Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

دِلوں کا فتنہ

Written by مدثر بن ارشد لودھی 25 Oct,2015
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

heart thronانسانی دل اللہ تعالی کاعظیم ترین تحفہ ہے،جسمانی و روحانی زندگی کے دونوں پہلوؤں میں دل کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ،زندگی کے ہر دو پہلو کا مدار اسی پر ہے ، اگر یہ صحتمند ہے تو جسم بھی توانا اور روح بھی شاداب اور اگر یہ بیمار ہوجائے تو جسم بھی بیمار اور روح بھی کمزور ہوجاتی ہے اگر یہ میلا ہوجائے تو روح میلی ہوجاتی ہے اور جسم اپنے آقا کا باغی بن جاتا ہے،اور اگر یہ اجلا اور نکھرا ہو تو روح بھی صافی اور جسم بھی اپنے مالک کا تابعدار رہتا ہے، اس پر زنگ چڑھ جائے تو ظاہری اعمال و افعال صالحہ سست پڑجاتے ہیں،اور اگر اس پر ایمان کا رنگ چڑھ جائے تو کردار و گفتار ظاہری پر شریعت کا رنگ غالب نظر آتا ہے،اس میں کجی آجائے تو عقل و فہم اور قول و فعل میں کجی آجاتی ہے ،اور اگر یہ سیدھا رہے تو فکر و عمل بھی سیدھے رہتے ہیں۔
انسانی زندگی میں دل کی اسی اہمیت کے پیش نظر رسول ﷺ نے فرمایا:
أَلاَ وَإِنَّ فِى الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلاَ وَهِىَ الْقَلْبُ
(ترجمہ)غور سے سنو ،انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے،اگر وہ صحیح ہو تو پورا جسم درست ،اور اگر وہ خراب ہو تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے،یاد رکھو،وہ دل ہے۔(بخاری:52)
یعنی دل کی اصلاح پر جسم کی اصلاح موقوف ہے اس معنی میں کہ اگر دل کی جملہ صفات(جو آگے آرہی ہیں)صحیح و درست ہوں تو جسم یعنی ظاہری اعضاء کی جملہ صفات (جنکی طرف آئندہ سطور میں اشارہ کیا گیا ہے) بھی صحیح و درست ہوجائیں گی اور اگر دل میں مذموم صفات جگہ بنالیں تو ظاہری اعضاء کی صفات بھی بگڑجاتی ہیں لہٰذا ظاہر کی اصلاح سے پہلے باطن کی اصلاح ضروری ہے اسکے بغیر ظاہر کی اصلاح ناممکن ہے ،بالفاظ دیگر تمام انسانی افعال و اقوال ، حرکات و سکنات ، عادات و صفات کی خوبی و خامی کی بنیاد اسکا دل ہے ، جو دل اسکے عزائم و ارادوں کا مرکز ہے ، اور عزائم و ارادے (نیّات)اسکے اقوال و افعال وغیرہ کے اچھے یا برے ہونےاور اسکے اقوال و افعال اسکے انجام کا فیصلہ کرتے ہیں ، نبی ﷺ کا درج ذیل فرمان اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے ارشادفرمایا:
إنما الأعمال بالنيات ، وإنما لكل امرئ ما نوى ، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
(ترجمہ)اعمال،نیتوں کے مطابق ہوتے ہیں،اور ہر شخص کو اسکی نیت کے مطابق ہی ملتا ہے،جسکی ہجرت(اسکی نیت کے مطابق) اللہ اور اسکے رسول کے لئے ہو،تو واقعی اسکی ہجرت اللہ اور اسکے رسول کے لئے ہے،اور جسکی ہجرت(اسکی نیت کے مطابق)دنیا ،یا کسی عورت کو پالینے کی خاطر ہو،تو اسکی ہجرت اسی لئے ہی ہے۔(بخاری:01)
یعنی انسان کا باطن اسکے ظاہر کا فیصلہ کرتا ہے اسی لئے اللہ تعالی بھی دنیا و آخرت ہر دو جہاں میں اسکی حیثیت کے تعین کے لئے اسکی دلی کیفیات و حالات کو بنیاد بناتا ہے ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللّٰهَ لاَ يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ(مسلم:6708)
(ترجمہ)اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور اموال کو نہیں دیکھتا ،بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔
یعنی ظاہری شکل و صورت اس قابل نہیں کہ وہ اعمال کو اللہ کے ہاں شرف قبولیت عطا کرواسکیں،یہ اعزا ز،ایمان اور عمل کرتے وقت کی باطنی کیفیات (نیات)اورطریقہ کار(کہ ادائیگی عمل کا طریقہ شریعت الہیہ کے مطابق ہے یا نہیں) کو حاصل ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آَمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آَمِنُونَ
(ترجمہ)تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اس قابل نہیں کہ تمہیں ہمارا مقرب بنادیں،مگر جو ایمان لانے کے بعد عمل صالح کرے تو ان کے لئے ان کے اعمال کادوگنا اجر ہے، اور وہ بالاخانوں میں امن سے رہیں گے۔ (سبا:37)
قلب انسانی اسکے جسم کا امیر اور اسکے عقائد و نظریات کا محافظ ہے،رسالت الہیہ کے نزول کا مرکز بھی دل ،جبکہ وساوس شیطانیہ کے القاء کا مرکز،خیر و صلاح کی جائے پیدائش بھی دل ،جبکہ فتنوں کی آماجگاہ بھی دل ہے،دل کی اپنی ہی دنیاہے،یہ ایک قلعے کی مانند ہے، جس میں ہدایات ربانیہ” شاہ“،ایمان ”سپہ سالار“،تقوی اسکی” ڈھال“ اور صفات حسنہ و اعمال صالحہ” تلوار“،اور صفات سیئہ و برے اعمال” سازشی عناصر “ہیں، جس پر ہر لمحہ شیطانی حملے جاری رہتے ہیں،ہر نوع کے فتنے اس پر یلغار کئے رہتے ہیں،جبکہ سازشی عناصر ایمان کو کمزور کرنے میں لگے رہتے ہیں،اگردل میں ایمان اور نور ہو تو وہ ان کا مقابلہ کرلیتا ہے،اور یہ نور ایمانی سے محروم ہو تو ان حملوں کے آگے ڈھیر ہوجاتا ہے، چنانچہ نبی ﷺنے فرمایا:
تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوبِ كَالْحَصِيرِ عُودًا عُودًا فَأَىُّ قَلْبٍ أُشْرِبَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ وَأَىُّ قَلْبٍ أَنْكَرَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ بَيْضَاءُ حَتَّى تَصِيرَ عَلَى قَلْبَيْنِ عَلَى أَبْيَضَ مِثْلِ الصَّفَا فَلاَ تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتِ السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ وَالآخَرُ أَسْوَدُ مُرْبَادًّا كَالْكُوزِ مُجَخِّيًا لاَ يَعْرِفُ مَعْرُوفًا وَلاَ يُنْكِرُ مُنْكَرًا إِلاَّ مَا أُشْرِبَ مِنْ هَوَاهُ
(ترجمہ)فتنے دلوں پر اسطرح پیش کئے جاتے ہیں جس طرح چٹائی ایک ایک تیلی سے ملکر بنتی ہے،پس جو دل انہیں قبول کرلے اس میں کالا دھبہ لگادیا جاتا ہے،اور جو دل اسے قبول کرنے سے انکار کردے اس پر سفید نشان لگادیا جاتا ہے،آخر کار وہ دل دو قسموں میں منقسم ہو جاتے ہیں،ایک چکنے پتھر کی مانند سفید،اسے زمین و آسمان کے قائم رہنے تک کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا،دوسراپلٹے ہوئے سیاہ گڑھے کی مانندجس میں بہت ہی معمولی سفیدی ہو، یہ دل نہ معروف کو پہچانتا ہے نہ منکر کا انکار کرتا ہے،صرف اپنی خواہش پر چلتا ہے۔(مسلم:386)
اس حدیث میں فتنہ زدہ دل کو ایسے مٹکے سے تشبیہ دی گئی جو زمین پر منہ کے بل رکھا گیا ہو ،اوراپنی پختگی اور پکے ہونے کے سبب سیاہ ہوچکا ہو ،یعنی اس میں کہیں سے کوئی خیر داخل نہیں ہوسکتی ،نہ منہ سے کہ وہ زمین کے بل رکھا ہے،نہ اوپر سے کہ وہ نہایت پختا ہے،اور اگر کچھ داخل ہو بھی جائے تو ٹک نہیں سکتی ،کیونکہ وہ الٹا رکھا ہے۔
چنانچہ دنیا و آخرت دونوں میں فوز و فلاح کے لئےضروری ہے کہ انسان کا دل منیب و سلیم ہو،یعنی اپنے رب سے جڑا رہے اور شیطانی حملوں اور فتنوں سے محفوظ ہو، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ
نیز فرمایا:متقین کے لئے جنت کو دوری کے بغیر قریب کیا جائے گاماسی کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے،یعنی ہر اس شخص سے جو بہت رجوع کرنے اور حفاظت کرنے والا ہو،جو جو رحمن سے غائبانہ ڈرتا ہو،اور قلب منیب لے کر آئے۔(ق:31-32-33)
نیز فرمایا:
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ  إِلَّا مَنْ أَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
(ترجمہ)اس روز نہ مال کام آئے گا نہ ہی بیٹے،مگر جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے۔(الشعراء:88-89)
مال و اولاد جو دنیا میں اسکے لئے فخر اور اسکی زندگی کی خوشخالی کا باعث تھے آخرت میں یہ اسکے کسی کام نہ آئیں گے ، الا یہ کہ وہ دنیا میں قلب سلیم کا مالک ہو اور تاحیات اس وصف سے متصف رہا ہو اور موت کے وقت بھی اسکا دل ”سلیم “ ہو ، دل کے سلیم ہونے کی حقیقت کے متعلق امام ابن قیم نے کہا:
(ترجمہ)قلب سلیم وہ ہے جو رب اور اسکے احکامات کے تابع ہو،جس میں اسکے احکامات کی خلاف ورزی(کا خیال) نہ ہو،نہ اس میں اسکے بیان کردہ خبروں سے اختلاف ہو،وہ ہر غیر اللہ اور اسکے احکامات سے سالم ہو،صرف اللہ ہی کوچاہتا ہو،اسی کا حکم مانتا ہو،صرف اللہ وحدہ اسکا مقصودہو،جبکہ اسکا حکم و قانون اسکا وطیرہ وسلیقہ ہو،اسکے اور اللہ کے احکام کی تصدیق کے درمیان کوئی شک حائل نہ ہو،ہاں،اس پر جو بھی شبہہ وارد ہووہ اس پر سے یونہی گذر جائے،اسے معلوم ہو کہ وہ(یعنی شبہہ) اس دل میں ٹک نہیں سکے گا،نہ ہی کوئی خواہش اس دل اور اللہ کی پسند پر چلنے میں رکاوٹ بنے،اس قسم کا دل شرک و بدعت ،سرکشی و باطل سے پاک ہوتا ہے۔
نیز فرمایا:
(ترجمہ)قلب سلیم کی حقیقت یہ کہ وہ حیا کرتے ہوئے، ڈرتے ہوئے،طمع و امید رکھتے ہوئے،اپنے آقا کی غلامی قبول کرلے،اسکے سوا ہر ایک کی محبت سے بے نیاز ہوکر صرف اسی کی محبت میں چُور ہو،ہر ایک سے مایوس ہو کر صرف اسی سے آس لگائے،دل سے سچ مان کر اسکے اور اسکے رسول ﷺکے حکم کی اطاعت کرے،اسکا ہر فیصلہ مان لے،نہ اس پر ملامت کرے نہ اختلاف،نہ ہی اسکے فیصلوں پر برا منائے،جھک کر، گڑگڑاکر،گر کر،غلام بن کر اپنے مالک کے حکم کی تابعداری کرے،اپنے تمام احوال و اقوال ظاہریہ و باطنیہ کو اسکے رسول ﷺکی شریعت پر پیش کرے،اوراس شریعت کے مخالف آنے والی ہربات کو مسترد کردے،جوشریعت کے مطابق ہو مان لے،جو مخالف ہو چھوڑ دے، اور جسکا موافق یا مخالف ہونا واضح نہ ہو اس میں توقف کرے اور اسکے واضح ہونے کی امید رکھے،اور اسکے اولیاء اور اسکے فلاح یافتہ گروہ سے صلح رکھے کہ جو اسکے دین اور اسکے نبیﷺ کی سنت کا دفاع کرتے اور اسے غالب کرتے ہوں،اور اسکے دشمنوں سے دشمنی رکھے کہ جو اسکی کتاب اور اسکے نبی ﷺکی سنت کی مخالفت کرتے اور اور انکی مخالفت کی طرف بلاتے ہوں۔(مفتاح دار السعادۃ،1/41-42)
دل کی یہ اہمیت اس لئے ہے کہ” دل“ انسان کو درپیش اکثر حالات و کیفیات اور ان کی وجوہات کا مرکز ہے،ایمان، نفاق،اسلام ،کفر،وحی الہی،وسوسہ شیطانی،عزم وارادہ، قساوت و غلاظت،رافت و لطافت،محبت،الفت و چاہت،  نفرت،بغض و عناد،،رشک و فخر،حسد وکینہ،عقل و ادراک، فہم و فراست،سکون و اطمینان ،بدسکونی و بے اطمینانی،حلاوت ایمانی،لذت نافرمانی،خوف و امید، یاس و حسرت،عجز و کبر ،حق و باطل کی معرفت ،تسلیم و انکار، نیکی و گناہ کی معرفت و تمیزوغیرہ ان سب کا محل انسانی دل ہے،دل حاکم اور باقی اعضاء اسکے تابع اور محکوم ہیں۔
ایمان کامحل وجود:
سلف صالحین کے موقف کے مطابق ”ایمان“ایک وصف ہے،جسکا اطلاق قول و عمل دونوں پر ہوتا ہے ،لہذا ایمان قول و عمل کانام ہے،اسکا محل وجود ”دل“جبکہ اسکا محل اظہار اعضاء ظاہری ہیں،مثلاً،زبان ،ہاتھ،پیر، آنکھ، کان وغیرہ،چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللّٰهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ(الحجرات :07)
یقین رکھو کہ تم میں اللہ کا رسول ہے،اگر وہ بہت سے امور میں تمہاری ماننے لگے،تو تم مشکل میں پڑجاؤ گے،لیکن اللہ نے ایمان کو تمہارا محبوب بنادیا اور اسے تمہارے دلوں میں سجادیا،اور کفر و فسق اور نافرمانی کوتمہاری ناپسندیدہ شے بنادیا،یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔نیز فرمایا:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آَبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ(المجادلۃ:22)
(ترجمہ)آپکو کو ایسی کوئی قوم نہ ملے گی جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان بھی رکھتی ہو اور اللہ اور اسکے رسول کی صریح مخالفت کرنے والوں سے مودت بھی رکھتی ہو،اگر چہ وہ اسکے باپ دادا،اسکے بیٹے،اسکے بھائی بند،یا اسکا قبیلہ ہی ہو،یہی ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا۔
نفاق کا محل:
”نفاق“ایمان کی ضد ہے،جسطرح اسلام کی ضد ”کفر“ہے،چنانچہ انکے محل قرار و اظہار بھی یکساں ہیں، یعنی انسانی قلوب و جوارح،دل میں اسکا وجود جبکہ اعضاء سے اسکا اظہار ہوتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللّٰهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ
(ترجمہ)منافقین خوفزدہ رہتے ہیں کہ انکے خلاف کوئی سورت نازل ہوجائے جو لوگوں کو انکے دل میں چھپا (نفاق)بتا دے،آپ کہیں کہ تمہیں جسکا ڈر ہے اللہ اسے ظاہر کرنے والا ہے۔(التوبۃ:64)
نیز قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالی نے ”نفاق“کو دل کی بیماری سے تعبیر کیا ہے ،جیسا کہ فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آَمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ يُخَادِعُونَ اللّٰهَ وَالَّذِينَ آَمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ  فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ
(ترجمہ)لوگوں میں ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائے،حالانکہ وہ ایمان نہیں لائے،وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں،حالانکہ وہ خود کو ہی دھوکہ دیتے ہیں اور انہیں یہ معلوم تک نہیں،انکے دلوں میں بیماری ہے،پس اللہ نے انہیں بیماری میں اور بڑھادیا،اور انکے جھوٹ بولنے کی وجہ سے انکے لئے درد ناک عذاب ہے۔ (البقرۃ:8-10)
نبی ﷺنے فرمایا:
لاَ يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ فِى قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ
(ترجمہ)جہنم میں ایسا کوئی شخص داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے برابر ایمان ہو۔
(ضروری تنبیہ)اس حدیث کا یہ معنی نہیں کہ گناہگار مومن بھی جہنم میں نہ جائیںگے،اگر اللہ انہیں انکے گناہوں کی سزا دینا چاہے تو وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے ،لیکن ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل نہ ہوں گے ،بلکہ اگر جہنم میں ڈالے بھی گئے تو شفاعت کبری تک یا سزا پوری ہونے تک یا جب تک اللہ چاہے،اسکے بعد جہنم سے نکال لئے جائیں گے ،تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: بخاری(7072-22)   پھر انہیں جنت میں داخل کردیا جائے گا،بخاری(7071) اعبد اللہ بن مسعود ؄نے کہا:
الْغِنَاءُ يُنْبِتُ النِّفَاقَ فِى الْقَلْبِ كَمَا يُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ وَالذِّكْرُ يُنْبِتُ الإِيمَانَ فِى الْقَلْبِ كَمَا يُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ
(ترجمہ)گانا بجانا دل میں نفاق کو بڑھاتا ہے جس طرح پانی فصل کو اگاتا ہے،اور ذکر دل میں ایمان کو بڑھاتا ہے جسطرح پانی فصل کو اگاتا ہے۔
(بیہقی کبری:21536،علامہ البانی نے اسے موقوفا صحیح (تحریم آلات الطرب،ص:10)جبکہ مرفوعا ضعیف کہا،الضعیفۃ:2430)
امام ابن قیم نے کہا:
جان لے کہ گانے بجانے میں دل کو نفاق سے رنگ دینےاور اس میں نفاق کو پروان چڑھانے کی صلاحیت ہے، جس طرح پانی فصل کو پروان چڑھاتا ہے،گانا بجانا، دل کو غافل کردیتا اور اسےفہم قرآن اور عمل بالقرآن سے روکدیتاہے، قرآن و نفاق ایک دل میں کبھی یکجا نہیں ہوسکتے،کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اسطرح کہ قرآن خواہش کی اتباع سے روکتا اور نفسانی خواہشات اور اسباب بغاوت سے بچنے اور الگ رہنے کا حکم دیتا ہے،اور شیطانی راستوں پر چلنے سے منع کرتا ہے، جبکہ گانا بجانا اسکے بالکل برعکس حکم دیتا ہے،اور اسے اچھا قرار دیتا ہے،وہ نفوس کو سرکش جذبات پر ابھارتا ہے، پوشیدہ جذبات کو ظاہر جبکہ ظاہر کو بے لگام کرکے برائی کی جانب بڑھاتا اور خوبصورت مرد و زن کی جانب چلاتاہے ...آگے چل کر کہا....:حقیقت امر یہ کہ،گانا بجانا شیطان کا قرآن ہے،یہ اور رحمن کا قرآن ایک دل میں کبھی یکجا نہیں ہو سکتے، نیز نفاق کی بنیاد یہ کہ ،ظاہر و باطن میں تضاد ہو،گانے بجانے والا بھی متردد رہتا ہے، کہ حرمت پامال کرکے فاجر بن جائے یا زہد و ورع ظاہر کرکے منافق بن جائے،وہ اللہ اور روز آخرت میں رغبت ظاہر کرتا ہے جبکہ اسکا دل شہوات اور اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی ناراضگی والے امور،آلات موسیقی کی آوازوںاور گانے بجانے پر عمل کرنے کے لئے بے چین ہوتا ہے،ان چیزوں سے تو اسکا دل لبریز جبکہ اللہ اور اسکے رسول ﷺکی پسند کو پسند کرنےاور انکی ناپسند کو ناپسند کرنے سے خالی ہوتا ہے،یہی نفاق ہے،جبکہ ایمان قول و عمل کو کہتے ہیں،حق پرستی اور دل کی خوشی سے عمل کرنا،یہ وصف ذکر وتلاوت قرآن سے پروان چڑھتا ہے ،جبکہ باطل پرستی اور عمل میں سرکشی اختیار کرنا،یہ شے نفاق کو پروان چڑھاتی ہیں۔(اغاثۃ اللہفان،1/248-251)
جس طرح ایمان کے بہت سے شعبے ہیں اسی طرح نفاق کے بھی شعبے ہیں جیسا کہ نبی ﷺنے فرمایا:
الحَيَاءُ وَالعِيُّ شُعْبَتَانِ مِنَ الإِيمَانِ، وَالبَذَاءُ وَالبَيَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ
(ترجمہ)حیا اور افہام مقصود پر عدم قدرت(سادہ گفتگو کرنا) ایمان کے دو شعبے جبکہ بے شرمی(ڈھٹائی)اور چرب زبانی نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی:2027،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا،صحیح الترغیب والترہیب:2629)
نیز جسطرح ایمان کے مراتب و درجات ہیں، جیسا کہ نبی ﷺنے فرمایا:
الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ
 (ترجمہ)ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں ان میں سب سے افضل ”لاالہ الااللہ“ کہنا اور سب سے کمتر راستے سے تکلیف دہ شے ہٹانا ہے، اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔(مسلم:162)
اسی طرح نفاق کے بھی مراتب و درجات ہیں،بنیادی طور پر نفاق کی دو قسمیں ہیں،ایک اعتقادی،دوسری عملی ،نفاق اعتقادی یہ ہے کہ دل سے کافر ہو جیسے یہودی ،یا عیسائی یا ہندو وغیرہ ہو لیکن زبان سے خود کو مسلمان کہتا ہو،تاکہ اسلام کو نقصان پہنچائے،اس قسم کا نفاق اور ایمان کبھی بھی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آَمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ
(ترجمہ)اے رسول جو لوگ کفر میں تیزی دکھاتے ہیں وہ آپکو افسردہ نہ کریں،جو اپنے مونہوں سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے،حالانکہ انکے دل ایمان نہیں لائے۔(المائدہ:41)
(تنبیہ)اعتقادی نفاق کو معلوم کرنے کا واحد ذریعہ وحی تھی جسکا سلسلہ نبی ﷺکی وفات کے ساتھ منقطع ہوچکا لہذا اب کسی پر اس قسم کے منافق ہونے کا حکم لگانا بہت ہی مشکل ہے،چنانچہ اس بارے میں بدگمانی اور بد زبانی دونوں سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیئے۔
جبکہ نفاق عملی یہ ہے کہ دل سے مسلمان ہو لیکن عملی طور پر اعتقادی منافقین جیسا عمل کرے ،مثلا ً،کثرت سے جھوٹ بولنا ،وعدہ خلافی کرنا، دھوکہ دینا،گالیاں دینا، خیانت کرنا،منافقین کی جس قدر علامات اس میں ہوں گی وہ عملی اعتبار سےاسی درجے کا منافق ہوگا،جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
أربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا اؤتمن خان وإذا حدث كذب وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر
(ترجمہ)جس شخص میں چار عادتیں ہوں وہ پکا منافق اور جس میں ان میں سے کوئی ایک عادت ہو تو گویا اس میں نفاق کی ایک عادت ہے،تاآنکہ اسے بھی چھوڑدے، جب بھی امانت رکھوایا جائے تو خیانت کرے،جب بھی بات کرے جھوٹ بولے،جب بھی وعدہ کرے خلاف ورزی کرے،اور جب بھی جھگڑا کرے گالی دے۔ (بخاری:34)
(تنبیہ)حدیث میں مذکور منافقانہ خصلتیں ایمان کو نقصان ضرور پہنچاتی ہیں لیکن اسے کلیۃً ختم نہیں کرتی ہیں بشرطیکہ دل سے مسلمان ہو،اسی طرح دیگر صفات مذمومہ بھی،مثلاً:بغض ،حسد،وغیرہ جنکا تعلق دل سے ہے ایمان  کو نقصان پہنچاتی ہیں ،اسے گھٹاتی رہتی ہیں،جبکہ صفات حسنہ جنکا تعلق دل سے ہے،مثلاً:رافت و اخلاص وغیرہ ایمان کو بڑھاتی اور سنوارتی رہتی ہیں،اسی طرح اعمال صالحہ بھی ایمان میں اضافے اور اسکی زینت کا باعث بنتے ہیں جبکہ اعمال سیئہ ایمان میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔
--- جاری ہے ---

Read 1056 times
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(1 Vote)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in اکتوبر 2015
مدثر بن ارشد لودھی

مدثر بن ارشد لودھی

Latest from مدثر بن ارشد لودھی

  • خلفائے راشدین کے علاوہ دیگر صحابہ کرام کی داڑھیاں
  • صدقۃ الفطر اور عید الفطر احکام ومسائل
  • رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک کی صفات و کیفیات
  • رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی داڑھی مبارک کی صفات و کیفیات (قسط9
  • رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک کی صفات و کیفیات

Related items

  • دلوں کی حفاظت
    in اپریل 2016
  • دلوں کی حفاظت
    in مارچ 2016
  • ایمان ونفاق کا محل اظہار
    in نومبر2015
  • ألات موسيقي اور گانا بجانا ایک بہت بڑی لعنت
    in اکتوبر 2015
  • بچوں کا اسلامی طرزِ زندگی
    in مارچ 2015
More in this category: « سعودی حکومت دعوت و تبلیغ کی پاسباں ألات موسيقي اور گانا بجانا ایک بہت بڑی لعنت »
back to top

مضمون نگار

  • ڈاکٹر مقبول احمد مکی ڈاکٹر مقبول احمد مکی
  • الشیخ  محمد طاہر آصف الشیخ محمد طاہر آصف
  • عبدالرشید عراقی عبدالرشید عراقی
  • بنت محمد رضوان بنت محمد رضوان
  • الشیخ ابو نعمان بشیر احمد الشیخ ابو نعمان بشیر احمد
  • الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی
  • حبیب الرحمٰن یزدانی حبیب الرحمٰن یزدانی
  • خالد ظہیر خالد ظہیر
  • راحیل گوہر ایم اے راحیل گوہر ایم اے
  • عطاء محمد جنجوعہ عطاء محمد جنجوعہ
  • ڈاکٹر عبدالحی المدنی ڈاکٹر عبدالحی المدنی
  • مدثر بن ارشد لودھی مدثر بن ارشد لودھی
  • محمد شعیب مغل محمد شعیب مغل
  • الشیخ محمد شریف بن علی الشیخ محمد شریف بن علی
  • حافظ محمد یونس اثری حافظ محمد یونس اثری
  • الشیخ محمد یونس ربانی الشیخ محمد یونس ربانی

About Usvah e Hasanah

اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ماہنامہ تحقیقی، اصلاحی و دعوتی ماھنامہ مجلہ جس میں حالاتِ حاضرہ، کی مناسبت سے قرآن سنت کی روشنی میں مضامین اور تحقیقی مقالات شائع کئے جاتے ہیں

Contact us

ماھنامہ اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال بلاک 5،پوسٹ بکس نمبر11106، پوسٹ کوڈ نمبر75300 کراچی پاکستان

Phone: +92 0213 480 0471
Fax: +92 0213 4980877
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

facebook

good hits

 

  • About us
  • privacy policy
  • sitemap
  • contact us
  • Disclaimer
  • Term of Condition
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2015