’’وإن النصر للمظلوم‘‘ مظلوم کی مدد کی جائے گی یہودیوں سے کیے گئے معاہدے کی یہ وہ شق ہے جس کے ذریعے محسن انسانیت رسول مکرم ﷺ نے پہلی اسلامی ریاست مدینہ منورہ میں رہنےوالے غیر مسلموں کو بلا تفریق جان و مال ، عزت و آبرو کی امان عطافر مائی اور اس چھوٹی سی نوزائدہ اسلامی ریاست کو ہنگامہ آرائی اور فتنہ وفساد سے بچانے کے لیے اس معاہدے کے شرکاء پر مدینہ منورہ میں کشت وخون حرام قرار دے دیا، مظلوم یہودی ہو یا مسلمان وہ مظلوم ہی ہوگا یوں ہمیشہ کے لیے ایک قانون بن گیا ، ابھی چند روز قبل 15 مارچ سانحہ یوحنا آباد لاہور دہشت گردی کے سلسلہ ہی کی ایک کڑی ہے جو پاکستان کے مظلوم عوام گـذشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جھیلتے آرہے ہیں جس کی شروعات آج سے تقریباً انتیس برس قبل قلعہ لچھمن سنگھ لاہور میں 23 مارچ یوم پاکستان کے ایک جلسہ عام میںدھماکے سے ہوئیں جہاں سرمایہ اہل حدیث علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ او ر ان کے رفقاء کا ر سمیت اہلحدیث کی نوجوان قیادت اور متعدد علماء کرام شہید ہوگئے، ایک طویل عرصہ گزر گیا، انصاف کے انتظار میں اہلحدیثوں کی آنکھیں پتھراگئیں لیکن انصاف ندارد، پھر یہ ظلم کا سلسلہ ایسا دراز ہوا کہ کوئی مسجد محفوظ رہی نہ کوئی مزار ، کوئی گزرگاہ محفوظ رہی نہ کوئی بازار، اسکول محفوظ رہے نہ امن وآشتی کے گہوارے ، قال اللہ اور قال الرسول کے ادارے ، امام بارگاہوں میں دھماکے ہوئے اور کہیں کہیں چرچ بھی نشانہ بنے جتنے علماء شہید ہوئے اتنے پوپ ، پادری ، گورو گھنٹال نہ مرے جتنے عام مسلمان شہری دفاعی اہل کار کام آئے اتنے ہندواور عیسائی ہلاک نہ ہوئے۔
حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی نہ دین ہے نہ مذہب انکا کوئی خاص فرد دشمن ہے نہ ادارہ بلکہ ان کادشمن پاکستان ہے اور ہروہ جگہ، مقام و شخصیت ان کی دشمنی اور ہدف میںاولیت و ترجیح رکھتی ہے ، جس کی وجہ سے پاکستان کی بدنامی عالمی سطح پر زیادہ ہوسکتی ہے ، انتشار زیادہ پھیل سکتاہے اور اس کو ہوا دینے والی کچھ این جی اوز ہیں جن کے ڈانڈے دشمنان دین سے ملتے ہیں وہ ہر دہشت گردی کے پیچھے اسلام اور دین کو ڈھونڈتے نظر آتے ہیں ،ہر سنت رسول ﷺ سے مزین چہرہ دہشت گرد دکھائی پڑتاہے ، لہٰذا کوٹ رادھا کشن کا واقعہ ہو تو بڑھ چڑھ کر اسلام کو بدنام کرتے ہیں سانحہ یوحنا آباد کی خبر دی جاتی ہے پس منظر میں نبی رحمت کا نجران کے عیسائیوں کو عہد دینے سے متعلق روایت چلاکر یہ کس کو سنایا جاتا ہے ، 18 کروڑ مسلمانوں کو جنہوں نے آج تک کسی گرجا گھر یا مندر کو زبر دستی مسجد نہیں بنایا ، یوحنا آباد اور پورے پاکستان کے عیسائی بصد شوق عرصہ دراز سے اپنے تہوار مناتے آئے ہیں کبھی ملک کے کسی کونے میں کوئی تعرض نہیں کیا گیا جبکہ پڑوس کا ملک بھارت دور نہیں جہاں زبر دستی گرجا گھروں میں مورتیاں رکھنے اور مشق ستم بنانے کے ساتھ ساتھ زبر دستی ہندو بنانے کا رواج عام ہے۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ یہ دھشت گردی اور دھماکےکیا عام پاکستانی مسلمان کرتے ہیں؟ ہرگز ایسا نہیں اور نہ ہی منبر ومحراب کے وارث ایسی بات کرتے ہیں نہ عام مسلمان یہ سوچ رکھتے ہیں پھر ایسا کیوں ہواکہ جو چرکے تمام پاکستانی عرصہ دراز سے سہ رہے ہیں جب یہی زخم پاکستانی عیسائیوں پہ آئے تو انہوں نے عام مسلمانوں کو اپنا دشمن ٹھہرالیا اور خو دہی عدالت قائم کرکے سزابھی نافذ کردی دو مسلمانوں کو زندہ جلادیا ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی سوختہ لاشوں کو گھسیٹا گیا!!!محمد عربی ﷺ کے فرامین پڑھ کر یہ بتایا جاتاہے کہ آپ ﷺ نے رواداری کا سبق دیا اور فرمایا: ’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے‘‘ (ابن ابی شیبہ) تو کیا وہ نبی رحمت ﷺ جو بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (التوبة: 128)’’ایمانداروں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں ‘‘ وہ اپنے ہی ماننے والوں کے حق سے غافل رہے ہر گز نہیں وہ یہ پیغام لے کر آئےکہ:

أَنَّہُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا (المائدة: 32)’

’جس شخص نے کسی دوسرے کو علاوہ جان کے بدلہ یا زمین میں فساد بپا کرنے کی غرض سے قتل کیا تو اس نے گویا سب لوگوں کو ہی مار ڈالا ‘‘
یہ واقعہ بخاری ومسلم میں موجود ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے قبیلہ عکل و عرینہ کے لوگوں کو بد عہدی کرنے اور’’ ایک‘‘ راعی رسول ﷺ کے قتل کرنے کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرواکر، ہاتھ پائوں کٹواکر جلتی دھوپ میں پھینک دیا تھا(بخاری ( 1 / 69 و 382 – 2 / 251 – 3 / 119 – 4 / 58 و 299 ) ومسلم ( 5 / 101 ) تاکہ دیکھنے والوں کو عبرت ہو اور کوئی آئندہ غداری کی جرأت نہ کر سکے اوریہ اس رحمت عالم ﷺ کی طرف سےسزا تھی جس نے اپنی ذات سے متعلق کبھی انتقام نہ لیا،سوختہ لاشے جن کے کئی جرائم تھے کہ وہ تاجدارمدینہ ﷺکے امتی تھے ، ان کے چہرے داڑھی سے مزین تھے جوکہ موجودہ دور میں شاید دہشت گردی کی بڑی علامت سمجھی جاتی ہے ان میں سے ایک بیچارہ تو کچھ زیادہ ہی بڑامجرم تھا، حافظ نعیم ، جس کے سینے میں کتاب اللہ محفوظ تھی جس کے لیے رسول اللہ ﷺ بشارت دے چکے

خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ (مسند أبي داود الطيالسي (1/ 73)

’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے‘‘پھر جو آخرت میں ہر آیت کی تلاوت کے ساتھ بلندیٔ مراتب طے کرتے ہوئے اعلی ترین مقام پر فائز ہو گا، بڑی عجیب بات ہے، غیر مسلم نشانہ بنین تو موم بتی بردار سول سوسائٹی فیشن ایبل این جی اوز اور بزعم خود دانشور کہلانے والوں کے چیختے چنگھاڑتے تبصرےالیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر چھا جائیں ۔ بیانا ت شہ سرخیوں میں چھپیں، کالم آئیں مگراب کیا ہوا؟ اب کیوں سانپ سونگھ گیاہے؟
خون مسلم کی ارزانی پوری دنیا میں تو ہے ہی احمد آباد میں مسلمان جلائے جائیں ، برما میں بد ترین مظالم ڈھائے جائیں کشمیر و فلسطین میں بدترین ظلم ہو مگر الحمدللہ رد عمل کےطور پر پاکستان میں کہیں ایسا نہ ہوآپ اندازہ کریں کہ اٹھارہ کروڑ سے زائد آبادی کے ملک پاکستان میں صرف 14 لاکھ ہندو اور 12 لاکھ کرسچن آباد ہیں اگر یہاں انصاف نہ کیا گیا اور مجرم دندناتے رہے تو پھر نوبت یہ آتی ہے کہ لوگ خودقاضی بن جاتے ہیں جیساکہ سلمان تاثیر کے معاملے میں ہو ا ہماری استدعا ہے کہ حکومت اس معاملے کے دور رس نتائج کا ادراک کرے اب جبکہ حکومت نے ایک اچھا قدم اٹھالیا ہے اور قاتلوں کی پھانسی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے تو آئندہ ظلم سے بچنے کے لیے اس واقعے کی شفاف تفتیش کرو اکر جلد از جلد ان سب مجرموں کو اسی جگہ پہ لٹکایا جائے مؤطاء امام مالک کی ایک روایت ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کچھ لوگوں نےمل کر ایک شخص کو قتل کردیا، قتل کرنے والے پانچ یا سات لوگ تھے آپ نے سب کےقتل کا حکم صادر فرمایا جب، لوگوں میں کچھ تردد دیکھا تو فرمایا اگر اس قتل میں تمام اہل صنعاء شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کروادیتا تو ارباب اختیار خدارا انصاف کیجئےاقلیتوں کے تحفظ حقوق پہ اعتراض نہیں مگر انصاف کا سوال ہے ایک طرف اندھی دھشت گر دی ہے اور دوسری طرف جان بوجھ کر سرکاری املاک کا نقصان طرفہ تماشا یہ ہے کہ قابو آجانے والے بیچارے جلائے جاتے ہیں اور حکومتی منصب دار یوحنا آباد میں شیشے کی دوکان کے وجود کا ہی انکار کردیتے ہیں، جہاں حافظ نعیم کسب حلال کی عبادت کرتا تھا ایک سرگودھا کا بابر نعمان تھا جوان رعنا جسے لاوارث قرار دیکر دفنا دیا گیا پھر ورثاء کی دہائی پر قبر سے نکال کر ان کے حوالے کیا گیا ایک خاتون ٹیچر کو اس لیے تھا نے بٹھا یا گیا کہ بلوائیوں سے جان بچاتے ہوئے جب اس نے گاڑی بھگائی تو دو افراد گاڑی تلے کچلے گئے یعنی اسے بھی اپنے آپ کو بلوائیوں کے حوالے کردینا چاہیئے تھا، شاباش یہ ہے قانون!!!شیخ سعدی کی ایک حکایت شاید ایسی ہی صورتحال سے مطابقت رکھتی ہے کہ انکا ایک بستی سے گزر ہوا بستی کے کتے پیچھے لگ گئے انہوں نے پتھر اٹھاکر مارنا چاہا تو پتھر کو زمین سے چپکا ہوا پایا بے ساختہ کہنے لگے عجیب بستی ہے جہاں کتے کھلے ہوئے اور پتھر بندھے ہوئے سو پولیس بلوائیوں کو تو روک نہیں سکی البتہ جان بچاکر بھاگنے والوں کو تھا نے بٹھا لیا بہت خوب۔
آخر میں ہم بانی پاکستان کی تقریر کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں یہ تقریر 21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں کی گئی ہم پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کا رویہ اپنائیں گے ہم امن و امان قائم کریں گے اور رنگ ذات یا طبقہ کے امتیاز کے بغیر پاکستان کے ہر شہری کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔
اب ان شہریوں میں حافظ نعیم اور بابر نعمان شامل ہیں یا نہیں یہ تو ارباب اختیار ہی بتائیں گے؟ اللہ ان شہداء کو  اعلی جنت عطا فرمائے اور ان کے گھر والوں کو انصاف اور صبر۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ احسن العدل نصرۃ المظلوم‘‘ مظلوم کی مدد کرنا بہترین انصاف ہے۔
مظلوم کی مدد بلاتفریق مسلمان ہو یا غیر مسلم یہی اسلام کا منشا ہے اور مسلمانوں کو تو اللہ تعالیٰ نے’

’ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ،‘‘

فرماکر بھائی بھائی بنادیا ہے اس وقت یمن کی بگڑتی صورتحال میں حوثی باغیوںکو شہہ دے کر ایران نے مزید خراب کردیا ہے اور خامنائی ایرانی صدر یہ کہہ رہا ہے کہ عراق و شام ہماری جیب میں ہیں، یمن پر ہمارا تسلط قائم ہوجائے گا اور پھر سعودی عرب کی باری ہے اور عملی طور پر حوثی باغیوں نے یمن میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہوا ہے جس یمن کے متعلق رسول مقبول ﷺ نے توصیفی ارشاد فرمایا تھا’’الایمان یمانی، والحکمۃ یمانیۃ‘‘ ایمان یمنی ہے اور دانائی و حکمت بھی یمنی ہے۔ روافض کی تاریخ قتل، غدر سے بھری پڑی ہے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت سے لیکر عباسی خلاف کی بساط لپیٹنے تک اور مختلف شخصیات و حکومتوں کے خاتمہ میں سفاکانہ کردار تاریخ کا المناک باب ہے۔
اب جب ارض حرمین شریفین شدید خطرے میں ہے اور سعودی قیادت نےمدبرانہ اور جراتمندانہ قدم اٹھا کر اس بڑھتی ہوئی جارحیت اور دہشت کو روکنے اور اپنے یمنی بھائیوں کو اس دہشت گردی سے بچانے کے لئے باغیوں پر فضائی حملے شروع کردیئے ہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ دینی اور اخلاقی لحاظ سے پاکستان کا کیا موقف ہونا چاہیے؟ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لئے تو قرآن و سنت کی راہنمائی ہی کافی ہے مگر کچھ طبیعتیں اس طرف نہیں آتیں، تو ان کے لئے عرض کئے دیتے ہیں کہ دنیاوی مفادات کے حوالے سے بھی مصلحت اسی میں ہے کہ پاکستان تنہا رہنے کی بجائے جو کہ ایک عالمی سازش بھی ہے، اسے سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے دنیا بھر میں سعودی عرب اور چین کے علاوہ کونسا ملک ہے جو پاکستان کے ساتھ بھرپور انداز میں کھڑا ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے کبھی پاکستان کی بدلتی ہوئی حکومتوں کو نہیں دیکھا حکومت پیپلزپارٹی کی ہو یا نواز لیگ کی یا کسی اور کی، سعودی عرب بھرپور امداد جاری رکھتا ہے۔ پھر کویت کے معاملے میں جب امریکی فوجیں خلیج میں آئیں تو یہاں نام نہاد جماعتوں نے مخالفت کا علم بلند کیا اب جب سعودی عرب کو ضرورت ہے اور وہ امریکی فوجوں کو نہیں بلا رہے تو ہم اسے امریکی جنگ قرار دیکر الگ ہونا چاہتے ہیں حالانکہ یہ ایک بہترین موقع ہے اسلامی بلاک بنانے کا اسے سعودی عرب کا داخلی مسئلہ قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ اجتماعی امت کا مسئلہ ہے اور قرآن پاک نے واضح حل بتایا ہے۔

فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ (الحجرات:9)

پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے
ظالم کا ہاتھ روکنا عین انصاف ہے۔ ہم ایک جنگی جنون میں مبتلا طاقتور ملک کے پڑوس میںکمزور معیشت کے ساتھ رہتے ہیں تو کیا ہم تنہا رہ سکتے ہیں جب ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ مشکل وقت میں ہمارے دوست ہمارے ساتھ کھڑے ہونگے تو آج کیوں اپنے دوستوں کو تنہا چھوڑ دیں جبکہ ہمارا ایمان، عقیدہ اور پھر مصلحت سب ہی کا تقاضا ہے کہ ہم ان کا ساتھ دیں، حکومت اس معاملے میں صحیح سمت پہ جارہی ہے ہمیں بھی ساتھ دینا چاہیے نہ یہ کہ مخالفت برائے مخالفت کی ریت اپنا کر دینی ، ملی اور قومی مصلحت ایک طرف رکھ دیں اور وقتی و ذاتی مفاد ہی سامنے رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے