوگئے، احمد مجتبیٰ ﷺ نے سب کچھ بردادشت کرلیا لیکن اللہ کی واحدانیت و معبودیت کا پرچم سرنگوں نہ ہونے دیا۔

رب کی یکتائی میں کسی کو شریک کرنا گوارہ نہ کیا ، آپ ﷺ اپنی زندگی میں گلیوں بازاروں، ٹیلوں اور وادیوں میں جاکر شرک کی نفی کی اور توحید کی دعوت دی مخبر صادق ﷺ کو گذشتہ انبیاء کی امتوں کے واقعات جان کر تردد ہوا کہ کہیں میری امت فوت ہونے کے بعد شرک میں مبتلاء نہ ہوجائے آپﷺ رب کریم سے التجاکی: ’’اے اللہ میری قبر کو بت یا مجسمہ (وثن) نہ بنانا کہ اس کی عبادت کی جانے لگے، اللہ کا قہر اور غضب ہو اُن لوگوں (یہودو نصاریٰ) پر جنہوں نے اپنے انبیاء کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا‘‘( موطا امام مالک376)

اللہ نے آپ ﷺ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا یہی وجہ ہے کہ روضہاقدس پر کسی کو شرک کرنے کی جرأت نہ ہوئی، نبی اکرم ﷺ نے حجر اسود کا بوسہ لیا اور امت کو حکم دیا سعودی حکومت کی طرف سے زائرین پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی سیکورٹی صاحبان صرف نماز کے اوقات میں خالی کراتے ہیں جونہی نماز کے بعد سلام پھر تاہے پھر سے زائرین میں بوسہ لینے کے لیے زور آزمائی شروع ہوجاتی ہے چونکہ حجر اسود فرش سے اوپر ہے اس لیے اس دھکم پیل میں اس کی بے ادبی کا خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔

زائرین بوسہ لینے کے لیے جو طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں سعودی سیکورٹی اس میں مداخلت نہیں کرتی کیونکہ بوسہ لینا آپ ﷺ کے حکم کی پیروی ہے۔

اگر روضہ اطہر پر دعوت وارشاد کے اصحاب نہ ہوتے تو جو لوگ روضہ کی جالی سے چمٹ جاتے ہیں وہ ہٹنے کا نام نہ لیتے لاکھوں کا مجمع روضہ اطہر پر دورد وسلام کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے بے تاب ہوجاتا اور اس زور آزمائی میں بے ادبی کا امکان بڑھ جاتا اس بنا پر سعودی حکومت کی طرف سے حفاظتی انتظام خوب ہے کہ دورد وسلام پڑھتے جاؤ اور گزرتے جاؤ لائن میں دیگر منتظر زائرین کو بھی موقع فراہم کرو ہاں اگر پیاس نہیں بجھی تو بار بار لائن میں کھڑے ہوکر آتے رہو درود وسلام کا تحفہ پیش کرتے رہو سعودی حکومت کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں۔

زائرین میں سے بعض جب تک پیشانی نہ ٹیک لیں ان کی زیارت کا شوق پورا نہیں ہوتا اس قسم کے لوگ باب جبریل سے نکل کر محراب کی بیرونی جانب آکر روضہ اطہر کی جانب منہ کر کے نفل کی نیت کر لیتے ہیں اگر نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والے نہ ہوتے تو روضہ اطہر کی جانب سجدہ کرنے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے سید الکونین ﷺ کی ہستی نے اپنے زندگی میں اگر کوئی حرکت کرتا نظر آتا ہے تو سر کار ی اہلکار اُسے فوراً روک لیتے ہیں ۔

اے اللہ سبحانہ وتعالی روئے کائنات پر توحید و سنت کی دعوت دینے والی اور شرک وبدعت کی روک تھام کرنے والی سعودی حکومت کو طاغوطی قوتوں اور ان کے چیلوں کے شر سے محفوظ فرما، آمین یا رب العالمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے