جس میں آپﷺ نے اسلامی قواعد بیان فرمائے اورشرک وجہالت کے رسم ورواج کومٹادیااس خطبے کے الفاظ اس طرح ہیں :

((الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونتوب الیہ ونعوذ بہ من شرور انفسنا ومن سیاٰ  ت اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ .واشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ واوصیکم عباداللہ !بتقوٰی اللہ واوصیکم علٰی طاعتہٖ واستفتح بالذی ھو خیر .ایھا الناس اسمعوا قولی فانی لا ادری لعلی لا القٰکم بعد عامی ھذٰا بھٰذا الموقف ابدا! ایھاالناس !ان دماء کم واموالکم علیکم حرام الی ان تلقواربکم کحرمۃ یومکم ھٰذا وکحرمۃ  شھر کم ھٰذا وانکم ستلقون بکم فیسألکم عن اعمالکم . وقد بلغت فمن کانت عندہ امانۃ فلیؤدھا الی من ائتمنہ علیھا وان کل ربا موضوع ولکن لکم رؤس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون.قضی اللہ انہ لا ربا وان ربا عباس ابن عبد المطلب موضوع کلہ وان اول دمائکم اضع دم ابن ربیعۃ ابن الحارث بن عبد المطلب وکان مسترضعا فی بنی لیث فقتلہ ھذیل .فھو اول ماابدأبہ من دماء الجاھلیۃ.
امابعد!ایھاالناس!فان الشیطان قدیئس من ان یعبد بارضکم ھٰذہ ابداولکنہ ان یطع فیما سوٰی ذلک فقد رضی بہ مما تحقرون من اعمالکم فاحذرورہ علی دینکم . ایھاالناس !ان النسئ زیادۃ فی الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلونہ عاما ویحرمونہ عاما لیواطؤا عدۃ ما حرم اللہ ویحرموا مااحل اللہ .وان الزمان قد استدار کھیئتہ یوم خلق السمٰوٰت والارض وان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھرامنھا اربعۃ حرم ثلاثۃ متوالیات ورجب مضر الذی بین جمادی الثانی وشعبان اما بعدایھا الناس!فان لکم علی نسائکم حقاولھن علیکم حقا لکم علیھن ان لا یوطئن فرشکم احدا تکرھونہ علیھن ان لا یاتین بفاحشۃ مبینۃ فان فعلن فان اللہ قد اذن لکم ان تھجروھن فی المضاجع وتضربوھن ضربا غیر مبرج فان انتیھن فلھن رزقھن وکسوتھن بالمعروف واستوصوا بالنساء خیرافانھن عندکم عوان لایملکن لا نفسھن شیئاوانکم انما اخذتموھن بامانۃ اللہ و استحللتم فروجھن  بکلمٰت اللہ فاعقلوا .ایھا الناس قولی فانی قدبلغت وقد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہٖ فلن تضلواابدا امرا بینا کتاب اللہ وسنۃ نبیہٖ.
ایھاالناس!اسمعواقولی واعقلوہ.تعلمن ان کل مسلم اخ للمسلم وأن المسلمین اخوۃ فلا یحد لامرئ من اخیہ الا ما اعطاہ عن طیب نفس منہ فلا تظلمن انفسکم .اللھم ھل بلغت ؟ قالوا اللھم نعم! فقال رسول اللہ ﷺ اللھم اشھد.(سیرت ابن ھشام)

”تمام تعریفات اللہ کیلئے ہیں ہم اس کی تعریف کرتے ہیں ا و را سی سے مدد طلب کرتے ہیں اوربخشش مانگتے ہیں اوراسی کی طرف لوٹتے ہیں اوراسی کی پناہ مانگتےہیں اپنے نفس کی برائیوں اوربرے اعمال سے جسکو وہ ہدایت دے اسکوکوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسکووہ گمراہ کرے اسکوکوئی ہدایت دینے والا نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اورگواہی دیتاہوں کہ محمد ﷺاسکے بندے اوررسول ہیں ۔اے اللہ کے بندو!میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتاہوں اوراس کی اطاعت کرنے کی نصیحت کرتاہوں اوراپنا مضمون نصیحت سے شروع کرتاہوں ۔اے انسانو!میری بات سنو!اس لیےکہ شاید اس سال کے بعد دوبارہ کبھی بھی میں اس مقام پرتم سے نہ مل سکوں اے لوگو!تمہاراخون اورمال ایک دوسرے پر حرام ہیں یہاں تک کہ فوت ہوکر اپنے رب سے جاملو اس دن اور اس ماہ کی حرمت کی طرح (حرمت والے چار ماہ ہیں جن کا آگے تذکرہ آرہا ہے ) اور تم جلدہی اپنے رب سے ملوگے ۔وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں  سوال کریگامیں تمہیں اسکا پیغام پہنچا چکاہوں ،لہٰذا جس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو وہ اس تک پہنچادے اور ہر سود (جوآج سے پہلے لوگوں کی طرف باقی ہے )وہ ختم ہے ( کوئی بھی نہیں لے سکتا) لیکن تمہارے لیے تمہارے مال کی اصل ہے(جوقرض کی اصل رقم ہے) نہ کسی کے ساتھ ظلم کرو نہ تمہارے ساتھ کیا جائے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہے کہ سود ہے ہی نہیں اورعبدالمطلب کے بیٹے عباس   (آپ ﷺکے چچا ؄ کا لوگوں کی طرف باقی)تما م سود ختم ہے ۔
(آپ ﷺ نے حکم کی تعمیل کاآغاز اپنے خاندان سے کیا یہی طریقہ اگرآج کے حکمران اختیار کریں تومطلق العنانی اورقانون شکنی یا طوائف الملوکی ،کی مصیبت کا خاتمہ ہوجائے صدق سبحانہ وتعالیٰ: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فی رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:21) ”(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔“)اسلام سے قبل دورجاہلیت کے خون کے بارے میں تمام دعویٰ ختم ہیں۔سب سےپہلےمیںربیعہ بن الحارث بن عبدالمطلب جو بنی لیث کارضائی بھائی تھا اوراسے ہذیل نے قتل کیا تھا ، (علماء انساب کا کہنا ہے کہ وہ بچہ تھا اورگھرکے سامنے حالت احتباء میں یعنی گوٹ مارکر بیٹھا ہواتھا کہ اسکوبنی ہذیل میں سے کسی کا پتھر یا تیر آکر لگااوروہ مرگیا اس کا نام آدم تھا بعض نے کہاکہ اس کانام ایاس بن ربیعہ تھااوربعض نے کہا کہ حارث تھا)اس کے خون کے دعوے کوختم کرتاہوں اور جاہلیت کے خونوں میں سے یہ پہلا خون ہے جسکو میں ختم کررہا ہوں۔اے انسانو!شیطان اب اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ تمہاری اس سرزمین میں اسکی اطاعت ہواوروہ اتنے میں راضی ہے کہ (اس کے کہنے کے مطابق)تم اعمال کو ہلکا اورحقیر سمجھو لہٰذا اپنے دین کے بارے میں اس سے خبردار رہو۔
اےانسانو!(حرمت والے مہینوںکو)آگے پیچھے کرناکفر میں آگے بڑھنا ہے ۔ کفار اس طرح گمراہ کیئے جاتے ہیں کہ (ایک ماہ کو ) ایک سال حلال کرتے ہیں اور(اسی ماہ کو)دوسرے سال حرام کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ تمام مہینوںuکی گنتی پوری کرنی چاہیئے اس طرح اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کوحلال اورحلال کردہ کوحرام کرتے ہیں بے شک زمانہ پہلے کی طرح اپنی اصل حالت میں گھوم رہاہے جس دن سے اللہ تعالیٰ نے آسمان اورزمین کوبنایا ہے اوراللہ تعالیٰ کے پاس مہینوں کی تعداد بارہ ہے ان میں سے چار حرمت والے ہیں (یعنی ان میں لڑائی( جنگ )حرام ہے )تین مسلسل (ذی القعد،ذی الحج اورمحرم )اور (چوتھا) رجب جو کہ جمادی الثانی اورشعبان کے درمیان میں ہے  اس کے بعد اے انسانو! تمہارے تمہاری بیویوں پرحقوق ہیں اورانکے حقوق تم پر ہیں تمہارا ان پر حق ہے کہ وہ تمہارے بستروں پرکسی اورکونہ آنے دیں اور نہ کھلی بے حیائی کا کوئی کام کریں اوراگر کریں تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ ان سے بستر الگ کرو اوران کو سزا دولیکن حد سے زیادہ نہیں اور اگر وہ باز آجائیں توان کوکھانا اور لباس نیکی کے ساتھ ان کا حق ہے اور عورتوں کے بارے میں مجھ سے اچھے رویے کی وصیت حاصل کرو کیونکہ وہ تمہارے پاس (عمرگزارنے کی وجہ سے )آدھی عمر کو پہنچ چکی ہیں اس وقت وہ اپنے لیےکوئی اختیار نہیں رکھتیں اورتم نے انہیں اللہ تعالیٰ کی امانت کے ساتھ حاصل کیاہے ۔ (یعنی شرعی نکاح کے ساتھ لہٰذا یہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہی کہلائے گی)اور اللہ تعالیٰ کے کلمات کے ساتھ اپنے لیےحلال کیاہے ،اے انسانو!میری بات سمجھو تم تک (اللہ تعالیٰ کا پیغام )پہنچاچکا ہوں اورتم میں واضح حکم چھوڑکرجارہا ہوں اگر تم نے اسکومضبوطی سے تھام لیا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن)اوراسکے نبی(ﷺ)کی سنت (حدیث) اے لوگو!میری بات سنو اور سمجھو مسلمان پورے کا پورا دوسرے مسلمان کابھائی ہے اور سب کے سب مسلمان بھائی بھائی ہیں ۔پس اس کیلئے دوسرے بھائی کی کوئی بھی چیز حلال نہیں ہے ،مگر جو چیز وہ خوشی کے ساتھ اسکودے لہٰذا اپنے آپ کے ساتھ ظلم نہ کرنا۔uیااللہ !میں نے تیراپیغام پہنچادیا۔ سب نے کہاکہ یااللہ !ہاں (واقعتاً آپ  ﷺ نے پہنچادیا)آپ ﷺ نے فرمایا یااللہ !تو (ان کے اقرار پر ) گواہ رہنا۔“
امام المغازی محمد بن اسحاق نے یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں کہ عمروبن خارجہ کہتے ہیں کہ مجھے عتاب بن اسید نے بھیجا (خطبہ سننے کیلئے) میں پہنچا اورآپﷺ کی اونٹنی کے نیچے کھڑاہوگیا ،جس کو لعاب میرے سرپر بہہ رہاتھا اورمیں نے آپﷺ کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا:

((ایھاالناس !ان اللہ قد ادٰی الی ذی حق حقہ وانہ لا تجوز وصیۃ لوارث والولدللفراش وللعاھر الحجر ومن  ادعٰی الی غیر ابیہ اوتولٰی غیر ابیہ اوتولی غیر موالیہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ منہ صرفا ولا عدلا))

”اے انسانو!اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کاحق دینے کاحکم دیاہے اوروارث (جسکوترکہ میں سے حصہ ملتا ہے )کیلئے وصیت جائزنہیں ہے اوربچہ بستر کاہے ( جس کے گھر میںپیداہواہے)اور زانی کیلئے پتھر (رجم ہونا)ہے (اس کا دعویٰ غلط ہے)جس نے اپنی نسبت اپنے والد کے علاوہ غیرکی طرف کی (جیساکہ وارثت سے حصہ لینے کیلئے لوگ جھوٹ بولتے ہیں ) یادوسروں کے غلاموں کو ناجائز طورپر اپنا بنایا تو اس پراللہ تعالیٰ اوراسکے فرشتوں اورتمام لوگوں کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے کوئی بدلا یا فدیہ قبول نہیں کریگا۔“
پھر آپﷺ نے لوگوں سے سوال کیاکہ قیامت کے دن تم سے پوچھا جائیگا پھرکیا کہوگے؟ لوگوں نے کہا کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیااورپورااداکردیااورپوری طرح امت کے ساتھ خیرخواہی کی آپ ﷺ  نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھاکر اسکو گھماتے ہوئےاشارہ کیا اورتین مرتبہ فرمایاکہ :((اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ !)) (حجۃ النبی للالبانی :ص 71تا73)” یا اللہ تو گواہ رہنا ۔“
اورآپﷺ نے لوگوں کوحکم دیاکہ جس جس نے بالمشافہ مجھ سے یہ پیغام سنا ہے وہ دوسروں تک پہنچاتارہے۔اس وقت ام الفضل بنت الحارث الھلالی یعنی عبداللہ بن عباس ؄ کی والدہ نے آپ ﷺکی طرف دودھ کا پیالہ بھیجا ۔ آپﷺ نے وہ سواری پرہی لوگوں کے سامنے نوش فرمایا اس وقت سب کو یقین ہوگیاکہ آپﷺ کا اس دن روزہ نہیں تھا نیزآپﷺ نے اس دن عرفات میں روزہ رکھنے سے منع فرمایاہے۔
(ابوداؤد:2419،ابن ماجہ:124القیام باب صیام یوم عرفہ )

ٌٌٌ………

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے