16bangladeshدسمبر 1971ء کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے وطن عزیز پاکستان کو بنے ہوئے24برس 4ماہ اور صرف 14 دن ہی بیتے تھے کہ اغیار سے زیادہ اپنوں کی سازشوں نے اس سلطنت اسلامیہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ شاعر نے اس وقت پاکستان کی زبان حال سے ان الفاظ میں ترجمانی کی جنہیںپڑھ کران کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جن کے دل اس وطن کی سلامتی کے لیے دھڑکتے ہیں۔

کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا  

شرق سے غرب تک میری پرواز  تھی 

ایک بازو پہ اڑتاہوں میںآج کل

شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا

ایک  شاہین  تھا  میں ذہن اقبال کا

دوسرا دشمنوں  کو گوارہ  نہیں

لیکن ہم نے اپنے اس عبرتناک ماضی سے سبق حاصل نہ کیا اور آج پھر اس تاریخ کو دہرانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ، پہلے بھی افواج پاکستان کا مورال گراکر اس کو مشرقی پاکستان میں نفرت کی علامت بنایا گیا تھا جس کا نتیجہ 16 دسمبرکو سقوط ڈھاکہ کی صورت میں رو نما ہوا اور اب دوبارہ ان مذموم حالات کی طرف بڑی تیزی سے لے جایا جا رہاہے ۔، اس کا ثبوت حال ہی میں ہونے والا آرمی پبلک اسکول کا بد ترین سانحہ ہےاور صرف یہی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ تو واقعات کی نہ ختم ہونے والی زنجیر ہے جس میں قوم اور افواج پاکستان کو جکڑا جارہاہے، پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں 141 معصوم جانوں کے چراغ کو آن واحد میںگل کردیاگیایہ ظلم و بر بریت کے اس المناک واقعے نے ہر آنکھ اشک باراور ہر دل کو سوگوار کردیاہے ، یہ وحشیانہ اور سفاکانہ کاروائی عین اسی تاریخ کو پیش آئی جس تایخ کو ہمارے وطن عزیز کے مشرقی بازو کو کاٹا گیاتھا اور جس میں شب زندہ راوں کی اُن معصوم بیٹیوں کی عصمتوں کو تار تار کیا گیاکہ جنہیں شاید آسماں نے بھی برہنہ سر نہ دیکھاہو اور نومولود وں کی لاشوں سے چاند تارہ بناکر ہندو نے اپنی پست ذہنیت اور نفرت کا اظہار کیا تھا،پھر اب ہونے والے اس واقعے نےماضی کے اُن مظالم و بر بریت کی داستانِ غم کو بھی تازہ کردیا ہے۔دہشت گردی، سانحے ، المیے سب سے زیادہ پاکستان ہی میں کیوں ؟ہرطرف موت کا رقص جاری ہےنہ کسی کا مال محفوظ ہے نہ جان اور نہ ہی عزت و آبرواور ہمارے ملک کے لیڈران بیان بازیوں سے ان بچوں کے خون کا حساب لینے کے دعوے کرتے نہیں تھک رہے جس طرح ماضی کے ہر واقعے کے بعد بیان داغے جاتے رہے ہیں جو اخبارات کی شہ سرخیوں سے آگے نہ بڑھ سکے اسی طرح یہ دعوے بھی ردی کی ٹوکری کی نظر ہونے میں کچھ وقت نہ لیںگے ، یہ کہتے ہیں تمام شہید ہونے والے میرے اپنے بچے ہیں، یہ بھی قوم کے ساتھ کیا خوب مذاق ہے ، ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ بتاؤ تمہاراکونسابچہ پوتایا نواسہ پاکستان کے کس اسکول میں پڑھتاہے؟؟

کوئی بڑا سانحہ ہونے کے بعد پولیس اور فوج ہائی الرٹ ہوجاتی ہے راستے بلاک کردیئے جاتے ہیں ہر آنے جانے والے شہری کو پریشان کیا جاتا ہے ، یہ تو وہی بات ہوگئی کہ سانپ چلاجائے تو کوئی بیوقوف وہ لکیر پیٹتا رہے کہ سانپ یہاں سے گیاہے!!!۔ ان سے کوئی پوچھے کہ پہلے کہاں تھے جب چڑیاں چگ گئیںکھیت اب اس ہائی الرٹ کا کیا فائدہ؟؟۔ کرنے والے تو نہ جانے کہاں ہوں ، ایسے واقعات کے بعد پہلے سے ظلم کی چکی میں پسے ہوئے عوام مزید  پریشان کرنا ہمارے سیکیورٹی اداروں کا وطیرہ بن چکا ہے۔

ایسا لگتاہے جیسے حملے کے وقت حملہ آوروں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہو اور ہدف نہایت آسان بنادیا گیا ہو کہ وہ با آسانی اپنا مشن مکمل کر کے اپنے اپنے محفوظ اور مضبوط ٹھکانوں میں پہنچ کر اپنی کامیابی کا جشن منارہے ہوتے ہیں، اسلام اورملک دشمن عناصر سے دادشجاعت وصول کرکے چند روز کے لیے زیر زمیں چلے جاتے ہیں اور جب ادارے تھک ہار کر ان کی تلاش ترک کر دیتے ہیں تو یکا یک وہ پھرآکرکسی  نئی کار وائی کا سیاہ تلک ہمارے اداروں کے ماتھےپہ لگا جاتے ہیں اور یہ بھی ہر واقعے کے بعدوہی پرانی روٹین دہرانا شروع کردیتے ہیں جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہےاور جبکہ اغیار کے اشاروںپہ  ناچنے والا ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا رائی کا پہاڑ بنانے کے چکر میں حقائق کو چھپا کر جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیتا ہے جو کہ اس بات سے واضح ہے کہ ایک ہی واقعے کو ہر چینل نئی کہانی کے ساتھ پیش کرتاہے جو کہ اصل حقیقت سے کوسوں دور ہوتی ہے اور واقعہ کچھ کا کچھ بن جاتاہے ۔

بہر حال سانحہ پشاور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس واقعے کے ذمہ دار جو کوئی بھی ہیں ان کا اسلام سے دور کا بھی کوئی واسطہ یا تعلق نہیں کیونکہ دین اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اس کی تعلیمات تو اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتیں کہ میدان جنگ میں بھی کوئی کسی نہتے کو قتل کرے اور پھر پیغمبر آخر الزمان ﷺنے بچوں، بزرگوں اور عورتوں کے قتل کی اجازت کبھی نہیں دی حتی کہ دنیا کی دغاباز اور مکار ترین قوم ، یہود کا معاملہ بھی جب نبی رحمت ﷺکو پیش آیا جبکہ یہودی قبیلے نے عہد بھی توڑاتھا اور دشمن کی مدد بھی کی تھی انہیں جب قتل کیا گیا تو ان کی بھی عورتوں اور نابالغ بچوں کو الگ کردیا گیا اورصرف وہ مرد قتل کئے گئےجو جنگ کے قابل تھے،جبکہ پشاور کے اسکول میں معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلنےوالے کیونکر مسلمان ہوسکتے ہیں؟؟؟

احادیث مبارکہ میں بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کے قتل سے روکا گیاہے،سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:وَلَا تَقْتُلُوا شَیْخًا فَانِیا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِیرًا وَلَا امْرَاَةً. ’’نہ کسی بوڑھے کو قتل کرو، نہ شیر خوار بچے کو، نہ نابالغ کو اور نہ عورت کو‘‘(ابو داؤد،، 3: 37، رقم: 2614)

امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ سیدنا ضحاک رحمہ اللہ سے روایت نقل کرتے ہیں:کَانَ صلی الله علیه وآله وسلم یَنْهَی عَنْ قَتْلِ الْمَرْاَةِ وَالشَّیْخِ الْکَبِیْرِ.’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورتوں اور عمر رسیدہ افراد کو قتل کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے.‘‘ ( ابن ابی شیبة، المصنف، 6: 484، رقم: 33133 ) اس مضمون کی بے شمار احادیث ہیںاور نبی مکرم ﷺکےخلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کفار سے جہاد کےلیے روانہ کرتے ہوئے جو دس عظیم نصیحتیں فرمائی تھیں تاریخ نے انہیں اپنے سینے میں محفوظ کررکھا ہے اور وہ یہ تھیں:

1. عورتیں، بچے اور بوڑھے قتل نہ کیے جائیں۔2. مثلہ نہ کیا جائے ۔3. راہبوں اور عابدوں کو نہ ستایا جائے اور نہ ان کے معابد مسمار کیے جائیں۔4. کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کھیتیاں جلائی جائیں۔5. آبادیاں ویران نہ کی جائیں ۔6. جانوروں کو ہلاک نہ کیا جائے۔7. بدعہدی سے ہر حال میں احتراز کیا جائے۔8. جو لوگ اطاعت کریں، ان کی جان و مال کا وہی احترام کیا جائے جو مسلمانوں کی جان ومال کا 9. اموالِ غنیمت میں خیانت نہ کی جائے 10. جنگ میں پیٹھ نہ پھیری جائے۔

در اصل ہم ہر معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہیں ظلم و جبر میں چنگیزیت کی بھی حدود کو پھلانگنے میں عار محسوس نہیں کرتے اور دوسری جانب جب صف غم بچھتی ہے تو اس میں بھی غیر اسلامی مذاہب کی نقالی کرتے پائے جاتے ہیں اور جائے وقوعہ اور مختلف مقامات پر ان شہید ہونے والوں سے اظہار یکجہتی یا ان کی یاد میں چراغاں کرکے شیطان کی پیروی کرتے ہیںجبکہ چراغاں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ غیر اسلامی اطوار ہیں،ہندو مذہب میں دیوالی، عیسائی مذہب میں کرسمس، یہودی مذہب میں  Light the Menorah (مینورہ کی لائٹ )کے نام سے جبکہ مجوسیوں کی عبادت کا محور ہی آگ، شمع وچراغاں ہے۔ اس کی وجہ دین کے معاملے میں انتہا درجے کی گمراہی اور اغیار کی نقالی ہےاور پیارے حبیبﷺ کی سنتوں سے دوری ہے۔

جس طرح کے حالات پاکستان میں پیداکیے جارہے ہیں اور تایخ کو دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے ایسی نازک صور تحال میں قومی اداروں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اورا پنے رویے کو بدلنا چاہیے کہ ہر کام کو بندوق کی نوک سے حل نہیں کیا جاسکتابلوچستان اور فاٹاکے سلگتے مسائل کو حکمت سے حل کرنے کی کوشش کی جائے وگرنہ اللہ نہ کرے وہ دن دور نہیں کہ ملک پھر دولخت ہوجائے اور اسکا سبب ہمارے اداروں کا رویہ ہو کہ جس کا نقشہ شاعر نے کچھ یوں کھینچاہے۔

کچھ تمہاری نزاکت کی  مجبوریاں

کچھ  ہماری  شرافت کی مجبوریاں

تم نے روکے محبت کے خود راستے

اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دوریاں

اور یہ دوریاں ہی آخرکار وہ کام کرتی ہیں کہ جس سے یہ صور تحال پیداہوجاتی ہے۔

یوں تو ہونے کو گھر سلامت رہے

کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے

ایک  تھے جو کبھی آج  دو ہو  گئے

ٹکڑے  کر  ڈالا  دشمن کی تلوار نے

یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں ایک طویل عرصے سے اس آفاقی قانون(قتل کی سزاقتل) کے عمل درآمد پر لگی پابندی ہٹادی گئی ہے کہ جو کسی معاشرے کی زندگی کا ضامن ہے اور قرآن کریم کے الفاظ میں:وَلَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّـٰٓــاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرۃ:179) ’’عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے اس کے باعث تم (قتل ناحق سے) رکو گے‘‘ ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس پر عمل درآمد بلاتفریق کیا جائے ، جس شخص نے بھی قتل کیا ہو چاہے وہ کسی بھی سوشل اسٹیٹس کا مالک ہو یا کسی بھی جماعت سے تعلق رکھنے والا ہو اس کی یہی سزا ہونی چاہیے ۔ اگر یہ نہ کیا گیا اور کسی مخصوص طبقے کو اس کا نشانہ بنایا گیا تو اس کے خاطر خواہ نتائج تو برآمد ہونا دور کی بات ہے بلکہ حالات میں مزید بگار پیدا ہوگا اور امن و امان کی صورتحال مزید ابتر ہوتی جائےگی ۔

آج ہم ولادت رسول ﷺ کے جشن تو بڑےجوش و جذبے اوردھوم دام سے مناتے ہیں لیکن ہم اس بات کو فراموش کرچکے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر کامیابی چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتی، ہاں مگر سنت کے راستے کو چھوڑکر ذلت و رسوائی قدم قدم پہ استقبال کرے گی اور آج قوم کی مجموعی صورتحال اسی بات کی غمازی کرتی ہے۔اور جشن میلاد کے نام پر سنت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، میرےنبیٔ اکرمﷺ جب قانون پر عمل کرتے تو اپنے اور بیگانوں میں تمیز نہ کرتے تھے اور یہی وجہ ہےکہ جب قبیلہ بنی مخزوم کی فاطمہ نامی عورت کا ہاتھ چوری کے جرم میں کاٹاجانے لگا تو لوگوں نے سیدنا اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما کو اس کی سفارش کے لیے کہا کیونکہ اسامہ رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم ﷺ بہت محبوب رکھتے تھے مگر سفارش کی بات سنی تو چہرہ مبارک متغیر ہوگیا اورزبان مبارک سے وہ تایخی الفاظ جاری ہوگئے جوکہ قیامت کی دیوارں تک حاکموں اور قانون نافذ کرنے والوں کوکسی کی جانب داری کرنے سے روکتے رہیں گےاور وہ الفاظ یہ تھے

َتَشْفَعُ فِی حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ؟ثُمَّ قَامَ فَخَتَطَبَ فَقَالَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا هَلَكَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِیهِمُ الشَّرِیفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِیهِمُ الضَّعِیفُ أَقَامُوا عَلَیْهِ الْحَدَّ، وَایْمُ اللَّهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ، لَقَطَعْتُ یَدَهَا(سنن ابن ماجه (2/ 851)

’کیاتم اللہ کی حدود میں سفارش کر رہے ہو؟ پھر کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا: اےلوگو! بے شک تم سے پہلےلوگ اسی لیے ہلاک کیے گئے کہ ان میں اگر کوئی بڑا آدمی چوری کرتاتو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے، اللہ کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمدﷺ چوری کرتی میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا‘‘ ہم سب عوام و خواص کوسنت نبوی ﷺکی روشنی میں اپنے اعمال کا جائزہ لے کر اپنی اصلاح کرنی چاہیے اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے