فتنہ کیا ہے ؟
فتنہ کئی معنوں میں آتا ہے،آزمائش،فساد پھیلانا،گمراہ کرنا،جسمانی اذیت پہنچانا،جنگ ، عشق،پاگل پن کی حد تک دیوانگی،یہ سب اسکے معانی ہیں،اسکے ہر معنی میں خیر کاپہلو نایاب جبکہ شر کے کئی پہلو ہیں ۔
فتنہ موت کی طرح ہے،جس کے لئے زمان و مکان ، اچھے ،برے کی کوئی قید نہیں،یہ رات کے اندھیرے کی طرح اپنا تاریک سایہ ہر سمت پھیلاتا جاتا ہے اور ہر گذرتے لمحے اسکی تاریکی بڑھتی ہی جاتی ہے،لیکن اسکی انتہا نہیں ہوتی،یہ آندھی و طوفان کی مانند ہے،جہاں جاتا ہے تباہی و بربادی لاتا ہے،کوئی ذی نفس اسکے فساد سے محفوظ نہیں رہتا کوئی ڈیم،بند یا دروازہ اسے روک نہیں سکتا یہ ہر دروازہ توڑ دیتا ہے اور ہمیشہ کے لئے بے لگام ہوجاتا ہے،یہ بارش کے قطروں کی طرح برستا ہے پھر سینے پھاڑ کر دلوں میں گھس کر جڑیں بناتا اور کونپلیں نکالتا ہے،یہ یاجوج ماجوج کی طرح ہے جنہیں آزاد ہونے کے بعد قید نہیں کیا جاسکتا،نہ ہی انکا مقابلہ کیا جاسکتا ہے،یہ دجال کی مانند ہے جو سراپا شر و فساد ہے ،جس سے ہر نبی نے پناہ مانگی جو خود کو منوانے کا فن بخوبی جانتا ہے ۔
شرک وکفر،بدعات و خرافات،زنا و بدکاری،شراب نوشی،قتل و غارتگری،چوری چکاری،لوٹ مار ،ڈاکہ ورہزنی،نفاق وفساد،جھوٹ،وعدہ خلافی، بددیانتی، خیانت، لڑائی جھگڑا،گالم گلوچ،فسق و فجور،معصیت و نافرنانی،خود غرضی،مفاد پرستی،خود پسندی،دھوکہ دہی،حق تلفی،ظلم و زیادتی،فاسق و فاجر حکام،نا اہل قیادت،الحاد و بے دینی،مال و دولت کی حرص،دین سے دوری و بیزاری،دنیا سے محبت،زندگی سے محبت،آخرت سے غفلت،موت سے نفرت،وغیرہ
شرک و کفر کو چھوڑ کر باقی سب اگر چہ گناہ و معصیت کے زمرے میں آتے ہیں،لیکن جب یہ کسی معاشرے میں جڑ پکڑ لیں،انکی عادت بن جائیں ، انکے لئے معمولی اور حقیر سے جرائم بن جائیں تو یہ فتنہ بن جاتے ہیں ۔
آج ہمارے معاشرے پر انکی یلغار ہے، ہر گزرتے دن ان میں اضافہ ہو رہا ہے ،اور اس صورتحال سے نمٹنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی ،یہ خونخوار اژدھے کی طرح معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ،اسے توڑ پھوڑ رہا ہے ،اور اسے نگلنے کی جدوجہد میں ہے ۔
قدیم وجدید فتنے:
انسانی زندگی کا مدار چار چیزیں ہیں،
1عقائد و نظریات،
2اعمال وعبادات،
3عقود و معاملات
4سلوک و اخلاقیات ،انسانی زندگی کا کوئی پہلو ان چار میں سے کسی ایک سے خالی نہیں،اور فی زمانہ یہ چاروں ہی کئی طرح کے فتنوں کی زد میں ہیں ،بلکہ فتنوں کا شکار بن چکے ہیں ،عقیدے میں خلل شرکیات و توہمات کی صورت میں ،عبادات میں خلل بدعات و خرافات کی شکل میں ، معاملات میں خلل رسم و رواج اور کسب حرام کی صورت میں اور اخلاقیات میں خلل اغیار کی تقلید کی صورت میں پورے معاشرے پر یلغار کئے ہوئے ہے ، مذکورہ فتنے اسکی واضح دلیل ہیں۔
در اصل یہ سب قدیم فتنے ہیں جو نت نئی صورتوں میں سامنے آرہے ہیں ،فرق صرف لیبل اور لبادے کا ہے، بناوٹ وہی پرانی ہے ، آج بھی وہی شیطان مصروف عمل ہے جو کل تھا ، آج بھی اسکے وہی پھندے،ہتھکنڈے اور جال ہیں جو کل تھے ،طریقہ واردات ذرا مختلف ہے،کل بھی وہ حرص و ہوس ،طمع و لالچ،شہوت رانی و نفس پرستی جیسی انسانی کمزوریوں سے کھیلتا تھا ،آج بھی وہ انہی سے کھلواڑ میں مگن ہے،انداذ ذرا بدل گیا ہے،رقص و سرور کل تک عریانیت تھے آج فن ہیں ،شراب کل تک نشہ تھی آج ڈرنک ہے، سود کل تک ظلم تھا آج انٹرسٹ ہے، پہلے تصویر تھی آج ویڈیو ہے، جبکہ تصویر کی قدیم شکل بھی موجود و رائج ہے،پہلے گانا بجانا انسان کرتا تھا آج یہ آلات کے ذریعے بھی ممکن ہے،پہلے مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین قومی جرم تھاآج یہ جمہوریت کا حسن اور آزادی اظہار رائے ہے،پہلے خواتین کو بے آبرو کرنا جرم تھا آج یہ آزادی و حقوق نسواں ہے،الغرض صرف شکلیں اور حیثیتیں بدلی ہیں حقائق وہی پرانے ہیں، چنانچہ انکے متعلق احکام شریعت آج بھی وہی ہیں جو زمانہ نبوت و رسالت میں تھے البتہ انکی موجودہ شکل و حیثیت پر تطبیق میں الفاظ ذرا بدل جاتے ہیں ۔
عقائد ، عبادات ، معاملات اور اخلاقیات سے متعلقہ فتنوں کو بیان کرنے سے پہلے چند ایسے فتنوں کا ذکر کرنا ضروری ہے جو دیگر تمام فتنوں میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ ہیں ، اگر مسلمان اپنی اس جانب کی اصلاح کرلیں تو بہت سے فتنوں سے محفوظ ہوجائیں ، ذیل میں ایسے ہی چند فتنے ذکر کئے جارہے ہیں :
1غفلت و بے حسی کا فتنہ:
ہمارے نگاہیں دنیا کی رنگینیوں سے اسقدر خیرہ ،ہمارے قلوب شہوات اور نفسانی خواہشات سے اسقدر لبریز اور ہماری عقل و فراست ان رنگینیوں کے حصول اور شہوات کی تکمیل کے راستے ڈھونڈنے میں اسقدر مگن رہتی ہے کہ ہم دوسری کسی جانب دیکھنے یا سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ، اس پر مستزاد ابلیس ملعون اور اسکے انسانی و جناتی چیلوں کے پرکشش حملوں و ترغیبات نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ، وہ دنیا اور اسکی عارضی زندگی کو اسقدر خوبصورت اور پر کشش بناکر پیش کرتے ہیں کہ ہم جنت کی خوبصورتی اور دائمی زندگی کو فراموش کرکے دنیا کے پیچھے سر پٹ دوڑتے رہتے ہیں ، وہ شہوات کو اسقدر لذیذ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ ہم ان میں مست و مدہوش ہوکراللہ عز وجل کی اطاعت و عبادت کی لذت و چاشنی اور سرشاری کو بالکل فراموش کردیتے ہیں،زندگی بے لگام اور سرکش گھوڑے کی مانند اسی طرح دوڑتی رہتی ہے حتی کہ ہم موت کے گڑھے قبر میں جا گرتے ہیں:
ارشاد ربانی ہے :
أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ(1)حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ
زیادہ کی طلب نے تمہیں غافل کردیا، یہانتک کہ تم نے قبروں کی زیارت کرلی۔(سورۃالتکاثر:2)
یہ عام ہے ،اموال ، اولاد ،جائداد ، کاروبار ،گھر وغیرہ ہر وہ چیز جس کی کثرت انسان کو محبوب اور اسکے حصول کی خواہش اسے اللہ کے احکام اور آخرت سے غافل کردے۔
سید ناعبداللہ بن شخیررضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
أَتَيْتُ النَّبِىَّ -ﷺ- وَہُوَ يَقْرَأُ (أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ) قَالَ « يَقُولُ ابْنُ آدَمَ مَالِى مَالِى - قَالَ - وَہَلْ لَکَ يَا ابْنَ آدَمَ مِنْ مَالِکَ إِلاَّ مَا أَکَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ ۔
میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا ، آپ الھاکم التکاثر پڑھ رہے تھے ،آپ نے فرمایا:انسان کہتا ہے :میرا مال،میرا مال،حالانکہ اے انسان تیرا مال صرف اور صرف وہی ہے جو تو نے کھا کر ختم کرلیا،یا پہن کر بوسیدہ کرلیا،یاصدقہ کرکے ذخیرہ کرلیا۔
(صحیح مسلم،کتاب الزھد والرقائق،رقم:7609)
یعنی انسان ساری زندگی جس مال و متاع کے پیچھے بھاگتا ہے اگر وہ اسے مل بھی جائے تو آخرکاروہ اسکا نہیں رہتا بلکہ اسے اسکے وارث لے جاتے ہیں ، یہ تو نتیجہ ہے ، اس سے پہلے یہ مال اور یہ دنیا اسکی جو دوڑ لگواتے ہیں ، اس میں :
z وہ اپنے کتنے ہی قیمتی اوقات ضائع کردیتا ہے جنہیں صحیح مصرف میں استعمال کرکے اپنے رب کی خوشنودی پاکروہ جنت کی لازوال نعمتوں سے مالا مال ہو سکتا تھا،
zصحیح و غلط، جائز و ناجائز ،حلال و حرام ،حق وناحق کی تمیز چھوڑ کر اپنے مہربان خالق و مالک کو ناراض کرلیتا ہے،
zاپنی دنیا کو پرسکون بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی دھن میں بے آرام ، بیمار اور تھکاوٹ کا شکار ہوجاتا ہے،اور سب کچھ پاکر بھی حرص و ہوس پیچھا نہیں چھوڑتے اور بے سکونی و بے چینی مقدر بن جاتے ہیں۔
z دین و شریعت سےغفلت و بے حسی کا شکار ہو کر خود غرضی ، مفاد پرستی اور حصول زر کو اپنا مذھب بنالیتا ہے، آخر میں پھر بھی خالی ہاتھ ہی رہتا ہے۔
اس بے حسی اور غفلت کی بنیاد:
اسکی بنیاد دو چیزیں ہیں ایک مال دوسری اولاد ، اللہ تعالی نے فرمایا:
يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَکُمْ فَاحْذَرُوہُمْ وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (14) إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّہُ عِنْدَہُ أَجْرٌ عَظِيمٌ (سورۃ التغابن:15)
اے ایمان والو تمہاری بیویوں اور بچوں میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں سو ان سے بچ کر رہواور اگر تم عفو و درگذر اور بخشش سے کام لو تو اللہ بھی بخشنے والا مہربان ہے دراصل تمہارے اموال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں جبکہ اجر عظیم اللہ کے پاس ہے
یعنی وہ بیوی بچے اور مال و دولت جو دین سے دوری کا سبب بنیں وہ ہی اصل دشمن ہیں کیونکہ وہ اللہ کی ناراضگی اور اخروی خسارے کا باعث ہیں،جیسا کہ ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللَّہِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ(سورۃ المنافقون:09)
اے ایمان والو تمہیں تمہیں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں،اورجو ایسا کریں گے وہ خسارے میں ہوں گے۔
فطرتی طور پر انسان حسن و جمال اور زیب و زینت کا دلدادہ ہے اور شیطان انسان کی اس کمزوری سے بخوبی واقف ہے لہذا وہ اس سے فائدہ اٹھاکر انسان کو اسکے اصل مقصد حیات یعنی اللہ کی بندگی سے غافل کردیتا ہے،اللہ تعالی نے اس انسانی کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِکَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الْمَآَبِ
’’لوگوں کے لیے خواہشات نفس سے محبت، جیسے عورتوں سے، بیٹوں سے، سونے اور چاندی کے جمع کردہ خزانوں سے، نشان زدہ (عمدہ قسم کے) گھوڑوں مویشیوں اور کھیتی سے محبت دلفریب بنا دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ دنیوی زندگی کا سامان ہے اور جو بہتر ٹھکانا ہے وہ اللہ ہی کے پاس ہے‘‘(آل عمران:14)
لیکن انسان کی یہ حسن پرستی ، زیب و زینت ، سیم و زر کی فراوانی اور اولاد و جائیداد دنیا میں اللہ تعالی کے قرب اور آخرت میں حصول اجر و ثواب اور نجات کی امید کا باعث نہیں بن سکتے،چنانچہ ارشاد فرمایا:
الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا (سورۃالکھف:46)
مال اور بیٹے دنیاوی زندگی کی زیب و زینت ہیں،جبکہ تیرے خالق و مالک کے نزدیک باقی رہنے والے نیک اعمال حصول ثواب اور امید لگانے کا سب سے بہتر ذریعہ ہیں۔نیز فرمایا:
وَمَا أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آَمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِکَ لَہُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَہُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آَمِنُونَ (سورۃ سبا:37)
تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہیں ہمارا قرب نہیں دلا سکتے لیکن جو ایمان لانے کے بعد نیک عمل کریں گے تو انکے لئے انکے اعمال کا دوگنا اجر ہے اور وہ جنت کے بالا خانوں میں اطمئنان سے رہیں گے۔
اولاد کی فتنہ انگیزی کی نشاندہی کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا:
الولد (ثمرۃ القلب)مجبنة مبخلة محزنة
’’اولاد بزدل وبخیل بنادیتی ہے اور دکھ دیتی ہے۔‘‘
(الضعيفة :4764- ضعيف الجامع:6165- وفي صحيح الجامع :7160، قال الشيخ:الحديث ثابت دون قولہ: ثمرة القلب، ولذلک أوردتہ في صحيح الجامع 7160 ،ولکن فاتنا حذف ہذہ الزيادة فلتحذف)
گذشتہ آیات و حدیث سے واضح ہے کہ اموال و اولاد کی تین حیثیتیں ہیں:
(1)یہ فتنے کا سامان ہیں۔
(2)یہ دنیاوی زندگی کی زیب و زینت ہیں۔
ان حیثیتوں میں یہ آخرت میں انسان کے کسی کام کی نہیں بلکہ اسکی ناکامی کا باعث ہیں۔
(3) دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ،اسکی صورت یہ ہے کہ اموال کو اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے اور اولاد کی دینی تعلیم و تربیت ہو تاکہ وہ نیک اور صالح بنے اور اپنے والدین کے لئے انکی زندگی میں اور انکی موت کے بعد بھی دعائیں کرے اور انکی نیک نامی کا باعث بنے ، جیسا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَةٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِہِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَہُ
جب انسان مرجائے تو اسکا عمل اس سے کٹ جاتا مگر تین اعمال جاری رہتے ہیں(یعنی انکا ثواب) صدقہ جو جاری ہو،علم جس سے نفع اٹھایا جارہا ہو ، نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی ہو۔(یعنی اسکی موت کے بعد)(صحیح مسلم،کتاب الوصیۃ،باب ما یلحق النسان من الثواب بعد وفاتہ، رقم :4310)
بے حسی کا انجام:
اس غفلت و بے حسی کا انجام رشد و ہدایت سےمستقل محرومی اور فسق و فجور پر مستقل قائم رہنے کی بھیانک اور افسوسناک صورت میں نکلتا ہے یہی لا پرواہی کفار کو انکے کفر و فجور پر جمائے رکھتی ہے تا آنکہ وہ ھدایت کو سامنے پاکر بھی اس سے بے پرواہی برتتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ کَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْہِمْ أَأَنْذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لَا يُؤْمِنُونَ خَتَمَ اللَّہُ عَلَى قُلُوبِہِمْ وَعَلَى سَمْعِہِمْ وَعَلَى أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (سورۃالبقرۃ:7)
’’ آپ کفر کرنے والوں کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ایک ہی بات ہے وہ ایمان لانے والے نہیں اللہ نے انکے دلوں پر مہر لگادی ہے کیونکہ انکے کانوں اور آنکھوں پر پردے پڑے ہیں،اور انکے لئے بڑا عذاب ہے‘‘
یعنی کفر ہو یا ایمان انکا مرکز دل ہے ، اور دل سے کفر کا خروج اور اسمیں ایمان کے دخول کے راستے کان اور آنکھیں ہیں جب انھوں نے اپنی آنکھوں اور کانوں پر پردے ڈال دیئے کہ سن کر بھی ان سنی اور دیکھ کر بھی ان دیکھی کردیتے ہیں ، یا دیکھنے سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے تو اللہ تعالی نے انکے دلوں پر مہر طبع کردی ۔
کفار اللہ کی جانب سے رشد و ہدایت سے محروم کردیئے گئے کیونکہ وہ دنیا کے حصول اور اس کی محبت میں مبتلا ہوکر رشد و ہدایت کی طلب سے غافل ہو گئے جیسا کہ ارشاد فرمایا:
ذَلِکَ بِأَنَّہُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآَخِرَةِ وَأَنَّ اللَّہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْکَافِرِينَ أُولَئِکَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّہُ عَلَى قُلُوبِہِمْ وَسَمْعِہِمْ وَأَبْصَارِہِمْ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ لَا جَرَمَ أَنَّہُمْ فِي الْآَخِرَةِ ہُمُ الْخَاسِرُونَ (سورۃ النحل:109)
’’ یہ(یعنی بڑا عذاب) انکے لئے سلئے ہے کہ انہوں نے دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی اور اللہ ایسے کافروں کو ہدایت نہیں دیتا، اللہ نے انکے دلوں ، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگادی اور یہی لوگ غافل ہیں، یقیناً آخرت میں یہ خسارہ اٹھائیں گے‘‘
ایک اور مقام پر انکی غفلت و بے حسی کو جانوروں کی غفلت سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آَذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِہَا أُولَئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُولَئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ (سورۃالاعراف:179)
’’ بہت سے جن و انس کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ، وہ اپنے دلوں سے سوچتے نہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے نہیں اور اپنے کانوں سے سنتے نہیں ،یہ لوگ جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے زیادہ بے پرواہ یہی لوگ غافل ہیں‘‘
انکی غفلت و لاپرواہی کا یہ عالم تھا کہ اللہ کی نشانیوں پر سے انکا گذر ہوتا اور وہ انہیں دیکھتے اور حق و اصلاح کے داعی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کرتے وہ انہیں سنتے بھی لیکن عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے نہ ہی انکے طرز حیات میں تبدیلی ہوتی،جیسا کہ ارشاد فرمایا:
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَکُونَ لَہُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِہَا أَوْ آَذَانٌ يَسْمَعُونَ بِہَا فَإِنَّہَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَکِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (سورۃ الحج:46)
’’کیا وہ زمین پر گھومتے پھرتے نہیں ہیں ، کہ انہیں بھی سوچنے والے دل اور سمجھنے والے کان میسر ہوں،کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں بلکہ سینوں میں موجود دل اندھے ہوجاتے ہیں‘‘ نیز فرمایا:
وَمِنْہُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْکَ حَتَّى إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آَنِفًا أُولَئِکَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّہُ عَلَى قُلُوبِہِمْ وَاتَّبَعُوا أَہْوَاءَہُمْ (سورۃ محمد ﷺ :16)
’’ ان میں سے کچھ جب آپکی بات سن کر آپکے پاس سے چلے جاتے ہیں تو علم سکھادیئے جانے والوں سے پوچھتے ہیں کہ ابھی آپ نے کیا کہا؟ اللہ انکے دلوں پر مہر لگادی اور وہ اپنی خواہشات پر چلتے ہیں‘‘
دلوں پر مہر لگ جانا اور دلوں کا اندھا ہوجانا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب انکے ابواب یعنی آنکھوں اور کانوں پر انسان خود ہی تالے ڈال دے کہ نہ تو قدرت کی نشانیوں پر غور و فکر کرکے اللہ کی عظمت اور اپنی بندگی کا اعتراف کرے نہ ہی کانوں سے حق و اصلاح کی دعوت کو سن کراپنے نظريات اور طرز حیات کی اصلاح کرے۔
حالانکہ اللہ تعالی نے انسان کو عقل و شعور اور سمع و بصارت کی دولت سے اسی لئے نوازا تاکہ یہ انکے ذریعے اپنے رب کی معرفت حاصل کرکے اسکی پسند و ناپسند کو ملحوظ رکھیں اور اسکی نعمتوں کی قدر کریں،جیسا کہ ارشاد فرمایا:
وَاللَّہُ أَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (سورۃ النحل:78)
’’اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے،اور اس نے تمہیں کان ،آنکھیں اور دل عطا کئے تاکہ تم (ان نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے) اسکا شکر ادا کرو‘‘
بے حسی کا شرعی علاج :
دلوں پر لگے تالوں کی چابی ، ان پر چڑھے زنگ کی صفائی اور ان میں چھپی تنگی و سختی کا علاج صرف اور صرف قرآن پاک ہے ، لیکن قرآن پاک بھی اسی وقت موثر ہوگا جب اسے غور و فکر اور تدبر کے ساتھ پڑھا جائے، جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآَنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا
’’ کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا انکے دلوں پر تالے پڑے ہیں‘‘۔ (سورۃ محمد ﷺ :24) نیز فرمایا:
وَالَّذِينَ إِذَا ذُکِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْہَا صُمًّا وَعُمْيَانًا(سورۃ الفرقان:73)
’’اہل ایمان کو جب انکے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اور اندھے نہیں بنتے‘‘
یعنی توجہ سے سنتے اور غور و فکر کرتے ہیں،ابو جعفر محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’یعنی جب کوئی ناصح اللہ کی حجتوں کے ذریعے انہیں نصیحت کرتا ہے تو وہ بہرے نہیں ہوجاتے کہ سن نہ سکیں نہ ہی اندھے کہ دیکھ نہ سکیں بلکہ وہ پوری ہوشیاری و بیداری کے ساتھ اور دل و دماغ لگاکر سنتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں اللہ کی جانب سے کس بات کی نصیحت اور کس بات پر متنبہ کررہا ہے چنانچہ وہ اسکی نصیحتوں کو کانوں سے اچھی طرح سن کر دلوں میں محفوظ کرلیتے ہیں‘‘
(جامع البیان فی تاویل القرآن،19/73)
إِنَّ فِي ذَلِکَ لَذِکْرَى لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَہُوَ شَہِيدٌ (سورۃ ق:37)
’’بلا شبہ اس میں ہر اس شخص کے لئے نصیحت ہے جو دل رکھتا ہو اورحاضر دماغی کے ساتھ توجہ سے سنتا ہو‘‘
یعنی سن کر ان سنی نہ کرے بلکہ دل میں یاد رکھے اور اس پر غور فکر کرتا رہے اور اس پر عمل کے مواقع تلاش کرے اور موقع ملتے ہی تاخیر یا سستی کے بغیر عمل پیرا ہوجائے۔
نیز فرمایا:
أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّہُ صَدْرَہُ لِلْإِسْلَامِ فَہُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّہِ فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُہُمْ مِنْ ذِکْرِ اللَّہِ أُولَئِکَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ اللَّہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ کِتَابًا مُتَشَابِہًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَى ذِکْرِ اللَّہِ ذَلِکَ ہُدَى اللَّہِ يَہْدِي بِہِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ (سورۃ الزمر:23)
’’جس کے دل کو اللہ اسلام کے لئے کھول دے تو وہ اپنے رب کی جانب سے روشنی میں ہوتا ہے ، پس ہلاکت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے دل اللہ کو یاد کرنے کے لئے سخت ہوجائیں یہ لوگ واضح گمراہ ہیں ، اللہ نے ملتی جلتی آیات والی سب سے اچھی بات الکتاب(یعنی قرآن) کی صورت میں نازل کی ہے ، جسے(سن، پڑھ، سمجھ کر) اپنے رب سے ڈرجانے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر انکے چمڑے اور دل اللہ کی یاد کے لئے نرم ہوجاتے ہیں یہ اللہ کی رہنمائی ہے وہ جسے چاہتا ہے اسکی توفیق عطا فرماتا ہے اور جسے وہ گمراہی سے دوچار کردے تو کوئی اسکی رہنمائی نہیں کرسکتا‘‘
سید قطب شہید رحمہ اللہ نے کہا:
’’اللہ تعالی جس طرح آسمان سے پانی اتار کر لوگوں کے لئے مختلف رنگوں کی کھیتی اگاتا ہے اسی طرح وہ آسمان سے نصیحت نازل کرتا ہے جسے زندہ دل اپنے اندر سینچ لیتے ہیں چنانچہ انکے سینے کھل جاتے ہیں اوروہ زندہ وجود کی طرح متحرک ہوجاتے ہیں ، جبکہ سخت دل اس نصیحت کے ساتھ بے جان ، سوکھی اور سخت چٹان کی طرح پیش آتے ہیں‘‘
اللہ تعالی اسلام کے لئے وہی سینے کھولتا ہے جن میں اسے خیر نظر آئے،انہیں وہ اپنی روشنی عطا فرماتا ہے پھر وہ روشن اور منور ہوجاتے ہیں،اسطرح کے دلوں اور سخت دلوں کے مابین بڑا فرق ہے، یہ آیت ان دلوں کی حقیقت کو بیان کرتی ہے جو اسلام کے لئے کشادہ اورتر اور اللہ کے لئے انکی حالت و کیفیت ہشاش بشاش اور روشن و منور ہو،جبکہ دوسری قسم کے دلوں کو یہ آیت انکی سختی و شقاوت ، کجی و مردہ پن اور تاریکی و گمراہی سے تعبیر کرتی ہے
(تفسیر فی ظلال القرآن:6/230)
دنیا اور انسان کی حقیقت:
دنیا اور اسکی زیب و زینت جو اس غفلت و بے حسی کی بنیاد ہے ، اللہ تعالی نے اسکی حقیقت کو نہایت ہی احسن پیرائے میں بیان کیا ، ارشاد فرمایا:
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ کَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ يَہِيجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَکُونُ حُطَامًا وَفِي الْآَخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (سورۃ الحدید:20)
’’یقین کرو ، دنیاوی زندگی صرف کھیل ،تماشا،زیب و زینت ،ایک دوسرے پر فخر کرنا اور اموال و اولاد میں خود کو دوسروں سے بڑھا کر پیش کرنا ہے،جس طرح سے بارش اور اسکی پیداوار کسانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے پر تم خود دیکھتے ہو کہ خشک ہونے پر وہ زرد ہوجاتی ہے بالآخر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے،یہ بھی یقین رکھو کہ آخرت میں سخت عذاب،نیز اللہ کی جانب سے بخشش و رضا مندی بھی ہے ،جبکہ دنیاوی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے‘‘
ابو الفرج عبد الرحمن بن احمد المعروف بابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا:
’’دنیا میں دو قسم کے انسان ہیں:ایک وہ جو دنیا کے بعد بندوں کے لئے جزا و سزا کے منکر ہیں‘‘
انکے متعلق اللہ نے فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِهَا وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ ، اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ
’’ جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری قدرت کے نشانوں سے غافل ہیں،ان سب کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے‘‘
اس قسم کے لوگوں(یعنی منکرین جزا و سزا) کا مقصد مرنے سے پہلےدنیا میں خوب فائدے اٹھا لینا اور اسکی خاطر انبار لگادینا ہوتا ہے ،ان میں سے کچھ لوگ دنیا میں زھد اختیار کرنے کا بھی کہتے ہیں، کیونکہ انکے خیال میں دنیا کو زیادہ سے زیادہ جمع کرنا رنج وغم کا باعث بنتا ہے ، انکا ماننا ہے کہ دنیا سے جس قدر گہرا تعلق ہو گا ، موت کے وقت دنیا کی جدائیگی پر نفس کو اسی قدر تکلیف ہوگی،
دوسری قسم کے لوگ مرنے کے بعد جزا و سزا کو مانتے ہیں یعنی وہ لوگ جو انبیاء و رسل کی شریعتوں کی جانب منسوب ہوتے ہیںانکی تین اقسام ہیں۔
(1)اپنی جان پر ظلم کرنے والے۔
(2)اعتدال پسند۔
(3)اللہ کے حکم سےنیکیوں میں سبقت لے جانے والے۔
(1)ان میں اکثریت اپنی جان پر ظلم کرنے والوں کی ہے ، اور انکی اکثریت دنیاوی زیب و زینت تک محدود رہتی ہے ،اسے غلط طور پر لے کر غلط طور پر ہی استعمال کرتی ہے، دنیا انکا مقصد بن جاتی ہے ،اسی کی خاطر خوش اور ناراض ہوتے ہیں، اسی کی خاطر دوستی اور دشمنی کرتے ہیں،یہ لوگ کھیل ،تماشے،زیب و زینت ،ایک دوسرے پر فخر کرنے اور اموال و اولاد میں خود کو دوسروں سے بڑھا کر پیش کرنے والے ہیں،یہ دنیا کا مقصد نہیں جان پاتے،کہ وہ سفر(راستہ)ہے نہ کہ منزل،اس سے فقط اسکے بعد والے دار الاقامت(آخرت)کے لئے زاد راہ لینا ہے(نہ کہ اسی کا ہو کر رہ جانا)ان میں سے کچھ لوگ اگرچہ ایمان مجمل رکھتے ہیں لیکن ایمان مفصل کو نہیں جان پاتے ،نہ ہی اس لذت سے آشنا ہو پاتے ہیں جسے دنیا میں اللہ کی معرفت رکھنے والے پالیتے ہیں،جو ان نعمتوں کا حقیر سا نمونہ ہوتی ہے جو انکے لئے آخرت میں تیار کی گئی ہیں۔
(2)معتدل مزاج لوگ دنیا کو جائز و مباح طور پر لیتے ہیں ، اسکے حقوق ادا کرتے ہیں، اور جو ضرورت سے زائد ہو اسے اپنے لئے روک کر اس سے دنیاوی خواہشات کے مزے لوٹتے ہیں،۔آگے چل کر فرمایا:
(3) اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے والے یہ لوگ دنیا کا مقصد جانتے ہیں اوراسکے مطابق عمل کرتے ہیں،وہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنے بندوں کو دنیا میں امتحان کے لئے بسایا ہے کہ کس کا عمل سب سے اچھا ہے۔ (جامع العلوم والحکم:تحت الحدیث رقم:31)
zنبی اکرم ﷺ نے دنیا کی حقیقت کو اسطرح بیان کیا:
(1)ارشاد فرمایا:
الدنيا سجن المؤمن وجنة الکافر
’’دنیا مومن کے لئے قیدخانہ اورکافر کے لئے جنت ہے۔
(صحیح مسلم،کتاب الزھد والرقائق،رقم:7606)
علامہ محمد عبد الرؤف المناوی رحمہ اللہ (فیض القدیر :3/730) میں رقمطراز ہیں کہ:
’’امام ابن حجررحمہ اللہ جب قاضی القضاۃ تھے ایک دن بڑے سے جلوس میں شامل ہوکر عمدہ لباس میں بازار سے گذرے تو ایک تیل فروش بد ہیئت یہودی جسکا سارا لباس تیل میں تر بتر تھا نے انکے خچر کی لگام پکڑ کر کہا کہ:جناب شیخ الاسلام تمہارے بقول تمہارے نبی نے فرمایا کہ دنیا مومن کے لئے قید اورکافر کے لئے جنت ہے تو بتائیے کہ آپ (اپنی اس شان و شوکت کے ساتھ) کس قید میں ہیں اور میں (اپنی اس بد حالی کے ساتھ) کس جنت میں رہ رہا ہوں؟‘‘
تو امام نے فرمایا: ان نعمتوں کے مقابلے میں جو اللہ نے آخرت میں میرے لئے تیار کی ہیں گویا ابھی میں قید میں ہوں اور اس دردناک عذاب کے مقابلے میں جو اللہ نے آخرت میں تیرے لئے تیار کر رکھا ہے گویا ابھی تو جنت میں ہے،یہ سن کر وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔
(2)جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما نے کہا:
’’ کہ رسول اللہ ﷺ بازار سے گذرے لوگ آپ کے ساتھ تھے تو آپ کا گذر بکری کے ایک چھوٹے کانوں والے مردہ بچے پر سے ہوا آپ نے اسے کان سے پکڑ کر اٹھایا اور پوچھا:تم میں کون اسے چاندی کے ایک درھم کے عوض لینا چاہے گا ؟ لوگوں نے کہا کہ ہم اسے معمولی قیمت میں بھی نہ لیں ،اسکا ہم کیا کریں گے ،آپ نے پوچھا :کیا تم (مفت میں) لینا چاہو گے ؟لوگوں نے کہا اللہ کی قسم اگر یہ زندہ ہوتا تب بھی یہ عیب دار ہوتا کیونکہ یہ چھوٹے کانوں والا ہے جبکہ یہ تو مردہ ہے،تو آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی گئی گزری ہے جسقدر تمہارے نزدیک یہ ‘‘
(صحیح مسلم،کتاب الزھد والرقائق،رقم:7607)
(3)نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
ألا الدنيا ملعونة ملعون ما فيہا إلا ذکر اللہ وما والاہ وعالم أو متعلم
’’دنیا لعنت زدہ ہے اسکی ہر شے لعنت زدہ ہے ،سوائے اللہ کے دین کے اور جو اس سے تعلق رکھے اور سوائے عالم یا طالبعلم کے‘‘(سنن ترمذی،کتاب الزھد،رقم:2322-صححہ الالبانی فی الصحیحۃ برقم:2797)
یعنی دنیا اور اسکی زیب و زینت اللہ کی رحمت سے کوسوں دور ہے،اور اسے اپنانے والے کو بھی رحمت سے دور لیجاتی ہے،صرف دین اسلام کی کسوٹی پر پورا اترنے والا قول و فعل، دین سے متعلق مقامات ، اوقات، اشخاص و اشیا ، دین کے طالب اور داعی اس لعنت سے محفوظ اور اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں۔
(4)نیز فرمایا
لو کانت الدنيا تعدل عند اللہ جناح بعوضة ما سقى کافرا من شربة ماء
’’ اگر اللہ کے نزدیک دنیا مچھر کے پر برابر بھی ہوتی تو اللہ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔(سنن ترمذی،کتاب الزھد،باب ھوان الدنیا علی اللہ، رقم:2320)
یعنی اگر دنیا کی زیب و زینت اور مال و دولت کی اللہ کے نزدیک ذرا بھی حیثیت ہوتی تو وہ کفار کو اس سے محروم رکھتا،جبکہ مسلمانوں کو خوب نوازتا،لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے ،اللہ نے کفار کو ایمان کی دولت سے محروم رکھا جبکہ مسلمانوں کو اس حقیقی دولت سے مالا مال کردیا۔
(5)نیز فرمایا:
ما لي وللدنيا ؟ ما أنا في الدنيا إلا کراکب استظل شجرة ثم راح وترکہا
’’مجھے دنیا سے کیا مطلب،دنیا میں میری مثال تو اس مسافر کے جیسی ہے جو کسی درخت کے سائے میں کچھ دیر آرام کرنے کے لئے ٹہر جائے ، پھر اسے چھوڑ کر روانہ ہوجائے۔ (سنن ترمذی،کتاب الزھد، رقم: 2377- صححہ الالبانی فی الصحیحۃ برقم:438)
یعنی اس آرام سے مسافر کا مقصد آگے کے سفر کو آسان بنانا ہوتا ہے ، نہ کہ سفر سے مقصود یہ آرام ہوتا ہے ۔
------- جاری ہے-------