نثر

نثر آسان فہم ، عدم قید اور ضرورت استعمال کی بنا پر انواع کلام میں سبقت رکھتی ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں۔

1-مسجع:

جس کے ہر دو فقروں میں یا اس سے زیادہ میںقافیہ ہوتا ہے ۔

2-مرسل:

جو قافیہ کی قید سے آزاد ہو۔
جبکہ نثر کو بیان کرنے کے لیے مختلف طرق ہیں جیسے ، أمثال، حکم، وصایا، خطبات ، اوصاف اور قصص۔

عربی نثر جاہلی کی خصوصیات:

نثر جاہلی کی امتیازیت یہ ہے کہ وہ تکلف ، غلواور بناوٹ سے مبرأ ہوکر طبعی سطح کی تھی جو بدوی ماحول اور اخلاقیات کےمطابق تھی جس میں الفاظ و تراکیب قوی ،جمل قصیر ، اسلوب موجز، اشارات قریب، استعارات قلیل اور فکری سطح پائی جاتی تھی۔

خطابت:

خطابت شاعری کی طرح خیالات کی وسعت اور بلاغت پر مبنی ہے جوکہ عربوں کی آزادی اور فراسہ کی مظہر ہے جودل کو متاثر کرنے کا ایک طریقہ ہے، جس کا اسلوب، کلمات کی خوبصورتی ، عبارات پر پکڑ ، منہج کی وضاحت ، سجع کی تقصیر اور ضرب الامثال کی کثرت ہے ۔
اوصاف خطیب :قبل از خطاب خطیب کسی اونچے ٹیلے پر کھڑا ہوتا یا پھر جانور وں کی پیٹھ پر سوار ہوتا، اور ہاتھ کو اٹھاتااور کبھی گراتا، اور اپنی عبارات کی وضاحت اشارات سے کرتا اور کسی لاٹھی یا نیزے کو ہاتھ میں لیکر کبھی اس پر ٹیک لگاتا تو کبھی اس سے اشارےکرتا۔
اس دور کے مشہور خطباء درج ذیل ہیں:
1-قُس بن ساعدہ الایادی
2-عمرو بن کلثوم التغلبی
3-أکثم بن صیفی التمیمی
4-الحارث بن عباد البکری
5-قیس بن زہیر العبسی
6-عمرو بن معدیکرب الزُبیدی۔
تخلیص کو مد نظر رکھتے ہوئےصرف قس بن ساعدہ کی بابت درج کیا جارہاہے۔
خطیب: قُس بن ساعدہ الایادی
220-600م( 403ق ھ-23ق ھ)

حیات:

وہ نجران کے پادری ، عرب کےخطیب ، حکیم اور حَکَم تھے اللہ پر ایمان رکھتے اور لوگوں کو حکمت اور حسن موعظت سے اس کی طرف بلاتے ، کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے خطیب تھے جنہوں نے اچھائی پر خطبہ دیا اور تلوار پر ٹیک لگائی اور اپنے خطبہ میں ’’أمابعد‘‘ استعمال کیا۔
نبی مکرم ﷺنے جب انہیں عکاظ میں خطبہ دیتے ہوئے سنا تو ان کی تعریف کی اور روایت کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نےان کے بارے میں فرمایا :

’’رحمہ اللہ قساً!، إنی لأرجو یوم القیامۃ أن یبعث امۃ واحدۃ‘‘

’’اللہ قس پر رحم فرمائے میں امید کرتاہوں کہ یوم قیامت وہ (اور میں) ایک امت کی طرح اٹھیں گے۔
انہوں نے بہت طویل عمر پائی اور ان کا انتقال 600 عیسوی میں ہوا۔

اسلوب خطبہ:

جو نثر ان کی طرف منقول ہے اگر وہ صحیح طریقہ سے ثابت ہے تو ان کا اسلوب طبعی اور مسجع ہے ، جس میں شدید رعب، الفاظوں کا چناؤ ، فواصل کی تقصیر، ضرب لامثال کا استعمال با غی وطغات سے عبرت اورظواہر کائنات سے متعلق کلام ہے ۔
ان کا ایک خطبہ جو انہوں نے عکاظ کے بازار میں دیا تھا ۔

ایہا الناس ! اسمعواوعوا، إنہ من عاش مات ، ومن مات فات، و کل ما ھو آت فہو آت، لیل داج، ونہار ساج وسماء ذات ابراج و نجوم تزھر وبحار تزخروجبال مرساۃ وأرض مُدحاۃ، وأنہار مجراۃ، إن فی السماء لخبرا،و إن فی الارض لعبرا، مابال الناس یذھبون ولایرجعون أرضوا فأقوموا؟ أم ترکوا فناموا؟ یامعشر ایاد این الآباء والأجداد وأین الفراعنۃ الشداد؟ ألم یکونوا أکثر منکم مالاً وأطول أجالاً طحنہم الدھر بکلکلہ ومزقہم بتطاولہ
فی الذاھبین الاولین من القرون لنا بصائر
مما رأیت موارداً للموت لیس لہا مصادر
ورأیت قومی نحوھا یسعی الأصاغر والأکابر
لایر جع الماضی الیّ ولا إ لی الباقین غابر
ایقنت أنی لامحا لۃ حیث صار القوم صائر

’’اے لوگو !سنو اور غور کرو ، بے شک جس نے زندگی پائی تو اسے موت آئی اور جیسے موت آئی وہ فنا ہوگیا اور جو کوئی بھی آنے والا ہے وہ آگے رہے گا رات تاریک ہے دن روشن ، آسمان برجوں والاہے اور ستارے چمکیلے ، سمندر موجیں اٹھاتے ہوئے پہاڑ اونچے زمین گھسٹتی ہوئی اور نہریں چلتی ہوئی ہیں بے شک آسمان میں خبریں ہیں اور زمین میں عبرت ، کیا ہوا ہے لوگوں کو جاتے ہیں تو واپس نہیں لوٹتے ؟ اے ایاد کے لوگو! کہاں ہیں آباء و اجداد؟ اور کہاں ہیں فرعون و شداد؟ کیا وہ تم سے زیادہ مالدار اور عمر رسیدہ نہ تھے ؟ زمانے نے انہیں چکی میں پیس دیا ہے اور ان کی درازی کو ممزق کردیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے