فرقہ بندی:

جہالت انسان کو بہت سے فرقوں میں تقسیم کردیتی ہے کیونکہ عقائد و نظریات میں اختلاف فرقہ بندی کہلاتا ہے اور اس اختلاف کی بنیاد علم کی کمی یا جہالت بنتی ہے جہالت کے حملے اسےعقائد و اعمال، اخلاقیات و معاملات کے بگاڑ میں مبتلا کرتے ہیں ،جسکے نتیجے میں خرافات و تعصبات جنم لیتے ہیں اور لوگ مختلف لسانی ، قومی ، ٹولیوں اور گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں کیونکہ لوگ اس علم شرعی سے جاہل ہیں جو انہیں انسانوں کی ایک دوسرے پر برتری کا حقیقی معیارتقوی بتاتا ہے نہ کہ رنگ و نسل جیسا کہ فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ(الحجرات:13)

’’اےلوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت کے ذریعے پیدا کیا اور تمہیں علاقوں اور قبائل میں اس لئے تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرسکو اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقوے والا ہے بے شک اللہ جاننے اور خبر رکھنے والا ہے‘‘

لوگ مذہبی ، سیاسی فرقوں میں بٹ جاتے ہیں کیونکہ وہ اس علم سے ناآشنا ہوتے ہیں جوعلم انہیں دین کے نام پر فرقوں میں تقسیم ہونے سے روکتا ہے جیسا کہ فرمایا:

وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (الروم:31-32)

لوگو مشرکو میں سے نہ بنو جنہوں نے اپنا دین فرقوں میں تقسیم کردیا اور وہ گروہ بن گئے کہ ہر گروہ اپنے نظریے پر فخر کرتا تھا۔

نیز فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (الانعام:159)

جن لوگوں نے اپنا دین فرقوں میں بانٹ دیا اور وہ گروہ بن گئے اے نبی ﷺ آپکا ان سے کوئی تعلق نہیں انکا معاملہ اللہ کے سپرد ہے وہ انہیں بتا دے گا جو وہ کرتے رہے۔

لوگ توحید و سنت پر دین اسلام پر اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرتے کیونکہ وہ اس علم سے محروم ہوتے ہیں جو علم شرعی انہیں جماعت کے ساتھ منسلک رہنے کا حکم دیتا ہے اور کتاب و سنت کو اسکی اساس قرار دیتا ہے ارشاد فرمایا:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا

لوگو سب مل کر اللہ کی رسی(یعنی قرآن)مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں تقسیم نہ ہو۔(آل عمران:103)

نیز نبی مکرمﷺ نے فرمایا:(ترجمہ)

میری امت پر بنی اسرائیل کے جیسا دور ضرور آئیگا جیسے دو جوتیاں برابر ہوتی ہیں حتی کہ ان میں کسی نے اپنی ماں کے ساتھ علانیہ نکاح کیا تو میری امت کے کچھ لوگ ایسا بھی کریں گے اور بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹے میری امت 73 فرقوں میں بٹے گی سب ہی جہنم میں جائیں گے سوائے ایک جماعت کے لوگوں نے پوچھا اللہ کے رسول وہ کونسی جماعت ہے تو آپ نے فرمایا:جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔

(سنن ترمذی،کتاب الایمان،باب افتراق الامۃ،رقم:2641،وصححہ الالبانی فی الصحیحۃ تحت رقم:1348 و حسنہ فی صحیح الجامع برقم:5343، وانظر:تراجعات العلامۃ الالبانی:1/35)

واضح ہو کہ نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام کے ادوار میں قرآن و حدیث کے سوا کوئی تیسری شے نہ تھی۔

لوگ مادی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے عروج کو علم کی معراج اور کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ اب تک انسان کے لئے عالمی جنگوں اور باہمی دشمنیوں ، مادہ پرستی اور خودغرضی کا سبب بنی ہے ، یہ دراصل جاہلیت کی جدید شکل ہے ، مگر لوگ نہیں جانتے کہ زمانہ جاہلیت بھی انہی صفات سے متصف تھا ارشاد فرمایا:

وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آَيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (آل عمران:103)

لوگو تم پر اللہ کا انعام یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے(یعنی دور جاہلیت میں) اس نے تہمارے دلوں میں الفت پیدا کی ، اس نعمت کی بدولت تم ایک دوسرے کے بھائی بن گئے ، اور تم (اپنی جاہلیت کے سبب)جہنم کے کنارے پہنچ چکے تھے اس نے تمہیں اس سے بچالیا اللہ اس طرح اپنی نشانیاں تم پر واضح کرتا ہے تاکہ تم صحیح رستہ جان لو۔

اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالی نے واضح کردیا کہ لوگوں کے مابین دوریاں مٹاکر ان میں اتفاق و یگا نگت پیدا کرنے والی طاقت اسلام ہے اور اسلام علم و عمل کا نام ہے نہ کہ جہالت و بد عملی کا۔

مگر لوگ ان سب باتوں سے جاہل ہیں اور جاہل رہنا چاہتے ہیں اسی لئے وہ حق کی تحقیق کرنے کے بجائے مولویوں اور درویشوں کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلتے ہیں جو انکے اموال کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے لئے انہیں حق کا راستہ بتانے سے گریز کرتے ہیں اور لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ قرآن و حدیث کو سمجھنا عوام کے بس کی بات نہیں وہ عوام کو انکی پسند کے فتوے دیکر خوش کرتے ہیں جبکہ عوام انہیں اموال (تحائف و ہدایا کی شکل میں)دیکر خوش رکھتے ہیں کسی کو اس بات کا ہوش نہیں کہ مرکر جواب بھی دینا ہے (فالعیاذ باللہ) درج ذیل حدیث سے اندازہ کریں کہ بنی اسرائیل کی یہی روش انہیں کس حد تک گمراہی میں لے ڈوبی:

سیدناعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

أتيت النبي صلى الله عليه و سلم و في عنقي صليب من ذهب فقال : ( يا عدي اطرح هذا الوثن من عنقك) فطرحته فانتهيت اليه و هو يقرأ سورة براءة فقرأ هذه الآية { اتخذوا أحبارهم و رهبانهم أربابا من دون الله حتى فرغ منها فقلت انا لسنا نعبدهم فقال: (أليس يحرمون ما أحل الله فتحرمونه و يحلون ما حرم الله فتستحلونه؟) قلت بلى قال : (فتلك عبادتهم)

’’میں نبی معظمﷺ کے پاس آیا میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی ، آپ نے فرمایا:اے عدی اپنے گلے سے یہ بت اتار دے ، پھر میں آپ کے قریب ہوا میں نے سنا کہ آپ سورۃ البراءۃ کی یہ آیت پڑھ رہے ہیں: اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله

’’انہوں (یہود و نصاری) نے اپنے علماء اور پیروں کو اللہ کے سوا رب بنالیا ، میں نے کہا کہ : ہم نے انکی عبادت نہیں کی ؟ آپ نے فرمایا:کیا ایسا نہیں کہ جب وہ اللہ کی حلال کردہ کسی شے کو حرام کہتے تم اسے حرام مانتے اور جب وہ اللہ کی حرام کردہ کسی شے کو حلال کہتے تو تم اسے حلال مان لیتے ؟ میں نے کہا :ایسا ہی ہے ، تو آپ نے فرمایا: یہی انکی عبادت ہے۔

(سنن ترمذی،کتاب تفسیر القرآن،باب تفسیر سورۃالتوبۃ، رقم:3095،والطبرانی فی المعجم الکبیر برقم:13906وصححہ الالبانی فی الصحیحۃ برقم:3293)

یعنی مولویوں اور پیروں وڈیروں وغیرہ کی اندھی تقلید ہی انکی عبادت ہے ، اور اسکا مقصد صرف مال کمانا اور مفادات حاصل کرنا تھا ، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ (التوبۃ:34)

اے ایمان والو بہت سے علماء اور درویش ناجائز طور پر لوگوں کے اموال کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں۔

شیطان کا آسان ہدف:

جس طرح غیر مسلح اور کمزور شخص دشمن کے لئے آسان ہدف ثابت ہوتا ہے اسی طرح علم دین سے ناواقف شخص شیطان کا آسان ہدف ثابت ہوتا ہے ، وہ انکی جہالت سے فائدہ اٹھاکر انہیں مختلف قسم کی گمراہیوں میں مبتلا کردیتا ہے ، خواہ وہ بڑا عبادت گذار ہی کیوں نہ ہو چنانچہ مشہور مقولہ ہے کہ :ایک بے عمل عالم دین شیطان پر ہزار جاہل عبادت گذاروں کی نسبت زیادہ بھاری ہوتا ہے ، کیونکہ وہ اپنے علم کے ذریعے شیطان کا وار پہچان جاتا ہے جبکہ جاہل حلال و حرام کا علم نہ ہونے کے باعث اسکے بچھائے جال میں بآسانی پھنس جاتا ہے ،مسیح دجال جو شر و فساد کا سرخیل ہے وہ بھی لوگوں کی جہالت سے فائدہ اٹھائے گا ،لوگ اس بات سے ناواقف ہوں گے کہ انکے رب حقیقی کی کیا صفات ہیں ، وہ کانا نہیں ، وہ انسانی شکل و صورت نہیں رکھتا نہ ہی وہ گوشت پوست کا بنا ہے نہ اسکی ایسی پیشانی ہے جس پر کافر لکھا ہے ، نہ ہی وہ اپنے ماننے کا مطالبہ کرنے خود مخلوق کے درمیان آتا ہے بلکہ اپنے پیغمبروں کو بھیجتا ہے ، اپنے بندوں سے صرف وحی کے ذریعے خطاب کرتا ہے اور دنیا کی کوئی آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی ، وہ حی لا یموت ہے الغرض کوئی بھی اسکی مثل نہیں جبکہ دجال کانا ہوگا، انسانی شکل و صورت میں ہوگا ، گوشت پوست کا بنا ہوگا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام اسے قتل کرکے اسکا خون دکھائیں گے ، اسکی پیشانی پر کافر لکھا ہوگا، وہ لوگوں سے روبرو ہوکر انہیں براہ راست خطاب کرکے مطالبہ کرے گا کہ وہ اسے رب مانیں اور لوگ اسے دیکھیں گے ، سنیں گے ، اسی طرح لوگ اس بات سے بھی ناواقف ہوں گے کہ اس سے بچنے کے لئے سورۃ الکھف کی ابتدائی دس آیات اہم ہیں ، اسی طرح وہ دجال سے متعلق احادیث صحیحہ سے نابلد ہوں گے اور انکی یہی جہالت دجال کے لئے کار آمد ثابت ہوگی۔

تمیز نہ کرسکنا:

اللہ تعالی نے انسان کو تمیز کا ملکہ عطا کیا ، وہ اپنے حواس کے ذریعے حسی اشیاء کی حقیقت کو جان سکتا ہے ، لیکن وہ اشیاء جو غیر محسوس ہیں مثلا : سچ یا جھوٹ ، صحیح یا غلط ، جائز و ناجائز ، حلال و حرام وغیرہ انکی حقیقت کا ادراک حواس خمسہ کے ذریعے ممکن نہیں ، ان میں تمیز کے لئے علم کی ضرورت ہے ، اور اگر انکا تعلق شرعی امور سے ہو تو انکے لئے شرعی علم چاہیئے ، اسکے بغیر وہ بے راہ روی کا شکار ہو سکتا ہے ، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے ، سیدناجابررضی اللہ عنہ نے فرمایا:

خَرَجْنَا فِى سَفَرٍ فَأَصَابَ رَجُلاً مِنَّا حَجَرٌ فَشَجَّهُ فِى رَأْسِهِ ثُمَّ احْتَلَمَ فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ فَقَالَ هَلْ تَجِدُونَ لِى رُخْصَةً فِى التَّيَمُّمِ فَقَالُوا مَا نَجِدُ لَكَ رُخْصَةً وَأَنْتَ تَقْدِرُ عَلَى الْمَاءِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أُخْبِرَ بِذَلِكَ فَقَالَ قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ أَلاَّ سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِىِّ السُّؤَالُ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَتَيَمَّمَ وَيَعْصِرَ . أَوْيَعْصِبَ،شَكَّ مُوسَى،عَلَى جُرْحِهِ خِرْقَةً ثُمَّ يَمْسَحَ عَلَيْهَا وَيَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهِ

ہم سفر میں تھے کہ ہمار ایک ساتھی سر پر پتھر لگنے سے زخمی ہوگیا ، پھر اسے احتلام ہو گیا ، اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا : کیا تم میرے لئے تیمم کی اجازت پاتے ہو ؟ انہوں نے کہا :ہم تیرے لئے اجازت نہیں پاتے کیونکہ تو پانی استعمال کررسکتا ہے، چنانچہ اس نے غسل کیا پھر مرگیا ، جب ہم نبی مکرمﷺ کے پاس آئے تو آپکو بتایا گیا ، آپ نے فرمایا:اللہ انہیں ہلاک کرے انہوں نے اسے قتل کردیا ، جب انہیں علم نہ تھا انہوں نے پوچھا کیوں نہیں ؟ کیونکہ نابینا کہ لئے پوچھ لینا باعث اطمئنان ہوتا ہے ، دراصل اسکے لئے کافی ہوتا کہ وہ تیمم کرتا اور پٹی باندھ لیتا پھر اس پر مسح کرلیتا اور باقی جسم دھو لیتا ۔

(سنن ابی داؤد،کتاب الطھارۃ،باب فی المجروح یتیمم ،رقم:336،وحسنہ الالبانی فی صحیح ابی داؤد برقم:364 وانظر فی: ” الثمر المستطاب ” بیان التیمم)

یعنی اس مسئلے میں شرعی علم سے اپنی جہالت کے باعث وہ تمیز نہ کرسکے جو ایک جان کے ضیاع کا باعث بن گئی۔

بسا اوقات جہالت کی بنا پر انسان دوست اور دشمن کی تمیز بھی نہیں کرپاتا جیسا کہ درج ذیل واقعہ سے معلوم ہوتا ہے ،سیدنا حارث بن ضرار الخزاعی رضی اللہ عنہ نے کہا : (خلاصہ) میں نے نبی مکرمﷺ کے پاس جاکر اسلام قبول کیا اور آپ سے اجازت لی کہ واپس جاکر اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دوں اور ان سے زکاۃ لے کر آپ کے پاس آؤں آپ نے مجھ سے ابان نامی جگہ اور تاریخ طے کرلی ، میں وعدے کے مطابق جگہ پر زکاۃ لے کر پہنچا لیکن وہاں کوئی نہ آیا کیونکہ آپ ﷺ کا قاصد کسی مجبوری کی وجہ سے نہ آسکا ،لیکن میں سمجھا کہ اللہ اور اسکا رسول مجھ سے ناراض ہوگئے ، چنانچہ میں نے اپنی قوم کے مسلمانوں سے کہا کہ :ہمیں خود چلنا چاہیئے ، ادھر نبی مکرمﷺ نے ولید بن عقبہ کو حارث کے پاس روانہ کیا تھا لیکن راستے میں اسے ڈر لگا اور اس نے واپس جاکر نبی اکرمﷺ سے کہا کہ :حارث نے مجھے زکاۃ دینے سے انکار کردیا اور مجھے قتل کرنا چاہا ، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے حارث کی طرف لشکر روانہ کیا ، حارث اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ روانہ ہوئے ، وہ لشکر مدینہ سے نکلا ہی تھا کہ اسکی حارث سے ملاقات ہوگئی ، اس نے انکا گھراؤ کیا اور کہا کہ تم نے ولید کو زکاۃ دینے سے انکار کیا اور اسے قتل کرنا چاہا ؟ حارث نے کہا : اللہ کی قسم جس نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا نہ میں نے ولید کو دیکھا نہ ہی وہ میرے پاس آیا ، پھر جب نبی مکرم ﷺ کے پاس پیش ہوئےتو آپ نے بھی یہی پوچھا کہ تم نے ولید کو زکاۃ نہیں دی اور اسے قتل کرنا چاہا ؟ تو حارث نے کہا کہ : میری ولید سے ملاقات نہیں ہوئی ، لیکن وقت مقرر پر جب کوئی نہ آیا تو میں سمجھا شاید اللہ اور اسکا رسول مجھ سے ناراض ہوگئے لہذا میں خود آپ کے پاس چلا آیا ، اس موقع پر اللہ تعالی کا یہ فرمان نازل ہوا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (حجرات:6)

’’اے ایمان والو اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لائے تو پہلے تصدیق کرلو کہیں (اس خبر کو سچا جان کر) تم کسی قوم پر حملہ کردو پھر (اس خبر کے جھوٹا ثابت ہونے پر) اپنے کئے پر نادم ہو جاؤ‘‘

(أحمد فی المسند برقم:1845918482، والطبراني في الكبير برقم:3396 وصححہ الالبانی فی الصحيحة برقم:3088)

اس جہل کی بنا پر بسا اوقات انسان خالق اور مخلوق میں تمیز کو فراموش کردیتا ہے لہذا شرک کا مرتکب بن جاتا ہے مثلا مقدس شخصیات اور خالق کے مابین فرق کو فراموش کردینا ، ایسے ہی کبھی مقدس شخصیات کو انکے صحیح مقام و مرتبہ سے بڑھ کر مقام دےدیتا ہے اسطرح غلو کا شکار بن جاتا ہے بلکہ کبھی یہی غلو اسے شرک میں مبتلا کردیتا ہے ، کبھی سنت اور بدعت میں تمیز نہیں کرپاتا اور بدعت کا شکار بن جاتا ہے ، کبھی حلال اور حرام میں تمیز نہیں کرپاتا اور حرام کا مرتکب بن جاتا ہے ، جبکہ علم ان تمام مصائب سے بچاتا ہے۔

دعوت و اصلاح کا خاتمہ:

فطری طور پر انسان بہت جلد سرکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے ، شیطان اس کمزوری سے بخوبی واقف ہے لہذا وہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتا ہے اور انسان کو اپنے ہاتھوں کھلونا بنالیتا ہے، اس کا علاج ضروری تھا، وگرنہ معاشرے میں بگاڑ بڑھتا ہی جاتا ، اسکی روک تھام ناممکن ہوجاتی ، اور نتائج انتہائی خطرناک ہوتے ، لہذا اللہ عز و جل نے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا حکم دیا ، تاکہ اس بگاڑ کو پھیلنے سے روکا جاسکے اور معاشرے کے افراد میں خیر کا داعیہ اور شر سے ناھیہ باقی رہے ، لیکن اس فریضے کو ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خیر اور شر کے پیمانے بالتفصیل معلوم ہوں اور یہ بھی کہ نیکی کی اشاعت اور برائی کی روک تھام کا شرعی ضابطہ کیا ، اسکے دلائل کیا ہیں ، اسکا صحیح موقع کیا ہے ، تاکہ یہ فریضہ علی وجہ البصیرۃ ادا ہو اور اسکے حقیقی ثمرات حاصل ہوں ، اس نصاب سے جاہل رہ کر دعوت و اصلاح کی تحریک یقیناً ناکام رہے گی بلکہ مزید بگاڑ کا باعث بنے گی ، چنانچہ صحابہ کرام ایمان لاتے پھر کچھ عرصہ نبی اکرمﷺ کے پاس قیام کرکے دین سیکھتے پھراپنے علاقوں میں واپس جاکر دین کی نشر و اشاعت کرتے جیسا کہ حارث بن ضرار الخزاعی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہم گذشتہ سطور میں پڑھ چکے ہیں ، اللہ تعالی نے بھی اس فرض کی ادائیگی کے لئے حصول علم کو لازم قرار دیا ہے ارشاد فرمایا:

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبۃ:122)

ایمانداروں کے لئے روا نہیں کہ وہ سب کے سب (بغرض قتال) نکل پڑیں ، انکی ہر جماعت میں سے ایک گروہ کیوں نہیں نکلتا ؟ تاکہ وہ دین کا علم حاصل کرے اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈرائے(دعوت دے) تاکہ وہ بچ جائیں(جہنم سے)۔

اسکی تفسیر میں علامہ محمد سید طنطاوی نے فرمایا:

’’یعنی مسلمانوں پر واجب ہے کہ جب نفیر عام نہ ہو وہ دو جماعتوں میں منقسم ہوجائیں، ایک جماعت رسول ﷺ کے ساتھ حصول علم دین کے لئے ٹہری رہے جبکہ دوسری جماعت جہاد فی سبیل اللہ کے لئے روانہ ہو ، پھر جب مجاہدین لوٹ کر آئیں تو رسول ﷺ کے ساتھ رہنے والے انہیں وہ احکام دین سکھائیں جو انہون نے رسول ﷺ سے یاد کئے ہوں اسطرح مسلمان دونوں مصلحتیں حاصل کرلیں گے یعنی حجت و برھان کے ذریعے دفاع دین کی مصلحت اور سیف و سنان کے ذریعے دفاع دین کی مصلحت۔(التفسیر الوسیط)

جہالت سے بچاؤ کا طریقہ:

جہالت کے مذکورہ بالا نقصانات صرف ایک معمولی سا اشارہ ہیں حقیقت میں اسکے نقصانات کا بالکل اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ، لہذا اس سے بچاؤ نہایت ضروری ہے ، اس سے بچاؤ کا ایک ہی طریقہ ہے یعنی حصول علم ، اللہ تعالی نے انسان کو سمع و بصر اور عقل جیسی نعمتوں سے اسی لئے نوازا تاکہ یہ ان کے ذریعے علم کی روشنی حاصل کرکے جہالت کے اندھیرے دور کردے اور اپنے رب کی معرفت حاصل کرکے اسکی نعمتوں کا شکر بجا لائے چنانچہ ارشاد فرمایا:

وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (النحل:78)

اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے پھر اس نے تمہیں سمع و بصر اور عقول عطا کیں تاکہ تم اسکا شکر بجا لاؤ۔

البتہ علم حاصل کرنے کے مختلف طریقے ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں :

01– کسی ثقہ عالم باعمل کی شاگردی اختیار کرنا

02– قرآن و حدیث رسول ﷺ کا ترجمہ پڑھنا اور جو بات سمجھ نہ آئے اسکے متعلق کسی ثقہ اور معتبرعالم سے پوچھنا

03– دینی مجالس ، دیندار دوست ، اختیار کرنا

04– میڈیا(جدید ذرائع ابلاغ مثلا ٹی وی ، ریڈیو ، اخبارات ، انٹرنیٹ ، موبائل میسجز وغیرہ) سے دین کے متعلق جو بھی بات معلوم ہو اسے قرآن و صحیح حدیث سے تصدیق کئے بغیر تسلیم نہ کرنا کیونکہ یہ میڈیا فاسق ذریعہ ہے اور فاسق ذریعہ کی خبر تصدیق کئے بغیر قبول کرنا جائز نہیں ملاحظہ ہو سورۃ الحجرات آیت نمبر : 06

05– خطبات جمعہ میں شروع سے شامل ہونا اور خطیب کی گفتگو توجہ سے سننا۔

06– قرآن و صحیح احادیث پر مشتمل دینی کتب ، رسائل و جرائد پڑھنا۔

حصول علم اورجہالت سے بچاؤ کے لئے نبی اکرمﷺ نے چند دعائیں بھی سکھائی ہیں انہیں اختیار کرنا ، دعائیں درج ذیل ہیں:

01– عام طور پر مثلا آخری تشھد میں ، نماز کے بعد ، قبولیت کی گھڑیوں میں ، یا جب بھی دعا مانگیں یہ دعا ضرور کریں:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا

یا اللہ میں تجھ سے علم نافع اور رزق طیب اور عمل مقبول کا طالب ہوں۔

(سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب ما یقال بعد التسلیم،رقم:925)

02- رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا(طہ:114)

اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما۔

03- اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لاَ يَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لاَ يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَةٍ لاَ يُسْتَجَابُ لَهَا

یا اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے ، ایسے دل سے جو ڈرے نہیں، ایسے نفس سے جو سیراب نہ ہو ، اور ایسی دعا سے جو قبول نہ کی جائے۔

(صحیح مسلم،کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب التعوذ من شر ما عمل ومن شر ما لم یعمل،رقم:7081)

04- اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي وَجِلَاءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّي

یا اللہ میں تیرا بندہ ، تیرے بندے کا بیٹا ، اور تیری بندی کا بیٹا ، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ، میرے متعلق تیرا حکم جاری، میرے متعلق تیرا ہر فیصلہ عدل ، یا اللہ میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنے لئے منتخب کیا ، یا جو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ، یا جو تو نے اپنے کسی بندے کو سکھایا ، یا جو تو نے اپنے علم غیب میں چھپا کر رکھا ہے ، کہ تو قرآن عظیم کو میرے دل کی بہار بنادے ، میرس سینے کی روشنی بنادے اور میرے دکھ کی دوا بنادے۔

(مسند احمد:3712،الصحیحۃ:3528)

گھر سے نکلتے وقت:

05- اللَّهُمَّ أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَضِلَّ أَوْ أُضَلَّ أَوْ أَزِلَّ أَوْ أُزَلَّ أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ أَوْ أَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ

یا اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں کہ میں گمراہ ہوجاؤں یا گمراہ کیا جاؤں یا غلطی کروں یا مجھ سے غلطی کروائی جائے یا میں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے یا میں جہالت دکھاؤں یا مجھ پر جہالت دکھائی جائے۔

(سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب ما یقول الرجل اذا خرج من بیتہ،رقم:5096،الصحیحۃ:3163)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے