پچھلے ادوار میں ایک ملک سے دوسرے ملک جانا کسی صعوبت سے کم نہ تھاایک علاقے سے دوسرے علاقے میںجانے کے لیے سینکڑوں اور ہزاروں میل کا سفر پیدل طےکیا جاتا تھا یا پھر جانوروں کا سہارا لیا جاتا تھا جس کی بناء پراکثر افراد اپنے ہی دیس میں سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دیا کرتے تھے مگر آج دنیا ایک قصبہ کی مانند سمٹ چکی ہے جہاں سفر کرنا سہل ترین اور دیس دیس گھومنا لوگوں کا مشغلہ بن چکا ہے جس کی بنا پر لوگوں کو دوسرے مما لک کی تہذیب و ثقافت کو بہت نزدیک سے دیکھنے کا اچھا موقع فراہم ہورہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان ایک ہی وقت میں مختلف زبانوں پر عبور ومہارت رکھتاہے یا پھر مہارت حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے ۔

آج دنیا میں بہت سی زبانیں بین الاقوامی زبان کی حیثیت رکھتی ہیں ، جن میں انگریزی،عربی اور اردو، فرانسیسی، چینی، روسی، اور دیگر زبانیں شامل ہیں جنہیں ان کے ماہرین نے ترقی سے سر فراز کیااور ان کے مختلف پہلووں کو قراطیس میں مسجون کردیا۔

کسی نے اس کے تاریخی پہلوپر نظر رکھی تو کسی نے اس کے ادبی سر مائے کو محفوظ کیا ، کسی نے الفاظوں کو ذخیرہ کرکے قاموس میں ڈھال دیا تو کسی نے عبارتوں کو اوزان کے ترازو میں تول کر قافیات وسجعات کی زینت سے مزین کر کے دیوان کی صورت دی الغرض یہ کہ ماہرین لغت کی بے پناہ کاوشوں کے بعد آج ہمارے سامنے یہ لغات شیر و شکر جیسی حلاوت لیے مثل وردہ مہکتی ہوئی شگفتگی و شائستگی کی نزاکت سے شرماتی ہوئی مثل عروس ہمارے سامنے جلوہ گر ہیںجو بوقت ضرورت جرید و جائر جیسی صفات سے متصف ہونے میں کوئی گریز نہیں کرتیں یہی وجہ ہے کہ سابق الذکر لغات بین الاقوامی سطح پر اہمیت کی حاصل ہیں اور دنیا میں ان لغات کو سیکھنے کے لیے مر کز اللغات اپنا کا م سر انجام دے رہے ہیں اور کلیات و جامعات میں بطور تدریس منہج کے ان لغات کو شامل نصاب کیا گیا ہے۔

ترجیحاً جس لغت کو دوسری لغات پر فوقیت حاصل ہے وہ عربی لغت ہے جو کہ اپنے سینے میں علمی و ادبی سر مائے کے ساتھ دینی سرمائے کو بھی سموئے ہوئے ہے اور دنیا کے سب سے بڑے مذہب کی اصل بنیاد ہی عربی زبان پر ہے کہ جس میں قرآن کا نزول ہو اور دین اسلام اقوام عالم میں منتشر ہوا، اور آج بھی دور حاضر میں عربی لغت اور عرب ممالک بڑی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ بیشتر ممالک کا انحصار عرب کے خام تیل پر ہے اور اسی طرح آج دنیا کی سب سے بڑی تجارتی منڈیا ںعرب ممالک میں جائیں اس صورت حال میں یہ امر نامنا سب نہ ہوگا کہ ہم عربی زبان کی علمی اور ادبی تاریخ کو مختصر اً بیان کریں جو کہ طلبہ کرام کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے لیے بھی سود مند ثابت ہوگا میرے پیش نظر شیخ احمد حسن زیات کی مشہور زمانہ کتاب ’’تاریخ ادب العربی‘‘ہے جس کی تلخیص کا ارادہ دل میں سموئے قلم کو حرکت میں لایا ہوں اور دربار باری تعالیٰ میں دعا گو ہوں کہ الٰہی مجھے میرے مقصدمیں کامرانی عطافرمااور اس مقصد کے حصول کے لیے میری مدد فرمااور اس کاوش کو آگے آنے والے طلباء کے لیے مددگار ثابت فرما۔

1اقوام عرب تاریخی پیرائے میں:

مورخین کے نزدیک لغت عربیہ لغات سامیہ میں شامل ہے اور اس کے ناطقین کا شمار اقوام سامیہ میں ہوتا ہے جبکہ عربی کے علاوہ دیگر لغات جوکہ جزیرہ نما عرب کے ارد گرد بولی اور سمجھی جاتی ہے لغات سامیہ میں سے ہیںجن میں سے چند درج ذیل ہیں :

۱-بابلی، ۲-اشوہری۔ (عراق)

۳-قینقی۔ (شام کی ساحلی پٹی پر)

۴-عبرانی۔ (فلسطین)

۵-حبشی۔(حبشہ)

اور جبکہ جزیرہ نما عرب میں بسنے والے قبائل کی اساس دو اہم قبیلوں پر ہے جن میں سے ایک قبیلہ قحطان ہے جوکہ یمن کے ارد گرد جاںپذیر ہوااور پھر اس کی شاخیں پورے عرب میں بکھر گئیں علاوہ ازیں قبیلہ عدنان جس نے حجاز ور اس کےگرد ونواح میںسکونت اختیار کی اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شاخیں بھی عرب میں پھیلتی گئیں۔

اور اس طرح مورخین نے عرب کے باشندوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا ہے جن کی تفصیل ذیل میں بیان کی جارہی ہے۔

1-بائدہ:

یہ وہ طبقہ ہے جن کی تاریخ کو مرقوم نہیں کیا گیا بلکہ ان کی بابت حقیقی خبریں ناپید ہیں ہم ان کے بارے میں صرف وہی کچھ جانتے ہیں جن کا تذکرہ اللہ رب العالمین قرآن پاک میں کیا ہے اور ان کے مشہور قبائل :

۱-عاد، ۲-ثمود، ۳-طسم، ۴-جدیس ہیں

2 عاربہ، یعرب بن یشجب بن قحطان

یہ یعرب بن قحطان کی اولاد ہے جوکہ یمن کے مکین تھے اور عرب اقوام کے مطابق یہ لوگ عربی زبان کی اصل ہیں، اسی بناء پر حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ان اشعار سے افتخار کرتے ہیں۔

تعلمتمُ من منطق الشيخ يعرب                                                                                     أبينا فصرتم معربين ذوي نفر

وکنتم قديماً ما لکم غير عجمة                                                                                             کلام وکنتم کالبہائم في القفر

تم نے شیخ یعرب سے زبان سیکھی جو ہما رے والد تھے جس کی وجہ سے تم خانہ بدوش عرببنے اور اس سے پہلے کیا تھا تمہارے پاس سوائےعجمی کلام کے بلکہ تم تو مویشیوںکی مانند دہرانوں میں بھٹکتے ۔

3-مستعربہ:

یہ سیدنا اسماعیل بن ابراہیم علیہ السلام کی اولادہے جوکہ تقریباً میلاد عیسیٰ علیہ السلام سے انیس سو برس قبل حجاز میں داخل ہوئے پھر اسماعیل علیہ السلام جرہم بادشاہ کے داماد بنے جس سے ان کی بہت سی اولاد ہوئی مگر بد قسمتی سے وہ تمام افراد تاریخ کی تاریکی میں غائب ہوگئے سوائے عدنان کے جن کی طرف عربی نسب تحقیق سے ثابت ہےاور نبی مکرم ﷺ کا تعلق اسی طبقہ سے ہے۔

عرب کے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور مذہبی احوال:

عرب کے باشندوں کی معاشرت پر ان کے جغرافیائی ماحول نے بہت اثر رسوخ رکھا جس کے پیش نظر وہ اپنے ماحول کی طرح غیض و غضب کے مالک تھے ماحول کی گرمی نے ان کے دلوں میں لاووں کوجنم دیا جس کی بنیاد پربات بات پر تلواریں نکال لیتے اور خون کی ندیاں جاری کردیتے تھے جس طرح ان کی اراضی بے آب و بیابان تھی بالکل اسی طرح ان کی سوچیں بھی قحط سالی کا شکار تھیں آزادی ، عصبیت اور وحشت نے ان کی روحوں پر ڈیرہ جمایا ہوا تھا نہ وہ کسی حکومت کے ماتحت تھے رہنے کو پسند کرتے تھے اور نہ ہی کسی اجتماعی نظام کو قبول کرتے تے دینی فلسفہ ان سے کوسوں دور تھا اور اسی بناء پر پیار ، محبت، رحم دلی شفقت اور مودت جیسی اعلی صفات ان میں ناپید تھیں جبکہ بہ نسبت مذہبی وہ بت پرستی بدعات و خرافات کا شکار تھے، ہر قبیلے نے اپنا من پسند بت اختیار کیا ہوا تھا جس کے وہ باشندے تھے ابتدائی ادوار میں باشندگانِ عرب ملت ابراہیمی کے پیروکا ر تھے مگر رفتہ رفتہ دین ابراہیمی سے انحراف کرکے بتوں کی تابعداری کو قبول کرلیا۔

جہاں تک تعلق ان کی معیشت کا ہے تو باشندگان عرب کا انحصار ابتداء سے تجارت پر رہا ہے جس کا ذکر اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں بھی کیا ہے ان کی اکثر تجارت ملک شام، حبشہ، عراق مصر وہند میں ہوا کرتی تھی۔

اھل عرب اور علم و فنون:

باشندگانِ عرب نے کبھی حصول علم کے لیے بیرون ملک سفر نہیں کیا بلکہ جن علوم و فنون میں ان کو بہت مہارت حاصل تھی وہ ان کے اپنے تجارب اور اکتساب کا نتیجہ تھا عدنانی طب ، نجوم، انساب، اخبار، اشعار، حرب، فلکیات فراسہ قیافہ میں مہارت رکھتے تھے اور جبکہ قحطانی مدنیات، عمرانیات، سیاسیات اور سابق الذکر علوم سے آشنا تھے۔

باب اول: دور جاہلی

فصل اول عربی زبان کے تعمیری مراحل عربی زبان لغت سامیہ کی ایک شاخ ہے جس نے دوسری لغات سامیہ کے ساتھ ایک ہی زمین پر نشونما پائی جب سام بن نوح کا اولاد کثرت افراد کی بناء پر اپنے سے نکلی تو ان کی اصل لغت میں اشتقاق و اختلاط کے باعث فرق واقع ہو گیا اور اس اختلاف میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ ہر لہجے نے مستقل زبان کا روپ اختیارکرلیا۔

محققین ابھی تک عربی زبان کے ابتدائی مراحل دریافت کرنے سے قاصر ہے ہیں اور جو شواہد ابھی تک دریافت ہوئے ہیںوہ اس دور کے ہیں کہ جس دور میں عربی زبان کے باقی ماندہ لہجات ایک تھے مگر رفتہ رفتہ عربی زبان کئی لہجات کا شکار ہوگئی جس کے باعث یہ گمان کیا جانے لگا کہ ہر لہجہ کو مستقل لغت بنادیا جائے کیونکہ عربیوں کو بذات خود ایک دوسرے کے لہجے سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے اور ان کی اصل بھی آپس میں کم مماثلت رکھتی ہےمگر بہر حال عربی زبان اپنے تما م اختلافی لہجات کے باوجود دو لہجات پر جمع ہوگئی مگر ان کے اعراب ، ضمائر ، احوال اشتقاق اور تعریف میں اختلاف تھا وقت گزرتا گیا اور چھٹی صدی عسویں میں عرب کے جنوبی علاقے پر احباش غالب ہوگئے اور پھر ان پر فارس کا تسلط ہوا اس طرح جنوبی علاقے کی زبان اپنے مقام پہ جا نہ سکی اور ہمیشہ کے لیے زمین دوز ہوگئی جبکہ شمالی علاقے کی عربی اپنی آب وتاب سے ویرانی جھڑ رہی تھی اور یہاں تک کہ مذہب اسلام نمودار ہوا جس کے باعث شمالی زبان میں بننے والے لہجات اپنی جڑیں مضبوط نہ کر سکے اور قریش کا لہجہ تمام لہجات پر سبقت لے گیا اور یوں دینی اقتصادی اور سیاسی تمام طبقات پر قریشی لہجہ غالب آگیا جس کے کچھ اسباب درج ذیل ہیں۔

۱-اسواق:(بازار)

عرب کے باشندوں کی معیشت کا انحصار ان کی تجارت پر تھا اور اسی وجہ سے وہ ہر سال میں بعض مہینے تجارت کی غرض سے بازار قائم کیا کرتے تھے اور ان کے یہ بازار صرف خرید و فروخت کے لیے نہیں ہوتے تھے بلکہ یہ ایک میلہ کی مانند ہوتے جہاں کرتب بازی بھی ہوتی اور بیت بازی بھی جہاں جتھہ بنا کر طاقت کے مقابلے ہوتے اور اوطاق سجا کر لوگ کہانیاں سنائی جاتیں جہاں عرب کے مشہور شعراء اپنے نئے تازہ کلام عوام الناس کے سامنے گوش گزا ر کرتے، جس شاعر کا کلام فصاحت و بلاغت کا منبع ہوتااور جو سامعین کے دلوں میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتا یا جوان کے انگ انگ گرمادیتا تو لوگ اسی شاعر کے دیوانے ہوجاتے اور اسکے لہجہ کو اپنا تے اور اس کے تفکرات کو بڑھاتے ، عکاظ، مجنہ اور ذوا لمجاز یہ عرب کے مشہور بازار تھے جبکہ اول الذکر عرب معاشرہ میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا جس نے عربی تہذیب کو قوی سے قوی تر کیاکیونکہ یہ بازار اور حج کے ایام میں مکہ مکرمہ میں قائم ہوتا جہاں حج و عمرہ کی غرض سے ہزاروں افراد آتے جس کے پیش نظر یہاں کی زبان اور لہجہ دوسرے عرب قبائل میں اہمیت کی حا مل تھی۔

۲-مکہ کا اثر رسوخ اور قریش کا عمل:

عربی لغت اور عربوں کو یکجا کرنے میں مکہ کا بڑا اثر رسوخ ریا ، تمام نواحی سے لوگ جوق در جوق لوگ مکہ آتے بلکہ ہند ، مصر، شام اور حبشہ سے بھی آتے اور یہاں کے باشندے بھی ان مما لک میں تجارت کی غرض سے جاتے جس کے پیش نظر مکہ کے باشندے ان لوگوں کی تہذیب و ثقافت اور ان کی مختلف لغات کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتے اور نئے الفاظوں کے مترادفات سوچتے اور اصطلاحات کو نقل کرتے ، جس کی بنا ء پر ان کی لغت فصیح تر ہوگئی جو کلمات میں چاشنی اسلوب میں بلاغت اور مادےمیں وسعت رکھتی تھی جسے شعراء اپنے کلام میں استعمال کرتے اور قریش کی زبان سے متاثر ہوکر ان کا پر چار کرتے یہاں تک کہ قرآن کریم کا نزول ہوا اور جس نے ہمیشہ کے لیے قریشی زبان کو آب حیات بخشا اور وہ باقی تمام لہجات اور زبانوں پر غالب آگئی۔

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے