دین اسلام کی تمام عبادات میں اللہ تعالی نے ایسے فوائد اور حکمتیں رکھی ہیں ۔ جن کاہمیں کما حقہ تمام زندگی میں ادراک نہیں ہوسکتا ہماری دنیاوی واخروی کامیابی کا راز صرف سی میں مضمر ہے کہ ہم ہر حال میں اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوں۔ ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم رکن بیت اللہ کا حج کرنا بھی ہے ارشاد رباني هے
وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ
صاحب حيثيت لوگوںپر بیت اللہ کا حج فرض ہے اور جو کوئی انکار کرے گا تواللہ تعالیٰ جہان والوں سے بے پروا ہے ۔(سورۃ آل عمران : 97)
ارشاد نبوی ﷺ ہے :
’’یقیناً اللہ کریم نے تم پر حج فرض کیا ہے لہذا تم حج کرو‘‘(صحیح مسلم شریف)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:
’’اے لوگو! تم پر حج فرضا کیا گیا ہے تم حج کرو ایک آدمی نے تین مرتبہ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہر سال فرض ہے؟ آپ ﷺ تین مرتبہ ہی خاموش رہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں ہاں کہتا تو ہر سال فرض ہوجاتا تو تم اس کی طاقت نہ رکھتے‘‘ (صحیح مسلم)
ابو داؤد میں ہے کہ ایک مرتبہ حج فرض ہے لیکن ایک سے زیادہ نفل ہے۔ حدیث قدسی میں یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایک بندے کو میں جسمانی صحت بخشوں اور مالی وسعت بخشوں پھر وہ چار سال بعد حج نہ کرے تو وہ محروم شخص ہے۔(معجم طبرانی ، صفحہ نمبر 300 ، مجمع الزوائد ج:3،صفحہ:306)
نبی کریم ﷺ سے سوال کیاگیا کہ کونسا عمل افضل ہے آپ نے فرمایا :’’اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانا کہاگیا اس کے بعد کونسا عمل؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کہا گیا اس کے بعد ؟ فرمایا حج مبرور ‘‘(بخاری)
حج مبرور سے مراد جو اللہ تعالی اور نبی کریمﷺ کی اطاعت میں ہو۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے حج کیا اس میں کوئی فحش کام اور کوئی برا کام نہ کیا تو وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک صاف ہوجاتا ہے جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا‘‘ (بخاری)
دوسری حدیث میں فرمایا:’’ حج ان تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے جو پہلے سے سرزد ہوگئے تھے‘‘(صحیح مسلم)
تیسری حدیث میں یوں ہے کہ:’’ ہر کمزور کا جہاد حج ہے یعنی حج کرنے سے جہاد کا ثواب ملتاہے‘‘(مسند احمد)
چوتھی حدیث میں ہے کہ :’’بوڑھے کمزور اور عورت کا جہاد حج اور عمرہ کرناہے‘‘(نسائی)
پانچویں حدیث میں یوں ہے کہ:’’ حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے‘‘(بخاری)
چھٹی حدیث میں ہے کہ :’’رمضان المبارک میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ‘‘ (صحیح بخاری)
مسند احمد میں ہے کہ:’’ فریضہ حج کی ادائیگی میں جلدی کرو اس لیے کہ تم میں سے کوئی شخص نہیں جانتا کہ اسے کب کوئی بیماری یا شدید ضرورت اسے روک لے ‘‘ یادرہے کہ جمہور علماء کے نزدیک 9 ہجری میں حج فرض ہوا۔ ارشاد نبویﷺ ہے صاحب استطاعت بغیر شرعی عذر کے حج کیے بغیر مر جائے تو وہ خواہ یہودی ہوکر مرے خواہ عیسائی ہوکر مرے۔باقی عبادات کی طرح حج کا بنیادی مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ انسان کی زندگی میں حج کی ادائیگی کے بعد روحانی اور عملی طور پر انقلاب پیدا ہو حاجی عام لوگوں کی نسبت اعمال صالح میں حریص ہو اور گناہوں سے اپنے دامن محفوظ رکھے۔ سفر حج کا مقصد سیر وسیاحت نہیں ،ریاکاری دکھاوا نہیں، تجارت نہیں صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کی رضا جوئی ہے۔ حج کیا ہے؟ دیوانہ وار،اطاعت وفرمانبرداری کا نمونہ، خلوص ومحبت، تسلیم ورضا، وطن سے بے وطن ہونے کا اسی طرح مظاہرہ ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے لخت جگر سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور ان کی فرمانبردار اہلیہ سیدہ ہاجرہ علیہا السلام نے کیا تھا۔ حج بیت اللہ کا پہلا اور ابتدائی سبق بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کا ہر عمل صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہوجائے۔ ان کا سفر ،ان کی محبت ، ان کا مال خرچ کرنا، ان کی زندگیوں اور معاملات کا رخ سب کا سب اللہ کریم کی طرف ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہو، کوئی طاغوت، کوئی طاغوتی طاقت ان کا مقصود نہ ہو۔ دنیا ان کا مطلوب ومقصود نہ ہو۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (سورۃ الانعام : 162)
’’کہو! میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے ‘‘
نبی کریم ﷺ کا ترمذی شریف میں ارشاد گرامی ہے :
’’حج وعمرہ ،فقیری ، محتاجی اور گناہوں کی سیاہی کو دور کر دیتے ہیں۔ جس طرح بھٹی لوہے ،سونے اور چاندی کی ملاوٹ اور میل کچیل کو دور کر دیتی ہے‘‘ (الترغیب والترہیب ج:1،ص:180 میں ارشاد گرامی ہے کہ یعنی حج وعمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں وہ جو سوال کریں اللہ عطا کرتا ہے جو دعا کریں اللہ تعالیٰ سنتا اور قبول فرماتاہے اور حاجی جو خرچ کریں اللہ کریم ایک درہم کے بدلے دس درہم عطا فرماتے ہیں ۔ حج یا عمرہ کیلئے جانے والے شخص سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا :
’’پیارے چھوٹے بھائی! اپنی دعا میں مجھے نہ بھولنا‘‘(بخاری)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’کہ ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے درمیان کے گناہوں کو مٹا دیتاہے‘‘(ترمذی)
یادرکھیں ! حج کے موقع پر دنیا بھر سے آئے ہوئے امت مسلمہ کے افراد ایک لباس، ایک زبان ، ایک جگہ ، ایک مرکز اسلام میں ایک اللہ تعالیٰ کو ہی ان الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ پکارتے ہیں۔
’’حاضرہوں اے اللہ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں یقیناً شکر وتعریف تیر ے ہی لیے ہے نعمتیں سب تیری ہیں اور فرمانبرداری بھی تیری ہے تیرا کوئی شریک نہیں‘‘(بخاری)
یہ لبیک دراصل اللہ تعالیٰ کی پکار کا جواب ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر مکمل کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حج کا اعلان کرنے کا حکم دیا۔
وَاَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ (حج:27)
’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذان عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دروازہ قیام،مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں‘‘
اس ندائے ابراہیمی کے جواب میں ہر طرف سے لبیک لبیک کی صدا بلند ہونے لگتی ہے تو ایسا روح پرورماحول بن جاتاہے کہ شجر وحجر بھی گویا اس صدا کو بلند کرنے میں۔ ہمنواہیں جیسا کہ حدیث میں مروی ہے سیدنا سہل بن سعدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی مسلمان لبیک کہتاتو اس کے دائیں اور بائیں جس قدر پتھر درخت اور ڈھیلے ہوتے ہیں وہ بھی لبیک کہنے لگتے ہیں یہاں تک کہ زمین کا پورا خطہ لبیک کی صدا سے گونج اٹھتا ہے۔ بیت اللہ شریف دراصل توحید وسنت کا مرکز ہے یہاں پہنچ کر شرک وبدعات اور رسوم کے خاتمے کا سبق ملتاہے۔ جیسا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت فرمایا تھا۔
’’اے حجراسود میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے رسول اللہ کو نہ دیکھا ہوتا کہ تجھ کو بوسہ دیتے ہوئے تو میں تجھ کو ہرگز بوسہ نہ دیتا‘‘(بخاری ومسلم)
توحید کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی عبادت کے لائق ہے خواہ وہ عبادت قولی یا فعلی اس کی ذات وصفات میں اس کے حقوق واختیارات میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ۔
قسمتیں بنانا اور بگاڑنا تنہا اسی کاکام ہے وہی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتاہے۔ اور اسی کو مدد کے لیے پکارنا برحق ہے۔ حکم دینا اور قانون بنانے کا اختیار بھی اسی کو ہے اس کا ہر حکم اور قانون ہمارے لیے واجب التسلیم ہے بندگی اسی کی ہونی چاہیے جو کسی کا محتاج نہیں تمام مخلوقات اس اکیلی ذات کی ہی محتاج ہیں اگر حجاج نے فلسفہ توحید کو مرکز اسلام سے حاصل کرکے اس پر پوری زندگی کاربند رہے تو پھر یقیناً ایسے حجاج نے اپنی اپنی منزل کو حاصل کر لیا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قسمت میں بھی یہ عظیم سعادت نصیب کرے ۔ آمین
ٌٌٌ.........
بقیہ: تبصرئہ کتب
جن میں سولہ ذرائع : تقریر،تصنیف،پمفلٹ اور بروشر،ریڈیائی نشریات، ٹی۔وی چینلز ،رسائل وجرائد ،درس اور لیکچر دینا،کانفرنس ، سیمینار اور ورکشاپ کا انعقاد ،آڈیو ویڈیو کیسٹس، چارٹ اورپینافلیکس،بحث ومباحثہ اور مناظرہ،مباہلہ ، انٹرنیٹ، ڈرامہ اسٹیج کرنا اور تصویر کے استعمال پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔
اس کتاب کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں :
۱۔ اردو زبان میں پہلی مرتبہ موضوعِ دعوت کے جملہ مباحث کا احاطہ ۔
۲۔علمی مواد بنیادی مصادر ومراجع سے لیا گیاہے ۔
۳۔ اس موضوع پر تحقیق کے دوران شرعی نصوص سے راہنمائی لی گئی ہے۔
۴۔ بیان کردہ ہر اصول کے لیے عملی مثالیں ذکر کرنے پر زور دیاگیاہے تاکہ مدعا ومقصود بھی واضح ہوجائے اور اصول وضوابط بھی مدلل ہوجائیں۔
۵۔ کتاب کا اسلوب عام فہم اور پیچیدگی سے بالاتر ہےتاکہ مضمون کو سمجھنا،سمجھانا اور عملی طور پر اپنانا آسان ہو۔
۶۔ احادیث وآثار کی تخریج میں صحت واستناد کا لحاظ رکھا گیاہے۔
۷۔ موضوع سے ہم آہنگ اور دیدہ زیب سرورق۔
الغرض صاحب کتاب نے اصول دعوت کو مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس میں راہ اعتدال پر رہتے ہوئے منہج سلف کو ترجیح دی ہے۔
اس عظیم الشان علمی خدمت پر مصنف ومترجم مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مترجم کو صحت وایمان والی زندگی عطا فرمائے تاکہ وہ شائقین مطالعہ کے لیے ایسے ہی گوہر ہائے تاباں کو منصہ شہود پر لاتے رہیں۔ آمین
ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد