Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

قربانی کی اہمیت وافادیت اس میں پنہاں دروس وعبرت

Written by شیخ خالد حسین گورایہ 25 Oct,2015
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

ہر سال دس ذوالحجہ کو امت محمدیہ ﷺ کی ایک بہت بڑی تعداد بڑے جوش ولولے سے قربانی کے جانور ذبح کرتے ہیں ۔ قربانی باری جل وعلا کی جاری کردہ شرعی آیتوں میں سے ایک آیت ہے جو اپنے اندر سمجھنے والوں کے لئے بیش بہا فوائد وثمرات سمیٹے ہوئے ہے ۔مگر غم اس بات کا رہتاہے کہ امت کی اکثریت دیگر عبادات کی طرح اس عبادت کو بھی ایک رسم کی طرح ادا کر گذرتی ہےاور اس عظیم عبادت میں پنہاں دروس وعبرت سے بے بہرہ رہتی ہے ۔ قربانی کے جانور کی خریدار ی سے لیکر اس کے گوشت کے ٹکڑے ہونے اور آخری بوٹی کے ہضم ہونےتک کا ہمارا طرز عمل اس کا حقیقت کا واضح ثبوت ہے ۔ زیر نظر تحریر میں قربانی کے اصل مقصد اس کی روحانیت وافادیت اور اس میں پنہاں حکمتوں اور اس سے حاصل دروس پر مختصر سی روشنی ڈالی گئی ہے اللہ تعالیٰ سے اس دعا کے ساتھ کہ وہ اپنی بارگاہ میں اسے شرف قبولیت بخشے اور قربانی کے اس عظیم فریضے کو کماحقہ نبھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ انہ ولی التوفیق
قربانی کا مقصد اور اس کی مشروعیت کی حکمتیں :
1: توحید باری جل وعلا کی کی معرفت اس کااظہار نیز  صراط مستقیم کی پہچان اور اس پر سختی سے کاربند رہنا مقصد قربانی ہے ۔
 فرمان باری تعالیٰ ہے :
قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّيْ إِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ  لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الإنعام:61-62)
آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتایا ہے کہ وہ دین مستحکم ہے جو طریقہ ابراہیم (علیہ السلام) کا جو اللہ کی طرف یکسو تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔
علامہ سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے فرماتے ہیں کہ جس راہ ہدایت اور صراط مستقیم پر آپ گامزن ہیں اس کے بارے میں اعلان کردیں ، یعنی معتدل دین کا جو عقائد نافعہ ، اعمال صالحہ ، ہر اچھی بات کے حکم اور ہر بری بات سے ممانعت کو متضمن ہے ۔ یہ وہ دین ہے جس پر تمام انبیاء ومرسلین عمل پیرا رہے ، جو خاص طور پر امام الحنفاء ، بعد میں مبعوث ہونے والے تمام انبیاء ومرسلین  کے والد اور اللہ رحمٰن کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کا دین تھا۔ یہی وہ دین حنیف ہے جو تمام اہل انحراف مثلاً یہود ونصاریٰ اور مشرکین کے ادیان باطلہ سے روگردانی کو متضمن ہے ۔
یہ عمومی ذکر ہے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے افضل ترین عبادت کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ  (الإنعام:162)
 ’’ کہہ دیجیے کہ میری نماز اور میری قربانی ‘‘
 ان دو عبادات کا ذکر ان کے فضل وشرف اور اس بنا پر کیا ہے کہ یہ دونوں عبادات اللہ تعالیٰ سے محبت ، دین کو اس کے لیے خالص کرنے ، قلب ولسان ، جوارح اور قربانی کے ذریعے سے اس کے تقرب کے حصول پر دلالت کرتی ہیں ، اور قربانی سے مراد ہے کہ مال وغیرہ کو جو نفس کو محبوب ہے ، اس ہستی کے لیے خرچ کرنا جو اس کو سب سے زیادہ محبوب ہے ۔ یعنی تبارک وتعالیٰ ۔ جس نے اپنی نماز اور قربانی کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرلیا تو یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ اس نے اپنے تمام اعمال واقوال کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرلیا ۔ ( تفسیر السعدی مترجم ، مطبوعہ دار السلام لاہور ج اول ص 852)
اور اس آیت کے ذریعے مشرکین سے علی الاعلان اور عملی مخالفت کا اظہار ہے بھی ہے کہ مشرکین جو اپنے قرابین اور جانور بتوں کیلئے ذبح کیا کرتے تھے اور اس دور میں جو مزارات ، اور پیروں مرشدوں کے نام ذبح کئے جاتے ہیں ،اسلام اس سے بری ہے ۔ اور بتلایا گیا کہ اسلام  ذبح کو ایک عبادت کا درجہ دیتاہے اور اس عبادت کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کیلئے جائز قرار نہیں دیتا ۔ اور یہ عبادت کوئی عام بھی نہیں بلکہ بہت عظیم عبادت ہے ۔ اس عظیم عبادت کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کیلئے بجا لانے کی تعلیم اس قربانی کے ذریعے دی گئی ہے ۔
2: رضائے الٰہی کا حصول اور ریاکاری سے اجتناب ۔
عصر حاضر میں جو بنیادی چیز ملاحظہ کی جا رہی ہے وہ یہ کہ شیطان نے امت کی بڑی جماعت کو نمود ونمائش اور ریاکاری پر لگا دیاہے ۔ بڑے مہنگے داموں بکنے والے جانور جن کی تصاویر عیدا لاضحی کے دنوں قارئین  اخبارات میں ملاحظہ کرتے ہیں ، ٹی وی نشریات میں ان پر بحث ہوتی ہے ، خریداروں کے گھر پر ان جانوروں کے دیدار کیلئے تانتا بندھ جاتاہے ۔یہ تمام امور ریاکاری پر مبنی ہیں جس کا نتیجہ انتہائی خطرناک ہے جیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے سیدنا ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ قال الله تعالى أنا أغنى الشركاء عن الشرك ، من عمل عملا أشرك فيه معي غيري تركته وشركه
 (رواه مسلم ، وفي رواية ابن ماجه : ’’فأنا منه بريء وهو للذي أشرك‘‘ .( صحيح مسلم ؍ 2985 )
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں شرک کے تئیں تمام شرکاء سے نہایت زیادہ بے نیاز ہوں۔ جس شخص نے عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی کو شریک ٹہرایا تو میں اس کے اس عمل کو بھی اور شرک کو بھی چھوڑ دیتاہوں  ۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ ’’ میں اس شخص اور اس کے عمل سے بری ہوجاتا ہوں اور اس کا عمل اسی کیلئے ہوتاہے جس کو اس نے میرے ساتھ شریک ٹہرایا ہوتاہے ‘‘۔
سیدنا ابوسعید بن فضالہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہ جس کے آنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے، لوگوں کو حساب اور جزا وسزا کے لئے جمع فرمائے گا، تو ایک اعلان کرنے والا فرشتہ یہ اعلان کرے گا کہ جس شخص نے اپنے اس عمل میں کہ جس کو اس نے اللہ کے لئے کیا تھا، اللہ کے سوا کسی اور کو شریک کیا ہو یعنی جس شخص نے دنیا میں ریاء کے طور پر کوئی نیک عمل کیا ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے اس عمل کا ثواب اسی غیر اللہ سے طلب کرے جس کو اس نے شریک کیا تھا کیونکہ اللہ تعالی شرک کے تئیں، تمام شریکوں سے نہایت زیادہ بے نیاز ہے۔ ( مسند احمد) لہذا اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر عمل میں اخلاص مطلوب ہے ۔ اور نمود ونمائش اخلاص کے منافی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کے عمل سے بری ہوجاتا ہے لہٰذا آخرت کے ثواب کا ضیاع بہت بڑے گھاٹے کا سودا ہے ۔ یہ کتنی عجیب بات ہوتی ہے کہ انسان اتنی رقم بھی خرچ کرے اور پھر محض دکھلاوے کی خاطر اس کے اخروی ثواب پر پانی پھیر لے۔ لہٰذا قربانی صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہونی چاہیئے وہیں اس میں کسی اور کو دکھلانے کی نیت نہ ہو تاکہ ہمارا ثواب واجر محفوظ رہ سکے ۔
 3: غرباء فقراء سےہمدردی و غمخواری اور عزیز واقارب پڑوسیوں سے تعلقات کی بہتری ۔
اللہ تعالیٰ نے اس جہاں رنگ وبو میں جتنی مخلوق پیدا فرمائی ہے اس میں جہاں دیگر چیزوں میں درجات رکھے ہیں وہیں مالی اور معاشی حالت میں بھی ہر ایک کو دوسرے سے مختلف رکھا ہوا ہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
 وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ
اور اللہ نے رزق (ودولت) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ (سورۃ النحل ۷۱ )
اس لئے بہت سے غریب ومسکین ایسے گھرانے ہوتے ہیں جنہیں پورے سال بھی گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا جو کہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ رب تعالیٰ نے غریبوں کو اس نعمت سے مستفید ہونے کیلئے یہ قربانی متعین فرمادی ۔ جبکہ دوسری جانب بعض رشتہ دار ایک دوسرے سے پورا برس نہیں مل پاتے یا ایک دوسرے کی کھانے پینے کی دعوت کرنے اور تعلقات میں بہتری میں سست روی کا شکار ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتِ قربانی ان تعلقات کا احیاء کرتی ہے ۔ چنانچہ فرمان باری جل وعلا ہے :
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ (الحج: 28)
اس میں سے تم بھی کھاؤ اور فقیر درماندہ کو بھی کھلاؤ۔
نیز فرمایا :
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرّ(الحج: 36)
 ’’تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ‘‘
اس لئے اہل علم نے قربانی کی تقسیم کے اس عمل کو مستحسن قرار دیا ہے کہ اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ۔ ایک حصہ اپنے لئے ، ایک قرابت داروں وہمسایوں کیلئے ، اور ایک فقراء ومساکین  کیلئے مختص کیا جائے ۔  
اس لئے سورہ حج کی آیت نمبر 36 کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں :’’ الْقَانِعَ کے ایک معنی سائل کے اور دوسرے معنی قناعت کرنے والے کے کیے گئے ہیں ، یعنی وہ سوال نہ کرے ۔ وَالْمُعْتَرَّ  کے معنی بعض نے بغیر سوال کے سامنے آنے والے کے کیے ہیں ۔ اور بعض نے قانع کے معنیٰ سائل اور معتر کے معنیٰ زائر یعنی ملاقاتی کے کیے ہیں ۔ بہر حال اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں ۔ ایک اپنے لیے ، دوسرا ملاقاتیوں اور رشتے داروں کے لیے اور تیسرا سائلین اور معاشرے کے ضرورت مند افراد کے لیے ۔ جس کی تائید میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے ، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ میں نے تمہیں (پہلے) تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرکے رکھنے سے منع کیا تھا لیکن اب تمہیں اجازت ہے کہ کھاؤ اور جو مناسب سمجھو ، ذخیرہ کرو ، ۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں ’’ پس کھاؤ ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو ‘‘ ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں ’’ پس کھاؤ ، کھلاؤ ، اور صدقہ کرو ‘‘
(صحیح بخاری کتاب الأضاحی ۔ صحیح مسلم ، کتاب الأضاحی ، باب بیان ماکان من النھی عن أکل لحوم الأضاحی بعد ثلاث ۔۔۔والسنن )  ( ملاحظہ ہو تفسیر احسن البیان ، صفحہ ۹۲۴ ۔مطبوعہ ملک فہد پرنٹنگ پریس)
4ـ سنتِ ابراہیمی کا احیاء :
 فرمان باری تعالیٰ ہے :
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ  (النحل: 123)
’’پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں،جو مشرکوں میں سے نہ تھے‘‘
ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کی ٹھان لی تھی اور اس پر عمل پیرا بھی ہوجانے لگے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا۔ جسے ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا۔ تو مسلمانوں کے قربانی کے عمل میں اس حنیفی سنت کا احیاء بھی ہوجاتاہے اور یہ درس بھی مل جاتاہے کہ اگر واقعی مومن ہوتو اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہوجاؤ ۔
5: صبر اور شکر کا درس :
صبر اس امر پر کہ اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا اس میں سے کچھ حصہ نکال کر اللہ کی راہ میں قربان کیا جا رہاہے یہ نیکی پر صبر ہے جس پر یقیناً مسلمان اجر کا مستحق ٹہرے گا ۔ اور شکر کا درس یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ ہم انہیں احاطہ شمار میں نہیں لاسکتے ۔ اور اس امر کا بھی شکر اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم نے اولاد کی قربانی نہیں مانگی جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام سے بطور آزمائش مانگی تھی ۔ اور اگر آج ہم سے مانگ لی جاتی تو ان نفسوں پر کتنا گراں گذرتا اپنے جگر گوشے قربان کرنا۔ اس لئے ہمیں شکر بجا لانا چاہئے کہ رب تعالیٰ نے اس کی جگہ جانوروں کی قربانی ہم سے طلب کی ہے ۔ اور پھر کثرت سے جانور پیدا بھی فرمادئے ہیں ۔ وللہ الحمد والشکر
6: قربانی میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کا اظہار بھی ہے ۔
 اورقربانی کا عمل بھی ان اعمال میں سے ہے کہ جن  احکامات کی بجا آوری پر اللہ تعالیٰ بندہ کو درجہ احسان پر فائز کرتاہے ۔ اور درجہ احسان پر فائز ہونے کی بنا پر بندہ پر جو انعامات کی بہار ہوتی ہے وہ بندہ کے تصور سے باہر ہے ۔
اس میں سب سے بڑا انعام دنیاوی واخروی مصائب سے خلاصی ہے :
امام قرطبی رحمہ اللہ فرمان باری جل وعلا ’’ انا کذلک نجزی المحسنین ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’ ہم انہیں دنیا وآخرت میں سختیوں سے نجات کی صورت میں بدلہ دیتے ہیں ‘‘۔  
(تفسیر القرطبی 15/106 بحوالہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ از ڈاکٹر فضل الٰہی ص 65)
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فضل الٰہی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ اپنے احکام پر عمل کرنے والے بندوں کی مصیبتوں ، دکھوں اور پریشانیوں کو دور کردیتے ہیں ‘‘
اس بارے میں قاضی ابوسعود لکھتے ہیں :’’تعليل لتفريج تلك القربة عنهما بإحسانهما ‘‘. ( فسير أبي سعود 7 / 210 ) بحوالہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ تفسیر ودروس )
ان دونوں ( یعنی ابراھیم واسماعیل علیہما السلام ) کے اس مصیبت سے خلاصی پانے کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ان دونوں کی حکمِ الٰہی کی بجا آوری تھی ۔
پھر فرماتے ہیں :’’یہ بات ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، بلکہ سنت الٰہیہ یہی ہے کہ وہ محسنین کو اسی طرح مصیبتوں اور پریشانیوں سے نجات دیتے ہیں ۔( حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا قصہ تفسیر ودروس ص ۶۵)
 7 : سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کیلئے تیار رہنا :
قربانی کے دروس میں ایک درس یہ بھی ہے کہ احکام الٰہیہ کی پابندی کرنے کیلئے اگر وطن ، اعزہ واقارب اور مال واسباب اور اولاد بھی قربان کرنی پڑے تو اس سے مومن کو دریغ نہیں کرنا چاہئے ۔ اور جو مومن اس امتحان میں سرخرو ہوجاتاہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام ہوگئے تھے ۔ تواللہ تعالیٰ دنیا وآخرت کی بیش بہا نعمتیں اس کیلئے جاری وساری فرمادیتے ہیں ۔ اب اگر ہم ابراہیم علیہ السلام کی سیرت اور کی زندگی کا سب سے نازک واقعہ ولمحہ کا جائزہ لیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا  جو ایک بڑے عرصے اور بہت سی دعاؤں کے بعد حاصل ہوا تھا جب ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اسے ذبح کردو تو انہوں نے کسی پس وپیش سے کام نہیں لیا ۔ بلکہ باپ نے جب بیٹے کے سامنے اپنے خواب کا ذکر فرمایا اور بیٹے کی رائے پوچھی تو بیٹا کہنے لگا :
’’ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ‘‘ (الصافات 102)
کہ اے میرے ابا جان ! جو حکم ملا ہے اسے کر گزریں ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے ‘‘۔
اقبال نے اس حوالے سے کیا خوب لکھا :
‏آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
8: قربانی میں تقویٰ کا درس ہے جو تمام نیکیوں کا خلاصہ اور نچوڑ ہے ۔
  یہ جانور جو ہم اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے شعائر کے اظہار کی علامت بھی ہیں ۔ اور تقویٰ وپرہیز گاری کا اعلیٰ مظہر بھی ہیں ۔
اور قربانی میں جتنا تقویٰ اور پرہیزگاری کا پہلو زیادہ ہوگا اتنا ہی انسان کو اجر وثواب بڑھ چڑھ کر ملے گا ۔ چنانچہ فرمان باری جل وعلا ہے :
لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنْكُمْ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ (الحج:37)
اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے اسی طرح اللہ نے جانوروں کو تمہارا مطیع کر دیا ہے کہ تم اس کی راہنمائی کے شکریئے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو، اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔
قربانی کی اصل کمائی اس تقویٰ کا حصول ہے لیکن کیا کریں دکھ اور افسوس کے سوا ہو بھی کیا سکتا ہے ۔
بقول حالی :
وہ علمِ دیں کدھر ہے وہ تقویٰ کہاں ہے اب
 تحریر کااختتام باری جل وعلا سے اس دعا پہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس امت مسلمہ صراط مستقیم کی جانب آنے کی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ ہماری ہر عبادت میں اخلاص ومتابعت رسول ﷺ بھر دے ۔
 اللهم ارزقنا الاخلاص في القول والعمل والله ولي التوفیق وآخر دعوانا ان الحمد لله رب اللعالمین

Read 1306 times
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(1 Vote)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in ستمبر 2015

Related items

  • حج کے بعد
    in ستمبر 2019
  • قربانی کا جانور نصیحت آور .....!
    in اگست 2019
  • ذبح کے احکام و آداب
    in اگست 2019
  • سیرت جد الانبیاء علیہ السلام اور فلسفہ قربانی
    in اگست 2019
  • قرآن وحدیث کی روشنی میں قربانی کا مفہوم ،فضیلت ،احکام ومسائل
    in اگست 2019
More in this category: « حج کی مختصر تاریخ فریضہ ٔحج اوراس کے ثمرات »
back to top

مضمون نگار

  • ڈاکٹر مقبول احمد مکی ڈاکٹر مقبول احمد مکی
  • الشیخ  محمد طاہر آصف الشیخ محمد طاہر آصف
  • عبدالرشید عراقی عبدالرشید عراقی
  • بنت محمد رضوان بنت محمد رضوان
  • الشیخ ابو نعمان بشیر احمد الشیخ ابو نعمان بشیر احمد
  • الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی
  • حبیب الرحمٰن یزدانی حبیب الرحمٰن یزدانی
  • خالد ظہیر خالد ظہیر
  • راحیل گوہر ایم اے راحیل گوہر ایم اے
  • عطاء محمد جنجوعہ عطاء محمد جنجوعہ
  • ڈاکٹر عبدالحی المدنی ڈاکٹر عبدالحی المدنی
  • مدثر بن ارشد لودھی مدثر بن ارشد لودھی
  • محمد شعیب مغل محمد شعیب مغل
  • الشیخ محمد شریف بن علی الشیخ محمد شریف بن علی
  • حافظ محمد یونس اثری حافظ محمد یونس اثری
  • الشیخ محمد یونس ربانی الشیخ محمد یونس ربانی

About Usvah e Hasanah

اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ماہنامہ تحقیقی، اصلاحی و دعوتی ماھنامہ مجلہ جس میں حالاتِ حاضرہ، کی مناسبت سے قرآن سنت کی روشنی میں مضامین اور تحقیقی مقالات شائع کئے جاتے ہیں

Contact us

ماھنامہ اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال بلاک 5،پوسٹ بکس نمبر11106، پوسٹ کوڈ نمبر75300 کراچی پاکستان

Phone: +92 0213 480 0471
Fax: +92 0213 4980877
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

facebook

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2015