ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (آل عمران : 102)
’’ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم کو موت نہ آئے مگر اسی وقت جبکہ تم مسلمان ہو۔‘‘
تشریح وتفسیر :
اللہ تعالیٰ نے اس آیت شریفہ میں اہل ایمان پر ایسے دو عظیم اور مہتم بالشان کاموں کی ذمہ داری ڈالی ہے جو اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل خاص شامل حال نہ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ بندےہ حق جب اپنے رب کے ساتھ خلوصِ نیت اور صدق دل کا معاملہ رکھتا ہے اور سچے دل اس کی طرف متوجہ ہوتا اور اس کی پناہ لیتاہے تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے شخص کو ناکام اور نامراد نہیں ہونے دیتے بلکہ اس کی مدد فرماکر اس کے احوال درست فرمادیتے ہیں جس کا نتیجہ یہی ہوتاہے کہ وہ بندہ ان دونوں ہی کاموں کو بحسن وخوبی انجام دے لیتاہے وہ دونوں کام کیا ہیں جن کی ادائیگی کا اس آیت کریمہ میں مطالبہ کیاگیاہے ایک کام تو ہے اللہ تعالیٰ کاتقویٰ اختیار کرنا اور دوسرا کام ہے اسلام کی حالت میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرنا۔
آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے کلامِ مجید میں ان مقامات میں اہل ایمان کو ’’تقوی‘‘ کا حکم دیا ہے مگر اس آیت میں تقوی کا حکم دیتے ہوئے ’’حق تقاتہ‘‘ کا لفظ اور بڑھا دیا کہ اللہ سے ڈرنے کا جو حق ہے اس کے مطابق ڈرا کرو۔
یہ قید واضافہ اہل علم کی حیرانی کا سبب بن گیا کیونکہ یہ بات تو کسی بھی انسان کے اختیار وقدرت میں نہیں ہے کہ وہ اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرے جس سے اس کے تقویٰ کا حق ادا ہوجائے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا(البقرۃ:286)
اللہ تعالیٰ کسی نفس کو ایسی بات کا مکلف نہیں بناتے جو اس سے نہ ہوسکے۔‘‘
اب اگر ہم آیت شریفہ میں آئی ہوئی قید ’’حق تقاتہ‘‘ کو اس کے ظاہر پر رکھتے ہیں تو یہ ایک ایسی تکلیف وپابندی ہوگی جو انسانی قدرت وطاقت سے باہر ہے کیونکہ بندہ اگر خدا کے خوف سے پگھل کر تحلیل بھی ہوجائے تب بھی اس جبار وقہار کے تقوی کا حق پورا ادا نہ ہوسکے گا اس کی ذات تو وہ ہے کہ ’’کُن‘‘ کہتے ہی چیز موجود ہوجائے اور ہماری یہ ساری وسیع وکشادہ زمین قیامت کے روز اس کی ایک مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان لپٹے ہوئے اس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے ایسی زبردست ہستی کے تقویٰ کاحق کوئی بندہ کیسے ادا کرسکتاہے؟
علماء سلف نے یہاں تقوی کی تشریح یوں کی ہے کہ اسی آیت میں تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر وقت یادرکھا جائے اسے بھولا یا نہ جائے ہر معاملہ میں اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے اس کی نعمتوں اور احسانوں کا شکریہ ادا کیا جائے ناشکری نہ کی جائے اس تشریح کے بعد اہل ایمان کے لیے ’’حق تقاتہ‘‘ کی قید ضرور فکر مندی کا سبب ہوگی لیکن خود اللہ تعالیٰ نے سورۃ تغابن میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن:16)
تم اللہ سے ڈرو جتنا تم سے ہوسکے۔
اس آیت کے بعد بات صاف ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہاں بھی یہی ہے کہ تم اپنی استطاعت وقدرت کے مطابق خدا کے تقوے کا حق ادا کرو۔
ویسے بھی بات ادنیٰ فکر سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کے حق تقویٰ ادا کرنے کی فکر میں ہر دم رہے گا تو پھر ہر دم اللہ تعالیٰ کو یاد ہی رکھے گا بھولے گا نہیں اور اس کی شکرگزاری ہی کرے گا ناشکری میں مبتلا نہ ہوگا اس کی اطاعت ہی کرے گا نافرمانی نہ کرے گا اور یہ صورتِ حال اکثر اوقات تو بہرحال رہے گی اس طرح وہ اپنی استطاعت وامکان بھر خدا تعالیٰ کے تقوے کا حق ادا کرنے والا قرار پاجائے گا۔
یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ تقویٰ اللہ کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول ﷺ نے ہمیں جن باتوں کا حکم دیا ہے اور جن باتوں سے روکا ہے ان تمام باتوں میں ہم اپنی طاقت بھر اس کی اطاعت وفرمانبرداری کریں اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اس مقصد کیلئے ہمیں پہلے یہ علم حاصل کرنا ضروری ٹھہرتا ہے کہ اللہ ورسول ﷺ نے ہمیں کن باتوں کا حکم دیا ہے اور کن باتوں سے روکا ہے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر ہمیں خود اللہ تعالیٰ کی معرفت بھی حاصل کرنی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کیاکیا ہیں؟ پھر اس معرفت کے نتیجے میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے ایک قلبی تعلق ومحبت حاصل ہوجائے گی اور اپنے نفس میں اللہ تعالیٰ کے خوف وخشیت کا احساس اور اس کے اوامر سے دلچسپی ورغبت اور اس کے نواہی سے نفرت وکراہت کا جذبہ پیدا ہوجائے گا یہی تقویٰ کی حقیقت ہے جس کی بدولت مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی ولایت ودوستی کی دولت ہاتھ آجاتی ہے اور یہ ایسی دولت بے بہا ہے جس کو مل جائے اس کے بعد ایمان سعادت دارین سے کامیاب وکامران ہوجاتاہے جو اللہ کی راہ میں کام کرنے والوں کی آخری آرزو ہوتی ہے۔
وہ دوسرا مقصدِ عظیم جس کی طرف آیت میں فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہر صاحب ایمان اپنی زندگی کو ایمان کے سانچے میں اس طرح ڈھال لے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ احساس ایمان سے وابستہ رہے یہاں تک کہ اسے جب موت بھی آئے تو ایسی حالت میں آئے کہ اس کے دل میں ایمان کا احساس اور زبان پر ایمان قرار پایا جائے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو پہلے تقویٰ کا حکم دیکر اپنے خوف وخشیت اور احساس ایمان کا عادی بنایا ہے اور اسی وجہ سے اس نے ہمیں اس بات سے روکا ہے کہ ہماری موت اس کیفیت کے علاوہ کسی دوسری کیفیت کے ساتھ نہ آئے اسلام کے علاوہ کسی دوسرے باطل مذہب سے ہمارا تعلق نہ ہو۔
یہاں پر سوال پیدا ہو سکتاہے کہ کیا یہ بات ہمارے اختیار میں ہے کہ صرف اسلام ہی کی حالت میں ہمیں موت آئے ؟ جواب یہی ہے کہ بظاہر لگتاتو یہی ہے کہ یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں ہے مگر ذرا غور کرنے پر یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ہمارے اختیار میں یہ بات تو ضرور ہے کہ ہم اپنے دل وزبان کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دیں اور برابر متوجہ رکھیں یہاں تک کہ ہمارا دل اللہ تعالیٰ کی مرضی وحکم کے بالکل مطابق ہوجائے اور اس کی مرضی وخوشی ساری وہی بن جائے جو اللہ کی مرضی وخوشی ہو اگر ہم نے پوری توجہ کے ساتھ اپنے دل کو ایسا بنا لیا تو پھر سمجھ لیجیے کہ گویا حالت اسلام پر موت بھی ہمارے اختیار میں ہوجائے گی کیونکہ کوئی بھی سچا اور مخلص مسلمان کبھی بھی یہ بات پسند نہ کرے گا کہ جس کفر کی تاریکی وگمراہی سے اللہ تعالیٰ نے اسے نجات دے دی ہے وہ پلٹ کر پھر وہی کفر اختیار کرلے کیونکہ ایمان صحیح وصادق کا لطف ومزہ پالینے کے بعد وہ قتل ہوجانا،سولی پر چڑھایا جانا،جلادیاجانایہ تو وه گوارا کر سكتاہے مگر ایمان کے بعد کفر کسی قیمت پر اختیار نہیں کرسکتاہے۔