حضراتِ گرامی! وہ سیرت یا نمونۂ حیات جو انسانوں کے لیے ایک آئیڈیل سیرت کا کام دے، اس میں چار شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:
تاریخیّت کاملیّت جامعیّت اور عملیّت

 تاریخیّت:

اس سے مقصود یہ ہے کہ ایک کامل انسان کے جو حالاتِ زندگی پیش کیے جائیں، وہ تاریخی لحاظ سے مستند ہوں، ان کی حیثیت قصوں اور کہانیوں کی نہ ہو۔ خیالی اور مشتبہ سیرتیں خواہ کتنے ہی مؤثر انداز میں پیش کی جائیں، طبیعتیں ان سے دیرپا اور گہرا اثر نہیں لیتیں اوران پر کوئی انسان اپنی عملی زندگی کی بنیاد نہیں رکھ سکتا۔
سب سے قدیم ہونے کا دعویٰ ہندوؤںکو ہے مگر ان میںسے کسی کو ‘تاریخی ہونے کی عزت حاصل نہیں ہے۔ رامائن کی زندگی کے کن واقعات کو تاریخ کہہ سکتے ہیں؟ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ واقعات کس زمانہ کے ہیں۔
قدیم ایرانی مجوسی مذہب کا بانی زرتشت جوآج بھی لاکھوں لوگوں کا مرکز ِعقیدت ہے، اس کے حالات ِ زندگی محققین کی متضاد آرا سے اتنے مشکوک ہیں کہ کوئی انسان ان کے بھروسے پر اپنی زندگی کی بنیاد قائم نہیںکر سکتا۔
قدیم ایشیا کے سب سے وسیع مذہب بدھ کا ہندوستان میں برہمنوں اور وسطی ایشیا میں اسلام نے خاتمہ کیا تھا۔ایشیاے اقصیٰ میں بدھ مت کی حکومت، تہذہب اور مذہب قائم ہیں۔ لیکن یہ چیزیں بدھ کی سیرت کو تاریخ میں محفوظ نہ رکھ سکیں۔ چین کے کنفیوشس کی ہمیں بدھ سے بھی کم واقفیت ہے، حالانکہ ان کے پیروکارکروڑوں میں ہیں۔
سامی قوم کے سینکڑوں پیغمبروں کے ناموں کے سوا تاریخ کچھ نہیں بتاتی۔ سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا ہود، سیدنا صالح، سیدنا اسمٰعیل، سیدنا اسحق، سیدنا یعقوب، سیدنا زکریااور سیدنا یحییٰ علیہم السلام کی سیرتوں کے چند حصوں کے علاوہ ان کی زندگیوں کے ضروری اجزا تاریخ سے گم ہیں۔ قرآن کے سوا، یہودیوں کے اَسفار میں ان پیغمبروں کے درج حالات کی نسبت محققین کو شکوک ہیں۔ ان شکوک سے صرف ِ نظر کرنے کے باوجود ان بزرگوں کی مقدس زندگیوں کے ادھورے اور نامربوط حصے ایک کامل انسانی زندگی کی پیروی کا سامان نہیں کر سکتے۔

 کاملیّت:

عزیزو!کسی انسانی سیرت کے دائمی نمونۂ عمل بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے تمام حصے روزِ روشن کی طرح دنیا کے سامنے ہوں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس کی سیرت کہاں تک انسانی معاشرہ کے لیے ایک آئیڈیل زندگی کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آج بدھ کے پیروکار دنیا کی چوتھائی آبادی پر قابض ہیں، مگر تاریخی حیثیت سے بدھ کی زندگی صرف چند قصوں اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر اسے تاریخ کا درجہ دے کر بدھ کی زندگی کے ضروری اجزا تلاش کریں تو ہمیں ناکامی ہوگی۔ یہی حال زرتشت کا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (گیارہواں ایڈیشن) کے آرٹیکل زراسٹر کے مضمون نگار نے لکھا ہے:
‘اس کی جائے پیدائش کی تعیین سے متعلق شہادتیں متضاد ہیں… زرتشت کے زمانے سے ہم قطعاً ناواقف ہیں۔
انبیاے سابقین میں سب سے مشہور زندگی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی ہے۔ موجودہ تورات کے مستند یا غیر مستند ہونے سے قطع نظر، تورات کی پانچوں کتابوں سے ہمیں ان کی زندگی کے کس قدر اجزا ملتے ہیں؟ تورات کی پانچویں کتاب میں جو کچھ لکھا ہے، وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی تصنیف نہیںہے۔ دنیاآپ کے اس سوانح نگار سے واقف نہیں ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ۱۲۰ سال عمر پائی۔ اس طویل سوانح کے ضروری اجزا ہمارے پاس کیا ہیں: پیدائش، جوانی میں ہجرت، شادی اور نبوت پھر چند لڑائیوں کے بعد۱۲۰ برس کی عمر میں ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ انسان کو اپنی سوسائٹی کے عملی نمونہ کے لیے جن اجزا کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اخلاق و عادات اور طریقِ زندگی ہیں، اور یہی اجزا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمری سے گم ہیں۔
اسلام کے سب سے قریب العہد پیغمبر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو آج یورپین مردم شماری کے مطابق تمام دوسرے مذاہب کے پیروؤں سے زیادہ ہیں۔مگر اسی پیغمبرکے حالاتِ ِزندگی تمام دوسرے مشہوربانیانِ مذاہب کے سوانح سے سب سے کم معلوم ہیں۔ انجیل کے مطابق آپ کی زندگی ۳۳ برس تھی۔ موجودہ انجیلوں کی روایتیں اوّلاً تو نامعتبر ہیں اور جو کچھ ہیں، وہ آپ کے آخری تین سالوں کی زندگی پر مشتمل ہیں۔ آپ پیدا ہوئے، پیدائش کے بعد مصر لائے گئے، لڑکپن میں ایک دو معجزے دکھائے، اس کے بعد وہ غائب ہو جاتے ہیں اورپھر اچانک تیس برس کی عمر میں بپتسمہ دیتے اور پہاڑوں اور دریائوں کے کنارے ماہی گیروں کو وعظ کہتے اوریہودیوں سے مناظرے کرتے نظر آتے ہیں، یہودی اُنہیں پکڑوا دیتے ہیں اور رومی عدالت اُنہیں سولی دے دیتی ہے۔ تیسرے دن ان کی قبر ان کی لاش سے خالی نظر آتی ہے۔ تیس برس اور کم از کم پچیس برس کا زمانہ کہاں اور کیسے گزرا؟ دنیا اس سے ناواقف ہے اور رہے گی…!

 جامعیّت:

میرے دوستو! کسی سیرت کے عملی نمونہ بننے کے لیے تیسری ضروری شرط جامعیت ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ مختلف طبقات ِ انسانی یاایک فرد ِ انسان کو اپنی ہدایت اور ادائیگی فرائض کے لیے جن مثالوں اور نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب اس ‘آئیڈیل زندگی میں موجود ہوں۔اللہ اور بندے اور بندوں کے مابین فرائض اور واجبات کو تسلیم اور اُنہیں ادا کرنے کا نام ‘مذہب ہے۔ہر مذہب کے پیروؤں پر فرض ہے کہ وہ ان حقوق و فرائض کی تفصیلات اپنے اپنے بانیوں کی سیرتوں میں تلاش کریں۔
جو مذاہب خدا کو تسلیم ہی نہیں کرتے،جیسے بدھ مت اور جین مت کے متعلق کہا جاتا ہے، تو ان کے بانیوں میں محبت ِ الٰہی اور توحید پرستی وغیرہ کی تلاش ہی بیکار ہے۔ جن مذاہب نے خدا کو کسی نہ کسی رنگ میں تسلیم کیا ہے، ان کے بانیوں کی زندگیوں میں بھی خدا طلبی کے واقعات مفقود ہیں۔ توحید اور اس کے احکام اور قربانی کی شرائط کے علاوہ تورات کی پانچوں کتابیں یہ نہیں بتاتیں کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے تعلقات ِ قلبی، اطاعت و عبادت اوراللہ کی صفات ِ کاملہ کی تاثیر ان کے قلب اَقدس میں کہاں تک تھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کاآئینہ انجیل ہے۔ انجیل میں ایک مسئلہ کے علاوہ کہ خدا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا باپ تھا، ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ اس دنیاوی زندگی میں باپ اور بیٹے میں کیا تعلقات تھے؟
اب حقوق العباد کو لیجئے، بدھ اپنے اہل و عیال، دوست اور حکومت وسلطنت کے بارِ گراںکو چھوڑ کر جنگل چلے گئے۔ اسی لیے بدھ کی زندگی اس کے ماننے والوں کے لیے قابلِ تقلید نہیں بنی، ورنہ چین، جاپان، سیام، وانام، تبت اور برماکی سلطنتیں، صنعتیں اور دیگر کاروباری مشاغل فوراً بند ہوجاتے اور بجاے آباد شہروں کے صرف سنسان جنگل رہ جاتے۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں جنگ و سپہ سالاری کا پہلو نمایاں ہے۔اس کے علاوہ ان کے پیروکاروں کے لیے دنیاوی حقوق و فرائض کا کوئی نمونہ موجود نہیں ہے۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا پیغمبرانہ طرز ِ عمل یقینا ہر حرف گیری سے پاک ہوگا، مگر ان کی موجودہ سیرت کی کتابیں ان اَبواب سے خالی ہیں۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ تھیں، انجیل کے مطابق ان کے بھائی بہن بلکہ مادی باپ تک بھی تھا۔ مگر اُن کی سیرت اِن رشتہ داروں سے آپ کا طرزِ عمل اور سلوک نہیں بتاتی۔ دنیا ہمیشہ انہی تعلقات سے آباد رہی ہے اور رہے گی۔ آپ نے محکومانہ زندگی بسر کی، اس لیے ان کی سیرت حاکمانہ فرائض کی مثالوں سے خالی ہے۔

 عملیّت:

‘آئیڈیل لائف کا آخری معیارعملیت ہے۔یعنی بانی ٔ مذہب جو تعلیم دیتا ہے، اس پر خود عمل کرکے اس تعلیم کو قابلِ عمل ثابت کیا ہو۔ انسانی سیرت کے کامل ہونے کی دلیل اس کے نیک اَقوال و نظریات نہیں بلکہ اس کے اعمال و کارنامے ہوتے ہیں۔
عزیزو!جس نے اپنے دشمن پر قابو نہ پایا ہو، وہ معاف کرنے کی عملی مثال کیسے دکھا سکتا ہے۔ جس کے پاس کچھ نہ ہو، وہ غریبوں کی مدد کیسے کر سکتا ہے۔ جو بیوی بچے اور عزیز واحباب نہ رکھتا ہو، وہ انہی تعلقات سے آباد دنیا کے لیے مثال کیونکر بن سکتا ہے۔ جسے دوسروں کو معاف کرنے کا موقع نہ ملا ہو، اس کی زندگی غصہ آور لوگوں کے لیے نمونہ کیسے بنے گی۔ اس معیار پر بھی سیرت ِ محمدی ﷺکے سوا کوئی دوسری سیرت پوری نہیں اتر سکتی۔ آئیڈیل اور نمونۂ اتباع شخصیت کی سیرت میں یہ چار باتیں پائی جانی چاہئیں:
تاریخیّت، جامعیّت، کاملیّت اور عملیّت
میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں اِن خصوصیات سے خالی تھیں، بلکہ اُن کی سیرتیں جو عام انسانوں تک پہنچیں، وہ اِن خصوصیات سے خالی ہیں۔ ایسا ہونا مصلحت ِ الٰہی کے مطابق تھا تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ وہ انبیا محدود زمانہ اور متعین قوموں کے لیے تھے، اس لیے ان کی سیرتوں کو آئندہ زمانہ تک محفوظ رکھنا ضروری نہیں تھا۔ صرف سیدنا محمدﷺ تمام اقوام کے لیے اور دائمی نمونۂ عمل بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپ کی سیرت کوہر حیثیت سے مکمل اور ہمیشہ کے لیے محفوظ رہنے کی ضرورت تھی۔یہی ‘ختم نبوت کی سب سے بڑی عملی دلیل ہے۔
آئیے! اب اِن چاروں معیاروں کے مطابق پیغمبر اسلام سیدنا محمد ﷺکی سیرتِ مبارکہ پر نظر ڈالیں:
b سیرتِ محمدی ﷺکی تاریخیت:
سب سے پہلی چیز ‘تاریخیت ہے۔ مسلمانوں نے اپنے پیغمبراور ہر اس چیز اور اس شخص کی جس کا ادنیٰ سا تعلق بھی آپﷺ کی ذات ِ مبارک سے تھا، جس طرح حفاظت کی ہے اس پر دنیا حیرت زدہ ہے۔آپ ﷺ کے اقوال، افعال اور متعلقاتِ زندگی پر مشتمل سرمایۂ روایت ضبط ِتحریر ہو چکا تو اسے روایت کرنے والے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین رحمہ اللہ، تبع تابعین رحمہ اللہ اور بعد کے چوتھی صدی ہجری تک کے راویوں کے نام، حالات اور اخلاق و عادات کو بھی لکھا گیا۔جن کی تعداد جرمن ڈاکٹر اسپرنگر کے نزدیک پانچ لاکھ ہے۔
حیات ِ نبوی ﷺکے آخری سال حجۃ الوداع میں حاضر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی جن میںسے گیارہ ہزار کے نام و اَحوال آج تحریری شکل میں محفوظ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول معظمﷺکے اقوال و افعال اور واقعات میں سے کچھ نہ کچھ حصہ دوسروں تک پہنچایا ہے۔ ہزاروں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو کچھ دیکھا اور جانا، وہ سب دوسروں کو بتایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے بعد فوراً ہی دوسری نسل اِن معلومات کی حفاظت کے لیے کھڑی ہو گئی۔
پیغمبر ِاسلام ﷺنے اپنی احادیث دوسروں تک پہنچانے کی تاکید کے ساتھ یہ تنبیہ بھی کر دی تھی کہ ’’جو کوئی میرے متعلق قصداً جھوٹ منسوب کرے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے‘‘۔اس اعلان کا اثر تھا کہ بڑے بڑے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین روایت ِحدیث کرتے وقت کانپتے تھے۔
عربوں کا حافظہ تیز تھا۔یہ فطری قاعدہ ہے کہ جس قوت سے جتنا کام لیا جائے، اتنا ہی وہ ترقی پاتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین نے قوت ِ حفظ کو معراجِ کمال تک پہنچایا۔ایک ایک محدث کو کئی کئی ہزار اور کئی کئی لاکھ احادیث یادتھیں۔
ابتدا میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے احادیث کولکھنابوجوہ مناسب نہ سمجھا، مثلاً:
b آغاز میں رسول اللہ ﷺ نے قرآن کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرمایا تھا تاکہ قرآن اور غیر قرآن آپس میں مل نہ جائیں۔ ازاں بعد قرآن مکمل محفوظ ہونے پر احادیث لکھنے کی اجازت مل گئی۔
b صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کواس بات کا اندیشہ تھا کہ تحریری مجموعہ پاس ہونے سے لوگ حفظ کرنے سے جی چرانے لگیں گے۔
b عربوں میں ابھی تک کوئی واقعہ لکھ کر محفوظ رکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ وہ کوئی چیز تحریر کر بھی لیتے تھے تو اسے چھپائے رکھتے تھے۔
حضرات! عہد ِ نبوی ہی میں احادیث کا تحریری سرمایہ جمع ہونا شروع ہو چکا تھا۔ فتح مکہ پر رسول اللہ ﷺ کا خطبہ لکھا گیا۔آپ نے مختلف حکمرانوں کو تحریری خطوط روانہ کیے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے خود آپ سے سن کر احادیث لکھی تھیں ۔ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، سیدنا ابوبکر بن عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ اور متعدد اشخاص کے پاس زکوٰۃ کے احکام لکھے ہوئے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک صحیفہ تھا۔رسول اللہﷺنے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ جو یمن کے گورنر تھے، اُنہیں میراث، صدقات اور دِیت سے متعلق ہدایات لکھ کر دیں۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ اپنے وطن واپس ہوئے تو آپﷺ نے اُنہیں ایک تحریر لکھوا دی جس میں نماز، روزہ، سود، شراب اور دیگر احکام تھے۔ غالباً ملکِ یمن سے سیدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری جواب دیا کہ سبزیوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر سیدنا ضحاک رضی اللہ عنہ نے بتایا :رسول اللہ ﷺ نے ہمیں لکھوایا کہ شوہر کی دِیت میں بیوی کا حصہ ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایات کا ایک تحریری مجموعہ اہل طائف کے پاس تھا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایتوں کا ایک مجموعہ وہب نے اور دوسرا سلیمان بن قیس نے تیار کیا تھا۔ سیدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے اُن کے بیٹے ایک نسخہ روایت کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ حافظِ حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ دوسرے صحابی ہیں جن سے بکثرت احادیث مروی ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے غلام ابورافع رضی اللہ عنہ سے آپ کے کارنامے لکھا کرتے تھے۔آپ کے خادم سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ کہتے تھے کہ لوگ اُن سے سنتے اور پھر جا کر اسے کر لکھ لیتے ہیں۔ ان کے بیٹے عبدالرحمن ایک کتاب لائے اور قسم کھا کر کہا کہ یہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خود لکھی ہے۔
دوستو! اگر تحریر ہی قابلِ وثوق ہے تو عہدِ نبوی میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے احادیث لکھیں ۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کی زندگی میں زہری رحمہ اللہ، ہشام رحمہ اللہ، قیس رحمہ اللہ، عطا رحمہ اللہ، سعید بن جُبَیر رحمہ اللہ اور سینکڑوں تابعین نے یہ تمام روایات تحقیق کرکے ہمیں فراہم کر دیں۔ صرف امام زہری رحمہ اللہ ہی کا تحریری مواد اتنا تھا کہ کتابیں جانوروں پر لاد کر لائی گئیں۔ بطورِ مثال امام زہری رحمہ اللہ نے اتنی محنت سے احادیث ِ نبوی جمع کیں کہ وہ مدینہ کے ایک ایک شخص حتی کہ پردہ نشین خواتین سے جا کر رسول اللہ ﷺ کے اقوال و حالات پوچھتے اور اُنہیں قلمبند کرتے تھے۔
یہ غلط ہے کہ تدوین و تحریرِ حدیث کا کام ایک سو برس بعد تابعین نے شروع کیا۔ تابعین وہ شخصیات ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات نصیب نہیں ہوئی مگروہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مستفید ہوئے، خواہ وہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ہوں یا آپ کی رحلت (۱۱ھ) کے بعد پیدا ہوئے، وہ سب تابعین ہیں۔ آپ کی زندگی ہی میں تابعین کا عہدکم از کم ۱۱ہجری سے شروع ہو گیا تھا۔ لہٰذا جو کام ۱۱ھ میں شروع ہوا، کہا جا سکتا ہے کہ اس کا آغاز تابعین نے کیا۔
مسلمانوں کے فن سیرتِ نبوی کا پہلا اُصول یہ تھا کہ واقعہ اس شخص کی زبان سے بیان ہو جو خود شریکِ واقعہ تھا، ورنہ شریکِ واقعہ تک تمام درمیانی راویوں کے نام بالترتیب بتائے جائیں۔ یہ بھی تحقیق کی جائے کہ وہ کون تھے، ان کے مشاغل اور چال چلن کیسی تھی، ثقہ تھے یا غیر ثقہ، نکتہ رس تھے یا سطحی الذہن اور عالم تھے یا جاہل؟ ہزاروں محدّثین نے اپنی عمریں اس کام میں کھپا دیں، ہزاروں میلوں کا سفر کیا اور لاکھوں لوگوں سے ملے۔
پھر عقلی اعتبارسے روایات پرکھنے کے اُصول الگ ترتیب دئیے۔راویوں کی چھان بین میں اتنی دیانتداری دکھائی کہ وہ واقعات اسلام کا فخر ہیں۔ راویوں میں بڑے بڑے حکمران اور اُمرا بھی تھے مگر محدّثین نے بلاخوف سب کو وہی درجہ دیا جو اُنہیں مل سکتا تھا۔ وکیع رحمہ اللہ کے والد سرکاری خزانچی تھے مگر جب وکیع رحمہ اللہان سے روایت کرتے تو اُن کی تائید میں ایک اور راوی کو ضرور شامل کرلیتے، یعنی تنہا اپنے باپ کی روایت تسلیم نہ کرتے۔ معاذ رحمہ اللہ بن معاذکو دس ہزار دینار پیش کیے گئے کہ وہ ایک شخص کے متعلق خاموش رہیں اور اسے معتبر یا غیر معتبر کچھ نہ کہیں۔ معاذ رحمہ اللہ نے اَشرفیوں کا توڑا حقارت سے ٹھکرا دیا۔
محدّثین نے جھوٹی اور ضعیف روایتیں بھی محفوظ کیں تاکہ مخالفین یہ کہہ نہ سکیں کہ مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کی کمزوریاں چھپانے کے لیے کئی روایتیں غائب کر دیں۔ محدّثین نے اپنے نبی ﷺکی طرف منسوب صحیح و غلط سارا مواد لا کر سامنے رکھ دیا اور اُصول مقرر کرکے ان دونوں کے درمیان فرق بتا دیا۔ یہ تمام روایات آج بھی دنیا کے سامنے موجود ہیں اور انہی اصولوں کے تحت ہر واقعہ پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔
عزیز قارئین! اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہنبی رحمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات وواقعات پرمواد کے مآخذ کیا تھے۔سیرتِ پاک ﷺکا سب سے اہم، سب سے مستند اور صحیح ترین ماخذ خود قرآن ہے جس کی صحت و معتبری میں دشمن بھی شک نہ کر سکے۔قبل از نبوت کی زندگی، یتیمی، غربت، تلاشِ حق، نبوت، وحی، اعلان و تبلیغ، معراج، مخالفین کی دشمنی، ہجرت، لڑائیاں اور اخلاق سب قرآن میں موجود ہیں۔
دوسرا ماخذ ایک لاکھ کے قریب احادیث ہیں۔ صحاحِ ستہ ہیں جن کا ایک ایک واقعہ تولا اور پرکھا ہوا ہے۔مسانید ہیں جن میں ضخیم ترین امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (م ۲۴۴ھ) کی المُسْنَد ہے۔مسانید میں ہر صحابی کی روایتیں الگ الگ ہیں۔
تیسرا ماخذ مغازی ہیں جو زیادہ تر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور لڑائیوں سے متعلق ہیں۔ مثلاً مغازی عروہ بن زبیر رحمہ اللہ (م ۹۴ھ)، مغازی زہری رحمہ اللہ (م۱۲۴ھ)، مغازی ابن اسحق رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ) اور مغازی واقدی رحمہ اللہ(م ۲۰۷ھ) وغیرہ۔
سیرت ِ محمدی کا چوتھا ماخذ کتب ِتاریخ ہیں۔ ان میں طبقات ابن سعد رحمہ اللہ(م۲۰۷ ھ)، تاریخ صغیر و کبیر امام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ) اور تاریخ طبری رحمہ اللہ(م ۳۱۰ھ) وغیرہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺکے معجزات اور روحانی کارناموں پر مشتمل کتبِ دلائل النبوت ہیں،مثلاً ابن قتیبہ رحمہ اللہ (م ۲۷۶ھ)، بیہقی رحمہ اللہ (م۴۵۸ھ) اور ابونعیم اصفہانی رحمہ اللہ(م۴۳۰ھ) وغیرہ کی کتب۔پھر آپ کے اخلاق اور معمولاتِ زندگی پر لکھی گئی کتب ہیں،مثلاً امام ترمذی رحمہ اللہ (م۲۷۹ھ)، ابوالعباس مستغفری رحمہ اللہ (م ۴۳۲ھ) اور قاضی عیاض رحمہ اللہ (م۵۴۴ھ) کی کتابیں۔پھر مکہ اور مدینہ پر کتابیںہیں جن میں مقامی حالات اور مقامات کے نام و نشان ہیں جنہیں آپ ﷺ سے کوئی تعلق ہے، مثال کے طور پر ازرقی (م ۲۲۳ھ) کی اخبارِ مکہ اور ابن زبالہ رحمہ اللہ کی اخبارِ مدینہ وغیرہ۔
عہدِ رسالت سے آج تک ہر زمانہ، ہر ملک اور ہر زبان میں آپ ﷺ پر لاتعداد کتب لکھی گئیں۔ ہر مصنف نے سینکڑوںاور ہزاروں اشخاص سے سن اور پڑھ کر سیرت ِ محمدی کو دوسروں تک پہنچایا۔حدیث کی پہلی کتاب المَوطأ کو اس کے مصنف امام ما لک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) سے ۶۰۰ لوگوں نے سنا جن میں حکمران، فقہا، علما، اُدبا اورشعراء سب ہی تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ) تصنیف الجامع الصحیح کو انکے صرف ایک شاگرد فربری رحمہ اللہسے ساٹھ ہزار لوگوں نے سنا۔
بتاؤ! کس شارع یا بانیٔ دین کی سوانح عمری اس احتیاط اور اہتمام کے ساتھ مرتب ہوئی؟ یہ تاریخیّت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کس کے حصہ میں آئی؟
مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں نے بھی سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا پروفیسر مارگیولیوتھ بھی اپنی کتاب ‘محمد(۱۹۰۵ء) میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہواکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سوانح نگاروں کا ایک نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ ہے، لیکن اس میں جگہ پالینا قابلِ عزت ہے۔
جان ڈیون پورٹ ۱۸۷۰ء میں اپنی کتاب ‘اپالوجی فار محمد اینڈ دی قرآن ان الفاظ سے شروع کرتے ہیں:
‘بلا شبہ تمام قانون سازوں اور فاتحین میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے حالات ِ زندگی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے وقائع عمری سے زیادہ مفصل اور سچے ہوں۔
b سیرتِ محمدی کی کاملیّت:
حضرات! کوئی انسانی زندگی خواہ کتنی ہی تاریخی ہو، وہ جب تک کامل نہ ہو ہمارے لیے نمونہ نہیں بن سکتی، کسی زندگی کی کاملیّت اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتی جب تک اس کے تمام اجزا ہمارے سامنے نہ ہوں۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی ولادتِ مبارک سے لےکر رحلت تک زندگی کا مختصر لمحہ بھی تاریخ کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہے۔
بطورِ مثال امام ترمذی رحمہ اللہ کی ‘شمائلِ ترمذی، قاضی عیاض رحمہ اللہ کی ‘الشفاءاور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی ‘زادالمعاد کے ابواب سے اندازہ لگالیں کہ آپ ﷺ کے جزئی واقعات بھی کس طرح قلم بند کیے گئے۔ مثلاً آپ کی شکل و صورت، اسماے گرامی، عمر،بال، کنگھی، خضاب، سرمہ، لباس، عمامہ، پائجامہ، موزے، پاپوش، انگوٹھی، خاموشی، گفتگو، تبسم، مزاح، خوشبو، تلوار، زرہ، خود، رفتار، نشست، تکیہ و بستر، وضو، پیالہ، کیا اور کیسے کھاتے پیتے، رات کو باتیں کرنے، سونے اور عبادت کرنے کے طریقے، گریہ، اخلاق، حجامت، خواب،خطبہ، سواری، سفر، جہاد، معمولاتِ عیادت و ملاقات، مجالس، اپنے اور دوسروں کے گھروں میں جانے کا انداز اور طریقہ، یادِ ِ الٰہی، اللہ پر توکل، صبر و شکر، استقامتِ عمل، حسن معاملہ، عدل و انصاف، سخاوت، ایثار، مہمان نوازی، تحفے قبول کرنا، احسان نہ قبول کرنا، عدمِ تشدد،مساوات، شرم وحیا، اپنے ہاتھ سے کام کرنا، ایفاے عہد، دشمنوں سے عفو و درگزر، غلاموں اور قیدیوں سے سلوک،اہل کتاب، منافقین اورغیرمسلموں سے برتاؤ، غریبوں سے محبت، بچوں پر شفقت، عورتوں سے برتاؤ، اولاد سے محبت، نکاح، بیویوں سے سلوک، ازدواجی تعلقات کا طریقہ، خرید و فروخت،حوائجِ ضروری کے آداب اور جانوروںسے سلوک اور اُن پر رحم وغیرہ۔
اس اجمالی تفصیل سے اندازہ لگالیں کہ جب ان جزئیات کو محفوظ رکھا گیا ہے تو بڑی اور اہم باتوں کی کیا کچھ تفصیل ہو گی۔
میرے دوستو! بڑے سے بڑا انسان جس کی ایک ہی بیوی ہو، یہ ہمت نہیں کر سکتا کہ بیوی کو یہ اجازت دے کہ تم میری ہر بات اور ہر حالت سب کو کہہ دو۔ رسول اللہﷺ کی نو بیویوں کو عام اجازت تھی کہ خلوت اور رات کی تاریکی میں مجھ میں جو دیکھو، وہ جلوت اور دن کی روشنی میں سب کو برملا بیان کر دو۔مسجدِنبوی کے چبوترہ پر رہنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم دن رات آپ کے حالات دیکھنے اور اُنہیں دوسروں کو بیان کرنے میں مصروف رہتے۔ دن میں مدینہ کی تمام آبادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر اَدا کا مشاہدہ کرتی۔ جنگوںمیں ہزارہا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کے شب و روز دیکھے۔ حجۃ الوداع میں تقریباً ایک لاکھ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی زیارت کی۔ ہر شخص کو حکم تھا کہ آپ کی ہر حالت و کیفیت منظر عام پر لائی جائے۔اس اخلاقی اعتماد کی مثال کہیں اور مل سکتی ہے؟
رسول اللہ ﷺہمیشہ اپنے پیروکاروں ہی کے درمیان نہیں رہے۔ آپ نے نبوت سے پہلے چالیس اور نبوت کے بعد تیرہ برس قریشِ مکہ میںگزارے جنہوں نے آپ کو صادق اور امین کا خطاب دیا۔ وہ آپ کے دعواے نبوت پر برہم ہوئے، گالیاں دیں، نجاستیں ڈالیں، پتھر پھینکے، قتل کی سازشیں کیں، ساحر، شاعر اور مجنون کہا، مگر کوئی آپ کے اخلاق و اعمال کے خلاف ایک حرف بھی نہ کہہ سکا۔
رسول اللہ ﷺپر ابتدا میں ایمان لانے والے کوئی مچھیرے یا غلام قوم کے نہیں بلکہ ایک ایسی آزاد قوم کے لوگ تھے جو اپنی عقل و دانش میں ممتازتھی۔ جو کبھی کسی کے محکوم نہیں ہوئے تھے۔ان کی تجارت دنیا میں دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھی۔ بھلا ایسے لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حال چھپا رہ سکتا تھا؟
سیرت ِ محمدی کے آئینہ میں دیکھ کر ہر شخص اپنے جسم و روح، ظاہر و باطن، قول و عمل اور آداب و رسوم کی اصلاح کر سکتا ہے۔ کوئی اور انسانی زندگی اس کاملیّت کے ساتھ دنیا کے سامنے موجود نہیں ہے،اس لیے تمام انسانوں کے لیے یہی ایک کامل نمونہ ہے!
سیرتِ محمدکی جامعیّت
حضرات! محبت ِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے ہر مذہب یہی بتاتا ہے کہ اس کے بانی کی نصیحتوں پر عمل کیا جائے۔ اسلام نے ایک بہتر تدبیر بتائی ۔ اس نے اپنے پیغمبر کا عملی نمونہ سب کے سامنے رکھ دیا اور اللہ کی محبت اس عملی نمونہ کی پیروی سے مشروط کر دی۔
کسی مذہب کے حلقہ ٔ اطاعت میںشامل اشخاص مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں حکمران، رعایا، سپہ سالار، سپاہی، فاتح، مفتوح، جج، مفتی، غریب، دولتمند، عابد، زاہد، مجاہد، اہل وعیال، دوست و احباب، تاجر، خریدار، امام، مقتدی، اُستاد، شاگرد، جوان، بچے، شوہر اور باپ سب شامل ہیںجنہیں عملی نمونہ کی ضرورت ہے۔ اسلام اُنہیں اتباعِ سنّت ِ نبوی کی دعوت دیتا ہے۔ پیغمبر ِ اسلام ﷺ کی سیرت میں ہر انسان کے لیے نمونے اور مثالیں ہیں ۔
انسان مختلف لمحوں میں مختلف افعال کرتا ہے: چلنا، پھرنا، اُٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ہنسنا، رونا، پہننا، اُتارنا، نہانا، دھونا، لینا، دینا، سیکھنا، سکھانا، مرنا، مارنا، مہمان بننا، میزبانی کرنا، عبادت، کاروبار، راضی ہونااور ناراض ہونا، خوش اور غمزدہ ہونا، کامیاب اور ناکام ہونا، شجاعت، بزدلی،غصہ، رحم،سخت گیری، نرم دلی، انتقام، معافی، صبر، شکر، توکل، رضا، قربانی و ایثار ،عزم واستقلال، قناعت واستغنا، تواضع وانکساری، نشیب و فراز اور بلند و پست وغیرہ ان تمام افعالِ انسانی اور احساسات ِ قلبی کی راہنمائی کے لیے ایک عملی نمونہ کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا عملی نمونہ جس میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی صرف شجاعانہ قوتیںیا سیدنا عیسیٰ علیہ اسلام کا صرف نرم اخلاق ہی نہ ہو بلکہ یہ دونوں صفات معتدل حالت میں موجود ہوں۔ سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا موسیٰ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام، سیدنا سلیمان، سیدنا داؤد، سیدنا ایوب، سیدنا یونس سیدنا یوسف اور سیدنا یعقوب علیہم السلام سب کی زندگیاں سمٹ کر محمدرسول اللہ ﷺ کی سیرت میں سما گئی ہیں۔
دوستو!دنیا میں دو طرح کی تعلیم گاہیں ہیں: ایک وہ جہاں صرف ایک فن جیسے میڈیکل، انجینئرنگ، آرٹ، تجارت، زراعت، قانون یا عسکری تعلیم دی جاتی ہے۔ دوسری یونیورسٹیاں ہیں جو ہر قسم کی تعلیم کا انتظام کرتی ہیں۔ صرف ایک ہی فن اور علم جاننے والوں سے انسانی سوسائٹی مکمل نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ان سب کے مجموعہ سے کمال کو پہنچتی ہے۔
آؤ! اب اس معیار سے مختلف انبیاے کرام کی سیرتوں پر غور کریں۔ سیدنا موسیٰ علیہ اسلام کی تعلیم گاہ میں صرف فوج کے افسرو سپاہی، قاضی اور کچھ مذہبی عہدیدار ملتے ہیں اور سیدنا عیسیٰ علیہ اسلام کے مکتب میں چند زاہد فقرا فلسطین کی گلیوں میں ملیں گے۔
لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاںاصمحہ حبشہ کا نجاشی بادشاہ، عامر بن شہر رضی اللہ عنہ ہمدان کا رئیس، بلال رضی اللہ عنہ جیسے غلام اور سمیّہ رضی اللہ عنہا جیسی لونڈیاں سب ہیں۔ ملکوں کے فرمانروا، دنیا کے جہانبان، عقلاے روزگار اور اسرارِ فطرت کے محرم اس درسگاہ سے تعلیم پا کر نکلے ہیں۔ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ ہیں جن کی مشرق سے مغرب تک فرمانروائی اور عدل و انصاف کے فیصلے ایرانی دستور اور رومی قانون کو بے اثر کر دیتے ہیں۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ دنیا کے فاتح اعظم اور سپہ سالار اکبر ثابت ہوتے ہیں۔ سیدناعمر، سیدناعلی ،سیدنا ابن عباس، سیدناابن مسعود ، سیدناعبداللہ بن عمرو بن العاص،سیدہ عائشہ، سیدہ اُمّ سلمہ ،سیدنا اُبی بن کعب ، سیدنامعاذ بن جبل اورسیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ جیسے فقہا نے دنیاکے قانون سازوں میں بلند درجہ پایا۔
ستر صحابہ اکرام پر مشتمل اہل صفہ جن کے پاس مسجدِنبوی کے چبوترہ کے سوا کوئی اورجگہ نہیں تھی، دن کو مزدوری کرتے اور رات عبادت میں گزارتے تھے۔ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے دربار ِ رسالت سے ‘مسیحِ اسلام کا خطاب پایا۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ زہد و تقویٰ کی تصویر ہیں۔ بہادر کارپردازوں اور مدبّرین میں طلحہ رضی اللہ عنہ، زبیر رضی اللہ عنہ، مغیرہ رضی اللہ عنہ، مقداد رضی اللہ عنہ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہیں۔ سمیّہ رضی اللہ عنہا، یاسر رضی اللہ عنہ اور خبیب رضی اللہ عنہ جیسے بے گناہ مقتول ہیں جنہوں نے جانیں قربان کر دیں مگر حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ بلال رضی اللہ عنہ، خباب رضی اللہ عنہ، عمار رضی اللہ عنہ، زبیر رضی اللہ عنہ، سعید رضی اللہ عنہ بن زید جیسے بھی ہیں جنہوں نے کفارِ مکہ کے مظالم برداشت کیے۔
میرے عزیزو! درسگاہیں اپنے شاگردوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ تعلیم انسانی کی ان درسگاہوں کا جن کے اساتذہ انبیا کرام ہیں، جائزہ لیں تو کہیں دس بیس، کہیں ساٹھ ستر، کہیں سو دوسو، کہیں ہزار دوہزار اور کہیں پندرہ بیس ہزار طالب علم آپ کو ملیں گے۔ جب مدرسہ نبوت کی آخری تعلیم گاہ کو دیکھیں گے تو ایک لاکھ سے زیادہ طلبا بیک وقت نظر آئیں گے۔ دوسری نبوت گاہوں کے طلبہ کہاں کے تھے، کون تھے،اُن کے اخلاق وعادات و دیگر سوانح زندگی کیا تھے؟ اس کا کوئی جواب نہیں مل سکتا۔ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی درسگاہ کے ہر طالب علم کی ہر چیز معلوم ہے۔ اس درسگاہ کے بانی کی دعوت جامع اور عالمگیر تھی کہ نسلِ آدم کا ہر فرزند اور ارضِ خاکی کا ہر باشندہ اس میں داخل ہوا یا داخلہ کے لیے اسے آواز دی گئی۔
تورات کے انبیا عراق یا شام یا مصر سے آگے نہیں بڑھے۔ عربوں کے قدیم انبیا بھی اپنی قوموں سے باہر نہیں گئے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے مکتب میں بھی غیر اسرائیلی طالب علم کا وجود نہیں تھا۔ ہندوستان کے داعی آریہ ورت سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اگرچہ بدھ کے پیروؤں نے بدھ مت دوسری قوموں تک پہنچایا مگر یہ عیسائیوں کی طرح بعد کے پیروؤں کا فعل تھا۔
اب ذرا محمد رسول اللہ ﷺ کی درسگاہ دیکھیں: ابوبکر و عمر ، عثمان و علی رضی اللہ عنہم مکہ کے، ابوذر اور انس رضی اللہ عنہم تہامہ کے، ابوہریرہ اور ابوموسیٰ اور معاذ رضی اللہ عنہم یمن کے، منذر بحرین کے، عبید رضی اللہ عنہ و جعفر رضی اللہ عنہ عمان کے، فردہ رضی اللہ عنہ شام کے، بلال رضی اللہ عنہ حبشہ کے، صہیب رضی اللہ عنہ روم کے اورسلمان رضی اللہ عنہ ایران کے رہنے والے ہیں۔ پیغمبر اسلام ۶ھ ؁ میں تمام قوموں کے سلاطین اور حکمرانوں کے نام دعوت ِ اسلام کے خطوط بھیجتے ہیں۔ درسگاہ ِ محمدی میں یہ جامعیّت نمایاں ہے کہ اس میں داخلہ کے لیے رنگ، وطن، نسل اور زبان شرط نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے داخلہ کھلاہے۔
دوستو! آپ نے درسگاہ ِ محمدی کی پوری سیر کر لی جس میں آپ نے ہر رنگ اور ہر ذوق کے طالب علم دیکھے۔ آپ نے کیا فیصلہ کیا ؟ اس کے سوا کیا فیصلہ ہو سکتا ہے کہ محمد رسول اکرمﷺکی ذات انسانی کمالات اور صفات ِ حسنہ کا کامل مجموعہ تھی۔ آپ کا وجودِ مبارک ایک ابرِ باراں تھا جو پہاڑ، جنگل، میدان، کھیت، ریگستان اور باغ ہر جگہ برستا تھا اور ہر ٹکڑا اپنی اپنی استعداد کے مطابق سیراب ہو رہا تھا اورقسم قسم کے درخت اور رنگارنگ پھول اور پتے اُگ رہے تھے۔
b سیرتِ محمدکی عملیّت :
عزیز جوانو! یہ انبیاے کرام اور بانیانِ مذاہب کی موجودہ سیرتوں کا وہ باب ہے جو تمام تر خالی اور سادہ ہے، لیکن محمدعربیﷺ کی سیرت کا یہی باب سب سے بڑا اَور ضخیم ہے۔ سیرتِ محمدی کا روشن ترین پہلو یہ ہے کہ آپ نے بطورِ پیغمبراپنے پیروکاروں کو جو نصیحت فرمائی، اس پر پہلے خود عمل کرکے دکھادیا۔
عام پیروکاروں کو دن میں پانچ وقتوں کی نمازوں کا حکم تھا، مگر آپ ﷺنے آٹھ وقت نماز پڑھی۔ عام مسلمانوں پرروزو شب میں سترہ رکعتیں فرض ہیں، مگر آپ ہر روز کم و بیش پچاس ساٹھ رکعتیں اَدا فرماتے تھے۔ پنجگانہ نمازیں فرض ہونے کے بعدنمازِ تہجد مسلمانوں کو معاف ہو گئی تھی مگر آپ اسے تمام عمر ہر شب اَدا فرماتے رہے۔مکہ میںکئی دفعہ دشمنوں نے دورانِ نماز آپ پر حملہ کیا۔ دشمنوں کے خلاف معرکوںحتی کہ مرض الموت میں بھی آپ کی نماز ترک نہ ہوئی۔ ساری زندگی میں صرف دو مرتبہ نماز قضا ہوئی۔
آپﷺ نے روزہ کا حکم دیا۔ مسلمانوں پر سال میں تیس روزے فرض ہیں، مگر آپ کا کوئی ہفتہ اور کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ جاتا تھا۔ آپ دو دو تین تین دن بغیر کھائے پیئے متصل روزہ رکھتے تھے۔
آپ نے زکوٰۃ اور خیرات کا حکم دیا تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ جو کچھ آیا، سب اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔ فتح خیبر کے بعد سال بھر کا غلّہ ازواجِ مطہرات کو دے دیا جاتا تھا مگر سال ختم ہونے سے پہلے وہ ختم ہو جاتا،اس لیے کہ اس کا بڑا حصہ اہل حاجت کی نذر کر دیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ بحرین سے خراج کامال آیا۔ فرمایا: مسجد میں ڈال دو۔ صبح نماز کے بعد ڈھیر کے پاس بیٹھ گئے اور تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ جب سب ختم ہو گیا تو دامن جھاڑ کریوں کھڑے ہوگئے کہ یہ گویا غبار تھا جو دامن پر پڑ گیا تھا۔ ایک دفعہ نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد خلافِ معمول فوراً تشریف لے گئے او ر پھر باہر آئے۔ پوچھنے پر فرمایا: ’’مجھے نماز میں یاد آیا کہ سونے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا گھر میں پڑا ہے، خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ رات آ جائے اور وہ محمد کے گھر پڑا رہ جائے‘‘
آپ نے زہد و قناعت کی تعلیم دی تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ فتوحات کی وجہ سے جزیہ، زکوٰۃ، عشر اورصدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے مگر آپ کے گھر میں وہی فقر و فاقہ تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺرحلت فرماگئے مگرآپ کو دو وقت بھی سیر ہو کرکھانا نصیب نہ ہوا۔ آپ کی رہائش ایک کمرہ تھی جس کی دیوار کچی اور چھت کھجور کے پتوں اور اونٹ کے بالوں سے بنی تھی۔ آپ کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جو بدنِ مبار ک پر کپڑا ہوتا تھا، اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہی نہیں تھا جو تہہ کیا جاتا۔
آپ نے مساوات کی تعلیم دی۔ آپ نے خود مساوات، اخوتِ انسانی، اور جنسِ انسانی کی برابری کی یہ عملی مثال پیش کی کہ ایک غلام کو اپنا فرزندِ متبنٰی بنایا، اپنی پھوپھی زاد بہن کو ایک غلام سے بیاہا اور مطلّقہ عورتوں سے شادی کی۔
آپ نے ایثار کی تعلیم دی توایثار میں بھی اپنا نمونہ پیش کیا۔آپ کے پاس چادر نہیں تھی۔ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہانے چادر لاکر پیش کی۔کسی نے کہا: کتنی اچھی چادرہے۔ آپ نے چادر فوراً اُتار کر اسے دے دی۔
عزیزو! آؤ دشمنوں کو پیار کرنے کی عملی مثال پیغمبر اسلام ﷺمیں آپ کو دکھاؤں۔ مکی حالات چھوڑتا ہوں کہ محکومی، بیکسی اور معذوری، عفوودرگذر اور رحم کے ہم معنی نہیں ہوتے۔ ہجرت کے وقت سو اُونٹ کے لالچ میں محمد ﷺکاتعاقب کرنے والے سراقہ رضی اللہ عنہ کی جان بخشی کر دی۔ کفار کے سرغنہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے دن معافی مل گئی۔ سب سے بڑے دشمن ابوجہل کے بیٹے عکرمہ رضی اللہ عنہ آئے تو فرمایا: ‘’’اے مہاجر سوار! تمہارا آنا مبارک‘‘۔یہ اسے کہاگیا جس نے آپ ﷺ پر نجاست ڈلوائی، حالت ِنماز میں آپ پر حملہ کیااور آپ کے گلے میں چادر ڈال کر قتل کرنا چاہا۔ پیغمبر اسلام کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے قاتل ہبار بن الاسود کو معاف کر دیاگیا۔ زہر بجھی تلوار سے قتل کے لیے آنے والا عمیر بن وہب گرفتار ہونے پر رہا کر دیاجاتا ہے۔ آپ ﷺنے آپ پر پتھر برسانے والوں، آپ کادانت شہید اور چہرہ خون آلود کرنے والوں کے لیے دعاکی۔
آپ کو جھٹلانے، گالیاں دینے، راستے میں کانٹے بچھانے اور غریب و بیکس مسلمانوں کو ستانے والے سردارانِ قریش فتحِ مکہ کے دن صحنِ حرم میں سرجھکائے سامنے بیٹھے تھے۔ پیچھے دس ہزار خون آشام تلواریں محمد رسول اللہ کے ایک اشارہ کی منتظر تھیں، لیکن وہ سب معاف کر دیئے گئے۔
میرے دوستو!کیا پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ ﷺکے سوا،انسانی تاریخ میں ایسی عملی ہدایتوں اور کامل مثالوں کا کوئی اور نمونہ کہیں نظر آتا ہے۔
—–

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے