پھونکوں سے یہ چراغ بھجھایا نہ جائے گا

مدرسه

کا لفظ درس سے ماخوذ ہے جسے انگریزی میں SCHOOLکہتے ہیں گویا کہ مدرسہ اس ادارے کو کہتے ہیں جہاں علم کے پیاسے کو علم وہنر کے زیور سے آراستہ کیا جاتاہے ، مدرسہ وہ ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی قرآن وسنت کی روشنی میں دینی تعلیم کے ساتھ ذہنی و جسمانی نشونما ، تخلیقی و تحقیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب و معاشرتی عوامل ومحرکات نظم و نسق سکھائے جاتے ہوں۔

دینی مدارس جو ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں جو متوسط طبقہ کی تعلیمی ضروریات کو پوراکررہے ہیں جوکہ اسلامی اقدار وروایات کو بچانے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی زبان ’’عربی‘‘ کے احیاء اور پاکستان کی قومی زبان اردوکو زندہ رکھے ہوئے ہیںجبکہ صرف عصری تعلیم دینے والے اور خاص طور پر انگلش میڈیم ادارے جن کی تعلیم کا محور ومرکز صرف یورپ اور امریکہ ہے بلکہ انہوں نے پاکستان کی نئی نسل کی دینی اقدار ، روایات اور زبان تک چھین لی ہے کیمبرج اور امریکن سسٹم کے تحت تعلیم دینے والے یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے مسلمان بچوںکو پاکستانیت ، اسلام اور قومی زبان سےدانستہ اور سوچی سمجھی سازش کے تحت محروم کر رہے ہیں ، برصغیر میںا نگریزوں کی آمد سے پہلے تعلیمی خدمات کا فریضہ مسجد ومدرسہ اور مکتب میں اداکیا جاتاتھا مگر انگریزکو یہ طریقہ تعلیم پسند نہ آیا اور اس نے سازشوں کےذریعہ تبدیل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ کا فی حد تک اس نظام کو بدل ڈالا گیا، 19ویں صدی کی آخری دہائیوں میں نیم مذہبی و نیم سرکاری ادارے بنانے کا آغاز کیا گیا 20ویں صدی میں بھی یہ مداخلت جاری رہی دینی مدارس کے نظام کو بار بار ختم کرنے کی بھر پور کوششیں کی گئیں جوکہ آج تک جاری ہیں اور اب 21ویں صدی میں پھر دینی مدارس میں اصلاحات اور تبدیلی کامعاملہ سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے کیونکہ مدارس سے اپنوں سے زیادہ غیروں کو شکایت ہے یہ وہ اغیار کہ جو اسلام ، مسلمان اوردینی مدارس سے ہمیشہ شاکی رہے ہیں اور وہ ان شکایات کا ازالہ بھی اپنے من پسند طریقے سے چاہتےہیں جوکہ ناممکن ہے ۔

علوم اسلامیہ کے ان اداروں کی خشت اول ہی دین الٰہی سے محبت پر رکھی گئی ہے اغیار اس تعلق کو کمزور ، بلکہ ختم کرنا چاہتے ہیں جیساکہ انہوں نے کلیسا کا حال کیا ہے ، کلیسا کا دائرہ کار صرف کلیساکی چاردیورای تک محدود ہے اس کے باہر اس کا کوئی تعلق کوئی اختیار نہیں ، جبکہ مدارس بہر حال جیسے بھی ہیں ابھی بھی معاشرے میں اپنی ایک نمایاں حیثیت رکھتے، لوگ اپنی دینی دنیاوی راہنمائی کے لیے مدارس اور علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں جبکہ مدارس اور علماء کرام فساد فی الارض کےبھی داعی نہیں رہے بلکہ یہ تو امن عالم کے دعویدار ہیں اگر کوئی ایساہوتو جس کے قول وفعل سے منفی کردار کی بو آتی ہوتو یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ اس پر گرفت کی جائے اور اس کی اصلاح کردی جائے ، اہل مدارس کو بھی اس سلسلہ میں حکومت سےتعاون کرنا چاہیے کیونکہ مدارس کامقصود ومطلوب بھی اعتدال پسندی امن و سلامتی کی اشاعت اور نوع انسانی کی اصلاح و تعمیر ہے۔

عصر حاضر میں ایک مرتبہ پھر امت اسلامیہ مغربی تہذیب و تمدن سےمتاثر ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اسلامی ممالک کے اکثر و بیشتر سیاسی اور بعض مذہبی قائدین اسلامی ممالک کی آفاقی

تعلیمات کو پس پشت ڈال کر یہود وہنود کی خوشامد کرنے میں مصروف ہیں ایسے میں اھل مدارس ذمہ داران کےلیے ضروری ہےکہ وہ کتاب و سنت کو سمجھنے سمجھانے کو اور عمل کرنے کو آسان بنانے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیں ۔

علامہ اقبال رحمہ اللہ مدارس کی رسمی تعلیم سے اس قدر نالاں نہیں جتنے جدید مغربی تعلیم سے،اس تعلیم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ سراسر مادیت پر مبنی ہے اور دین و مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ۔ ان کی نظر میں یہ نظام ِ تعلیم دین کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہےجونو جوانوں کو اعلیٰ اسلامی اقدار سے محروم کر رہی ہے۔ یہ تعلیم ضرورت سے زیادہ تعقل زدہ تھی اس نے الحاد اور بے دینی پھیلانے کی بھر پور کوشش کی ہے جسے اقبال نفر ت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

چونکہ مغربی تعلیم کی بنیاد ہی مادیت پر ستی ہے وہ عقل پرستی ، تن پروری ، تعیش و آرام کی دلدادگی کا سبق دیتی ہے اس سے مسلمان نوجوانوں کے عقائد متزلزل ہو جاتے ہیں مغربی تہذیب کی اندھی تقلید ان سے ان کا نصب العین چھین لیتی ہے اور انہیں اندھیروں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتی ہے یہ بے دینی اور الحاد انہیں احساس ِ کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے اور ان شاہیں

بچوں کو خاکبازی کا سبق دے کر انہیں توحید کے نظریہ سے دور لے جاتی ہے۔

مغربی تعلیم کی روح بلند مقاصد سے خالی ہے اس کا نصب العین صرف معاش کا حصول ہے اور یہ نوجوانوں کو پیٹ کا غلام بنا کرانہیں دنیاوی لذتوں میں اُلجھا دیتی ہے اس طر ح بلند مقاصد سے وہ بالکل عاری ہو جاتے ہیں۔

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں                          جس علم کا حاصل ہو جہاں ِ میں دو کفِ جو

مغربی تعلیم نوجوانوں کو اپنی قومی تاریخ و روایات سے بیگانہ کرکے مغربی طرز معاشرت رفتار و گفتا ر اور طرزِ حیات کا دلدادہ بنا دیتی ہے۔ اور مغرب کے جھوٹے میعار ، جھوٹے نظریات اور جھوٹی اقدار کی چمک دمک ان کی نگاہوں کو خیر ہ کر دیتی ہے اس طرح وہ اپنی فطری حریت ، دلیری ، شجاعت اور بلند پروازی کو چھوڑ کر ایک احساس ِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مغرب کی بھونڈی تقلید کی کوشش میں وہ مغرب کی خرابیوں کو اپنا لیتے ہیں اور خوبیوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔

آخر تمام بحث کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کی نظر میں تعلیم کا حقیقی مقصد انسانی سیرت و کردار کی تعمیر کرکے اس کی تسخیر ِ حیات کی صلاحیت کو تقویت پہنچانا ہے۔ چنانچہ محض مادی یا محض روحانی تعلیم کو مقصود ٹھہرا لینا درست نہیں ، روح اور مادہ کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا اورمسلمان کا فرض ہے کہ تن اور من دونوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھے اور جسمانی اور روحانی تقاضوں کو یکساں اہمیت دے اس کے ساتھ ہی تعلیم کا مقصد انسان کو تسخیر کائنات کے لئے تیار کرنا بھی ہے اور اسے ایسے سانچے میں ڈھالنا کہ وہ خود کو مفید شہری بنا کر صالح معاشرے کو وجود میں لانے میں مدد دے اور تعلیم کا آخری اور بڑا مقصد خودی کی تقویت اور استحکام ہے۔

جدید ذہن کےحوالےسےقدیم نصاب کےحامل مدارس اور مکاتب کی اصلاح اور ان کی جدید ترتیب و تعمیر کےسلسلےمیں آئےدن بہت سی باتیں تحریر و تقریر میں نظر آرہی ہیں ۔ ترمیم اور نظر ثانی کی یہ باتیں اس قدر تواتر اور اصرار کےساتھ منظر عام پر آرہی ہیں کہ ہمارےمدارس کےذمہ دار بھی مرعوب ہو کر یا تو دفاعی پوزیشن میں آگئےہیں یا پھر ان کےذہن و فکر نےنظر ثانی اور تبدیلیوں کی بات قبول کرلی ہےجوکہ خوش آئند نہیں ہے۔مدرسوں کےتئیں علامہ اقبال کےچونکا دینےوالےخیالات و احساسات ، ملاحظہ ہوں جو انہوں نےایک مستشیر کی بات سن کر درد بھری آواز میں کیےتھے۔

جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرےقلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔ میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا، جو تم چاہتےہو، انقلاب، ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کےمسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کےدوش بدوش کھڑا کردے، لیکن یورپ کو دیکھنےکےبعد میری رائےبدل گئی، ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنےدو، غریب مسلمانوں کےبچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنےدو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہےتو جانتےہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا اسےمیں اپنی آنکھوں سےدیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستان کےمسلمان مکتبوں کےاثرسےمحروم ہو گئےتو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کےباوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کےکھنڈر اور الحمراءاور باب الاخوتین کےسوا اسلام کےپیرواں اور اسلامی     تہذیب کےآثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کےتاج محل اور دہلی کےلال قلعہ کےسِوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملےگا۔

اس پس منظرمیں علماء پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ارتقاء کا ساتھ دیتے ہوئے خود کو اس مقام تک پہنچائیں کہمسلم معاشرے کی ضروت پوری ہو۔معاشرے کی یہ شکایت دور نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہےکہ عوام علماء سے اسی طرح دور ہوتے جارہے ہیں جیسے لوگ اس دکان پر جانا چھوڑ دیتے ہیں جہاں سے اکثر یہ جواب ملتا ہو “فلاں چیز میرے پاس شاٹ ہے آپ ساتھ والی دکان سے لے لیں” علماء دین کو یہ بات سمجھنی ہوگی فقہی میدان میں آج کل ساتھ والی دکان پر اکثر جو مل رہا ہوتا ہے وہ کیا ہوتا ہے ؟ یہ پاکستان ہے یہاں ملاوٹ اور دونمبری صرف اشیاء صرف میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں سرایت کرچکی ہے۔ یہ آپ کی ناکامی کے سوا کچھ نہیں کہ لوگ تیزی سے ساتھ والی دکان پر جانے لگے ہیں اور جب آپ اخلاص کی بنیاد پر بھی کہتے ہیں کہ بھائی ساتھ والی دکان پر پڑا مال دونمبر ہے تو وہ غصے میں پلٹ کر اس اعلان کو بھی فرقہ واریت کے کھاتے میں ڈالدیتا ہےاور جب دہشت گردی کے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ ان کا ساراملبہ صرف مدارس پہ ڈال دیا گیا ہے بلکہ اب تو منبر ومحراب بھی اس دستبرد سے محفوظ نہیں راگ و رنگ کی محافل سربازار اور خطبات جمعہ کےلیے لاؤڈ اسپیکر ز پہ پابندی اب اس کی آڑ میں مذہبی منافرت کی بنا پر دشمنیاں نکالی جارہی ہیں منبر ومحراب کے ورثاء ، جیل و کچہری کے چکر لگائیں گے تو پھر دامن دعاتو پھیلے گا دہشت گردی کی اگر کوئی تائید کرتاہے تو یقیناً جرم کا مرتکب ہوتاہے مگر یوں بہانوں سے مذہبی بیزاری کی تنقید مزید فساد کا ہی سبب بنے گی ہاں اضافی بیانات و محافل پہ پابندی نہ صرف مساجد میں بلکہ مساجد سے باہر بھی ایسی محافل اور جلوس جو مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دینے پر پابندی ہونی چاہیئے

اچھے اور برے کی تمیز ختم ہوجائے تو معاشرے کا سفر تباہی کی طرف تیز ہو جاتاہے، جہاں حکومت صرف ذاتی مفادات و مصالح کے حصول کا ذریعہ بنی ہوئی ہو اقرباء پر وری عروج پر ہو ، اہنے خاندان کو نوازنے کے لیے اعلی مناصب اور غیر ضروری غیر ملکی دورے ترتیب دیے جائیں تعمیری منصوبوں کا مقصد اصل میں اپنی صنعت کا فراوغ ہوتو صرف دعوے ہی رہ جاتے ہیں وہ چاہے کتنے ہی بلند وبانگ ہوں حاصل کچھ نہیں ہوگا مارچ کا مہینہ پھر قراداد پاکستان کی یاد لیے ہمیں یادکروارہا ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ کیا ہوا وعدہ نفاذ شریعت ہم بھلا بیٹھے ہیں اور اب تو ایک قدم بڑھ کر اصحاب اقتدار اہل مدارس کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں بس اللہ خیر کرے !!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے