پر سکون ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے شوہروں کے نام ایک راہنما تحریر

ہمارے معاشرے میں آئے دن طلاق کی شرح میں ہوش ربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور طلاق کے واقعات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں اس بناء پر رونما ہونے والے جھگڑے اس قدر طول پکڑ لیتے ہیں کہ خاندان کے خاندان زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اگر دیکھا جائے تو عموماً اس کا ذمہ دار لڑکی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ لڑکے کو بے گناہ قرار دیا جاتاہے، اس کو اس سارے معاملے سے اس طرح صاف نکال لیا جاتاہے جیسے آٹے سے بال، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بلکہ دو نوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اگر میاں اور بیوی دونوں میں سے صرف ایک کی طرف سے ہی پوری ذمہ داری کا ثبوت دیا جائےتو نوبت طلاق تک کبھی نہ پہنچے۔ اگر یہ کہا جائے کہ شوہر اگر مکمل ذمہ دار ی کا ثبوت دے تو اس مسئلے کو سلجھایا جا سکتا ہے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ اس حوالے سے بحیثیت شوہر رسول اللہ ﷺ کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ آپ ﷺ کی ایک دو نہیں بلکہ نو (9) بیویاں تھیں اور سب کی سب مختلف مزاج کی حاملتھیں، ان سب باتوں کے باوجود کہیں یہ نہیں ملتا کہ کسی جھگڑے کی بنیاد پر نبی اکرمﷺ نے کسی بیوی کو طلاق کا عندیہ دیا ہو، رسول اکرم ﷺ نے غصے میں آکر ایلا تو کیا مگر طلاق جیسے فعل مبغوض کو پاس نہ پھٹکنے دیا ،بحیثیت شوہررسول اللہ ﷺ کی زندگی تمام کا ئنات کے لیے اسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا ثبوت قرآن مجید کی یہ آیت مبارکہ ہے جس میں رب تعالی نے انسانیت کو بتلایا ہے کہ اس کے حبیبﷺ کی زندگی ان کے لیے نمونہ ہےارشاد باری ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا (الاحزاب:21)

’’ یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالٰی کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالٰی کی یاد کرتا ہے ‘‘

بحیثیت شوہر اگر رسول اکرم ﷺ کی زندگی کو مشعل راہ بنایا جائے تو معاشرے سے طلاق جیسے ناسور کا سدباب ہوسکتاہے، آیئے دیکھیں رسول اکرم ﷺ نے اپنی زندگی بحیثیت شوہر کیسے گزاری؟؟

معاشرے کا بہترین شخص:

آج کل عموماً یہ دیکھنے میں آتاہے کہ جو شخص گھر سےباہر بڑے اعلی اخلاق سے لوگوں سے پیش آتاہے ، لوگوں سے جب گفتگو کرتاہے تو بڑانرم رو یہ اپنا یا ہوتا ہے ، کسی کام کی وجہ سے یا ویسے ہی کسی غیر محرم لڑکی سے گفتگو کا موقع ہو تو بڑے ہشاش اور مسکراتے چہرے کے ساتھ گفتگو کرتاہے اور یہی شخص اپنے گھر داخل ہوتا ہے اس کا چہرہ سپاٹ اور بھویں کمان کی طرح ہوجاتی ہیں اور تیور بدل جاتے ہیں گویا کہ اس چہرے پہ کبھی مسکراہٹ آئی ہی نہیں ۔ اپنی بیوی اور گھر کے دیگر افراد خانہ کے ساتھ اس کا رویہ یکسر تبدیل ہوتاہےاور اس کا چہرہ یوں ہوجاتا ہے گویا کئی سالوں سے غموں کا شکار ہے اور مسکراہٹ کبھی اس کے چہرے پہ آئی ہی نہیں ۔ اس کا وہ اعلی اخلاق جو باہر تھا گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ماند پڑجاتاہے ۔

بحیثیت شوہر گھر میں رسول اللہ ﷺ کا اخلاق اور رویہ کیسا تھااور رسول ﷺ نے سب سے بہترین شخص کسے قرار دیا؟آئیے حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم بہتری کے اس معیارپر پورا اترتے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیںاپنی اصلاح کے لیے کمر بستہ ہونا چاہیے اور اپنی اصلاح کے لیے فکرمند ہونے کی ضرورت ہے، رسول اکرم ﷺ کاارشاد گرامی ہے :

خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي

(سنن ابن ماجه (1/ 636)

’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہترین ہو اور میں اپنے اہل خانہ کے لیے تم سب سے بہتر ہوں‘‘

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بہتری کا معیار بتلادیا کہ کون شخص بہترین کہلانے کا مستحق ہے صرف وہی بہترین ہے جو اپنے گھر میں اپنی بیوی اور اہل خانہ کے ساتھ اعلی اخلاق کا مظاہرہ کرتاہے۔

بیوی سے محبت کرنے والا شوہر:

کسی بھی لڑکی کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسے محبت کرنے والا شوہر ملے ۔ وہ دیگر معاملات میں کمی برداشت کر لیتی ہے مگر شوہر کی محبت میں کمی برداشت کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ گھریلو جھگڑوں کی بنیاد بھی یہیں سے پڑتی ہے۔شوہر جب موبائل فون یا کسی اور ذریعے سے کسی غیر لڑکی سے تعلقات قائم کرلیتا ہے تو بیوی کے ساتھ اس کی محبت میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ بیوی جب اس کمی کو محسوس کرتی ہے تواس کے دل میں عجیب عجیب خیالات جنم لیے لگتے ہیں، یوں شوہر اور بیوی کے درمیان جو اعتماد کی فضاء تھی وہ یکسر تبدیل ہوکر بد اعتمادی اور انتشار کی صورت اختیار کرلیتی ہے اس طرح دونوں کے درمیان نوک جھونک شروع ہو جاتی ہے اور نوبت آئے دن کے جھگڑوں تک جا پہنچتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے بحیثیت شوہر ہمارے سامنے بہترین نمونہ پیش کیا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ اپنی بیویوں سے بے پناہ محبت کرنے والے تھے ، رسول اللہ ﷺ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ ﷺ کو کس سے سب سے زیا دہ محبت ہے تو آپ ﷺ اپنی بیوی سیدہ عائشہ طاہرہ کا نام لیا (صحیح بخاری:3662)

رسول اکرم ﷺ اپنی بیویوں سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ ہر بیوی یہی سمجھتی کہ میں ہی رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب ہوں۔

گھر کے کام کاج:

ہمارے معاشرے میں عموماًیہی خیال کیا جاتاہے کہ گھر کے سارے کام کی ذمہ دار صرف بیوی ہے، یہی وجہ ہے کہ بیوی اگر کبھی کبھار شوہر کوکوئی گھر کا کام کرنے کو کہہ دےتوشوہر اس کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے شدید غصہ کرنےکے ساتھ ساتھ یہ کہتاہوا سنائی دیتاہے کہ باہر کے کام بھی کروں اور گھر کے کام بھی آکر میں کروں؟؟

یوں محسوس ہوتاہے کہ بعض لوگ گھر کے کام کاج کرنے کو اپنی تذلیل خیال کرتے ہیں۔

جب ہم رسول اللہ ﷺکی زندگی کا بحیثیت شوہر مطالعہ کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ رسول اللہﷺ گھر کے کام کرنےمیں اہل خانہ کا ہاتھ بٹاتے تھے( صحیح البخاری:676)

کھانے پینے اور پہننے کا اہتمام کرنا:

ہمارے ہاں یہ رواج بنتا جارہاہے کہ بیوی کو کسی اچھی جگہ ملازمت پر لگوادیا جاتاہے اور پھر گھر کےتمام اخراجات وہ اپنی تنخواہ سے پورے کرتی ہے مرد آرام سے گھر بیٹھ کر یا دوست احباب کے ساتھ سیر و تفریح میں مشغول رہتاہے ۔ حالانکہ حقیقت میں یہ ذمہ داری صرف مردکی ہے کہ وہ کمائے کیونکہ شریعت نے شوہر کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے کھانے پینے اور تمام اخراجات کا بندوبست کرے۔بعض شوہر اپنی بیوی کی ضروریات پوری نہیں کرتے اور دوسرا اس طرح طعنے دے کر اس کا دل توڑدیتے ہیں ۔

رسول اکرمﷺ بحیثیت شوہر اس بات کا بڑا خیال رکھتے تھے کہ آپﷺ اپنی ازواج مطہرات کی تمام ضروریات پوری کرتے، اوراگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن جمیعا ًکوئی بھاری مطالبہ بھی کرتیں تو نبی اکرمﷺ انہیں کبھی طعنے نہ دیتے، ہمیں یہ تو ملتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ازواج کے بھاری مطالبات کرنے پر ان سے ایک ماہ کےلیے علیحدگی اختیار کرلی مگریہ کہیں نہیں ملتا کہ آپ ﷺ نے ازواج مطہرات کو طعنے دیئے ہوں یا طلاق کی دھمکی دی ہو۔

اس لیے آج بھی ایک مرد کو بحیثیت شوہر کے ان باتوں کا خیال کرنا چاہیےاور رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھ کر معاملات کو حل کرنا چاہیے۔

عزت و ناموس کی حفاظت:

ایک شوہر پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی بیوی کی عزت و ناموس کا خیال رکھے اور اس پر غیرت کرے ، اگر وہ ایسا نہ کرے توحدیث کی رو سے وہ دیّوث ہے اور دیّوث جنت میں داخل نہ ہوگا:

لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ دَيُّوثٌ (مسند أبي داود الطيالسي (2/ 34)

’’دیوث جنت میں داخل نہ ہوگا‘‘

نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ دیوث کون ہے آپ ﷺ نے فرمایا:

الَّذِي يُيَسِّرُ لِأَهْلِهِ السُّوءَ

(الأسماء والصفات للبيهقي (2/ 125)

’’جو اپنی بیوی کے لیے برائی کو پسند کرے‘‘

ایک غیرت مند شوہر کو چاہیے کہ نہ تو خود کبھی ایساموقع آنے دے کہ جس سے بیوی کی عزت میں کمی ہو اور نہ ہی کسی اور کو یہ جرأت کرنے دے۔ شوہر پر لازم ہےکہ وہ بیوی کے رہن سہن میں پردے کا خیا ل رکھے عزیز و اقارب کے ہاں آتے جاتے اس کا اہتمام کرے اور بے پردگی اور اختلاط سے بچائے، بعض لوگ روشن خیالی کے نام پر اپنی بیویوں کو ایک شوپیس کی طرح سجاکر لوگوں کی نگاہ غلط کے لیے تقریبات میں شرکت کرتے اور بعض ان امور کے لیے اپنی بیویوں کو مجبور کرتے ہیں، در اصل ایسے مردوں کو اس بات کا خوف ہوتاہےکہ اگر بیوی کو پردے میں رکھاتو لوگ اس کو ملّا اور مولوی ہونے کا طعنہ دیں گے۔

جبکہ اللہ کے رسول ﷺ اپنی ازواج کی عزت وناموس کا بڑاخیال کرتے ، اس حوالے سے کئی ایک واقعات پیش کئے جاسکتے ہیں، آپ ﷺ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب بھی دلائی ہے کہ اگر وہ اپنی بیوی کی عزت و ناموس کے دفاع کے لیے قتل بھی کر دیا جائے تو شہادت کے رتبے پر فائز ہوگا۔(سنن ابی داؤد)

بیویوں کےدرمیان عدل:

بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایک سے زائد شادیوں کو بڑا معیوب سمجھاجاتاہے ۔ شریعت ایک مرد کو چار بیویاں بیک وقت رکھنے کی اجازت دیتی ہے، لیکن اگر کوئی شخص ایک سے زائد شادیاں کرتا ہے تو شریعت اس کو بیوں کے درمیان عدل کا پابند کرتی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی زندگی اس حوالے سے ہمارے لیے نمونہ ہے، آپ ﷺ نے گیارہ شادیاں کیں اور بیک وقت آپ ﷺ کے عقد میں نو بیویاں تھیں، اور آپ ﷺ نے بحیثیت شوہر ان سب کے درمیان مثالی عدل قائم کیا، جو شخص بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرتا اسے تنبیہ کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اس کاجسم ایک جانب سے فالج زدہ ہوگا۔

صبر و تحمل کرنے والا:

ایک اچھے شوہر کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ صبر تحمل اور برداشت کرنے والا ہو، وہ اپنی بیوی کی کسی غلطی پر غصہ کرنے کے بجائے صبر و تحمل سے کام لیتاہو، بعض لوگوں کو بلاوجہ بیویوں پر غصہ نکالنے کی عادت ہوتی ہے اس سے وہ اپنی فوقیت جتلانا چاہتے ہیں۔ اس سے بیوی میں ایک چڑچڑا پن پیداہوجاتاہے اور ہر بات پر ڈانٹ ڈپٹ سےایسے شخص کا رعب بھی جاتارہتاہے اور بیوی کے دل سے اس کی عزت بھی گر جاتی ہے، جبکہ رسول اللہ ﷺ بحیثیت شوہر اس بات سے خوب واقف تھے اسی لیےآپ ﷺ نے شوہروں کی راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا : ’’عورت کی تخلیق مرد کی ٹیڑھی پسلی سےہوئی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو توڑبیٹھوگے ، اس لیے اس سے ایسے ہی کام لیتے رہو‘‘

جب ایک شوہر رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی بیوی کی ایک شکایت لے کر آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے سمجھاتے ہوئے فرمایا: ’’اگر تو اپنی بیوی کی کسی ایک غلطی پر نالاں ہے تو اس کی بہت ساری صفات ایسی بھی ہوں گی کہ جن سےتو خوش ہوگا۔ جب ایک بری عادت کے مقابلے میں اچھی صفات زیادہ ہیں تو پھر ایسے ہی گزارہ کر اور صبر سے کام چلاتے رہو‘‘

اولاد نہ ہونے کے طعنے:

شادی کے بعدعمومی طور پر شادی شدہ جوڑے کی سب سے پہلی خواہش اولاد کی ہوتی ہے ، اس حوالے سے شوہر اور بیوی دونوں کے ذہن میں یہ بات ہونی چاہیے کہ اولاد سے نوازنا اللہ کے اختیار میں ہے اس میں انسان صرف ایک سبب ہے ، اس میں نہ ہی مرد کا کوئی اختیار ہے نہ عورت کا ، جبکہ ہمارے معاشرے میں اولاد اگر نہ ہو تو اس کی وجہ سے طعن و تشنیع عورت کے حصے میں آتی ہے جبکہ اس کا کوئی قصور نہیں ہوتا ۔ اس لیے شوہر کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اور کبھی بیوی کو یہ محسوس نہ ہونے دے کہ اولاد نہ ہونے میں وہ قصور وار ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی سب سے محبوب بیوی سیدہ طاہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں لیکن ان کی کوئی اولاد نہ تھی مگر آپ ﷺ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے کبھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا، گویا اچھے شوہر کی یہ نشانی ہے کہ اولاد نہ ہونے پر بیوی کو ملامت نہیں کرتا، اسی طرح اگر اولاد میں صرف بیٹیاں ہوں اور نرینہ اولاد نہ ہو اس کا طعنہ بھی بیوی کو دیا جاتاہے جبکہ اللہ نے اس بات کو اپنے مقدس کلام میں واشگاف الفاظ میں بیان کردیا ہے کہ:

لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۭ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ اِنَاثًا وَّيَهَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ الذُّكُوْرَ
اَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّاِنَاثًا ۚ وَيَجْعَلُ مَنْ يَّشَاۗءُ عَــقِـيْمًا ۭ اِنَّهٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ (الشوریٰ:49-50)

’’اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے،یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے بیشک وہ علم و قدرت والا ہے‘‘

لہٰذا مرد کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ ان معاملات میں بیوی کو قصور وار ٹھہرائے۔

اپنے کاموں کا بوجھ بیوی پر نہ ڈالنا:

ایک اچھے شوہر کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی بیوی پر کاموں کا زیادہ بوجھ نہ ڈالے ، جو کام اس کے خود کے کرنے کے ہیں انہیں وہ خود انجام دے ، رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں ،حتی کہ رسول اللہ ﷺ کائنات کے امام تھے لیکن اپنا جوتا بھی خو د سیتےاور کپڑا پھٹ جاتاتو پیوند بھی خو لگاتے آج کے دور میں ہمیں یہ افسانہ معلوم ہوتاہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے ، شوہر کو اپنی بیوی کا ہاتھ بٹانا چاہیے نہ کے بوجھبن جانا چاہیے۔

سسر سے محبت:

بحیثیت شوہر بیوی کے والدین سے محبت کرنا بھی ایک اچھے شوہر کی نشانی ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدماجد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے ، حدیث میں آتاہے :

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: «عَائِشَةُ» قِيلَ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ: ’’أَبُوهَا‘‘ (سنن ابن ماجه (1/ 38)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کہاگیا کو ن آپ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب ہے فرمایا ’’عائشہ‘‘ کہا گیا مردوں میں سے ، تو فرمایا : ’’اُن کے والد‘‘

اسی طرح آپ ﷺ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی بہت محبت فرماتے تھے۔

سسرالی رشۃ داروں کی عزت و احترام:

بحیثیت شوہر بیوی کے رشتہ داروں کی عزت اور ان کا احترام کرنابھی ضروری ہے ۔ اس سے ایک تو یہ ہوگا کہ رشتہ داروں کی نظر میں بیوی کے مقام میں اضافہ ہوگا اور دوسرا یہ کہ بیوی کے دل میں شوہر کے لیے مزید محبت بڑھے گی ، بحیثیت شوہر رسول اللہ ﷺ ازواج مطہرات کےرشتہ داروں کا بڑاخیال کرتے ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا: ’’عائشہ ! اگر آپ کی قوم نئی نئی اسلام میں داخل نہ ہوئی ہوتی تو میں کعبۃ اللہ کو انہی بنیادوں پر قائم کردیتا جن پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بنایاتھا‘‘(صحیح البخاری:1583)

محترم قارئین کرام ! مضمون کی طوالت کے خوف سے نبی کریم ﷺ کی زندگی سے بحیثیت شوہر یہ چند ایک پہلو ذکر کیے ہیں ، آپ ﷺ نے ایک شوہر کی حیثیت سے کیسے زندگی گزاری ، کتب احادیث اس حوالے سے بھری پڑی ہیں ، بہترین ازدواجی زندگی گزارنے کےلیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرنا ازحد ضروری ہے ۔ ہمارے معاشرے میں خصوصاً نوجوان شادی شدہ جوڑے میں جو نئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں ان کی بنیاد ی وجہ یہی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے اس پہلو کو پس پشت ڈال چکے ہیں او ر اس معاملے میں بےپرواہ ہوگئے ہیں، اگر رسول اکرم ﷺ کے بحیثیت ایک شوہر زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو میاں بیوی ایک پر سکون زندگی گزار سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے