اقوام مغرب یکے بعد دیگرے یلغار کرنے کے باوجود مذموم مقصد حاصل نہ کرسکے تاہم قیام پاکستان کے بعد انہوں نے وطن عزیز کے سہارے پر افغانستان کا نظام درہم برہم کرکے مفاد حاصل کرلیے اس کے بعد طاغوتی قوتوں کو پاکستان کی سلامتی سے ذرا برابر دلچسپی نہ رہی بلکہ وہ کنفیڈریشن کی راہ ہموار کرنے کے لیے مادر وطن کو پارہ پارہ کرنے کی تگ ودو میں ہیں، چنانچہ وہ پاکستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی اعلانیہ سر پرستی کر رہی ہیں چونکہ جمہوری نظام میں حقوق کے حصول کے لیے یونین اور تنظیمیں قائم کرنے کی آزادی ہوتی ہےاس بنا پر مذہبی نسل ولسانی بنیاد پر کئی تحریکیں معرض وجود میں آئیں یہ تنظیمیں حکومتی مفاد پر مبنی مطالبات کی لسٹ پیش کرکے سیاسی جماعتوں سے انتخابی اتحاد کرتی رہیں، کراچی میں مہاجروں کے حقوق کے ازالہ کے لیےایم کیو ایم قائم ہوئی صدر ضیاء الحق نے سیاسی وڈیروں کی اجارہ داری کے خاتمے کے لیے اس کی سرپرستی کی مڈل کلاس طبقہ نے حقوق کی بحالی کے لیے بھر پور جدوجہد کی پھرانہوںنے انتخابات میں حصہ لے کر سیاسی قوت کا لوہا منوایا حتیٰ کہ کراچی پر اُن کی گرفت مضبوط ہوگئی ۔
الیکشن کے بعد اکثریتی پارٹی حکومت بنانے کے چکر میں ان سے اتحاد کرتی رہی اس کے بدلے ایم کیو ایم ا ن سے ذاتی وجماعتی مفاد حاصل کرتی رہی ، پاکستان کے کئی لیڈروں نےممکنہ خطرہ کے پیش نظر مغربی دنیا میں پناہ حاصل کی چنانچہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھی برطانیہ میں مقیم ہیں جن کو حکومت کی طرف سے ہر قسم کی مراعات حاصل ہیں ایرا ن کے علماء جدیدیت کے خلاف تحریک شروع کی تو شاہ ایران نے ان کا جینادوبھر کردیا ۔
خمینی نے فرانس میں پناہ حاصل کی اور ایران میں رضاشاہ پہلوی کے خلاف انقلاب کی گائیڈ لائن کی جن کی کال پر لاکھوں کا مجمع سڑکوں پر نکل آتاتھا اسی طرح برطانیہ میں مقیم الطاف حسین کی ٹیلیفونک کال پر ہزاروں کا انبوہ پارک میں جمع ہوجاتاہے جہاں وہ اپنے قائد تحریک کی تقریر توجہ و انہماک سے سنتے ہیں قربانی طلب کرنے پر حاضرین ہاتھ اٹھا کر وقت ، جان اور مال کی قربانی دینے کا عزم کرتےہیں ، قائد انقلاب خمینی کی آواز بلا مذہب وملت پورے ایران میں مؤثر تھی تاہم ان کی نقش قدم پر چلنے والے الطاف حسین کی آواز کراچی اور حیدر آباد تک محدود رہی۔
کراچی بین الاقوامی تجارت کا مرکز اور امن کا گہوارہ تھا بدقسمتی سے ایک طبقہ نے قتل اور اغوا کی دھمکی دے کر خوشحال شہریوں سے بھتہ بٹورنا شروع کردیا قتل و غارت اور لوٹ مار روز مرہ زندگی کا معمول بن گیا۔
سانحہ پشاور فساد فی الارض کی انتہا تھا سول انتظامیہ اور فوج نے باہمی مشورہ سے فتنوں کے سد باب کے لیے تحریک طالبان پاکستان کے روپ میں’’را‘‘ کے چیلوں کے خلاف آپریشن شروع کیا ضرب عضب کی کامیابی کے بعد کراچی میں آپریشن شروع ہوا دہشت گردی کے واقعات میںکمی ہوگئی ہے اللہ کے فضل سے شہریوں کی زندگی معمول پر آگئی ہے تجارتی مراکز کی رونق بحال ہوگئی ہے قیام پاکستان کے لیے مسلم لیگ کی بے لوث قیادت کی سیاسی جدوجہدقابل تحسین ہے وہاں مہاجرین کے آباء واجداد کی قربانیوں کی انمٹ داستاں ہے جنہوں نے نظریہ پاکستان کی خاطر عزت، جان اور مال کی قربانی دی ضرورت اس امر کی ہے کہ آپریشن کے دوران جن مجرموں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے حکومت تفتیش کے دوران ان کو عبرت کا نشان بنانے کے بجائے انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکر رہی ہے اسلام میں بلا امتیاز رنگ ونسل اور مذہب سزا کا تصور ہے، عدالتی کاروائی کے بعد مجرموں کو سرعام قرار واقعی سزا دی جائے اجتماعی عدل و انصاف مہیاکرنا استحکام پاکستان کا بنیادی تقاضاہے بلکہ برسر اقتدارحکومت کی مقبولیت کی عوام میں جڑیں مضبوط ہونگی۔
ایم کیو ایم نے کس طرح تقویت حاصل کی:
انہوں نے ظلم کی چکی میں لپٹے ہوئے غریب عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے احتجاج کئے ، سیاسی جدوجہد میں مڈل کلاس کو نمائندگی دی۔ اتحادی حکومت میں شامل ہوکر عام کارکنوں کے دکھ سکھ میں شریک رہے ، وٹروں کے مسائل کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی درست ہے کہ الیکشن کے دن دیگر پارٹیوں کے اکثر وٹرڈر اور خوف کی وجہ سے ووٹ کاسٹ نہ کرسکتےتھے تاہم یہ حقیقت ہےکہ ایم کیوایم نے اپنا ووٹ بنک برقرار رکھا لیکن پنجاب میں معاملہ برعکس ہے چونکہ یہاں جاگیرداری اورسرمایہ دارانہ نظام مسلط ہے اس بناء پر سیاسی جماعتیں علاقہ کے بااثر سپوٹر طبقہ سے تعلق قائم رکھتے ہیں عوام سے کم اس لیے پنجاب کے لیڈروں کی طرح عوام بھی اپنے مفاد کے تحت سیاسی وفاداریاں بدلتے رہتےہیں۔
قومی الیکشن کے موقع پر پاکستان کی معروف سیاسی جماعتیں عموماً واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکتیں کہ وہ اپنے طور پر حکومت تشکیل دے سکیں انہیں کراچی ، بلوچستان ودیگر علاقوں میں نسلی ، لسانی ، فرقہ وارانہ اور مذہبی تحریکوں کا سہارا لینا پڑتاہے اس نازک موقع پر حکومت کو ان کے ناز نخرے برداشت کرکے ۔

مراعات دینا مجبوری بن جاتاہے جو قومی یکجہتی و سلامتی کی پالیسی کے سراسر منافی عمل ہے۔
پاکستان کی معروف سیاسی جماعتیں جو نظریہ پاکستان پر پختہ یقین رکھتی ہیں وہ بے شک آئندہ قومی الیکشن میں ایک دوسرے کے خلاف امید وار کھڑا کریں لیکن علیحدگی پسند تحریکوں کے امیدواروں کے مقابلہ میں مشترکہ امیدوار کھڑا کرکے ون ٹو ون مقابلہ کریں جمہوریت کی بقا کے لیے میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے اسی طرح وطن کی یک جہتی کے لیے انتخابی اتحادپر اتفاق ضروری ہے، عوام سے بھر پور رابطہ مہم جاری رکھیں تاکہ علیحدگی پسندوں کو الیکشن میں شکست فاش دے کر نظریہ پاکستان کی بنیاد کو مستحکم کریں اللہ ذولجلال جس جماعت کو حکومت دے وہ بے شک اپنے کارکنوں کی مالی واخلاقی سپورٹ کریں لیکن عدل وانصاف کے معاملے میں تمام شہریوں سے بلا امتیاز مساوی سلوک کیا جائے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی پاکستان کو قیامت تک قائم ودائم رکھے اور طاغوت اور اس کے چیلوں کے اکھنڈ بھارت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے