نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد!
فاعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ

”اور اس شخص سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کئے اور کہا کہ میں (اللہ کا) فرمانبردار ہوں۔“(حٰم السجدہ)

سورہ حٰم سجدہ کی آیت مبارکہ میں ایک عظیم بشارت ہے ۔اس شخص سے اچھی پکار کسی کی ہوسکتی ہے جو لوگوں کو اللہ رب العزت کی طرف دعوت دیتاہے ۔دعوت و تبلیغ ایک عظیم الشان عمل ہے ۔اس کی عظمت جاننے کیلئے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس عظیم مشن کے لیے اس کائنات کی عظیم الشان ہستیوں کا انتخاب کیا گیا جس سے مراد انبیاء؊ہیں۔جسقدریہکامعظیمہےاسکوسرانجامدینےوالےبھیعظیمہیں۔انبیاء؊کےبعدیہعظیمذمہداریاسامتپرعائدہوتیہے۔ارشادربانیہےکہ:

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ(آل عمران)

”(مسلمانو! اس وقت) تم ہی بہترین امت ہو جنہیں لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لیے لاکھڑا کیا گیا ہے: تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو ۔ اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ ان میں سے کچھ لوگ تو ایمان لے آئے ہیں مگر ان کی اکثریت نافرمان ہی ہے۔“

یہ امت لوگوں کے لیے نکالی گئی تاکہ امر بالمعروف نہی عن المنکرکے فریضہ کو ادا کرے اور یہ فریضہ ساری کی ساری امت پر عائد ہوتا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَيْہَا مَلٰۗىِٕكَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ (التحریم)

”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔ اس پر تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں ۔ اللہ انہیں جو حکم دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔“

رب العالمین نے ایمان والوں کو مخاطب فرماکر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ خود کو بھی آگ سے بچاؤ اور ساتھ ہی اپنے اہل وعیال کو بھی آگ سے بچاؤ۔دعوت کی ذمہ داری ہر صاحب ایمان پر ہے یہی ذمہ داری پیارے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع کے دن ارشاد فرمائی ۔سیدناابو بکر ہ ؄کہتےہیںکہ (منٰیمیںدسذوالحجہکو ) رسولاللہﷺ اپنےاونٹپرتشریففرماہوئے۔ایکآدمیاونٹکیمہارتھامےہوئےتھا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (لیبلّغ الشاھد الغائب فإن الشاھد عسٰی ۯأن یبلّغ من ھو أوعٰی لہ منہٗ) (بخاری کتاب العلم)

”جو یہاں حاضر ہے وہ غائب تک یہ احکام پہنچائے ممکن ہے جو شخص حاضر ہے وہ کسی ایسے آدمی تک یہ احکام پہنچائے جو پہنچانے والے سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو۔“

یہ بات واضح ہے کہ حجۃ الوداع کے دن ایک لاکھ چوالیس ہزار سے زائد صحابہ کرام موجود تھے کسی کو تو مسلمان ہوئے چنددن ،چندہفتے ،چند مہینے اور چند سال ہوئے لیکن دعوت کی ذمہ داری سب پر عائد کی گئی ۔پیارے نبی ﷺ کا فرمان مبارک ہے ۔(بلّغوا عنّی ولو اٰ یۃً)       ”میری طرف سے دین کی باتیں دوسروں تک پہنچاؤ ،خواہ ایک آیت ہی ہو۔“(بخاری کتاب الانبیاء)

اس سے بھی ہر مسلمان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس ذمہ داری کی مسئولیت بھی ہوگی جس کی تیاری اس دنیا میں ہی کرنی ہے ورنہ قیامت کے دن شدید پچھتا وا ہوگا ۔پیارے رسول رحمت ﷺ کا فرمان ہے ۔

ألا کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ فالامیر الذی علی الناس راع علیھم وھو مسئول عنھم والرجل راع علی أھل بیتہ وھو مسئول عنھم والمرأۃ راعیۃ علی بیت بعلھا وولدہ وھی مسئولۃ عنھم والعبد راع علی مال سیدہ وھو مسئول عنہ فکلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ(ابوداؤد کتاب الخراج)

”لوگو!آگاہ رہو ،تم سب کے سب حاکم ہو اورتم سے اپنے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ حکمران لوگوں پر حاکم ہے لہٰذا اس سے سارے لوگوں کے بارے میں جواب طلب کیاجائے گا، مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے لہٰذا اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ،غلام اپنےآقا کے مال کا ذمہ دار ہےلہٰذا غلام سے اپنے آقا کے مال کے بارے میں سوال کیا جائے گا ،پھر سنو!تم سب ذمہ دار ہو اور تم سب اپنی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہو۔“

اس مسئولیت کی اگر فکر اور احساس پیدا ہوجائے تو دنیا بھی امن وسکون کا گہوارہ بن جائے گی ۔اور ذمہ داری بھی ادا ہو جائیگی ان شاء اللہ . یہ عمل صدقہ جاریہ کی صورت بھی بن جائیگا ۔اسی احساس اور ذمہ داری نے ایک مسلمان کو خیر خواہ قرار دیا ہے ۔فرمان رسول رحمت ﷺ ہے کہ

ولینصر الرجل اخاہ ظالما او مظلوما ان کان ظالما فلینھہ فانہ لہ نصر و ان کان مظلوما فلینصر ہ

آدمی کو اپنے بھائی کی مدد کرنی چاہیے خواہ ظالم ہو یا مظلوم ،اگر ظالم ہے تو اسے ظلم سے روکے تو یہ ظالم کی مدد ہو گی اور اگر وہ مظلوم ہے تو اس کی مدد کرے۔ (مسلم۔البر والصلۃ ۔باب نصر الاخ ظالما او مظلوما) مسلمان ہر وقت ہر لمحہ ایک ہمدرد اور خیر خواہ ہوتاہے اگر مسلمان اپنی حیثیت پہچان لے تو۔ آج کل ھمارے معاشرے میں یہ سوچ پروان چڑ ھ رہی ہے کہ مجھے دوسرے کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس نے اپنی قبر میں جانا ہے ،مجھے اپنی قبر میں جانا ہے،اس نے اپنا حساب دینا ہے مجھے اپنا حساب دینا ہے بس میں تو نماز پڑھتا ہوں، تلاوت کرتا ہوں، روزے رکھتاہوں، زکوٰۃ ،حج ،عمرہ، انفاق فی سبیل اللہ اور لوگوں کے ساتھ خیروبھلائی کرتاہوں وغیرہ وغیرہ ۔

مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں یہ سوچ کسی مسلمان کے لیے زیب نہیں دیتی بلکہ ایسی صورت میں انسان کے اپنے نیک اعمال بھی کام نہیں آئیں گے جب تک ان نیک اعمال کی دعوت نہیں دیتا ۔

سیدناجابر ؄فرماتےہیںکہرسولکریم (ﷺ) نےفرمایا ” اللہتعالیٰنےسیدناجبرائیلعلیہالسلامکوحکمدیاکہفلاںشہرکوجہاںکےحالاتاساسطرحکےہیں،باشندوںسمیتالٹدو،سیدناجبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا ” میرے پروردگار! اس شہر میں تیرا وہ فلاں بندہ بھی ہے جس نے ایک لمحہ کے لئے کبھی تیری نافرمانی نہیں کی ہے؟ آپﷺ فرماتے ہیں کہ :’’جب جبرائیل علیہ السلام نے یہ کہا تو) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اس شہر کو سارے باشندوں پر بھی اور اس شخص پر بھی الٹ دو کیونکہ میری خوشنودی اور میرے دین کی محبت میں اس شخص کے چہرہ کا رنگ (شہر والوں کے گناہوں کو دیکھ کر) ایک ساعت کے لئے بھی نہیں بدلا ‘‘(مشکوۃ شریف: حدیث نمبر 1077 )

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا حاصل تھا کہ بے شک میرے اس بندے نے کبھی بھی میری نافرمانی نہیں کی اور وہ ایک لمحہ بھی برائی کی راہ پر نہ چلا مگر اس کا یہ جرم ہی کیا کم ہے کہ لوگ اس کے سامنے گناہ کرتے رہے اور وہ اطمینان کے ساتھ ان کو دیکھتا رہا برائی پھیلتی رہی اور لوگ اللہ کی نافرمانی کرتے رہے مگر ان برائیوں اور نافرمانی کرنے والوں کو دیکھ کر اس کے چہرہ پر کبھی بھی اس طرح کے آثار پیدا نہیں ہوئے جن سے یہ معلوم ہو کہ اس کے دل میں برائیوں اور برائیوں کے مرتکبین کے خلاف غیظ وغضب اور نفرت وعداوت کا کوئی جذبہ ہے، لہٰذا شہر کے اور باشندوں کے ساتھ وہ شخص بھی ہلاکت وبربادی کا مستوجب ہے۔

’’ایک ساعت ‘ کے الفاظ اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگر وہ شخص اپنی پوری زندگی میں ایک مرتبہ بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے برائیوں اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف غصہ ونفرت کا اظہار کردیتا ہے تو اس کی زندگی کے باقی حصے میں اس کی اس تقصیر سے درگزر کردیا جاتا‘‘

اس بات پر تعجب آج مجھے آپ کو خود جبرائیل ؈کوہواآخراسکاجرمکیاہے۔جرممعصیتسےنفرتواعراضنہکرناہےبلکہروکناٹوکناترککرنامجرمانہغفلتہےجسکاانجامیہہوااوراپنےنیکاعمالکیوجہسےاللہربالعزتکیپکڑسےنہبچسکا۔اللہربالعزتہمسب کو اپنے عذاب سےمحفوظ فرمائے بس بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس غفلت کا بدترین انجام اور بھی ہے ۔فر مان ِ رسول رحمت ﷺ ہے کہ (والذی نفسی بیدہ لتأمرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر ،أو لیوشکن اللہ أن یبعت علیکم عقابا منہ ،ثم تدعونہ فلا یستجاب لکم )”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ امر بالمعروف اورنہی عن المنکرکرتے رہوورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر عذاب نازل فرمادے پھر تم اس سے دعا کروگے تووہ تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں فرمائے گا۔ “(ترمذی ابواب الفتن )

یہ مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی حالت ِ غفلت کا انجام ہے کہ مسلمان ایک چھوٹی سی مسجد سے لے کر بیت اللہ تک لاکھوں کروڑوں مسلمان عبادت و دعا کرتے رہتےہیں حانکہ حالات بد سے بدتر ذلیل سے ذلیل تر ہوتے جارہے ہیں ۔جہاں اس کے اور اسباب بھی ہیں وہاں ایک سبب خود پیارے نبی ﷺ نے بیان فرمایا ہے ۔خالق کائنات ہم مسلمانوں کو عظیم ذمہ داری کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے