بات اس ذات گرامی کی ہے جسے رب کائنات نے افضل البشر سید الرسل بنایا ہے جو جہانوں کے سردار ہیں سید ولدآدم ہیں شافعی محشر ہیں جب ابراہیم خلیل اللہ موسی کلیم اللہ عیسیٰ روح اللہ جیسے الوالعزم انبیاء بھی نفسی نفسی کی تکرار کررہے ہونگے اس وقت وہ اذن باری سے تمام خلقت کے لیے شفاعت کبریٰ کے لیے سر سجدے میں رکھ دیں گے جن کے جھنڈےتلے آئے بغیر ابو الانبیاء آدم علیہ السلام سے لیکر عیسیٰ علیہ السلام تک کسی نبی کو چارہ نہیں ہوگا۔
جو نہ کسی کی تعریف کے محتاج ہیں نہ کسی کے تزکیہ کی انہیں ضرورت کیونکہ انکی تعریف وتزکیہ میں تو خود رب العٰلمین محو کلام ہے انکی امانت ادائے رسالت کو رب العٰلمین یوں بیان فرماتے ہیں : وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى (النجم:3)’’اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں‘‘ ان کے اخلاق عظیم کی بابت رب رحیم شہادت دے رہا ہے: وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْم ٍ (القلم :4) ’’اور بلاشبہ آپ اخلاق کے بہت بڑے مرتبے پر ہیں‘ ‘ اور جب عالم انسانیت کی بات ہو مومن ہوں یا کافر جن ہوں یا انسان بلکہ حجر و شجر نباتات و جمادات ہوںیا حیوانات اس کی شفاعت ورحمت کا سیل رواں اس قدر جوش میں آئے کہ خود رب العالمین فرمائے:وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (الأنبياء: 107)’’ اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘
رب کریم آدم سے لیکر عیسیٰ علیہ السلام تک کوئی نبی نہ بھیجے مگر جب تک یہ میثاق و عہد پختہ نہ کرلے کہ اگر اس نبی کی زندگی میں محمد کریم ﷺآجائیںتوپھراسپرضروریہےکہایمانلائےمشرقومغرب،شمالوجنوبسبکومخاطبکرکےنبیمکرمفرمائیں :أَيُّهَا النَّاسُ , إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ ( الجامع الصحيح للسنن والمسانيد (10/ 238)جب مشرکوں کی ایذا حد سے زیادہ ہوجائے اور طائف کے بازاروں میں اس محسن انسانیت کو پتھر مار مار کر زخمی کردیا جائے پھر اُن سے کہا جائے :ادْعُ اللَّهَ عَلَى الْمُشْرِكِين ’’مشرکین کے لیے بد دعا کیجیے‘‘ جواب دیا : إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَلَكِنْ بُعِثْتُ رَحْمَةً (الأدب المفرد مخرجا (ص: 119) ’’میں لعن کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا لیکن میں رحمت بنا کر بھیجا گیاہوں‘‘ وہ جس کی عظمت کے اپنے پرائے گن گائیں جو اخلاقی رفعتوں کی آخری منزل قرار پائےاور پھر گویا ہو : إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ (السنن الكبرى للبيهقي (10/ 323) ’’بے شک مجھے اعلی اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘ جس کے عدل و انصاف پہ اونٹ بھی سر جھکائے چلا آئے ، غلام کو جنگل کا بادشاہ شیر امن کی جگہ بحفاظت پہنچائے ساری دنیاسے بڑھ کر جس سے محبت ہمارے ایمان کا تقاضا بن جائے جو فرمائے:لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ، وَوَالِدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (سنن ابن ماجه (1/ 26) ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والدین اور اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘
اب کوئی اس کی شان میں گستاخی کرے کوئی بد نصیب اس محسن پر استہزاءکےتیر بر سائے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو رلائے ایساشخص یقیناً انسان کہلانے کا حقدار نہیں آزادی رائے کے نام پہ یہ توہین اور پھر اسکا تکرار اور اتنی بڑی مسلمانوں کی تعداد کہیں وہ وقت تو نہیں آپہنچاجسکی پیشین گوئی لسان نبوت سے کی گئی تھی :وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ (سنن أبي داود (4/ 111)’’اور لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی مانند ہوجاؤگے‘‘نبی مکرم ﷺکیذاتجبمسلمانوں کے لیے انکی اپنی جانوں سے بھی بڑھ کر عزیز ہے :النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِم (الأحزاب: 6)’’(اور یہ حقیقت واضح رہے کہ) نبی ایمان والوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘
تو یوں توہین کا معاملہ کیوں ہویہودیوں کے ہولو کاسٹ پر کوئی بات نہ کرسکے اسکے لیے عالمی قانون ہو اور نبی مکرم محسن انسانیت ﷺکیذاتپہآئےدنحملےہوتےرہیں؟آخرکوئیتوحلہوکبھیاہلمکہنےنبیرحمتکاساتھدینےکیپاداشمیںبنوہاشمکاسوشلبائیکاٹکردیاتھااوروہتینسالشعبابیطالبمیںمحصورہوگئے تھے اب یہی طریقہ پوری عالمی
اسلامی برادری فرانس کے خلاف بروئے کار لائے بطور خاص خلیج کے ممالک پھر انڈونیشیا پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک اس سلسلے میں او۔آئی۔ سی۔ متفقہ لائحہ عمل بنائے عالمی سطح پر ایسی قانون سازی ہوکہ پھر یہ قبیح عمل نہ دہرایا جاسکے۔نبی رحمت ﷺکیسیرتمطہرہکوعالمیسطحپہعامکیاجائےتاکہپتہچلےکہخودنبیمکرمﷺنےانہییہودیوںکومدینہمنورہمیںمیثاقمدینہکےتحتکیاکچھحقوقدئیےتھےنبیمکرمﷺکیحرمتکادفاعہرکلمہگوپرفرضہےخواہوہکسیبھیطبقہسےتعلقرکھتاہواساتذہکرامسیرت کا مطالعہ کریں اور اپنے لیکچرز میں ضرور اسے بیان کریں ائمہ مساجد وخطباء سیرت کو موضوع سخن بنائیں مساجد میں باقاعدہ کلاسیں شروع کی جائیں تاجر حضرات تجارت میں ایمانداری اور سچائی اختیار کریں، کار خانہ دار صحیح چیزیں مارکیٹ میں لائیں تاکہ کافروں کی مصنوعات کا عملی بائیکاٹ آسان ہو، درود پاک کثرت سے پڑھا جائے اور ہر چھوٹے بڑے عمل میںصحیح سنت کی پیر وی کی جائے ورنہ یہ وقتی احتجاج کڑھی کے ابال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اس معاملے پہ کسی کو کوئی اختلاف ہوہی نہیں سکتا اگر وہ مسلمان ہے منافق نہیں ۔
سنت پر عمل اور دین میں عزت سے متعلق ابھی ایک ایسا واقعہ سامنے آیا ہے جس نے مسلمانوں کے جھکے ہوئے سر وقتی طور پربلند کردیئے ہیں پچکے ہوئے سینے پھیلادئیے ہیں اور یہ کہنے پہ مجبور ہوگئے ہیں کہ بادشاہ ہو تو ایسا دنیا کی سپر پاور ہونے کا دعویٰ کرنے والی ریاستہائے متحدہ امریکہ کا صدر اوباماہندوستان میں مودی سے ملاقات اور ایٹمی معاہدوں کے بعدپاکستانیوںکو روتا دھوتا چھوڑ کر خادم الحرمین شرفین ملک عبداللہ رحمہ اللہ کی وفات پہ تعزیت کے لیے سعودی عرب پہنچا استقبال کے لیے ملک سلمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ خود موجود تھے نماز عصر کا وقت ہوگیا موذن نے اذان دی اور ملک سلمان معذرت کرکے نماز کے لیے چلے گئے جب بادشاہ سب سے بڑے بادشاہ کے سامنے جھکنے لے لیے چل دے تو پھر پیچھے کون رہے پروٹوکو ل کے تمام ہی لوگ اوباما میاں کو اپنی بیگم اور چند امریکیوں کے ہمراہ تنہا چھوڑ کر رب کے در بار میں حاضری کے لیے چلے گئے یہ ایک پیغام ہے جرأت کا اور اللہ کے خوف کا ۔
ہم اپنا حال بھی دیکھیں یہاں اوباما تو کیا انکا کوئی عام وزیر یا ویسے ہی گوری چمڑی کے کچھ لوگ آجائیںتو آذان موخر کرادی جاتی ہے، لاؤڈ اسپیکر بند کرادیئے جاتے ہیں، عالم اسلام بر حق اپنے اس بادشاہ پہ فخر کرسکتا ہے جس نے مسلمانوں کی لاج رکھی اللہ تعالی انکی حفاظت فرمائے ۔ آمین
سعودی عرب اس وقت غم سے دوچار ہے شاہ عبداللہ ایک عالمی قائد تھے بطور خاص پاکستان سے محبت کرتے تھے ، پاکستانیوں کی خوشی میں خوش ہوتے اور غم میں غمزدہ۔
یہ باتیں کر رہے تھے 30 جنوری جمعۃ المبارک کی شام جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں منعقدہ ایک پر وقار اجتماع سے فیصل مسجد اسلام آباد کے خطیب اور انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے وی۔سی جناب احمد بن یوسف الدریویش حفظہ اللہ جو ایک سو سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں اس اجتماع میں طلباء ڈاکٹرز پروفیسرز اور علماء کرام کے علاوہ بہت سے تاجر حضرات بھی شریک تھے ایک گھنٹے سے زیادہ انتہائی بلیغ خطاب کیا اور طلباء کرام کو بطور خاص متنبہ کیا کہ ایسانہ ہوکوئی دین کے نام پر آپکو گمراہ کردے ملک عبداللہ رحمہ اللہ کا تذکرہ انتہائی غم کے ساتھ کیا اور اسکا شکر بھی ادا کیا کہ اگر ہماری شام ایسی تھی کہ ہمارے پاس بادشاہ تھا تو صبح بھی ایسی نہ ہوئی کہ ہم بادشاہ سے محروم تھے بلکہ شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد انتقال اقتدار کا معاملہ چند ساعتوں میں بحمداللہ بغیر کسی فتنہ و فساد کے طے پاگیا۔
میں نے سعودیوں کو دیکھا ہے کہ وہ اللہ کا شکر کثرت سے ادا کرتے ہیںاور خاص طور پر ایسے مواقع پہ اس طرح سنت کے سا تھ تمسک ان کا متیازہے ، شاہ عبداللہ کی تکفین سےلیکر تدفین تک کہیں کوئی تکلف نظر نہیں آتا وہی سادہ کفن وہی مختصر سی نمازجنازہ ، چاہتے تو خادم الحرمین کی میت بیت اللہ لائی جاتی جنت البقیع میں تدفین ہوتی لیکن نہیں۔ مسجد امام ترکی بن عبداللہ میں جنازہ ملحقہ قبرستان میں سادہ سی قبر میں تدفین یہ سب کچھ عالم اسلام کو پیغام ہے کہ سعودی عرب اتباع سنت میں نمایاں مقام رکھتا ہے آج ہر صاحب ایما ن سعودی عوام کے ساتھ غم میں شریک ہے ۔ شاہ عبداللہ رحمہ اللہ نے 91 سال عمر پائییکم اگست 2005 سے 23جنوری2015 باد شاہ رہے ۔ انکی وفات پہ ساراعالم اسلام سوگوار ہوگیا ، پاکستان کا جھنڈا بھی سر نگوں رہا ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی تعزیتی پیغام بھیجا مگر افسوس طہران کی جامع مسجد کا ذاکر جمعہ کے خطبہ میں لوگوں کو مبارکباد دیتارہا ۔
ہم دعاگوہیں کہ اللہ تعالی خادم الحرمین الشرفین ملک عبداللہ بن عبد العزیز کی مغفرت فرمائے اور جناب عبد القادر حسن کے الفاظ میں ’’آج پوراعالم اسلام بے پناہ مسرت اور حیرت سے اپنے اس بادشاہ کو دیکھ رہاہے جس نے صرف ایک ملک کی نہیں پوری اسلامی دنیا کی عزت رکھ لی ہے ‘‘ او راللہ اس حکمران کو خوش اور مطمئن رکھے اور اُسے ان بلاؤں سے محفوظ رکھے جو انکے ایک عزیز بادشاہ فیصل رحمہ اللہ کو لے گئیں تھیں ۔ آمین۔