اس کو پختہ کامل یقین تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کائنات میں اللہ کے حکم سے ہو رہا ہے ۔ ان کو یقین تھا کہ اللہ رب العالمین کی ذات انہیں ضائع نہ کرے گی جو حالات گزرہے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی قضا و قدر کے تحت ہو رہے ہیں انسان پر اس کی دنیاوی زندگی میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ خیر کی راہ میں کوشش کرتا جائے اور عمل صالح اختیار کرے دین و دنیا کے ہر معاملے میں اللہ پر توکل کرے اللہ رب العالمین کے ذمہ اپنے تمام معاملات سپرد کر دے اس محترم لڑکی نے دنیا کی حقیقت کو پالیا تھا وہ دنیا کی ہر چیز کو اس طرح دیکھتی تھی جیسی وہ تھی۔ وہ چاہتی تو اس کے والد موجود نہ تھے وہ غلط راستہ اختیار کر لیتی اور میری اور آپ کی طرح حیلے سازی کرتی کہ میرے پاس وسائل نہ تھے میں مجبورتھی اسی لئے میں نے اللہ کے حکم کو توڑا۔ لیکن نہیں وہ اللہ تعالیٰ کا ڈراپنے دل میں لئے یہ سوچتی تھی جو اللہ رب العالمین نے قرآن میں ارشاد فرمایا:

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (المومنون:115)

’’ہاں تو کیا تم نے خیال کیا تھا کہ ہم نے تم کو یونہی خالی از حکمت پیدا کر دیا ہے اور یہ (خیال کیا تھا) کہ تم ہمارے پاس نہ لائے جاؤ گے‘‘
وہ کسی نبی کے گھر پیدا ہونے والی لڑکی نہیں تھی۔ وہ کسی صحابی کے گھر میں پرورش پانے والی لڑکی بھی نہ تھی۔ لیکن جب اس کی ماں نے اس کو معاشی تنگی سے تنگ آکر چھپ کر گناہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے اللہ کے ڈر سے انکار کردیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ ۡ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ( الملک :1)

’’وہ (اللہ) بڑا عالی شان ہے ، جس کے قبضے میں تمام سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون شخص عمل میں زیادہ اچھا ہے اور وہ زبردست اور بخشنے والا ہے ‘‘
ارشاد باری تعالیٰ:

الْيَوْمَ تُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ( المومن: 17)

’’آج ہر شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جائے گاآج کسی پر ظلم نہ ہوگا اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والا ہے ‘‘
وہ ایک عام گھر میں بغیر باپ کے رہنے والی ایک لڑکی تھی لیکن قرآنی آیات کی رشدو ہدایات سے بہرہ ور تھی۔ آج اس کی والدہ نے اس سے کہا تھا دودھ میں تھوڑا پانی ملادو زیادہ نفع ہوگا۔ لڑکی نے کہا امی آج آپ نے امیر المومنین کا حکم نہیں سنا انہوں نے منادی کرائی ہے کہ کوئی دودھ میں پانی نہ ملائے۔ ماں نے حکم دیا اٹھو اور دودھ میں پانی ملاؤ۔ لیکن لڑکی نہ اٹھی وہ جانتی تھی ماں کے حکم پر اللہ کا حکم مقدم ہے۔
اللہ کے سامنے حاضری کے ڈر و خوف نے یہ نہ کرنے دیا ماں نے کہا: اٹھو تم ایسی جگہ ہو جہاں امیر المومنین تمہیں نہیں دیکھ رہے لڑکی نے ماں وہ نہیں دیکھ رہے ان کا رب تو دیکھ رہاہے نا!!!
آدھی رات گزرچکی تھی ماں بیٹی نا واقف تھیں دیوار سے ٹیک لگائے گشت کے دوران تھکن محسوس کرتے ہوئے کب امیر المومنین نے ان کی باتیں سنیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فوراً حکم دیا جاؤ جا کر دیکھ کر آؤ یہ لڑکی کون ہے کس سے باتیں کر رہی ہے شادی شدہ ہے یا نہیں۔ وہ ایک غیر شادی شدہ لڑکی تھی جس کا باپ نہیں تھا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوںکو بلایا اور کہا: تم میں سے کوئی شادی کرنا چاہتا ہے تو میں تمہاری شادی کا انتظام کر دیتا ہوں اگر میری شادی کی خواہش ہوتی تو سب سے پہلے اس لڑکی کو نکاح کا پیغام دیتا۔ آپ نے اپنے بیٹے سے اس کی شادی کر دی اور یہ لڑکی جس کی پرہیزگاری اور نیکی اعلانیہ بھی تھی پوشیدہ بھی اس کی جلوت خلوت یکساں تھے۔ اس ایمان کے ثمرات تھے کہ یہ خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ کی نانی تھیں۔
ضمیر کی بیداری ایک نعمت ہے خلوتیں جلوتیں یکساں ہونا صحیح مومن کی علامتیں ہیں اللہ کا ڈر اور ایسا خوف کہ معاشی تنگی دنیا کی خاطر اس کو بھول کر اپنی آخرت خراب نہ کی۔ امت مسلمہ میں بلندی ایسی ہی عورتوں کی حیاتِ مبارکہ کے باعث یقینی بنی تھی اور امت مسلمہ میں زوال بھی عورتوں کی بے حیائی کے باعث یقینی بنا۔ آج میری ہم ماؤں بہنوں کی جلوت اور خلوت میں کتنا فرق ہے ایسی بے مثال پاکیزہ عورتیں ہمارا رول ماڈلز ہیں؟
لمحہ فکریہ ہے جو مجھے اور آپ کو دعوت دیتا ہے کہ یہ تو ایک منظر تھا ہماری معاصیت کے کتنے منظر ہیں جو بہت افسوس ناک ہیں ایک منظر تھا جس پر اس کی والدہ نے حکم دیا لیکن اس کے ایمان کے ثبات نے اس کو وہ کرنے نہ دیا میرا اور آپ کا ایمان کتنا کمزور ہے ہمارے پاس ہر گناہ کے کرنے کے کتنے حیلے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے جب کہیں شادیوں میں تصویریں اور مووی بنوانے لگیں۔ جب مردوں کے سامنے کیپریز پہن کے جانے لگیں ۔ جب ساتھی طلباء اور کولیگز کے ساتھ بے تکلف ہونے لگیں۔ اجنبی مردوں سے کمپیوٹر پر چیٹنگز کرتے ہوئے ۔ اشتہاروں میں پوز دیتے ہوئے۔ دوپٹے سے بے پرواہی برتتے ہوئے کہ ہماری رول ماڈلز کون ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: دنیا سامان زیست ہے اور اس کی بہترین متاع نیک عورت ہے وہ نیک عورت جو ہر معاملے میں اللہ کی پسند او ر نا پسند دیکھے گی وہ ہر لمحہ اللہ کی پسند کو اختیار کرے گی۔

جب آپ بازار جائیں:

تو اس نیک عورت کی طرح ضرور سوچیں کہ مجھے کونسا لباس پہننا ہے وہ نہ پہنیں جس کے بارے میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’عنقریب میری امت میں ایسی عورتیں ہونگی جو بظاہر لباس پہنیں گی لیکن اصل میں وہ ننگی ہونگی ان کے سروں پر بختی اونٹ کے کوہان کی مانند چوڑا ہوگا۔ ان پر لعنت بھیجو کیونکہ یہ لعنت ذدہ ہیں یہ ہر گز جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ جنت کی خوشبو پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنے اور اتنے فاصلے سے آئے گی‘‘ ( بخاری)
رسول اللہ ﷺ نے ان عورتوں پر لعنت کی جو مردوں جیسا لباس پہنیں اور ان مردوں پر لعنت کی جو عورتوں جیسا لباس پہنیں۔ ( ابو داؤد)

جب آپ کپڑے سلوائیں:

تو ایک مومنہ عورت کی طرح سوچیں یہ آپ کے پہننے کے لائق ہے یا نہیں اس سے آپ کا ستر چھپے گا یا نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس مصر سے ایک دفعہ کپڑے آئے کچھ تو آپ نے ان میں سے ایک صحابی ’’ دحیہ رضی اللہ

عنہ‘‘ کو عنایت فرمایا اور ارشاد کیا:

’’ اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کرلو ایک کا کرتا بنا لو اور دوسرا ٹکڑا اپنی بیوی کو دے دو تاکہ وہ اس کی اوڑھنی بناے۔ پھر جب رحیہ رضی اللہ عنہ ( جانے کے لئے) مڑے تو آپ ﷺ نے فرمایا اپنی بیوی سے کہہ دینا کہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگائے تاکہ ( جسم کی ساخت) ظاہر نہ ہو۔‘‘ (ابو داؤد)

جب آپ تیار ہوں:

ایک مومنہ عورت کی طرح لازمی سوچیں کہ اس تیاری کا پس منظر بے حیائی کی طرف دعوت دینا تو نہیں ہے یا اس کا مقصد تفاخر و غرور ہے کہ میرا لباس بہت قیمتی ہو لوگ اس کے بارے میں اور میری خوبصورتی کے بارے میں تبصرے کریں ، میری تعریف کریںمجھے سراہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ جو دنیا میں نمائش کی خاطر لباس پہنے گا، اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائیں گے‘‘
( ابود اؤد، مسند احمد، ابن ماجہ)
جب آپ کسی پارٹی، محفل، ملاقات کے لئے کہیں جائیں:
تو ایک مومنہ عورت کی طرح ضرور سوچیں کیا وہاںمرد و زن کا اختلاط تو نہیں اگر ہو تو بخوشی خود سے وہاں جانے کی قربانی دے دیں اور اللہ کی رضا حاصل کرلیں۔ کیونکہ ’’ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ مسجد نبوی کے باہر دیکھا کہ راستے میں مرد و عورت گڈ مڈہیں تو آپ نے فرمایا: اے عورتو، ٹہر جاؤ، تمہارے لئے سڑک کے بیچ چلنا ٹھیک نہیں کنارے پر چلو‘‘ یہ سنتے ہی عورتیں دیواروں سے لگ کر چلنے لگیں۔ ( مشکوٰۃ، ابو داؤد)
جب آپ بناؤ سنگھار کریں:
ایک عورت کی طرح ضرور سوچیں کہ یہ کس کے لئے ہے کس نیت سے ہے یا اغیار کی طرح کہیں کسی کو پوز دینے کے لئے کسی کی نظر تحسین کی وصولی کے لئے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ۭ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ( النور 31)

’’مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں سے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے، اے مسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ نجات پاؤ ‘‘
جب کسی غیر مرد سے بات کریں:
ایک مومنہ عورت کی طرح سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس حد میں رہ کر اس سے بات کرنے کی اجازت دی ہے وہ کونسی شرط ہے کس کو پورا کرنے کے بعد آپ کو اجازت ہے کہ ضروریات کے لئے غیر مرد اجنبیوں سے آپ بات کرسکیں۔
ارشاد باری تعالیٰ:

فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(الاحزاب32)

اور دبی زبان سے (Softly) بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی میں مبتلا شخص لالچ میں پڑجائے۔
جب آپ ستائی جائیں:
تو ایک مومنہ عورت کی طرح ضرور سوچیں اس طرح غیر محرموں کا ستانا کیوں کر حقیقت کا رخ اختیار کر گیا کونسا حکم ہے جو اللہ کا میں نے توڑا تو غیر محرموں کی گندی نظروں کا رخ مجھ پر پڑ گیا۔
ارشاد باری تعالیٰ:

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا(الاحزاب: 59)

اے نبی ﷺ: اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں ۔ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے‘‘
جب آپ بیوٹی پارلر یا سوئمنگ پول جائیں:
ایک مومنہ عورت کی طرح یاد رکھیں اللہ رب العالمین نے آپ کا مردسے حجاب ہی نہیں رکھا صرف بلکہ ایک حجاب پردہ عورت کا عورت سے بھی ہے مرد کا مرد سے بھی جس حد کو توڑنے پر بھی بہت و حشتناک نتائج سامنے آتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ مرددوسرے مرد کے ستر کی طرف اور عورت دوسری عورت کی ستر کی طرف نظر نہ کرے۔ ( مسلم)

خلاصہ کلام:

آپ تنہائی میں ہوں یا مجلس میں خلوت میں ہوں یا جلوت میں آپ کا ایمان اس کا ثبات آپ کے قدم ڈگمگانے نہ دے شرط ہے آپ کا ایمان رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قل امنت باللّٰہ ثم استقم: کہو میں اللہ پر ایمان لایاپھر اس پر ثابت قدم رہو۔ ( مسلم)
یہ ایمان پر ثابت قدمی زندگی کے بڑے سے بڑے معاملات ہوں یا چھوٹے سے چھوٹا ایمان کا نور آپ کو کہیں ظلمت کی تاریکیوں اور ان دلدلوں میں گرنے نہ دے گا۔ اللہ آپ کو تھام کے رکھے گا۔ درودوسلام ہوں اس مقدس ہستی محمد رسول اللہ ﷺپر جنہوں نے عورت کو حیا کا پیکر بنا کر اہل دنیا کے سامنے تسلیم کرایا اپنی تعلیمات سے اپنے عمل سے اور تمام تعریفات اللہ وحدہ لا شریک کے لئے ۔ وہ اللہ جو میری اور آپ کی خلوتیں اور جلوتیں نیک اور صالح کر دے آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے