عالم کفرا سلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو مٹانے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے ، طاغوطی قوتوں نے عربوں کے سینہ میں اسرائیل کا تیر پیوست کیا تو اسرائیل نے جن حربوں سے فلسطینیوں کو بے دخل ہونے پر مجبور کیا آج طاغوتی قوتیں اور ان کےچیلے وہی حیلے اپنا کر مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر کے کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا ہے افغانی ، عراقی کرد، افریقی اور شامی مسلمان لاکھوں کی تعداد میں آسمان کی چھت تلے زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ظلم کی انتہا ہے بمبارطیاروں کی گولہ باری سے کیمپوں میں محصور بے گناہ ہلاک ہورہے ہیں۔
نوآبادیاتی دور میں مسلمان یورپی ممالک میںآبادہوئے وہ نہایت امن وسکون سے اپنے کا م کاج میں مصروف عمل تھے انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت تھی ، سیکولر لہر کی بدولت اہل مغرب کے سماجی نظام کا شیرازہ منتشر ہورہا تھا وہ مسلمانوں کے مستحکم خاندانی نظام سے متاثر ہوئے ، نائن الیون کے بعد ان میں اسلام سے آگاہی کا شعور پیداہوا اہل ذوق نے مطالعہ کرنے کے بعد اسلام کو دین فطرت کے مطابق پایا اس طرح اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
شمالی یورپ کے ملک برطانیہ میں ایک مسجد شاہ جہاں تھی جو 1899ءمیں تعمیر ہوئی لیکن اب برطانیہ میں ایک ہزار سے زیادہ مساجد ہیں برطانیہ میں 30 جرمنی مین 40 اور فرانس میں 66 لاکھ مسلمان آباد ہیں، برطانیہ میں مسلما ن پارلیمنٹکے ارکان کی تعداد 9 ہے۔
یہودویوں نے سرمایہ دارانہ نظام میں ووٹ اور نوٹ کے بل بوتے پر مغربی دنیا میں سیاسی اجارہ داری حاصل کی ہوئی تھی ان کے اثر ورسوخ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امریکی سینٹ میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینٹر نز گراہم نے کہاکہ اگر فلسطینیوں کی جانب سے انٹر نیشنل کریمنل کورٹ میں اسرائیل کے خلاف درخواست دائر کی گئی تو امریکی امداد رک جانے کا امکان ہے ، (نئی بات، 21/1/2015)
یہودی لابی کی منظوری سے مغربی دنیا کے ایوانوں میں قانون سازی ہوتی ہے، یہودیوں کو خطرہ لاحق ہے کہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ جاری رہا تو وہ انتخابی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرلیں گے اور اسلام کے آفاقی قوانین کو پاس کرانے کی پوزیشن اختیار کرلیں گے چنانچہ یہودیوں نے اسلام کو وحشیانہ مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے مغربی دنیا میں گھنائونی وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا، مغربی میڈیا جس پر صیہیونی کنٹرول ہے ، اس نے دہشت گردوں کی واردات کے فوراًبعد مسلمانوں پر الزام عائد کیا ، لیکن اصل حقائق اس کے برعکس ہیں۔
فارن ڈیسک یورپ و امریکہ میں زیادہ تر دہشت گرد ی غیر مسلموں نے کی 1980سے 2005تک دہشت گردی کے 94فیصد واقعات میں کوئی مسلمان ملوث نہ تھا ‘‘ (نئی بات 2015/01/19)
میڈیا کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر مغربی حکومتوں نے اسلامی تشخص کو نمایاں کرنے والے شعار پر پابندیا ں لگائی ، جرمانے عائد کیے لیکن مسلمان عورتوں نے جرمانے اداکیے لیکن پردہ ترک نہیں کیا اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے عدالتی دروازہ پر دستک دی تاہم نقل مکانی نہیںکی
پھر یہودیوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو باہم لڑانے کے لیے تد بیر سوچی۔
اپریل 2003 میں امریکی صدر بش نے یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں ڈینیئل پائیس نامی صیہیونی کو اہم عہدہ دیا ، اس نے عالمی امن کی راہ ہموار کرنے کے بجائے دنگافساد پھیلانے کا منصوبہ بنایا اکتوبر 2004 میںجیلنڈس پوسٹن کے کلچرل ایڈیٹر فلیمنگ روز سے مل کر رحمت کا ئنات ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا پروگرام بنایا چنانچہ اس نے 2005 مین توہین آمیز خاکے چھاپے ، فرانس کے اخبار چارلی ایبڈو نے 2006 میں خاکے شائع کیے 2011 میں چارلے ایبڈو کے دفتر کو نذر آتش کیا گیا لیکن اس کے اخبار نے نبی کریمﷺ کی شان میں طنز ومزاح کا سلسلہ جاری رکھا 2014 کے آخر میں اسی اخبار نے شریعت کے نام سے ضمیمہ شائع کیا جس میں آپﷺ کی شان اقدس سے متعلق توہین کی گئی، 7 جنوری 2015 کو فرانس کے اسی جریدے چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک ہوگئے ، مسلمانوں نے جذبات میں آکر کار وائی کی طاغوتی قوتوں نے مسلمان اور صلیبی قوم کو لڑانے کی کوشش کی اللہ ہی بہتر جانتاہے تاہم چند قابل غور نکات ہیں۔
چارلی ایبڈو نے توہین آمیز کارٹون شائع کیے تو اس کے دفتر کو آگ لگائی گئی ، جب اس نے دوبارہ مذموم حرکت کی اور عملہ کا اہم ترین اجلاس بھی ہوتارہا تھا توحکومت نے اس کی سیکورٹی کا خاطر خواہ انتظام کیوں نہ کیا ؟ ملزم موقع سے فرار ہوگئے کئی گھنٹوں کی جستجو کے بعد ان کے ٹھکانے کا علم نہ ہوسکا تومجرموں کو زندہ نہ پکڑنا اور مار گرانا کیا یہ مشکوک معاملہ نہیں ہے؟
7 جنوری کو دفتر پر حملہ ہوا اور صرف چار دن بعد 11 جنوری کو 30 لاکھ افراد کا پیرس میں اجتماعی مارچ ہوا ، چالیس ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی یہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ کا حصہ تو نہیں تھا؟ اگر نہیں تو دنیا کے دیگر مقامات پر تاریخ کے المناک سانحے ہوئے مثلاً 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردی کی کا روائی میں بچوں سمیت 142 افراد مارے گئے انسانی حقوق کے علمبرداروں نے پاکستان آکر ریلیوں کی قیادت کیوں نہ کی؟فرانس کے دیگر شہروں میں بھی لاکھوں افراد نے ریلیاں نکالیں غور طلب بات یہ ہے کہ اس واقعے کی تشہیر کرکے اہل مغرب کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت ابھاریگئی یا عدالتی تحقیقات تک صبر وتحمل کی تعلیم دی گئی؟
نیٹو طیارے افغانستان اور عراق کے شہروں پر بمباری کر کے بے گناہ سولین کاقتل عام کرتے رہے اس وقت مسلم دنیا میں بین المذاہب کانفرنسوں کا انعقاد ہوتارہاجن میں مشترکہ اقدار کو فروغ دینے اور رواداری کی تلقین کی جاتی رہی لیکن فرانس کے اس واقعے پر بردباری کرنے کے بجائے احتجاجی مارچ کے دوران اہل مغرب کو مسلمانوں کےخلاف بھڑکایا کیوں گیا؟
طنزیہ میگزین چارلی ایبڈو کے ایک شمارے کی 60 ہزار کا پیا ں شائع ہوئی تھیں حملہ کے بعد بھی نمائشی فروخت کےلیے پیش کیا گیا جس کے سرورق پر رحمت کائناتﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی وجہ سے اس کی مانگ میں اضافہ ہوا اور 60لاکھ کا پیاں شائع کی گئیں یہ آزادی ہے یا دل آزاری؟
پیرس میں گستاخانہ خاکوں کی موجودگی اور فرنچ میگزین کا دس لاکھ گستاخانہ خاکے چھاپنے کا اعلان مفاہمت کی پالیسی ہے یا اہل مغرب اور مسلم دنیا کو لڑانے کی سازش ؟
فرانس کی سیاسی جماعت فرنٹ نیشنل کی سابق سربراہ لی پین کا بیان حقائق کی نقاب کشائی کرتاہے ’’لی پین نے کہا کہ پیرس میں دہشت گردی کو مشکوک قرار دیالی پین نے کہا کہ پیرس میں دہشت گردی امریکہ اور اسرائیل کی سازش ہوسکتی ہے ، کاروائی کا مقصد اسلام اور مغرب کے درمیان سول وار کرانا ہوسکتاہے کا روائی کی جگہ سے دہشت گرد کا شناختی کارڈ مضحکہ خیز ہے نائن الیون کے وقت بھی ایک ہائی جیکر کا پاسپورٹ ملاتھا ، پیرس میں دہشت گرد کاروائی سیکرٹ سروس آپریشن سے ملتی ہے ‘‘
(روزنامہ نئی بات2015/01/19)
لی پین کا خدشہ درست ثابت ہوا ڈینٹن پیپلز پارٹی کے چیئر مین کرسچن تھولیس وایل نے بیان دیا ہے کہ فرانس کی حکومت کو مسلمانوں کے خلاف ایک جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور میں یہ مطالبہ کرتاہوں کہ ڈنمارک میں موجودہ تمام مساجد کو بھی بند کردیا جائے۔
عوام کے ذہنوں کو منفی و مثبت سرگرمیوں کی طرف رخ موڑنے کے لیے میڈیا موثر ذریعہ ہے حملہ کے دوسرے دن 8 جنوری کو فرانس کے مشہور ادیب مشل ہولی بیک کے ناول سم لیشن کی فروخت شروع ہوئی اس کتاب میں فرانس کو تصوراتی طور پر 2022 میں اسلامی مملکت کے طور پر دکھایا گیا ہے ، جس میں ایک مسلما ن جماعت کا نمائندہ فرانس کا صدر بن جاتاہے ۔
تعلیمی اداروں میں قرآن حکیم کی تعلیم لازمی ہوجاتی ہے ، خواتین کا پردہ عام ہوجاتاہے ، ان کی ملازمتیں ترک کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، فرانس کے شہریوں کو ماضی قریب میں اسلام کےغلبہ کا تاثر دے کر اہل یورپ کے نوجونوں میں مسلم مخالف جذبات کو مشتعل کیا گیا ۔
چارلی ایبڈو پر حملہ کےرد عمل میں یورپ کی مساجد پر حملے ہوئے اور نمازیوں کو زخمی کیا گیا ، پولیس کی سیکورٹی سخت کردی گئی اور مسلمانوں کی کڑی نگرانی شروع کردی امام کائنات ﷺ نے مکہ معظمہ میں اسلام کی دعوت دی ، قریش مکہ نے آپ ﷺ کی آواز پر لبیک کہنے والے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کردی لیکن وہ صبر واستقلال کا پہاڑ بن کر اللہ کی کبرائی کا اعلان کرتے رہے اور اپنے آقاﷺ کا دامن نہیں چھوڑا ۔
مغرب کے مسلمانوں نےرہبر کامل ﷺ کی مکی زندگی کو اسوہ حسنہ کو سینے سے لگائے رکھا تو اللہ کی نصرت سے مستقبل قریب میں اشاعت اسلام کے مثبت اور تعمیری نتائج برآمد ہونگےالبتہ حرمت رسول ﷺ کے تحفظ کے لیےدفاعی اقدام اختیار کرنا فرض اولین ہے اگر وہ کوتاہی کریں گے تو دنیا وآخرت میں رسواہونگے ۔
طاغوتی قوتیں سازشی پلان سے مسلمانوں کو ہلاک یا بے دخلی کے جتن کرتےرہیںوہ مسلمانوں کو ختم کرسکتے ہیں اور نہ ہی اسلام کو مٹا سکتے ہیں روزروشن کی طرح حقیقت ہے کہ میڈیا کی بدولت اسلام کا پیغام مشرق ومغرب تک ہر گھر میں پہنچ کر رہے گا۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف محدود مدت کے مبعوث ہوئے اللہ کی قدرت کا مشاہدہ کریں انقلاب فرانس کے نتیجہ میں مغربی دنیا میں جمہوری نظام رائج ہوا تو عیسائیت کا دائرہ گرجا گھروں میں چند رسم و رواج تک محدود ہوکر رہ گیا جبکہ دیگر معاملات میں اہل مغرب آزاد ہوگئے ، دور کلیسا کے بر عکس مذہب کی تبدیلی جرم نہ رہا ، چنانچہ وہاں کے اہل ذوق تحقیق کرنے پر اسلام قبول کررہے ہیں عورتوں نے سماج کے استحصالی نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے اسلام قبول کرنا شروع کیا تو مغرب کی بعض ریاستوں میں اسلام کے عفت وحیا کے اصولوں کو رائج کیا جارہاہے ، یقیناً امن و امان کی خاطر شرعی قانون کو رائج کرنا ان کی مجبوری بن جائے گا اہل مغرب کا سنجیدہ طبقہ اسلام کے آفاقی نظام کی برکات کے ثمرات دیکھ کر اسلام قبول کریں گے ، رفتہ رفتہ مسلمان کثرت میں ہوجائیں گے تو جمہوری نظام کی بدولت ان کا سربراہ یقیناً مسلمان منتخب ہوگا وہ اللہ کے نازل کردہ رحمت کائنات ﷺ کے فرمودہ احکام کو نافذ کرکے خطہ کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا دے گا۔ ان شاء اللہ او ر یہودیوں کا منصوبہ خاک میں مل جائے گا۔
-----------------