توحید، نماز کے بعد اب ہم آتے ہیں روزے کی طرف۔ اللہ تعالی سورۃ البقرہ میں ارشادفر ماتے ہیں:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرۃ:183)

’’اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض تھا۔ اسلامی شریعت میں مسلمانوں پر سال بھر میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے ہیں۔ روزے کا مطلب یہ ہے کہ دن بھر (صبح صادق سے غروب آفتاب تک) آدمی کھانے ،پینے ، بے ہودہ گوئی ، فضولیات اور عورت کے ساتھ صحبت کرنے سے پر ہیز کرے۔ روزے کی فضیلت میں بے شمار احادیث آئی ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ اکرمﷺ نے فرمایا :

قَالَ اللهُ: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، (صحيح البخاري (3/ 26)

’’اللہ تعالی فر ماتاہے: آدمی کے سب اعمال اس کے لیے ہیں لیکن روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزادوں گا‘‘
یعنی روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ اس کا بدلہ عام نیکیوں کی جزا سے ہٹ کر میں خود ہی دوں گا اور قیامت کے روز ہی بتلاؤں گا۔
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا : مجھے کسی بڑے عمل کا حکم دیجئے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا عَدْلَ لَهُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ مُرْنِي بِعَمَلٍ، قَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا عِدْلَ لَهُ )سنن النسائي (4/ 165)

’’روزے رکھو، کیونکہ کوئی عمل اس جیسا نہیں ۔ میں نے دوبارہ کہا : اے اللہ کے رسول! مجھے کسی (بڑے) عمل کا حکم دیں، آپ ﷺ نے فرمایا: روزے رکھو، کیونکہ کوئی عمل اس جیسا نہیں‘‘
مطلب یہ ہے کہ بعض خصوصیات کی بنا پر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی کوئی مثال نہیں ، کیونکہ انسان جب روزہ رکھتا ہے تو اللہ کی محبت اور اس کے خوف کی بنیاد پر گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھتاہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

” الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنْ عَذَابِ اللهِ، كَجُنَّةِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْقِتَالِ ” (مسند أحمد ط الرسالة (29/ 436)

’’روزہ تمہیں عذاب الٰہی سے اس طرح بچاتاہے جس طرح ڈھال تمہیں لڑائی سے بچاتی ہے‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

” لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ ” (صحيح البخاري (3/ 26)

’’روزے دار کو دو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں ایک تو اس وقت جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور اپنے افطار پر خوش ہوتاہے دوسری خوشی اسے اس وقت ملے گی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا‘‘
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ الصِّيَامُ: أَيْ رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ , فَشَفِّعْنِي فِيهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ , فَشَفِّعْنِي فِيهِ، قَالَ: فَيُشَفَّعَانِ ” (الجامع الصحيح للسنن والمسانيد (17/ 84)

’’روزہ اور قر آن دونوں بندے کی شفاعت کریں گے ۔ روزہ کہے گا: اے میرے پر ور دگار ! میں نے اسے دن میں کھانے اور پینے سے روکے رکھا، اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا ، یعنی اس نے تراویح میں قر آن سنا ، لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی‘‘
سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ تَعَالَى مِنْ رِيحِ المِسْكِ (بخاري (3/ 24)

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ، روزے دار کے منہ کی بو ، اللہ تعالی کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے ‘‘ (یہ بو معدے کے خالی ہونے سے پیداہوتی ہے )
رمضان المبارک میں روزے جیسی عظیم الشان عبادت کے ساتھ ایک اور عبادت یعنی تراویح کا تحفہ ملا۔ تراویح اور تہجد در اصل دونوں ایک ہی عبادت ہیں۔ رمضان میں عشاء کے بعد جو نفلی نماز اداکی جاتی ہے اس کو تہجد کہتے ہیں۔
احادیث میں قیام رمضان یعنی تراویح کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحيح البخاري (1/ 16)

’’جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان میںقیام کیا اس کے گزشتہ سارے (صغیرہ) گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں‘‘
نبئ کریم ﷺ عام حالات میں جس طرح قیام اللیل کا اہتمام فرماتے تھےرمضان میں بھی اسی طرح قیام اللیل یعنی تراویح کا اہتمام فرماتے تھے۔ رمضان کی آخری دس راتوں کے قیام کا آپ خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے ۔ ان راتوں میں جہاں آپ خود قیام کرتے وہاں اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے۔
صحیح مسلم میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب رمضان کا آخری عشرہ داخل ہوتا، آپ رات کو جاگتے ساتھ گھروالوں کو بھی جگاتے اور عبادت میں نہایت کوشش کرتے اور کمرِہمت باندھ لیتے‘‘
سیدہ عائشہ ہی سے ایک دوسری روایت میں ہے :

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ (صحيح مسلم (2/ 832)

’’رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں عبادت میں جتنی کوشش کرتے تھے دیگردنوں میں اتنی کوشش نہیں کرتے تھے‘‘
ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ رمضان میںقیام اللیل یعنی تراویح کا اہتمام کرےاور رمضان کے آخری عشرے میں بالخصوص عبادت میںدلچسپی لے۔ خود بھی نوافل و اذکار کا اہتمام کرے اور گھر والوں کو بھی اس کی ترغیب دے اور اپنے ساتھ انہیں بھی بیدار کرے۔
اسی طرح رمضان المبارک میں اعتکاف کی عبادت عطا کی گئی ۔ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے عبادت کی غرض سے ، جامع مسجد کے کسی گوشے میں ٹھہرنا، اعتکاف کہلاتاہے ۔ اعتکاف کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان کا دل اللہ تعالی کے ساتھ وابستہ ہوجائے۔ ہر وقت اللہ کا ذکر ہو اور اس کی رضا و قرب کی تلاش ہو مخلوق کی بجائے اللہ تعالی سے انس ہو۔ نبیٔ کریم ﷺ کی عام عادت مبارکہ یہی تھی کہ آپ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے ، جیساکہ صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں:

يَعْتَكِفُ فِي كُلِّ رَمَضَانٍ عَشَرَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَانَ العَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا (صحيح البخاري (3/ 51)

’’نبی اکرم ﷺ اپنی وفات تک مسلسل رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے۔ یعنی آپ کا عام معمول یہی تھا لیکن جس سال آپ ﷺ نے وفات پائی اس سال آپ نے بیس روز کا اعتکاف فرمایا‘‘
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رمضان کے درمیانی عشرے میں بھی اعتکاف کیا جاسکتاہے البتہ آخری عشرے میں اعتکاف کرنا افضل ہے اور یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ بیس دن کا اعتکاف بھی کیا جاسکتاہے۔
یہاں ہم یہ بات بھی ذکر کردیں کہ اعتکاف کے لیے رمضان المبارک یا روزے کا ہونا ضروری نہیں ۔ غیر رمضان اور بغیر روزے کے بھی اعتکاف ہوسکتاہے ۔ اسی طرح دس دن سے کم کا بھی اعتکاف ہوسکتاہے، یہاں تک کہ ایک دن یا ایک رات کا بھی اعتکاف ہوسکتاہے۔ جیساکہ صحیح بخاری میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں:’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے زمانۂ جاہلیت میں ، مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کی نذر مانی تھی۔ انہوں نے اس بات کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اَوْفِ نَذْکَ‘‘ (عمر) اپنی نذر پوری کرو‘‘ چنانچہ انہوں نے ایک رات کا اعتکاف کیا (صحيح البخاري، حدیث:2042)
دوران اعتکاف میں کثرت سے نفلی نماز، قرآن مجید کی تلاوت ، ذکر الٰہی، تسبیح و تہلیل تمحید و تکبیراو ردرود شریف وغیرہ پڑھنےمیں مشغول رہنا چاہیے۔ اعتکاف کی حالت میں دنیا کی فضول باتوں سے اور دنیاوی امور و معاملات میں صلاح و مشورہ سے بھی گریز کرنا چاہیے ۔ حالت اعتکاف میں تیمار داری کے لیے جانا، جنازے میں شرکت کرنا ، بیوی سے قربت اختیار کرنا منع ہے۔ البتہ بیوی سے ملاقات کر سکتاہے اور ساتھ کوئی محرم نہ ہو تو اسے گھر تک بھی چھوڑ سکتاہے۔
عورتیں اگر اعتکاف کرنا چاہیں تو شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے ایسی مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہیں، جہاں عورتوں کے لیے مردوں سے الگ ہر چیز کا انتظام ہو اور ان کی حفاظت کا بھی معقول بندوبست ہو۔ عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف کرنا قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔
پھر اس مبارک مہینے میں ایک انعام شب قدر کو رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالی سورۃ القدر میں فرماتے ہیں کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحيح البخاري (3/ 26)

’’جس شخص نے شب قدر میں ایمان کی حالت میں، ثواب کی نیت سے قیام کیا، اس کے سابقہ (صغیرہ) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں‘‘
(رمضان المبارک کے فضائل اور احکام و مسائل کی مزید تفصیل کے لیے کتاب ’’احکام و مسائل رمضان‘‘ طبع دارالسلام کا مطالعہ فرمائیں)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے