کتب سابقہ اکٹھی نازل ہوئیں اور اسے عام طور پر کتابت کے ذریعے ہی محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن دین اسلام کا امتیاز ہے کہ اس کی حفاظت دو طریقوں سے کی گئی ،
(1) سینوں میں یاد کرکے محفوظ کیا گیا جوکہ اول اول کام تھا۔
(2) کتابت کے ذریعے محفوظ کرنا ،جیسا کہ کاتبان وحی کی ایک فہرست ہے جنہوں نے اس وحی کو لکھ کر محفوظ کیا۔کتابت کے ذریعے سے ضبط کرنا یہ کسی حد تک دیگر امم سے مشترک ہے۔لیکن اس دین کے تمام شرعی نصوص کو سینوں میں محفوظ کرنے کی جومثال دین اسلام متدین مسلمانوں نے قائم کی ،ایسی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔یقیناً صحابہ و سلف صالحین نے جس اہتمام کے ساتھ قرآن و احادیث کی نصوص کو یاد کیا بے مثال ہے اور یہ اللہ تعالٰی کا خصوصی انعام تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حافظے جیسی عظیم دولت سے نوازا تھا۔ہم ان سطور میں سلف کے حافظے کا تذکار خیر کریں گے ۔

صحابہ کا حافظہ :

اہل عرب کی تاریخ سے واقف ہر شخص یہ جانتا ہے کہ عرب کے لوگ بڑے ذہین و فطین اور قوی حافظے میں بے مثل تھے۔ انہیں عرب میں سے نبی اکرمﷺ کے صحابہ کا اگر تذکرہ ہو تو وہ حفظ و ضبط میں بڑے اعلیٰ مقام پر فائز تھے ۔ ان کا بے مثال حافظہ ہی تھا کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے شب و روز کو یاد کیا اور آگے پہنچایا۔اولاً ہم صحابہ کے حفظ قرآن کے حوالے سے کچھ تذکرہ کرتے ہیں ،جو ان کے قوی حافظہ کو بھی بیان کرتا ہے۔ اور قرآن کے حوالے سے ان کی محنت کو بھی۔

حفاظ قرآن :

ویسے تو صحابہ کرام کی بڑی تعداد نے قرآن مجید کو حفظ کیا ہوا تھا۔لیکن چند صحابہ کا حفاظ ہونا معروف ہے،مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں تین مختلف روایات لائے ہیں،ان تین روایات کو جمع کرنے پرسات حفاظ قرآن کے نام سامنے آتے ہیںجوکہ درج ذیل ہیں۔
سیدنا عبد الله بن مسعود، وسالم بن معقل مولی ابی حذيفۃ، ومعاذ بن جبل، واُبی بن كکعب، وزيد بن ثابت، وابو زيد بن السکن، وابو الدرداءرضی اللہ عنہم ۔ (دیکھئے: صحیح بخاری: 3808، 3810 ، 5004)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تو صحیح بخاری میں ہی موجود ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ :

’’والله الذي لا إله غيره ما ا نزلت سورة من كتاب الله إلا ا نا ا علم ا ين انزلت، ولا ا؎نزلت ا ية من كتاب الله إلا ا نا ا علم فيم انزلت ولو ا علم ا حدا ا علم مني بكتاب الله تبلغه الإبل لركبت إليه ‘‘(صحیح بخاری:5002 ، کتاب فضائل القرآن ، باب القراء من اصحاب رسول اللہ ﷺ )

یعنی: قسم ہے اللہ تعالیٰ کی جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ قرآن مجید میں جو بھی سورت نازل ہوئی ہے میں اس کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کہاں نازل ہوئی؟ اور جو بھی آیت قرآن مجید میں نازل ہوئی ہے میں اس کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کس کے بارے میں نازل ہوئی اور اگر مجھے یہ پتہ چل جائے کہ فلاں شخص مجھ سے زیادہ قرآن کے بارے میں علم رکھتاہے اور اس تک اونٹ پہنچ سکتے ہیں تو میں اس کی طرف سفر کروں گا اور اس سے علم حاصل کروںگا۔
اس اثر میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ اظہار کرنا وہ قرآن مجید کے بارے میں اس قدر علم رکھتے ہیں کہ جن کے بارے میں نازل ہوئی اور جہاں نازل ہوئی یہ بھی جانتے ہیں ،ان کا یہ کہنا، ان کے کمالِ حافظہ کی دلیل ہےاور ساتھ ہی ان کی اس حوالے سے محنت شاقہ کی بھی، چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا حفظ قرآن سے جو خاص شغف تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہےکہ اسود رحمہ اللہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مجھے اور علقمہ کو ایک صحیفہ ملا ہم وہ ابن مسعود کے پاس لے کر چلے گئے سورج زائل ہوچکا تھا یا زوال کے قریب تھا۔ہم دروازے پر ہی بیٹھ گئے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنی لونڈی سے کہا کہ دیکھو دروازے پر کون ہے؟ لونڈی نے جواب دیا ، علقمہ اور اسود ہیں۔ انہوں نے کہا: انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو۔ہم اندر داخل ہوگئے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ شاید تم دروازے کے باہرکافی دیر سے بیٹھے ہو؟ ہم نے کہا: جی ہاں! کہنے لگے: تمہیں اندر آنے کی اجازت مانگنے سے کس چیز نے روکا؟جواب دیا: ہمیں ڈر تھا کہ آپ آرام فرمارہے ہوںگے۔فرمانے لگے: مجھے یہ اچھا نہیں لگے گا کہ میرے بارے میں تم یہ سمجھو کہ میں اس وقت سوتا ہوں۔ یہ تو ایسی گھڑی ہے کہ ہم اس وقت عبادت کو صلوۃ اللیل کی طرح سمجھتے ہیں۔ ہم نے کہا :ہمارے پاس یہ صحیفہ ہے، اس میں کچھ اچھی باتیں ہیں۔ابن مسعود نے اپنی لونڈی سے کہا: طست لاؤ اور اس میں پانی ڈالواور پھر اسے اپنے ہاتھوں سے مٹانا شروع کردیااور یہ آیت پڑھی۔

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ (يوسف: 3)

ہم نے کہا : اس صحیفہ میں ذرا دیکھیں تو کتنی عجیب باتیں ہیں؟مگر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اسے مٹارہے تھے اور کہتے جارہے تھے:

 ’’إن هذه القلوب ا وعية فاشغلوها بالقرا ن ولا تشغلوها بغيره‘‘

یعنی: ’’یہ دل برتن ہیں اسے قرآن کے ساتھ مشغول کردو اور اس کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ مشغول نہ کرو۔‘‘
(جامع بیان العلم:1/283،دار ابن الجوزی،مصنف ابن ابی شیبۃ: کتاب فضائل القرآن ،باب فی التمسک بالقرآن )
ابو عبیدرحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ نرى ا ن هذه الصحيفة ا خذت من ا هل الكتاب فلهذا كره عبد الله النظر فيها‘‘

یعنی : ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صحیفہ اہل کتاب سے لیا گیا تھا اسی لئے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف دیکھنا پسند نہ کیا۔
اس اثر میں کئی ایک باتیں قابل غور ہیں،مثلاً
اسود اور علقمہ رحمھما اللہ کا مسئلہ کے حل کے لئے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کےپاس جانا ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں فہم صحابہ کی کیا حیثیت تھی؟
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قرآن مجید کے ساتھ خصوصی شغف رکھنااور اس کی تلقین کرنا ثابت ہوا۔
ابو عبید رحمہ اللہ کی تشریح کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ صحابہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں اہل کتاب کے اقوال سمیت کسی کے بھی قول و فعل کی کوئی وقعت نہیں تھی، یہی فکر آج ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے۔
بہرحال مذکورہ صحابہ اور دیگر صحابہ کا قرآن مجید کو حفظ کرنا ان کے حافظے کے قوی ہونے کی بین دلیل ہے۔ دیگر صحابہ سے قرآن مجید کو زبانی یاد کرنا ثابت ہے۔ مثلاً 70حفاظ صحابہ کو شہید کیا گیا۔
(صحیح بخاری: 3064کتاب الجہاد والسیر، باب العون بالمدد)
جنگ یمامہ میں بڑی تعداد صحابہ کی شہید ہوئی ،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک قول سات سو کا بھی نقل کیا ہے۔
(فتح الباری:9/16 )
جن میں اکثر حفاظ صحابہ تھے۔ اسی جنگ میں بکثرت حفاظ صحابہ کی شہادت کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ قرآن مجید کو اب ایک مصحف میں جمع کرنا چاہئے۔
(دیکھئے: صحیح بخاری:4986 ، کتاب فضائل القرآن ،باب جمع القرآن )
بعض صحابہ نے نبی اکرم ﷺ سے سن سن کرقرآن مجید کو یاد کیا۔
بعض صحابہ کو زبانی قرآن یاد تھا، نبی مکرم ﷺ نے اسی کو حق مہر بنادیا کہ اپنی بیوی کو قرآن یاد کروانا ہے۔
(صحیح بخاری:5030 ، کتاب فضائل القرآن ،باب قرأۃ القرآن عن ظھر القلب ، صحیح مسلم:1425 ،کتاب النکاح ،باب الصداق وجواز كونه تعليم قرآن وخاتم حديد … )
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں ، نبی معظم ﷺ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام أم الفضل لبابۃبنت الحارث الھلاليۃہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہکا تذکرہ کرتے ہوئے حبر بحر اور ترجمان القرآن جیسے القاب استعمال کرتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر: 1/13)
عبداللہ بن مسعود نے انہیں ترجمان القرآن کہا۔
(تفسیر ابن کثیر: 1/13، تفسیر طبری: 1/84، طبقات ابن سعد: 2/366، فضائل الصحابۃ لاحمد: 1562)
قرآن مجید کے حوالے سے انہیں یہ اعزاز حاصل ہےکہ ان کے لئے رسول اللہ ﷺ نے دعا کی :
اللھم علمہ الکتاب، یعنی اے اللہ اسے قرآن مجید کی تفسیر کا علم عطا فرما۔
(صحیح بخاری: 75، کتاب العلم، باب قول النبی ﷺ اللھم علمہ الکتاب، 7270،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
اور یہ بھی دعا کی:

اللَّهم فقّهه في الدّين (صحیح بخاری:143 ، کتاب الوضوء، باب وضع الماء عند الخلاء )

یااللہ اسے دین کی فقاہت عطا فرما۔
بعض روایات میں یہ دونوں دعائیں اس طرح اکٹھی بھی ہیں :

اللَّهم فقّهه في الدّين وعلّمه التأويل
(مسند احمد 1/ 266، 314، 328،335)

 بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں:

اللَّهمّ علّمه الحكمة وتأويل الكتاب
( سنن ابن ماجة: 166، المقدمة ،باب في فضائل أصحاب رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وآله وسلّم)

بہرحال آپ کے لئے یہ دونوں دعائیں رسول اللہ ﷺ  نے فرمائی ہیں۔یہ دونوں دعائیں مقبول ہوئیںجیسا کہ امر واقع ہے۔ آپ صحابہ میں سے دین کے فہم اور قرآن کے فہم ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں ،اور آپ کی یہ جلالت آپ کے حافظے کی قوت کو بھی بیان کرتی ہے،مزید ان کے حافظے کی قوت کو جاننے کے لئے ملاحظہ فرمائیں کہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
ا ن ابن عباس رضي الله عنه حفظ قصيدة عمر بن ا بي ربيعة ’’أَمِن آلِ نُعمٍ أَنتَ غادٍ فَمُبكِرُ ‘‘في سمعة واحدة على ما ذكروا
کہ انہوں نے عمر بن ابی ربیعہ کا قصیدۃ

أَمِن آلِ نُعمٍ أَنتَ غادٍ فَمُبكِرُ

ایک مجلس میں صرف ایک بار سنتے ہی حفظ کیا تھا۔
(جامع بيان العلم : 1/ 296، دار ابن الجوزی)
عمر بن ابی ربیعۃ قریشی تھے اور بنو مخزوم قبیلے سے ان کا تعلق تھا۔قریش میں ان سے بڑا شاعر کوئی نہیں تھا۔ جس رات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اسی رات ان کی پیدائش ہوئی اس لئے ان کے نام سے موسوم ہوئے۔یہ قصیدہ ستر (70) سے زائد اشعار پر مشتمل ہے جسے عمر بن ابی ربیعۃ کے دیوان میں دیکھا جاسکتا ہے۔سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے ایک ہی مجلس میں صرف ایک بار سنا تھا۔ اور اس کے بعد مکمل قصیدۃ دل کی تختی پر محفوظ کرچکے تھے۔ایک ایسی چیز یعنی شاعری جس سے انہیں کوئی شغف نہیں تھا اس کے باوجود انہیں ایک ہی بار سننے پر یاد ہوگئی تھی اب ایسی چیز یعنی قرآن و حدیث کی نصوص جس سے ان کو خاص شغف ہووہ کس قدر پختہ یاد ہوں گی؟؟ اور یہاں ذکر کئے دیتے ہیں انہیں قرآن و حدیث کے ساتھ کیسا شغف تھا،چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
جب نبی اکرم ﷺکی وفات ہوگئی تو میں نے ایک انصاری صحابی سے کہا اے فلاں۔ آؤ ہم نبی اکرم ﷺ کے اصحاب سے (احادیث کے بارے میں) علم حاصل کریں کیونکہ آج تو ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ،وہ انصاری صحابی کہنے لگے:اے ابن عباس رضی اللہ عنہ مجھے آپ پر حیرت ہوتی ہے کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس بارے میں لوگوں کو آپ کی ضرورت ہوگی حالانکہ نبی اکرم ﷺکے اصحاب میں سے بڑی تعدادابھی موجود ہے جو آپ بھی جانتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس صحابی نے تو ا س پر عمل نہیں کیا ،میں یہ علم حاصل کرنے کے لئے روانہ ہوگیا ،جب بھی مجھے کسی شخص کے بارے میں کسی حدیث کا پتا چلتا ،میں اس کے پاس آتا اگر وہ سو رہا ہوتا تو میں اس کے دروازے پر چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتا۔ ہوا چلتی تو مٹی میرے چہرے پر آجاتی۔ جب وہ شخص باہر آتا اور مجھے دیکھتا اور کہتا کہ اے رسولﷺ کے چچازاد! آپ کس لئے تشریف لائے ہیں؟ آپ نے مجھے پیغام کیوں نہیں دیا؟ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا ۔تو میں یہ کہتا کہ نہیں ،میں اس بات کا زیادہ حق دار ہوں کہ میں آپ کے پاس آؤں، میں آپ سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھنے کے لئے آیا ہوں۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں پھر ایک وقت وہ آیا کہ اس صحابی نے مجھے دیکھا کہ جب لوگ میرے اردگرد اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ صحابی کہنے لگے: یہ نوجوان مجھ سے زیادہ سمجھدار تھا۔‘(سنن الدارمی: 590 )

تنبیہ:

اس سے یہ تو واضح ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا کس حد تک احادیث رسول ﷺ کے ساتھ شغف تھا۔یہاں دوسرے صحابی جن کا نام مبہم ہے یہ بات ذہن نشین رہے کہ انہوں نے ابن عباس کی طرح محنت نہ کرنے کی وجہ معاذاللہ یہ نہیں تھی کہ وہ حدیث کی کوئی وقعت نہیں سمجھتے تھے ،کیونکہ آخری جملے میں ان کا رشک کا اظہار کرنا یہ واضح کردیتا ہے،کہ وہ بروقت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس طرح حفظ دین کی فوری ضرورت محسوس کی وہ اس ضرورت کو بھانپ نہ سکے۔اور یہی وجہ بنی کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سبقت لے گئے۔اس واقعے سے کسی بھی قسم کا غلط مفہوم کشید کرنا جو حدیث یا صحابی رسول ﷺ کی تنقیص کو مستلزم ہو ،جائز نہیں۔
صحابہ کرام میں سے ایک ننھے حافظ اور امام کا تذکرہ بھی مناسب ہے۔ اور وہ سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ ہیں۔عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کا تعلق علاقہ جِرم سے تھا۔ جوکہ بذخشان (بذخشان ترکی کے شہروں کے قریب واقع ہے۔ عام لوگ اسے بلخشان کہتے ہیں۔ ) کے قریب واقع ہے۔سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں:
’’ہم ایک چشمہ پر جہاں لوگوں کی گزرگاہ تھی رہتے تھے ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان قافلوں سے پوچھتے تھے کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ اوراس آدمی (جس نے نبوت کا اعلان کیا ہے) کی کیا حالت ہے؟ تو وہ جواب دیتے کہ وہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے؟ جس کی طرف وحی ہوتی ہے یا یہ کہا کہ اللہ اسے یہ وحی بھیجتا ہے،میں وہ کلام (جو نیانیا قرآن نازل ہوتا) یاد کرلیا کرتا، اور وہ میرے سینہ میں محفوظ ہوجاتا اور اہل عرب اپنے اسلام لانے میں فتح مکہ کے منتظر تھے اور یہ کہتے کہ نبی ﷺاور ان کی قوم (قریش) کو چھوڑ دو، اگر نبی ﷺ غالب آ گئے تو آپ سچے نبی ہیں۔ چنانچہ جب فتح مکہ کا واقعہ ہوا تو ہر قوم نے اسلام لانے میں سبقت کی اور میرے والد بھی اپنی قوم کے مسلمان ہونے میں جلدی کرنے لگے اور مسلمانوں کی طرف سے جب واپس آئے تو کہا اللہ کی قسم! میں تمہارے پاس نبی برحق ﷺکے پاس سے آیا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں فلاں وقت ایسے ایسے نماز پڑھو، جب نماز کا وقت آ جائے تو ایک آدمی اذان کہے اور جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ امام بنے ،چونکہ میں قافلہ والوں سے قرآن سیکھ کر یاد کرلیتا تھا ،اس لئے ان میں کسی کو بھی مجھ سے زیادہ قرآن یاد نہ تھا، میں 6 یا7 سال کا تھا کہ انہوں نے مجھے (امامت کے لئے) آگے بڑھا دیا اور میرے جسم پر ایک چادر تھی جب میں سجدہ کرتا تو وہ اوپر چڑھ جاتی (اور جسم ظاہر ہوجاتا) تو قبیلہ کی ایک عورت نے کہا تم اپنے قاری (امام) کی سرین ہم سے کیوں نہیں چھپاتے؟ تو انہوں نے کپڑا خرید کر میرے لئے ایک قمیص بنا دی تو میں اتنا کسی چیز کےملنے پر خوش نہیں ہوا جتنا اس قمیص کے ملنے پر خوش ہوا ہوں۔
اس سے واضح ہوا کہ عمرو بن سلمہ tبڑے قوی حافظے کے نو عمر لڑکے تھے ،اور ان کی امامت کروانے سے ایک اہم مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ نابالغ کی امامت صحیح ہے۔
(صحیح بخاری:430 ، سنن ابی داؤد: 585، سنن النسائی: 767، 789،المنتقی لابن الجارود: 309،صحیح ابن خزیمۃ: 1512،المعجم الاوسط: 6395، 7007،المعجم الکبیر: 6349، 6350 ، مصنف عبدالرزاق: 3811، سنن الدارقطنی: 1705، سنن الکبریٰ بیھقی: 5137، مصنف ابن ابی شیبۃ: 3456)

By

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے