امیں اس سے ہر وہ شے مراد لی جاتی ہے جو کسی نبی یا ولی یا بزرگ کی جانب منسوب کردی جائے ،خواہ یہ نسبت درست اور ثابت ہو یا نہیں،سطور مذیلہ میں ہمارا مقصود رسول اللہ ﷺ کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ہے،رسول اللہ ﷺ چونکہ مجسم خیر و برکت تھے لہذا آپ کے آثار حسیّہ کے ذریعے خیر و برکت کی امید رکھنا فطری امر ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی حیات میں تبرک کی صورتیں:ااا
جب تک آپ ﷺبقید حیات تھے آپکی ذات اور استعمال شدہ اشیاء سے تبرک حاصل کرنا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں رائج تھا،بلکہ خود نبی مکرمﷺ اس کے مواقع فراہم کرتے تھے،جیسا کہ درج ذیل دلائل سے واضح ہے:
سیدناانس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:نبی کریم ﷺنے سر کے بال منڈھوائے،پھرسیدنا ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلاکر انہیں اپنے بال دیئے اور کہا:
انہیں لوگوں میں تقسیم کردو۔(مسلم:3215)
نیز اسطرح کے موقع پر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حرص و رغبت بھی دیدنی ہوتی جیسا کہ انس نے کہا کہ جب بال کاٹنے والے نے آپکے بال کاٹے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین آپکے ارد گرد منڈلانے لگے:
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خواہش ہوتی کہ کوئی بال گرنے نہ پائے مگر کسی کے ہاتھ میں۔(مسلم:6188)
یہی کیفیت آپ ﷺکے وضو کے استعمال شدہ پانی کے ساتھ ہوتی،جیسا کہ مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِیعِ نے کہا کہ:
’’نبی ﷺ جب وضو کرتے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین آپکے وضو کے پانی کے حصول کی خاطر گویا لڑنے کو تیار ہوجاتے‘‘
حتیٰ کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کے لعاب مبارک کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے،جیسا کہ عروہ بن مسعود الثقفی نے کہا:
’’اللہ کی قسم نبی ﷺ جب تھوکتے تو صحابہ y اسے کیچ کرلیتےموہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرتا،پھر وہ اسے اپنے چہروں،اور جسموں پر مل لیتے۔ (بخاری:2581)
bنیز اپنے بچوں کو مونہوں میں بھی آپ ﷺ کا لعاب دہن داخل کرنے کے لئے بے تاب رہتے ،کیونکہ وہ اسکی شفا اور برکت کا بارہا مرتبہ مشاہدہ کرچکے تھے،جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین آپکے پاس اپنے بچے لاتے تاکہ آپ انہیں گھٹی دیں اور برکت ہو۔(مسلم:5743)
(نوٹ)نبی کریم ﷺ نومولود بچوں کو گھٹی اسطرح دیتے کہ پہلے اسے اپنی گود میں لیتے،پھر کھجور منگواکر اسے چباکر نرم کرتے،پھر اسکے منہ میں تھتکارتے یعنی تھوک کے ذرات اسکے منہ میں داخل کرتے ،پھر اسے کھجور چکھاتے،گویا سب سے پہلے اسکے پیٹ میں نبی ﷺ کا لعاب مبارک داخل ہوتا۔(بخاری:5152)
سیدناسہل بن سعد رضی الله عنہ نے کہا:
نیزنبی ﷺ نے خیبر کے دن اعلان کیا کہ:
میں عَلَم اس شخص کو دوں گا،جسکے ہاتھ پر اللہ فتح عطا فرمائے گا،چنانچہ سب ہی اسکے حصول کی امید میں کھڑے ہوگئے،تو آپ نے پوچھا:علی کہاں ہیں؟،بتایا گیا کہ انکی آنکھ میں تکلیف ہے،آپ نے انہیں بلوایا اور انکی آنکھوں میں تھوکا تو وہ اسطرح صحیح ہوگئے گویا انہیں کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔ (بخاری:2783)
نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کوشش میں رہتے کہ انہیں نبی اکرم ﷺ کا جھوٹا مل جائےجسے کھا کر یا پی کر وہ خیر و برکت کا عظیم خزانہ حاصل کرلیں، جیسا کہ سہل بن سعد رضی الله عنہ نے کہا کہ:
نبی مکرم ﷺ کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی،آپ نے اس سے پیا ،آپکی دائیں جانب ایک بچہ تھا اور بائیں جانب کچھ بزرگ،آپ نے بچے سے پوچھا:کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں یہ انہیں دیدوں؟وہ بچہ ابن عباس تھے انہوں نے کہا:اللہ کے رسول اللہ کی قسم میں آپکا جھوٹا پینے پر کسی کو ترجیح نہ دوں گا،چنانچہ نبی کریمﷺ نے وہ چیز انکے ہاتھ میں پکڑادی۔ (مسلم:5412)
نیزسیدنا ابو عقیل الملیلی رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’مجھے رسول اللہ ﷺ نے ستو پلایا،جس سے پہلے آپ نے پیا،پھر آخر کا میں نے پیا،پس میں ہمیشہ اسکی سیرابی کو محسوس کرتا ہوں جب سیراب نہ ہوں،اور اسکی تری کو جب پیاسا ہوں،اور اسکی ٹھنڈک کو جب گرمی لگے‘‘(اسد الغابہ،3/218،تاریخ دمشق،44/351)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے تراشیدہ ناخنوں کو بھی بطور خیر و برکت محفواظ کرلیا کرتے تھے،جیسا کہ محمد بن زید نے کہا:
’’انکے والد نے انہیں بیان کیا کہ:وہ اور ایک قریشی نبی ﷺ کے ساتھ منحر(اونٹوں کو نحر کرنے کی جگہ،مراد منی ہے)میں تھے،اورآپ ﷺ قربانی کے جانور لوگوں میں تقسیم کررہے تھے،پس انہیں اور قریشی کو کوئی جانور نہ مل سکا،پھر رسول اللہ ﷺ نے سر کےبال ایک کپڑے میں منڈھوائے ،وہ آپ نے انہیں دیئے،تو انہوں نے ان میں سے کچھ بال لوگوں میں تقسیم کردیئے،اور آپ ﷺ نے ناخن ترشوائے تو وہ انکے ساتھی(قریشی)کو دیدیئے‘‘(احمد:16522،بیہقی کبری:91، علامہ شعیب الارناؤط نے اسے صحیح کہا)
نیزآپ ﷺ کے استعمال شدہ لباس،چادروں اور برتنوں کو بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بطور تبرک استعمال کرتے تھے،بلکہ خود نبی مکرمﷺ بھی اپنا استعمال شدہ لباس بطور خاص عنایت کیا کرتےتھےجیسا کہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
ہم نبی ﷺکی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں کہ آپ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور کہا:اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دو،یااس سے زیادہ اگر مناسب جانو،پانی اور بیری کے ساتھ،اور آخر میں کچھ کافور ملالینا،پھر جب فارغ ہوجاؤ تو (کفن پہنانے سے قبل)مجھے بتادینا، چنانچہ ہم نے آپکو بتادیا تو آپ نے ہمیں اپنی تہبند دی اور فرمایا:اسے اس میں لپیٹ دو۔(بخاری:2211)
نیزایک صحابی نےنبی اکرمﷺ سے انکی چادر مانگ لی جو آپ نے زیب تن کررکھی تھی ،جیسا کہ سہل نے کہا:
’’ایک خاتون نے نبی مکرمﷺ کو ایک چادر دی جسکے کنارےاس نے خود کڑھے تھے،آپ نے وہ چادراس انداز میں لی گویا آپکو اسکی ضرورت ہے،چنانچہ آپ اسے پہن کر باہر تشریف لائے تو ایک شخص نے اسکی تعریف کی اور کہا کہ:کس قدر خوبصورت چادر ہے،یہ آپ مجھے عنایت کردیجیے،(چنانچہ آپ نے وہ اسے دے دی)لوگوں نے اس سے کہا:تم نے اچھا نہیں کیا،نبی ﷺ نے وہ چادر ضرورتا پہنی تھی اور تم نے اسے مانگ لیا جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ نبی ﷺ کبھی منع نہیں کرتے،اس نے کہا:اللہ کی قسم میں نے اسے پہننے کے لئے نہیں مانگی،بلکہ اپنے کفن کے لئے مانگی ہے،چنانچہ وہ اسکا کفن بنی۔(بخاری:1218)
نیزسیدنا عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے کہا:نبی ﷺ کا ایک بڑا سا تھال تھا جسے الغراء کہا جاتا تھا،اسے چار آدمی مل کر اٹھاتے،جب چاشت کا وقت ہوتا تو اسے لایا جاتا اس میں ثرید بنائی جاتی،لوگ اسے کھاتے،ایک دفعہ نبی ﷺ نے فرمایا:
اسکے کناروں سے کھاؤ،اوربیچ میں ہاتھ نہ مارو،اس میں برکت ڈالی جاتی ہے۔(ابوداؤد:3775،الصحیحۃ:393)
bنیز آپ ﷺ کا پسینہ بھی بعض صحابیات جمع کرلیتیں اور اسے اپنے بچوں کے لئے اورخوشبو کا معیار بڑھانے کے لئے استعمال کیا کرتی تھیں ،جیسا کہ سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’نبی اکرم ﷺ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر جایا کرتے تھے، ایک دن آپ انکے بستر پر سوگئے،انہیں بتایا گیا کہ نبی ﷺ آپکے گھرمیں آپکے بستر پر دراز ہیں،تو وہ آئیں،نبی ﷺ کو پسینے آرہے تھے اور چمڑے(کے گدے)کے ایک کنارے پر جمع ہورہے تھے،چنانچہ انہوں نے اپنا عتیدہ(پرس نما شے جس میں خواتین اپنا قیمتی سامان رکھتی ہیں) کھولا اور آپکا پسینہ اس کی شیشیوں میں جمع کرنے لگیں،نبی ﷺ گھبرا کر اٹھے تو پوچھا:ام سلیم آپ یا کررہی ہیں؟انہوں نے کہا:ہم اپنے بچوں کے لئے اسکی برکت کی امید رکھتے ہیں،تو نبی ﷺ نے فرمایا:آپ نے درست کیا۔(مسلم:6202)
ایک روایت کے مطابق،سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
وہ آپ ﷺ کا پسینہ جمع کرکے اسے خوشبو میں ملاتیں اور شیشیوں میں رکھتیں،تو نبی مکرمﷺ نے پوچھا :ام سلیم یہ کیا ہے؟،انہوں نے کہا:آپکا پسینہ میں اپنی خوشبو میں ملاتی ہوں۔(مسلم:6203)
ایک اور روایت میں ہے کہ جب سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آگیا تو انہوں نے وصیت کی کہ:
کہ انکی تجہیز و تکفین میں وہ پسینہ ملی خوشبو استعمال کی جائے،چنانچہ ایسا ہی کیا گیا(بخاری:5925)
نیزنبی ﷺ کا پورا وجود مسعود خصوصاًہاتھ مبارک بھی انتہائی برکت والا تھا،جیسا کہ درج ذیل دلائل سے واضح ہے:
سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ:
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اپنے یہودی آقاؤں سے آقائے نامدار محمد رسول اللہ ﷺکے حکم پر مکاتبت کرلی ،انکے مالک اس شرط پر راضی ہوئے کہ وہ انہیں تین سو کھجور کے پودے لگاکر دیں اور چالیس اوقیہ چاندی فراہم کردیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کی اپیل پر انہیں پودے فراہم کردیئے،جو نبی مکرمﷺ نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے لگائے، اور آپ کے پاس مرغی کے انڈے برابر سونا آیا تو آپ نے وہ سلمان کو دیا اور کہا کہ بقیہ بھی ادا کردے،تو انہوں نے کہا کہ اس سے بقیہ پورا نہ ہوگا،تو نبی ﷺ نے اسے لیا اور اس پر اپنی زبان مبارک پھیری اور کہا کہ اب دے دو،سلمان نے کہا کہ میں نے اس سے چالیس اوقیہ چاندی بھی دے دی اور اتنی ہی میرے پاس بچ بھی گئی۔
(احمد:23789بیہقی کبری:21415، الصحیحۃ :894)
نیزسیدنا حنظلہ بن جذیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
نبی اکرم ﷺ نے انکے سر پر ہاتھ پھیرا(جب وہ چھوٹے بچے تھے)اور کہا:اللہ تجھے برکت دے،ذیال نامی راوی نے کہا:میں نے دیکھا کہ حنظلہ کے پاس سوجھے ہوئے چہرے والا انسان اور سوجھے ہوئے تھنوں جانور لایا جاتا،وہ اپنے ہاتھوں پر تھتکارکر کہتے بسم اللہ اور اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے اور کہتے کہ:رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ رکھنے کی جگہ ،پھر وہ ہاتھ اس انسان یا جانور پر پھیرتے تو وہ صحیح ہوجاتا۔ (احمد:20684،الصحیحۃ:2955)
نیزسیدناعبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ جب گستاخ رسول ابو رافع یہودی کو جہنم رسید کرکے واپس آئے تو انکی ٹانگ ٹوٹ چکی تھی،نبی مکرم ﷺ نے ان سے کہا کہ:
اپنی ٹانگ آگے کر،میں نے اپنی ٹانگ پھیلادی، پھر آپ ﷺ نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا،تو گویا اس میں کبھی درد ہوا ہی نہ تھا ۔
نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے وجود مسعود کی خیر و برکات سمیٹنے کی خاطر آپکو اپنے گھراں میں مدعو کرتے اور نفل پڑھنے کی درخواست کرتے، جیسا کہ محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا:
سیدناعتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نابینا تھے اور اپنی قوم کی امامت کرواتے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:اللہ کے رسول ،راستے میں اندھیرا اور سیلابی پانی ہوتا ہے،اور میں آنکھوں سے معذور ہوں،سو آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز ادا کرلیں،جسے میں جانماز بنالوں ،چنانچہ نبی ﷺ انکے گھر آئے،پوچھا کہ کہاں نماز پڑھوں،انہوں ایک جگہ بتائی ،تو رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ نماز ادا کی۔ (بخاری:636)
(ضروری تنبیہات)
1-مذکورہ دلائل سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ خیر و برکت آپ ﷺکی ذاتی تھی،نہ تو رسول ﷺنے یہ تاثر دیا نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسا سمجھے، بلکہ نبیﷺ نے اسطرح کے موقع پراپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کوتنبیہ فرمائی اور انکی رہنمائی کی،جیسا کہ حدیث میں آتا ہےکہ نبی ﷺ نے ایسے موقع پر جب تھوڑا سا پانی بہت سے لوگوں کو کافی ہوگیا تھا فرمایا:
اس پاک اور مبارک پانی کو لے لو اور برکت اللہ کی جانب سے ہے۔(بخاری:3386 )
2-نبی مکرم ﷺ کی حیات طیبہ میںاور آپکی وفات کے بعد بھی نیک ہستیاں موجود تھیں،مثلاً:ابوبکر و عمر و عثمان و علی وغیرہم رضی اللہ عنہم، لیکن کسی صحابی نے نبی ﷺ کے علاوہ اور کسی بھی شخصیت کے ساتھ اس طرح کا معاملہ نہیں کیا، اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاعقیدہ معلوم ہوا کہ انکے نزدیک یہ معاملہ صرف نبی ﷺ کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ مزید تفصیل آگے ذکر کی جائے گی۔
3- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا آپکے تبرکات کے ساتھ یہ سلوک آپ ﷺ سے انکی سچی محبت کا معمولی سا مظہر تھا،ورنہ اس سے بڑھ کر وہ آپ کے اشارے پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لئے بھی ہر لمحہ تیار رہا کرتے تھے،نیز آپکی اتباع و اطاعت انکی اصل شان تھی جسکے تذکرے اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بھی کئے ہیں۔
4-اظہار محبت کے علاوہ مذکورہ افعال کا ایک اور مقصد بھی تھا ،یعنی منافقین،یہود اور مشرکین مکہ کو مرعوب کرنا،جیسا کہ حدیبیہ کے موقع پر ہوا۔
5-رسول اکرمﷺ کے تبرکات کی فہرست نہایت طویل ہے، جو بلاشبہ ایک ضخیم کتاب کی متقاضی ہے ،ہم نے سطور بالا میں بطور مثال چند پہلو نقل کئے ہیں،نیز نبی مکرمﷺ کی وفات کے بعد عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین میں بھی اس نوع کے متعدد واقعات ملتے ہیں ،جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد تبرک کی صورتیں:
آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے آثار حسیہ سے تبرک حاصل کرتے رہے،جیسا کہ درج ذیل دلائل سے واضح ہے:
عبد اللہ مولی اسماء بنت ابی بکر نے کہا کہ:
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہانے ایک چادر نما کسروانی جبہ نکالاجسکا گریبان اور چاک ریشم کے تھے، اور کہا: یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا جب وہ فوت ہوگئیں تو میں نے لے لیا،نبی ﷺ اسے پہنا کرتے اور ہم اسے دھوکر (اسکا پانی)مریضوں کو دیتیں وہ اس کے ذریعے شفایاب ہوتے۔(مسلم:5530)
سیدناابو بردہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
میں مدینہ آیا،تو مجھ سے عبد اللہ بن سلام ملے اور کہنے لگے گھر چلیں،میں آپکو اس پیالے میں پانی پلاؤں گا جس میں رسول اللہ ﷺ پیا کرتے،اور آپ اس مسجد میں نماز ادا کیجیئے گا جس میں نبی ﷺ نے نماز ادا کی،لہٰذا میں انکے ساتھ گیا تو انہوں نے مجھے ستو پلایا،اور کھجوریں کھلائیں،اور میں نے انکی مسجد (جاءنماز) میں نماز ادا کی۔(بخاری:6910)
نیز ابو حازم نے کہا:
سہل نے ہمارے لئے وہ پیالہ نکالا،ہم نے اس میں پانی پیا،انہوں نے کہاکہ:بعد میں عمر بن عبد العزیز نے وہ پیلاہ ان سے مانگا تو انہوں نے وہ عمر کو گفٹ کردیا۔ (بخاری:5314)
bنیز عثمان بن عبد اللہ بن موہب نے کہا:
’’مجھے میرے گھر والوں نے چاندی کا ایک پیالہ دیکر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا،اس میں نبی ﷺ کے کچھ بال تھے،جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی تکلیف ہوتی تو وہ کوئی برتن ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتا۔ (بخاری:5557)
نیزسیدناخالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے کہا:
ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عمرہ ادا کیا،جب آپ ﷺ نے اپنے بال مونڈھے تو لوگ آپکے بالوں کی طرف لپکےمیں آپکی پیشانی کی طرف پہلے پہنچا،میں نے وہ بال ایک ٹوپی بنواکر اس میں رکھ دیئے،پھر جہاں بھی گیا مجھے فتح ملی۔(مسند ابی یعلی:7183، المستدرک:5299)
نیزسیدنا عطا مولی السائب رحمہ اللہ نے کہا کہ:
میں نے اپنے آقا سیدناسائب رضی اللہ عنہ کو دیکھا انکی داڑھی سفید تھی،اور سر سیاہ،میں نے پوچھاتو انہوں نے کہا:میرا سر کبھی بوڑھا نہ ہوگا،کیونکہ جب میں بچہ تھا ،اور بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا تو نبی ﷺ وہاں سے گذرے،آپ نے مجھے بلاکر میرا نام پوچھا،میں نے نام بتایا،پھر آپ نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا،اور کہا:اللہ تجھے برکت دے،چنانچہ نبی ﷺ کی ہاتھ رکھی ہوئی جگہ کبھی بوڑھی نہ ہوگی۔
(طبرانی اوسط:4841،طبرانی صغیر:701،طبرانی کبیر: 6693، تہذیب الآثار لابی جعفر الطبری:984،معرفۃ الصحابہ للاصبہانی،تاریخ الاسلام للذہبی،6/365)
نیزسیدنا عیسی بن طہمان رحمہ اللہ نے کہا کہ:
صحابی ٔ رسول سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے ہمارے لئے بغیر بالوں والی چمڑے کی دو جوتے نکالے،انکے دو تسمے تھے، پھر بعد میں ہمیں ثابت البنانی نے بتایا کہ وہ نبی مکرم ﷺ کی جوتے تھے۔(بخاری:2940)
یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آثار رسول ﷺ سنبھال کر رکھتے تھے۔
نیزعلامہ ابن سیرین رحمہ اللہ نے کہا کہ:
میں نے عبیدہ سے کہا،ہمارے پاس نبی ﷺ کا ایک بال ہے،جو ہم نے انس tیا انکے گھر والوں سے لیا،تو عبیدہ نے کہا:میرے پاس آپ ﷺ کا کوئی بال ہو تو وہ مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ عزیز ہو۔(بخاری:168)
(ضروری تنبیہ)
ہم پہلے بھی تنبیہ کرچکے ہیں کہ مذکورہ تمام روایات میں مذکور تبرک کے حصول کی صورتوں کا تعلق صرف اور صرف نبی ﷺ کے ساتھ مخصوص تھا،بنی ﷺ کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اور کسی بھی جلیل القدر شخصیت کی ذات یا اانکے آثار سے تبرک حاصل کرنے کو جائز نہیں سمجھا،بلکہ سیدنا عمر فاروق تو نبی ﷺ کے آثار کے ساتھ تبرک حاصل کرنا بھی ناپسند کرتے اور اسطرح کے افعال سے روکتے اور اس قسم کی اشیاء کو تلف کردیا کرتے تھے،تاکہ امت میں بدعت و شرک کا چور دروازہ”غلو“نہ کھل جائے جس سے داخل ہوکر گذشتہ اقوام گمراہ ہوگئیں،جیسا کہ درج ذیل روایات سے واضح ہے:
معرور بن سوید رحمہ اللہ نے کہا کہ:
ہم نےسیدنا عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا،جب حج سے فارغ ہوئے تو لوگ ایک طرف دوڑنے لگے،عمررضی اللہ عنہ نے پوچھو :کیا ہوا؟،لوگو نے کہا:مسجد جارہے ہیں جہاں نبی ﷺ نے نماز پڑھی تھی،تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اہل کتاب اسی طرح ہلاک ہوئے،انہوں نے اپنے انبیاء کے آثار پر عبادت گاہیں بنالیں،تم میں سے جسےاس مسجد میں نماز پڑھنے کی ضرورت (اتفاقا نہ کہ قصدا)پڑجائے،وہ نمازپڑھ لے، اور جسے نہیں پڑے تو وہ نہ پڑھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:7632،مصنف عبد الرزاق:2734،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا:الثمر المستطاب،1/417،تحذیر الساجد من اتخاذ القبور )
نیزابن عون رحمہ اللہ نے کہا کہ:
سیدناعمررضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ لوگ اس درخت کے پاس( قصداًوزیارتاً)جاتے ہیںجسکے پاس بیعت رضوان لی گئی تھی ،تو انہوں نے اس پر ڈانٹا اور اسے کاٹنے کا حکم دیا۔
(اخبار مکہ للفاکہی:2817،غزوات الرسول ﷺلابن سعد،ص:50)
حالانکہ اس درخت کا ذکر خیر قرآن مجید کی سورۃالفتح کی آیت نمبر18 میں بھی ہے۔
عابس بن ربیعہ رحمہ اللہ نے کہاکہ :
سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے،اسکا بوسہ لیا اور کہا:مجھے یقین ہے کہ تو محض پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ ہی نقصان،اور اگر میں نے نبی مکرم ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تیرا بوسہ لیتے،تو میں تیرا بوسہ نہیں لیتا۔(بخاری:1520)
حالانکہ یہ جنت کا پتھر ہے،علاوہ ازیںہر نبی و رسول کے ہونٹوں اور ہاتھوں نے اسے مس کیا،اور نبی مکرم ﷺ نے تو اسے لاتعداد مرتبہ مس کیا بلکہ خود اپنے مبارک ہاتھوں سے اسے نصب کیا۔
نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک کی مٹی سے تبرک حاصل کرنا:
bمرض الوفات میں نبی ﷺ اکثر و بیشتر فرمایا کرتے کہ:
’’تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیتے،خبردار تم قبروں پر مساجد نہ بنانا،میں تمہیں اس سے منع کررہا ہوں‘‘(مسلم:1216)
اسکی وجہ یہ تھی کو آپﷺ کو یہ خدشہ تھا کہ جس طرح سابقہ امتوںنے اپنے انبیاء کے ساتھ انکی محبت کے نام پراسقدر غلو کیا کہ انہیں الوہیت کے مرتبے تک پہنچادیا،کہیں میری امت بھی میرے بعد میرے ساتھ یہی سلوک نہ کرے ،چنانچہ آپ نے اپنی امت کو واشگاف الفاظ میں تنبیہ کردی کہ:
اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنانا،نہ ہی میری قبر کو میلہ گاہ بنانا،اور جہاں بھی ہو وہیں مجھ پر صلاۃ پڑھ لینا،کیونکہ تمہارا صلاۃ مجھ تک پہنچ جائے گا۔(ابوداؤد:2044)
اور صرف تنبیہ پر اکتفا نہ کیا ،بلکہ اللہ تعالی سے دعا بھی کی کہ: ’’یا اللہ میری قبر کو ایسا بت نہ بنادینا جسکی پوجا کی جانے لگے،اللہ کا اس قوم پر شدید غضب نازل ہوا جس نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہیں بنالیا۔ (مؤطا:593،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا:غایۃ المرام: 126)
پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپکی وفات کے بعد آپکی اس وصیت و خواہش کا احترام کیا،اور اس کی تعمیل میں سرگرم رہے،اور آپﷺ کے انہی اندیشوں کے پیش نظر اس طرح کے کسی بھی عمل کی حوصلہ شکنی کی،وگرنہ اللہ تعالی نے انہیں اسقدر مال و دولت سے نواز دیا تھا کہ وہ آپ ﷺ کا روضہ سونے ،چاندی اور لعل و جواہرات کا بنادیتے۔
نیزسہیل نے کہا کہ:
’’مجھے حسن بن حسین بن علی بن ابی طالب نے نبی ﷺ کی قبر پر دیکھا تو مجھے آواز دے کر بلایا،اسوقت وہ فاطمہ کے گھر میں رات کا کھانا کھا رہے تھے،انہوں نے کہا:آؤ کھانا کھالو،میں نے کہا:مجھے حاجت نہیں،انہوں نے کہا:کیا بات ہے میں نے تمہیں روضے کے پاس کھڑا دیکھتا ہوں؟،میں نے کہا:نبی ﷺ پر سلام عرض کرنے آیا ہوں،انہوں نے کہا:جب مسجد میں داخل ہو تبھی سلام پڑھ لیا کرو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا،نہ ہی اپنے گھروں کو قبرستان بنانا،اور تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر سلام پڑھ لیا کرنا وہ مجھ تک پہنچ جائے گا،اللہ یہود پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالایا،(پھر حسن نے کہا)تم اور جو لوگ اندلس میں ہیں برابر ہیں۔
سنن سعید بن منصور،فضل الصلاۃ علی النبی للقاضی اسماعیل بحوالہ احکام الجنائز للالبانی،ص:220
نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما نبی مکرمﷺ کی قبر کو چھونا ناپسند کرتے تھے۔
(سیر اعلام النبلاء،12/378،جزءمحمد بن عاصم بن عبد الله الثقفی الاصبہانی أبو جعفر:27)
bقاضی عیاض بن موسی نے کہا:
بعض علماء نے کہا:میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ نبی ﷺ کی قبر کے پاس آئے،رکے ہاتھ اٹھا کردعا کرنے لگے،میں سمجھا کہ وہ نماز شروع کردیں گے،پس انہوں نے سلام پڑھا اور چلے گئے،اور ابن وہب کی روایت کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ نے کہا:جب نبی ﷺ پر سلام پڑھے اور دعا کرے تو رکے اور قبر کی طرف رخ کرے نہ کہ قبلہ کی طرف،اور قریب ہو کر سلام پڑھے،لیکن قبر کو ہاتھ نہ لگائے،اور المبسوط میں کہا:میرے خیال میں نبی ﷺ کی قبر کے پاس رک کر دعا نہ کرے،بلکہ سلام پڑھتا ہوا گذر جائے اور نافع نے کہا:سیدناابن عمر رضی اللہ عنہمانبی ﷺ کی قبر پر صرف سلام پڑھتے،میں نے انہیں سینکڑوں مرتبہ دیکھا کہ وہ قبر پر آکر کہتے:نبی ﷺ پر سلام ہو،ابوبکر پر سلام ہو ،میرے والد پر سلام ہو ،پھر چلے جاتے۔
(الشفاء للقاضی عیاض بن موسی الیحصبی،2/71)
نیز ابن الحاج المالکی نے کہا:
امام مالک رحمہ اللہ نے قبرنبویﷺ کا خانہ کعبہ کی مانند طواف کرنے اور اسے چھونے اور اسکا بوسہ لینے والوں کو ان جاہلوں کی مانند قرار دیاجن کے پاس ذرا علم نہ ہو اور ان کاموں کے بدعت ہونے کی صراحت کی،کیونکہ حصول تبرک آپکی اتبع سے ہی ممکن ہے ۔(المد،خل1/ 256 – 257)
(تنبیہ)نبی اکرم ﷺکی قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنےکے جواز پر ایک روایت پیش کی جاتی ہے،جسکی تحقیق درج ذیل ہے:
داؤد بن ابی صالح نے کہا:ایک دن مروان نے ایک شخص کو نبی ﷺ کی قبر پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے دیکھا،تو کہا:کیا تجھے پتہ ہے کہ تو کیا کررہا ہے؟،جب وہ شخص مڑا تو وہ ابوایوب انصاری تھے،انہوں نے کہا:میں نبی ﷺ کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں۔
یہ روایت ضعیف ہے،ملاحظہ ہو:
(طبرانی کبیر:3999،احمدمع تعلیقات الشیخ الارناؤط :23633،الضعیفہ:373)
نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ تو ثابت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کے آثار سے تبرک حاصل کیا لیکن آپکی قبر سے انکا تبرک حاصل کرنا ثابت نہیں،بلکہ وہ اسطرح کے افعال کی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے،جیسا کہ ہم نےعمر فاروق اور عبد اللہ بن عمراور حسن وغیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین کے حوالے گذشتہ سطور میں ہم نے ذکر کیاہے۔
نیزامام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے کہا:
نبی ﷺ کی قبر کی دیوار کو چھونا اچھا نہیں،نہ ہی اسکا بوسہ لینا،امام احمدرحمہ اللہ نے کہا:میں اس بات سے واقف نہیں،ابن الاثرم نے کہا:میں نے مدینہ کے علماء کو دیکھا،وہ نبی ﷺ کی قبر کو چھوتے نہیں تھے،ایک کونے پر کھڑے ہوکر سلام پڑھ لیتے۔(المغنی، 3/599 )
دور حاضر میں نبی ﷺ کی جانب منسوب اشیاء سے تبرک حاصل کرنا:
دور حاضر میں نبی ﷺ کی جانب بہت سی اشیاء منسوب ہیں،جو مختلف قومی یا ذاتی میوزیم وغیرہ میں رکھی ہیں،یا مختلف شخصیات کے پاس موجود ہیں،اور وقتا فوقتا انکی زیارت کا اہتمام کیا جاتا ہے،ایسا ممکن ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی استعمال شدہ کوئی شے آج بھی موجود ہو،لیکن دور حاضر میں جن اشیا کے متعلق دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ نبی ﷺ کے زیر استعمال رہ چکی ہیں،فی الواقع انکا نبی مکرمﷺ کا ہونا تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوسکا،محض دعاوی ہیں ،جنکی کوئی ثقہ رواۃ پر مشتمل،موصول سند آج تک بیان نہیں کی جاسکی،اور محض دعوے کی بنیاد پر کسی شے کا نبی ﷺ کے زیر استعمال رہنا ثابت نہیں ہوتا،کیونکہ دین اسلام کا یہی طرہ امتیاز ہے کہ اسکی ہر ہر بات سند کے ساتھ مروی ہے،اور کسی بھی بے سند بات کو دین کا حصہ نہیں سمجھا جاتا،بلکہ اسے نبی ﷺ پر بہتان اور جھوٹ کہا جاتا ہے ،جسکی شدید وعید بیان کی گئی ہے،جیسا کہ نبی مکرمﷺ نے فرمایا:
’’مجھ پر جھوٹ نہ باندھنا ،جس نے مجھ پر جھوٹ بولا،تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے‘‘(بخاری:106)
ذیل میں چند مؤرخین و علماء کرام کی تصریحات ذکر کی جارہی ہیں،ملاحظہ ہو:
”الآثار النبویہ“کے مؤلف اور مشہور محقق و مؤرخ و سیاح،احمد تیمور پاشا،نےاپنی کتاب کے صفحہ نمبر:78 میںاستنبول میں رکھے نبی ﷺ کی جانب منسوب اشیاء کا ذکر کرنے کے بعد لکھا:
’’بالکل واضح ہے کہ یہ آثار صحت کا احتمال رکھتے ہیں،لیکن ہم نے کسی بھی ثقہ راوی کو نہیں دیکھا کہ وہ نفی یا اثبات کے ساتھ انکا تذکرہ کرتا ہو،اور ان میں سے کچھ تو بلا شبہ دل میں شکوک و شبہات پیدا کردیتے ہیں‘‘
عصر حاضر کے عطیم محقق امام ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے کہا:’’ہمیں یقین ہے کہ نبی اکرمﷺ کے آثار، کپڑے، بال، فضلات وغیرہ کھوچکے ہیں، ان میں سے کسی ایک کے بھی موجود ہونے کاقطعا امکان نہیں‘‘(التوسل،ص:145)
نیز کہا:’’دور حاضر میں نبی ﷺ کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ممکن نہیں،کیونکہ انکا وجود ہی نہیں،اور آجکل لوگ مختلف ممالک میں مختلف مواقع پر کسی شیشی میں محفوظ بالوں کے ذریعے جو تبرک حاصل کرتے ہیں،اسکی شریعت میںکوئی دلیل نہیںنہ ہی ایسا صحیح سندوں سے ثابت ہے۔‘‘(دفاع عن الحدیث النبوی،ص:76)
نیز کہا:’’صلح حدیبیہ کے بعد نبی ﷺ نے حکیمانہ اسلوب ،اور بہترین طریقے سے مسلمانوں کو اس تبرک سےدور کیا اورہٹایا،اور انکے لئے اس سے بہتر اعمال صالحہ کی جانب انکی رہنمائی کی جیسا کہ آئندہ حدیث اسکی دلیل ہے، عبدالرحمن بن ابی قراد سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دن وضو کیا،تو آپکے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس سے(اپنے اعضا وغیرہ)پَوچھنے لگے، نبی ﷺ نے ان سے کہا:ایسا کیوں کرتے ہو؟،انہوں نے کہا:اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی محبت میں،تو نبی ﷺ نے فرمایا:جسے پسند ہو کہ اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرے تو وہ جب بھی بات کرے سچ بولے،اور اسکے پاس جب بھی امانت رکھوائی جائے تو وہ اسے ادا کردے،اور اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔
(بیہقی شعب الایمان:1533،الصحیحۃ:2998 )
علامہ البانی رحمہ اللہ کی اس بات کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے ،سیدناعمرو بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
’’رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی درہم چھوڑا نہ دینار نہ غلام نہ لونڈی نہ ہی کوئی اور شے،سوائے ایک سفید خچر،اسلحہ کے اور کچھ زمین چھوڑی جسے صدقہ کردیا تھا‘‘(بخاری:2588)
bنیز:آپ ﷺ کے آثار میں سے جو تھوڑی سی اشیاء رہ گئی تھیں،وہ بھی مرور زمانہ کے ساتھ مختلف جنگوں اور حادثات میںگم ہوتی گئیں، مثلاًآپکی انگھوٹی کنویں میں گرگئی بعد میں تلاش کے باوجود نہ مل سکی،ایسے ہی 656ھ میںسلطنت عباسیہ کے آخر میں جب تاتاریوں نے بغداد کو نذر آتش کیا تو آپکی چادر بھی کھوگئی ،نیز دمشق میںنبی ﷺ کی جانب منسوب دو جوتے بھی 803ھ میں فتنہ تیمور لنگ کے دوران کہیں کھو گئے،ایسے ہی آپکی دیگر اشیاء بھی ایک ایک کرکے گم ہوتی گئیں،اور فی زمانہ کوئی بھی ایسی شے (فیما اعلم)موجود نہیں جو آپ کے زیر استعمال رہ چکی ہو،واللہ اعلم بالصواب۔
نیزغیر نبی مکرم ﷺ کے آثار سے تبرک کے متعلق امام شاطبی رحمہ اللہ نے کہا:’’نبی مکرمﷺ کی وفات کے بعد کسی ایک صحابی سے بھی ثابت نہیں کہ اس نے آپکے بعد کسی کے ساتھ ایسا کیا ہو(یعنی انکے آثار سے تبرک لیا ہو)جبکہ نبی ﷺنے اپنے بعد امت میں سب سے افضل سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ کو چھوڑا،وہ آپکے خلیفہ بنے،انکے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا،نہ ہی سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ،حالانکہ وہ بھی امت میں موجود تھے،ایسے ہی سیدنا عثمان پھرسیدنا علی پھر دیگر تمام صحابہy،جن سے افضل اس امت کا کوئی فرد نہیں،ان میں سے کسی ایک کے متعلق بسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی تبرک لینے والے نے مذکورہ طریقوں(جس طرح نبی ﷺ کے آثار سے تبرک لیتے تھے)یا اس سے ملتے جلتے طریقوںپر ان سے تبرک لیا ہو،بلکہ لوگوں نے انکے ان افعال و اقوال و سیر کی پیروی پر اکتفا کیا جن میں انہوں نے نبی ﷺ کی اتباع کی ہو،چنانچہ ان امور کے ترک پر یہ ان(صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین)کا اجماع ہوا۔ (الاعتصام،1 /311)
نیز نبی مکرم ﷺ کے آثار کو بطور وسیلہ بنانے کا مسئلہ بھی آجکل رائج ہوتا جارہا ہے،یہ موضوع مستقل تحریر کا متقاضی ہے،یہاں اس بارے میں علامہ البانی کا ایک اقتباس نقل کردینا کافی ہوگا،انہوں نے کہا:
’’توسل اور تبرک کے مابین فرق ثابت کرنے کے بعد ہمیں یقین ہے کہ نبی ﷺ کے آثار کا وسیلہ نہیں بنایا جاسکتا،ان سے فقط تبرک لیا جاسکتا ہے،یعنی انکے ذریعے کچھ دنیاوی خیر و بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے،جیسا کہ اسکی وضاحت گذر چکی،ہم سمجھتے ہیں کہ نبی ﷺ کے آثار کا وسیلہ بنانا یقیناً غیر شرعی ہے،اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق یہ دعوی کرنا کہ وہ ان آثار کا وسیلہ بناتے تھے دراصل ان پر بہتان ہے،جو ہم سے اختلاف رائے رکھتا ہو اس پر دلیل پیش کرنالازم ہے کہ وہ ثابت کرے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی دعاؤں میں کہتے تھے،مثلا:یااللہ تیرے نبی کے تھوک کے واسطے ہمارے بیماروں کو شفا دے،یا اپنے نبی کے پیشاپ یا پاخانےکے طفیل ہمیں جہنم سے بچالے،کوئی بھی عقل مند اس طرح کی بات کو محض روایت کرنا پسند نہیں کرے گا چہ جائیکہ اس پر عمل کرنا‘‘(التوسل،ص:145)
وما علینا الا البلاغ المبین ،واللہ ولی التوفیق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے