اللہ تعالی کڑوڑوں رحمتیں نازل کرے افضل الامۃ سیدنا ابو بکر الصدیق پر ،کہ انہوں نے زمام امت سنبھالتے ہی جن فتنوں کا سد باب کیا ،ان میں ایک احکامات شریعت کے انکار کا فتنہ بھی ہے،اگر وہ مانعین زکاۃ کو بے لگام چھوڑ دیتے تو یقینن آج احکام شریعت برائے نام باقی رہ جاتے،زکاۃ کے بعد حج ، روزہ،جہاد ...آخر کار نماز کا بھی انکار کردیا جاتا،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:
لَتُنْقَضَنَّ عُرَى الْإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً , كُلَّمَا انْتَقَضَتْ عُرْوَةٌ تَشَبَّثَ النَّاسُ بِالَّتِي تَلِيهَا , وَأَوَّلُهُنَّ نَقْضًا الْحُكْمُ , وَآخِرُهُنَّ الصَلَاةُ
اسلام کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی جائیں گی،جیسے ایک کڑی ٹوٹے گی لوگ اسکے ساتھ والی کڑی تھام لیں گے،سب سے پہلے ”حکم“(یعنی اسلامی حکومت)کی کڑی ٹوٹے گی،اور سب سے آخر میں نماز۔
(احمد: 22214 ،صحیح الجامع: 5075 صحیح الترغیب والترہیب:572)
نبی ﷺ کی پیشینگوئی کے بمصداق عصر حاضر میں دین کی کڑیوں کو ایک ایک کرکے توڑا مڑوڑا جارہا ہے ،کبھی ”پردہ“ مشق ستم بنتا ہے تو کبھی ”حرمت رسول ﷺ“کو پامال کیا جاتا ہے،کبھی” سود و شراب “کی حرمت پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں تو کبھی” حدود اللہ“ کو ظلم اور انسانی حقوق کے منافی گردانا جاتا ہے،کبھی” مرد و زن میں مساوات “کے نام پر عورت کو بازار کی زینت بنا دیا جاتا ہے، تو کبھی” رقص و سرور “اور” گانے بجانے“ کو تہذیب و تمدن کے نام پر قومی اثاثہ قرار دیا جاتا ہے،الغرض بھیس بدل بدل کر دین کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع گنوایا نہیں جاتا،اللہ تعالی نے ان دشمنان دین کے متعلق کیا خوب فرمایا:
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ(الصف:08)
اور کسی شاعر نے کیا خوب ترجمانی کی :
نور ھُدی ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گااور اب دین اسلام کے عظیم شعار ”قربانی“کو ہدف بنایا جارہا ہے،عقل و دانش حیران ہوکر پوچھتی ہے:اسلامی شعائر ہی کیوں؟بسنت یا ویلنٹائن ڈے کیوں نہیں؟اپریل فول یابہبود آبادی کیوں نہیں؟ ثقافتی طائفے یا فلم و ڈرامے،مدرز یا فادرز ڈے ،رقص و سرور، گانے بجانے،شراب و شباب سے پُر رنگا رنگ تقریبات،ثقافتی میلے کانام پرکئے جانے والے تماشے، پوری قوم کو سیاست و کھیل کی بھنٹ چڑھادینا کیوں نہیں،شادی بیاہ وغیرہ کی ہندوانہ رسومات کیوں نہیں..؟
منظر نامہ صاف ہے کہ کشمیر و فلسطین،افغانستان و عراق،بوسنیا و چیچنیا...میں مسلمان کو مٹانے سے اسلام نہیں مٹا،سو اب اسلام کو ہی مسخ کردیا جائے تاکہ مسلمان مسلمان نہ رہے۔
قربانی کی تاریخ:
قربانی جسے عربی میں”الاضحیۃ“کہا جاتا ہے کا تصور ہر قوم ، مذہب،معاشرے میں پایا جاتا ہے،اسکی تصدیق قرآن مجید سے ہوتی ہے،اللہ تعالی نے فرمایا:
لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ (الحج:67)
ہر امت میں ہم نے قربانی رکھی جسے وہ ذبح کرتے۔
قدیم صحیفوں توراۃ و انجیل میں بھی اسکا ذکر بکثرت ملتا ہے،ہندو اسے بلی ،بھینٹ اوریگیا،جبکہ یونانی اسے ، تھوسیا،اور جرمانی قبائل اسے ، بلوٹان (بلی دان)،اور صیہونی یا عبرانی میں اسے، قربان کہتے ہیں،اگر کہا جائے کہ انسانیت کے نقطہ آغاز سے ہی اسکا وجود ہے تو غلط نہ ہوگا ، بنی نوع انسان کے والد آدم علیہ الصلاۃ و السلام کے دو بیٹوں کی قربانی ،ایسے ہی جد الانبیاء ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی قربانی کا ذکر نہ صرف قرآن پاک میں ہے بلکہ بائبل میں بھی ملتا ہے،اللہ تعالی نے فرمایا:
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آَدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآَخَرِ
ان پر آدم کے دو بیٹوں کا صحیح صحیح ذکر کریں،جب انہوں نے قربانیاں پیش کیں ،پس ایک سے قبول کرلی گئی اور دوسرے سے قبول نہ کی گئی ۔(المائدہ:27)
نیز جب اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو اسماعیل علیہ السلام سے نوازا اور انکے بڑے ہونے پر انکی قربانی کا مطالبہ کیا اور انہوں نے انہیں قربان کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالی نے انہیں اس امتحان میں کامیابی کا پروانہ دیتے ہوئے ایک مینڈھا عطا ء کیا اور اسکی قربانی کا حکم دیا ارشاد فرمایا:
وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآَخِرِينَ سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
ہم نے اسے اسکے بدلے ایک عظیم قربانی عطا کی ،اور اسے بعد والوں میں باقی رکھا،ابراہیم پر سلامتی ہو ،ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی بدلہ دیتے ہیں۔ (الصافات:107تا110)
نیز بنی اسرائیل میں قربانی کے رواج کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّى يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ
جن لوگوں نے کہا کہ اللہ نے ہم سے عہد لیا کہ کسی رسول پر اسوقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی پیش نہ کردے جسے آگ کھا جائے۔(آل عمران:183)
(فائدہ)اس قسم کی قربانی کا کوئی مادی فائدہ نہ تھا کیونکہ آسمانی آگ سب کچھ جلا کر راکھ کردیتی۔
نیز بائبل کے ابتدائی صفحات میں جابجا قربان اور قربان گاہ کا ذکر ہے۔
قربانی کی شرعی حیثیت:
اللہ تعالی نے اس امت میں بھی قربانی رکھی ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔(الکوثر:02)
نیز فرمایا:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
نیز فرمایا:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ
اور چوپایوں کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں میں سے بنادیا،تمہارے لئے ان میں خیر ہے،سو تم انہیں کھڑا کرکے ان پر اللہ کا نام پڑھو،پھر جب انکے پہلو گرجائیں تو ان سے خود بھی کھاؤ اور مانگنے و نہ مانگنے والے مستحق کو بھی کھلاؤ۔(الحج:36)
اس امت کے امین محمد رسول اللہﷺ بھی ہر سال ذوالحجہ کی 10 تاریخ کو اللہ کے حضور قربانی پیش کرتے،جیسا کہ عبد اللہ بن عمر ؆ نے کہا کہ:
كانَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يذْبَحُ ويَنْحَرُ بِالْمُصَلَّى
نبی ﷺعید گاہ میں ذبح یا نحر کرتے تھے۔ (بخاری:5232)
نیز فرمایا:
هِيَ سُنَّةٌ وَمَعْرُوفٌ
یہ(یعنی قربانی)سنت اور نیکی ہے۔(بخاری تعلیقا،قبل الحدیث:5225)
حتی کہ آپ ﷺ نےدوران سفر بھی قربانی نہیں چھوڑی،جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث نمبر:5228 سے ثابت ہے،اور نہ صرف خود قربانی کرتے بلکہ اپنے صحابہ میں بھی قربانی کے جانور تقسیم کرتے،جیسا کہ عقبہ بن عامر الجہنی نے کہا کہ:
قسم النبي e بين أصحابه ضحايا
نبی ﷺ نے اپنے صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم کئے۔(بخاری:5227)
اور فرماتے :
مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ، فلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا
جو گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔(ابن ماجہ:3123،صحیح ابن ماجہ:2532)
اور اسےمسلمانوںکی سنت( طریقہ مسلوکہ فی الدین،یعنی مسلمانوں کا دینی رواج)قرار دیتے جیسا کہ فرمایا:
مَن ذَبَحَ بعدَ الصَّلاةِ فقدْ تَمَّ نُسُكُهُ وأصابَ سُنَّةَ المسلمينَ
جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اسکی قربانی پوری ہوئی اور وہ مسلمانوں کے طریقے پر رہا۔(بخاری:5225)
اور قربانی کے عمل اور جانور کے احکامات وصفات کو تفصیل سے بیان فرماتے،حتی کہ انکے گوشت،رسیوں،جُلوں اور کھالوں کے احکام بھی بیان فرماتے۔(ملاحظہ ہو :کتب احادیث و فقہ)
یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی ایک دینی و مذہبی طریقہ ہے جسکااصلی مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی کا حصول ہے،نہ کہ گوشت یا کھالوں وغیرہ کا حصول،جبکہ یہ اسکےضمنی فوائد و منافع ہیںجنکا ذکر اللہ تعالی نے قرآن مجید میںکئی مقامات پر کیا ہے ۔
ملاحظہ ہوں:سورۃ الحج ،آیت نمبر:28و33و36و37،سورۃ المومنون،آیت نمبر:21،سورۃیس،آیت نمبر:73،سورۃ غافر،آیت نمبر:79و80،سورۃالانعام :142 ،سورۃ النحل:66و80۔
قربانی کا انکار کیوں؟:
اسکے باوجود بھی قربانی کو مخصوص طبقے کی جانب سے مشکوک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جسکا مقصد اسکے سوا اور کچھ سمجھ نہیں آتا کہ:
ظلوگوں کو دین اسلام سے بد دل اور بیزار کردیا جائےجس طرح عیسائیوں کو انکے مذہب سے بیزار کردیا گیا۔
ظدین اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن و حدیث کو مشکوک بنادیا جائے۔
ظقیدہ توحید کو مسخ کردیا جائے کیونکہ قربانی توحید کا بہت بڑا مظہر ہے۔
ظامت اسلام کی وحدت جو پہلے ہی انتشار کا شکار ہے کو پارہ پارہ کردیا جائے۔
ظشعائر اسلامیہ کی اہمیت و افادیت کو لوگوں کے دلوں سے مٹادیا جائے۔
ظمنکرین قربانی کے شبہات اور انکا جائزہ:
پہلا شبہہ:
نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو قربانی کا حکم نہیں دیا۔
جواب:
یہ کہنا کہ نبی ﷺنے صحابہ کرام کو قربانی کرنے کا حکم نہیں دیا نری جہالت ،تعصب اور تنگ نظری ہے،کیونکہ کتاب کے و سنت کے نصوص میں جابجاقربانی کا حکم موجود ہے،چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
اے نبی(ﷺ)اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔(سورۃ الکوثر،آیت نمبر:02)
جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ”وانحر“سے مراد قربانی ہے،رئیس المفسرین امام ابن جریر الطبری نے ،مجاہد،سعید بن جبیر،حجاج، ابن عباس،حکم،انس بن مالک،عکرمہ،ربیع،عطاء،حسن،قتادہ ،ا بن زید،محمد بن کعب القرظی،سعید بن جبیر،صحابہ و ائمہ؇ سے اس جملے کا یہ معنی نقل کرنے کے بعد فرمایا:
وأولى هذه الأقوال عندي بالصواب: قول من قال: معنى ذلك: فاجعل صلاتك كلها لربك خالصا دون ما سواه من الأنداد والآلهة، وكذلك نحرك اجعله له دون الأوثان، شكرا له على ما أعطاك من الكرامة والخير الذي لا كفء له
میرے نزدیک راجح قول ان لوگوں کا ہے جنہوں نے کہا کہ:اس آیت کا معنی ہے کہ،اپنی نماز کو اپنے رب کے لئے خالص رکھ نہ کہ شرکاء اور معبودان باطلہ کے لئے ،ایسے ہی اپنی قربانی بھی اسی کے لئے خالص کر نہ کہ بتوں کے لئے،اُس لاثانی نعمت و کرامت کا شکر ادا کرتے ہوئے جو اس نے آپکو عطا کی۔(تفسیر طبری:24/665)
چنانچہ نبی ﷺ مذکورہ بالا حکم باری تعالی کی تعمیل کرتے ہوئے خود بھی قربانی کرتے،جیسا کہ عبد اللہ بن عمر؆ کے حوالے سے ہم گذشتہ سطور میں ذکر کر آئے ہیں۔
اپنے اہل خانہ کی جانب سے بھی قربانی کرتے ،جیسا کہ عائشہ نے کہا:
فدخل علينا يوم النحر بلحم بقر فقلت ما هذا قال نحر رسول الله صلى الله عليه و سلم عن أزواجه
قربانی کے روز ہمارے پاس گائے کاگوشت آیا،میں نے پوچھا یہ کیا ہے،تو کہا کہ رسول اللہﷺ نے اپنے اہل خانہ کی جانب سے قربانی کی ہے۔(بخاری:1623)
اور صحابہ کرام ؇ کو بھی قربانی کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے:
مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ، فلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا
جو گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔(ابن ماجہ:3123،صحیح ابن ماجہ:2532)
اور جو پورا جانور خریدنے کی طاقت نہ رکھتے انہیں اجتماعی قربانی کی ترغیب دیتے ،جیسا کہ جابر نے کہا:
وَأَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - أَنْ نَشْتَرِكَ فِي الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ , كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِي بَدَنَةٍ
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اونٹوں اور گایوں میں حصے ڈالیں،ایک جانور میں ہم سات شریک ہوں۔ (مسلم:2999)
اور جو قربانی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے انہیں حاکم کی حیثیت سے قربانی کرنے کے لئے جانور مہیا کرتے،جیسا عقبہ بن عامر کے حوالے سے ہم ذکر کر آئے ہیں۔
اور جنہیں قربانی کے جانور میسر نہ آتے لیکن وہ قربانی کرنا چاہتےتوان سے ارشادفرماتے:
إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا-وفی لفظ- حَتَّى يُضَحِّيَ
جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور قربانی کا ارادہ رکھتے ہو تو قربانی کرنے تک اپنے بال و ناخن نہ کاٹو۔(مسلم:5234،5236)
اور آپکی امت کے جو افراد کسی بھی وجہ سے قربانی نہ کرسکے ہوں انکی طرف سے آپ خود قربانی کرتے،جیسا کہ جابر نے کہا:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بكبشين أملحين عظيمين أقرنين موجوئين فأضجع احدهما وقال : بسم الله والله أكبر اللهم عن محمد وأمته من شهد لك بالتوحيد وشهد لي بالبلاغ
نبی ﷺ کے پاس دو بڑے،خصی،سینگوں والے،کالے و سفید مینڈھے لائے گئےان میں سے ایک کو لٹاکر آپ نے کہا”اللہ کے نام پر،اور اللہ سب سے بڑا ہے،یااللہ محمد اور اسکی امت کے ان افراد کی جانب سے جوتیری توحید اور میری رسالت کی گواہی دیں“۔ (مسند ابی یعلی:1792،بیہقی کبری:19048،اسے البانی نے حسن کہا،ارواء الغلیل،تحت حدیث رقم:1138)
دوسرا شبہہ:
قربانی کے متعلق تمام احادیث ضعیف ہیں۔
جواب:الحمد للہ اس مضمون میں موجود کوئی ایک حدیث بھی ضعیف نہیں(ان شاء اللہ)نیز قربانی کے متعلق احادیث مرفوعہ روایت کرنے والے صحابہ کی تعداد 20 کے قریب ہے، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت بردہ،حضرت زید بن ارقم،حضرت عائشہ ،حضرت ام سلمہ ، حضرت ابن عباس،حضرت جابر بن عبد اللہ،حضرت جبیر،حضرت علی،حضرت ابو درداء ،حضرت اخنف بن سلیم ، حضرت بریدہ،حضرت ابو رافع،حضرت انس،حضرت عبد اللہ بن عمر،حضرت ثوبان،حضرت ابو سعید خدری، حضرت جندب،حضرت عویمر بن اشقر وغیرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
(تنبیہ)اگر معترضین کا اعتراض یہ ہے کہ قربانی کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں تو یہ اعتراض اس معنی میں تو درست ہے کہ قربانی کی فضیلت کے متعلق کوئی صریح حدیث صحیح سند سے مروی نہیں،لیکن اس سے قربانی کی مشروعیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ فضیلت الگ شے ہے جبکہ مشروعیت واستحباب الگ شےہے،البتہ قربانی کے عمومی فضائل کتاب و سنت سے ثابت ہیں ،مثلا یہ نبی ﷺکا متواتر عمل ہے،آپ نے کبھی اسے تر ک نہیں کیا(بخاری:5232)نیز اللہ تعالی نے ہر امت میں اسے برقرار رکھا(الحج:67)اور اپنے جلیل القدر نبی ابراہیم کا امتحان قربانی کے ذریعےلیا (الصافات: 107تا 110)کیونکہ یہ اللہ کو نہایت محبوب ہےاور اسے انبیاء بنی اسرائیل کی صداقت کی نشانی قرار دیا(آل عمران:183)جو اسکی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے کافی ہے،نیز اللہ تعالی نے قربانی کے جانور کو اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا(ملاحظہ ہو:المائدہ:02، الحج:32تا36) اسکی حرمت پامال کرنے سے منع کیا(ایضا)اور نبی ﷺ نے اس حج کو افضل قرار دیا جس میں ہدی یعنی قربانی بھی کی جائے۔
(ترمذی: 2998 , ابن ماجہ: 2896 ،مصنف ابن ابی شیبہ: 15703، ،بیہقی: 8420 ،المشکاۃ: 2527، صحيح الترغيب والترہيب: 1131، صحیح الجامع: 3167)۔
تیسرا شبہہ:
ابوبکر صدیق نے کبھی قربانی نہیں کی۔
جواب:
اس سلسلے میںچند آثار پیش کئے جاتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
عن أبي سريحة حذیفۃ بن اسید الغفاري قال : أدركت أبا بكر أو رأيت أبا بكر وعمر رضي الله عنهما . كانا لا يضحيان - في بعض حديثهم - كراهية أن يقتدى بهما۔
میں نے ابوبکر اور عمر کو دیکھا کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے قربانی نہیں کرتے کہ انکی اقتداء کی جائے۔(بیہقی کبری:18813،البانی نے اسے صحیح کہا،ارواء الغلیل:1139)
(2)عن أبي مسعود الأنصاري: إني لأترك الأضحى وإني لموسر كراهية أن يرى أهلي وجيراني أنه حتم
ابو مسعود انصاری نے کہا کہ میں مالدار ہونے کے باوجود قربانی چھوڑتا ہوں اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ میرے اہل خانہ اور پڑوسی اسے فرض سمجھیں گے۔(بیہقی کبری:18817،البانی نے اسے صحیح کہا،ارواء الغلیل:1139)
(3)عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا كَانَ إِذَا حَضَرَ الْأَضْحَى أَعْطَى مَوْلًى لَهُ دِرْهَمَيْنِ فَقَالَ: اشْتَرِ بِهِمَا لَحْمًا وَأَخْبِرِ النَّاسَ أَنَّهُ أَضْحَى ابْنِ عَبَّاسٍ
ابن عباس ؆عید قربان کے موقعہ پر اپنے غلام کو دو درہم دیتے اور کہتے کہ اس کا گوشت خریدو اور لوگوں سے کہنا کہ ابن عباس نے قربانی کی ہے۔(بیہقی:18816)
انکے متعدد جوبات دیئے جاتے ہیں:
(1)انکا یہ عمل انکا اپنا اجتہاد تھا جس میں صواب و خطا دونوں کا امکان ہے،اور خطا ہی راجح معلوم ہوتا ہے،کیونکہ مسنون طریقہ بیان کیا جا چکا ہے اور سنت کے مقابلے میں کسی کا قول یا عمل حجت نہیں بن سکتا۔
(2)انہوں نے ایسا اس لئے کیا تاکہ لوگ قربانی کو فرض نہ سمجھیں،جیسا کہ ابن عمر؆ نے ایک شخص کو قربانی کے جانور کی صفات بیان کرنے کے بعد کہا کہ:
لَعَلَّكَ تَحْسِبُهُ حَتْمًا. قُلْتُ : لاَ وَلَكِنَّهُ أَجْرٌ وَخَيْرٌ وَسُنَّةٌ قَالَ : نَعَمْ(بیہقی:18819)
شاید تو اسے فرض سمجھتا ہے ؟اس نے کہا:نہیں ،لیکن یہ ثواب اور بھلائی اور سنت ہے،تو ابن عمر نے کہا:ہاں۔
(3)ان میں سے کوئی بھی قربانی کی مسنونیت کا منکر نہ تھا،اگر ایسا ہوتا تو وہ اپنے زمانہ خلافت میں اس پر پابندی عائد کردیتے،یا اس سے روکتےجبکہ ان سے ایسا منقول نہیں۔
(4)انکی موجودگی میں قربانیاں کی جاتی رہیں مگر انہوں نے انکار نہ کیا۔
(5)یہ ممکن نہیں کہ انہوں حج کیا ہو اور قربانی نہ کی ہو،کیونکہ حج میں قربانی فرض ہے۔
تیسرا شبہہ:
قربانی جانوروں پر ظلم ہے۔
منکرین قربانی کا کہنا ہے کہ جانور کوبلا ضرورت محض اپنے دلی جذبات کی تسکین کی خاطر انتہائی بے رحمی سے ذبح کیا جاتا ہے حالانکہ وہ بے زبان مخلوق ہے۔
جواب:
دین اسلام سے زیادہ جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنے اور ان کے ساتھ شفقت و رحمت کا برتاؤ کرنے والا کوئی مذہب نہیں، چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إنَّ الله كَتَبَ الإحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ فَإذَا قَتَلْتُم فَأحْسِنُوا القِتْلَة ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأحْسِنُوا الذِّبْحَةَ ، وَليُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَه ، وَلْيُرِح ذَبِيحَتَهُ
اللہ تعالی نے ہر شے پر اچھائی کو فرض کیا ہے،سو جب تم(جنگ کے دوران)قتل کرو تو بہتر طریق پر قتل کرو اور جب جانور ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو،اور اپنی چھری کو دھار لگاؤ اور اپنی قربانی کو سکون پہنچاؤ۔(مسلم:5167)
نیز اللہ تعالی نے انسان کو ایسا معدہ دیا ہے جو گوشت اور سبزی دونوں ہضم کرسکتا ہے گویا خالق کائنات چاہتا ہے کہ انسان گوشت کھائے جسکے لئے جانور کو ذبح کرنا ضروری ہے۔
نیز یہ محض دلی جذبات کی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ انسانی صحت کے لئے ضروری ہے،جو انسان بالکل بھی گوشت نہیں کھاتے انکا اعصابی و دفاعی نظام ناکارہ ہوجاتا ہے اور وہ بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔
نیز یہ ایمان کی حفاظت اور اس میں اضافے کے لئے ضروری ہے،کیونکہ قربانی سےشرعی مقصودگوشت کاحصول نہیں بلکہ تقوی کاحصول ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔(الحج:37)علاوہ ازیںقربانی انسان میں باہمی ہمدردی اور صلہ رحمی اور ایک دوسرے کیے ساتھ تعاون کے جذبات پیدا کرنے کا انتہائی مؤثر ذریعہ ہے۔
نیز موسم سرما اور سرد ممالک میں رہنے والے کڑوڑوں انسانوںکے لئے ضروری ہے کہ وہ خود کو گرم رکھیں وگرنہ ٹھنڈسے مرجائیں گے، اورخود کو گرم رکھنے کے لئے سب سے اچھا طریقہ چمڑے اور اون کا لباس ہے جنکا معتد بہ حصہ انہی قربانی کے جانوروں سے حاصل ہوتا ہے۔
نیزاگر جانور کو کھانے کے لئے ذبح کرنا ظلم ہے تو پھر سانس لینا بھی ظلم ہے حالانکہ سانس لینا انسان کی بنیادی ضرورت ہے،کیونکہ ہر مرتبہ جب انسان سانس لیتا ہے تو ہزاروں جراثیم موت کا شکار بن جاتے ہیں،بلکہ پھر تو سبزی کھانا بھی ظلم ہے کیونکہ جدید سائنس کے مطابق پودوں میں بھی دو حسیں ہوتی ہے،چھونے اور پیغام پہنچانے(بولنے)کی حس۔
نیز جب یہی منکرین قربانی مہنگے ریسٹورینٹس میں بیٹھ کر سجیاں ،کباب،تکے اور کڑاہیاں وغیرہ اڑا رہے ہوتے ہیں اسوقت انکا یہ احساس ظلم کہاں چلا جاتا ہے؟۔
چوتھا شبہہ:
قربانی جانوروںکی نسل کشی ہے۔
منکرین قربانی کا کہنا ہے کہ اسقدر وسیع پیمانے پر جانوروں کے قتل سے انکی نسل معدوم ہوجائے گی۔
جواب:
سبحان اللہ،آغاز آفرینش سے ابتک یہ نوبت نہ آئی تو اب یہ کیسے ہوگا؟نیز قانون فطرت یہ ہے کہ جس چیز کی انسان کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے اسکی پیدائش بھی اسی قدر زیادہ ہوتی ہے،مثلا مرغی سارا سال کھائی جاتی ہے مگر اسکی نسل معدوم نہیں ہوئی،البتہ جو جانور کھائے نہیں جاتے انکی نسل کی معدومی کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے،مثلا حرام جانور اور بعض درندے،نیز انسان جس چیز کو جتنا زیادہ استعمال کرتا ہے وہ شئ اسی قدر زیادہ پیدا ہو جاتی ہے ،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہ
مولانا مفتی محمدشفیع دیوبندی صاحب رحمہ اللہ قرآن پاک کی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
” اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اپنے خزانہٴ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتے ہیں، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں، کائنات ِ عالَم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے، انسان اور جانور اس کو بے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں، وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو جاتا ہے، اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے، اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے، انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کر لیتا ہے؛ مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کر دیتے ہیں، بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں، ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل بن جاتے ہیں، غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں، کبھی سزا دینے کے لیے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہو جانا اس ضابطہٴ الٰہیہ کے منافی نہیں، اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اشیاء صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدا فرمائی ہیں، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں، ان کا بدل منجانب اللہ پیدا ہوتا رہتا ہے، جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتے ہیں، جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں، اللہ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں، جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے،کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں؛ حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی ہے، کتے بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا؛ مگر پھر بھی یہ مشاہدہ ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بہ نسبت کتے بلی کے زیادہ ہے، جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے، اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔
عرب سے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لینا کم کر دیا، وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی، اس سے اس ملحدانہ شبہ کا ازالہ ہو گیا، جو احکامِ قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے۔“ (معارف القرآن، سورۃ السباء:۳۹، ۷/۳۰۳)
پانچواں شبہہ:
قربانی کی رسم اسراف اور فضول خرچی ہے۔
جواب:
قربانی ایک عبادت اور اسلامی شعار ہے ، اسکی ترویج اسلام کی ترویج ہے،انبیاء و رسل علیھم الصلاۃ والسلام،صحابہ کرام،اولیاء و علماء امت اس پر عمل پیرا رہےاور مسلمانان عالم کئی صدیوں سے اس پر عمل پیرا ہیں،کیا وہ سب مسرف اور فضول خرچ تھے؟بلکہ صحابہ کرام تو قربانی کے لئے جانور پالا کرتے اور انکی خوب کھلائی پلائی کرتے ،جیسا کہ یحیی بن سعید نے کہا کہ:
سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سَهْلٍ قَالَ: كُنَّا نُسَمِّنُ الأُضْحِيَّةَ بِالْمَدِينَةِ
میں نے ابو امامہ سے سنا انہوں نے کہا کہ :ہم مدینہ میں قربانیوں کو خوب موٹا کرتے۔(بخاری تعلیقا،قبل الحدیث،رقم:5233)
مرد تو مرد خواتین بھی اس عظیم سنت کی ادائیگی میں پیچھے نہ رہتیں،چنانچہ امام بخاری نے فرمایا کہ:
وأمر أبو موسى بناته أن يضحين بأيديهن
ابو موسی نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں۔(بخاری تعلیقا،قبل الحدیث،رقم:5239)
نیز” قربانی “انسانی ضرورت ہے،جیسا کہ ہم تیسرے شبہے کے جواب میں ذکر کر آئے ہیں۔
چھٹا شبہہ:
قربانی پر خرچ کی جانے والی رقم فلاحی کاموں میں خرچ کی جاسکتی ہے۔
جواب:
فلاحی کاموں پر خرچ کی جانے والی رقم کی افادیت سے انکار نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اسکے لئے قربانی ہی کی رقم کیوں؟ بسنت یا ویلنٹائن ڈے کیوں نہیں؟اپریل فول یابہبود آبادی کیوں نہیں؟ثقافتی طائفے یا فلم و ڈرامے،مدرز یا فادرز ڈے ،رقص و سرور ،گانے بجانے،شراب و شباب سے پُر رنگا رنگ تقریبات،ثقافتی میلے کانام پرکئے جانے والے تماشے،پوری قوم کو سیاست و کھیل کی بھنٹ چڑھادینا کیوں نہیں،شادی بیاہ وغیرہ کی ہندوانہ رسومات پر خرچ کیا جانے والا کثیر سرمایہ کیوں نہیں...؟
منکرین قربانی کو قربانی پر خرچ کیا جانے والا پیسہ تو نظر آجاتا ہے مگر ان کھربوں روپوں کا ضیاع دکھائی نہیں دیتا جو امیر لوگ روزانہ پیزوں اور برگروں پر اڑادیتے ہیں،ان کھربوں ڈالر پر کسی کو تکلیف نہیں ہوتی جو ہر سال کاسمیٹکس انڈسٹری میں جھونک دیئے جاتے ہیں،جنکا مقصد اسکے سوا کچھ نہیں کہ طویل عرصہ تک جوان نظر آؤں،امریکہ و یورپ میں ہر سال کتنی ہی خوراک سمندر برد کردی جاتی ہے،کتنا ہی کھانا کچرے کی نذر ہوجاتا ہے، اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ٹریلین ڈالرز کے بے دریغ ضیاع پر انہیں کوئی اعتراض نہیں جو غریب پروری میں بڑی رکاوٹ ہیں، لیکن قربانی میں یہ سب نظر آجاتا ہے گویا ان سے بڑا غریب پرور کوئی نہیں ،دراصل مسئلہ غریب پروری کا نہیں بلکہ دین بیزاری کا ہے جس کے لئے یہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے،نیز قربانی بذات خود بہت بڑا فلاحی کام ہے ،جیسا کہ آئندہ سطور میں واضح کیا گیا ہے۔
ساتواں شبہہ:
قربانی ملکی معیشت پر بڑا بوجھ ہے۔
منکرین قربانی کا کہنا ہے کہ قربانی کے بعد حکومت کو صفائی ستھرائی کے انتظامات کرنے پڑتے ہیں جس پرکافی اخراجات آتے ہیں جو قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔
جواب:
صفائی ستھرائی اور قربانی کے انتظامات پر جو خرچ ہوتا ہے وہ ان فوائد کا عشر عشیر بھی نہیں جو قربانی کے نتیجے میں گورنمنٹ کو حاصل ہوتے ہیں ،جنکی ایک جھلک درج ذیل ہے:
قربانی کے معاشی فوائد:
دولت کی گردش یعنی جو کہ موجودہ معیشت کا اہم تقاضا ہے کہ دولت ،سرمایہ داروں کی تجوریوں سے نکل کر مختلف شکلوں میں غریبوں تک پہنچتی ہے۔
مویشیوں کی افزائش نسل کی حوصلہ افزائی جسکے نتیجے میں:
ظ ڈیری مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔
ظچرم سازی کے کارخانوں کے لئے خام مال فراہم ہوتا ہے۔
ظچرمی جوتوں،جیکٹوں اور دیگر چرمی صنعتوں کوفروغ ملتا ہے۔
ظچرم قربانی اور چرمی اشیاء کی برآمدسے کثیر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
ظاُون کی پیداوار میں اضافہ اور اسکی برآمد کے ذریعے کثیر زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا صنعتوں اور برآمدی کاروبار میں لاکھوں لوگوں کو روزگارملتا ہے۔
نیز چارے اور دانے کے کاروبار سے وابستہ ہزاروں لوگوں کو سیزن کمانے کا بہترین موقع ملتا ہے۔
نیز قربانی کے جانور کی کوئی بھی شے،خون،ہڈی،انتڑیاں وغیرہ ضائع نہیں جاتی بلکہ کسی نہ کسی مصرف میں استعمال کی جاتی ہےاور بہت سے لوگوں کے لئے روزگار کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے ۔
ان جانوروں کا گوشت دنیا بھر کے غریبوں میں بانتا جاتا ہے،اور معاشرے کا وہ طبقہ بھی سیر ہوکر گوشت کھاتا ہے جو پورا سال اسکا صرف خواب دیکھتا ہے۔
نیز انکا گوشت بنانے کے لئے بہت سی اشیاء ،سبزی ، مصالحے وغیرہ کی خریداری بڑھ جاتی ہیں،جن سے وابستہ لوگوں کو اسکا خوب نفع حاصل ہوتا ہے۔
پھر نقل و حمل کے ذرائع سے منسلک لوگ بھی ان دنوں جانوروں کی ترسیل کے کاروبار سے آمدنی حاصل کرتے ہیں، پہلے گاؤں سے منڈی، پھر منڈی سے شہر کی منڈی پھر وہاں سے مقامی منڈی ،وہاں سے باڑوں تک پھر وہاں سے قربانی کے مقامات تک،الغرض عید قربان کے چند دنوں کے دوران بیو پاری اور ٹرانسپورٹر حضرات اربوں روپے کی خطیر مگر بے کار(اگرجانور اپنی جائے افزائش پر ہی رہیں اور پہیہ نہ چلے ) سیونگ (saving) کوسیال مادے (liquid)میں تبدیل کرکے معاشی پہیہ تیز کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ رقم ویسے ہی غریبوں کو دیدی جاتی در اصل وہ نہیں جانتے کہ غربت کا علاج پیسے بانٹنا نہیں،بلکہ غریبوں کے لئے معاشی ایکٹیویٹی کا پہیہ چلانا ہوتا ہے،اور قربانی کا عمل اسکا بہترین ذریعہ ہے۔
جو لوگ معاشیات میں کینز(keynes)کے ملٹی پلائیر(multiplier)کے تصور سے واقف ہیں کم از کم وہ تو عید قربان پر معاشی نقطہ نگاہ سے لب کشائی کی جرات نہیں کرسکتے،مذکورہ بالا تمام فوائد کی جانب اللہ تعالی نے کئی مقامات پر اشارہ کیا ہے ،چند ایک درج ذیل ہیں:
وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ
تمہارے لئے چوپایوں میں درس ہے،ہم تمہیں انکے پیٹوں سے پلاتے ہیں،اور تمہارے لئے ان میں بیت سے منافع ہیں،اور انہیں تم کھاتے ہو،اور ان پر اور کشتیوں پر سوار ہوتے ہو۔(المومنون:21)
نیزفرمایا:
وَاللهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَى حِينٍ
اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے سکون بنایا،اور جونوروں کے چمڑوں سے تمہارے لئے خیمے بنائے،جنہیں تم اپنی روانگی اور اقامت کے روز ہلکا پاتے ہو،اور انکے اون اور بال تمہارے لئے ایک عرصہ تک سرمایہ اور فائدے کی شے ہے۔(النحل:80)
یہ سب قربانی کے مادی فوائد ہیں جبکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایسی قربانی کا ذکر بھی کیا ہے جسکے مادی فوائد بالکل بھی نہیں ہیں،جیسا کہ ہم قربانی کی تاریخ کے ذیل میں ذکر کر آئے ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قربانی ایک امر تعبدی (عبادت) ہے،اور عبادات میں مادی فوائد نہیں دیکھے جاتے،وگرنہ بات پھر قربانی تک محدود نہیں رہے گی بلکہ حج ،نماز،زکاۃ وغیرہ بھی اعتراض کی زد میں آئیں گے،کیونکہ ان میں بھی وقت اور مال لگتا ہے۔
قربانی علماء و فقہاء اسلام کی نگاہ میں:
1-صاحب ہدایہ نے لکھا:
اما الوجوب فقول ابي حنيفة و محمد و زفر والحن واحدي الوواتين عن ابي يوسف
امام ابو حنیفہ،امام محمد،زفر،امام حسن،اور ایک روایت کے مطابق امام یوسف قربانی کو واجب کہتے ہیں۔(ہدایہ، ج:4، ص: 443)
2-امام مالک نے کہا:
الضَّحِيَّةُ سُنَّةٌ وَلَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ وَلَا أُحِبُّ لِأَحَدٍ مِمَّنْ قَوِيَ عَلَى ثَمَنِهَا أَنْ يَتْرُكَهَا
قربانی سنت ہے،واجب نہیں ہے،اور جو شخص قربانی خرید سکتا ہو،اس کےلئے قربانی کا ترک کرنا اچھا نہیں۔ (مؤطا:1777)
3-امام شافعی نے کہا:
الضَّحَايَا سُنَّةٌ لَا أُحِبُّ
قربانیاں سنت ہیں،ہم قربانی کے ترک کو پسند نہیں کرتے۔
(کتاب الام، ج:2، ص: 221)
4-امام احمد نے کہا:
لا يستحب تركها مع القدرة عليها
استطاعت ہوتے ہوئے اس کا ترک مستحب نہیں۔
(الاستذکار (15/ 155، 164)،المحلی (8/ 3، 9)، المغني (8/ 617، 618)، المجموع (8/ 385)
5-امام ابن حزم ظاہری نے کہا:
الأُضْحِيَّةُ سُنَّةٌ حَسَنَةٌ, وَلَيْسَتْ فَرْضًا, وَمَنْ تَرَكَهَا غَيْرَ رَاغِبٍ عَنْهَا فَلاَ حَرَجَ عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ
قربانی سنت حسنہ ہے فرض نہیں،اگر کوئی شخص کسی وقت اس نیت سے چھوڑدے کہ یہ فرض نہیں تو اس پر کوئی حرج نہ ہوگا۔ (المحلی،7/355)
6-شیخ الاسلام حافظ ابن حجر نے کہا:
ولا خلاف في كونها من شرائع الدين وهي عند الشافعية والجمهور سنة مؤكدة على الكفاية وفي وجه للشافعية من فروض الكفاية وعن أبي حنيفة تجب على المقيم الموسر وعن مالك مثله في رواية لكن لم يقيد بالمقيم ونقل عن الأوزاعي وربيعة والليث مثله وخالف أبو يوسف من الحنفية وأشهب من المالكية فوافقا الجمهور وقال أحمد يكره تركها مع القدرة وعنه واجبة وعن محمد بن الحسن هي سنة غير مرخص في تركها
ائمہ اسلام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ قربانی شرائع اسلام میں سے ہے،اختلاف صرف اتنا ہے کہ شوافع اور جمہور ک نزدیک قربانی سنت موکدہ علی الکفایۃ ہے،اور ایک روایت کے مطابق شوافع کے نزدیک فرض کفایہ ہے،اور اما ابو حنیفہ کے نزدیک واجب ہے مگر صرف آسودہ حال پر(مسافراور حاجی پر نہیں)امام مالک سے بھی یہی قول منقول ہے،ایک روایت کے مطابق لیکن امام مالک کے نزدیک مسافر پر بھی قربانی واجب ہے،اور امام اوزاعی امام ربیعہ امام لیث سے بھی امام مالک کے قول کے مطابق فتوی منقول ہے،البتہ احناف میں سے امام ابو یوسف اور مالکیہ میں میں سے امام اشہب نے اپنے آئمہ سے اختلاف کرتے ہوئے جمہور سے اتفاق کیا ہے،امام احمد نے فرمایا: جس شخص میں قربانی دینے کی استطاعت ہو اُس کا قربانی نہ دینا مکروہ ہے،اور امام محمد حسن شیبانی سے روایت ہے کہ قربانی سنت ہےلیکن اس سنت کے ترک کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔(فتح الباری:3/10)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا : ”قربانی کے ایام میں بنسبت صدقہ کرنے کے قربانی کرنا افضل ہے“، امام ابو داوٴد، امام ربیعہ اور ابو الزناد رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ (المغنی لابن قدامہ: ۱۱/۶۹)
امام نووی رحمہ اللہ بھی اسی طرح ذکر کرتے ہیں کہ صحیح احادیثِ مشہورہ کی بنا پر شوافع کے نزدیک ان دنوں میں قربانی کرنا ہی افضل ہے، نہ کہ صدقہ کرنا؛ اس لیے کہ اس دن قربانی کرنا شعارِ اسلام ہے، یہی مسلک سلفِ صالحین کا ہے۔ (المجموع شرح المہذب: ۸/۴۲۵)
صاحب مرقاۃ المفاتیح لکھتے ہیں کہ ”بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنتِ موٴکدہ ؛لیکن بہرصورت اس دن میں قربانی کرنا یعنی: خون بہانا متعین ہے، اس عمل کو چھوڑ کر جانور کی قیمت صدقہ کر دینا کافی نہیں ہو گا؛ اس لیے کہ صدقہ کرنے میں شعائرِ اسلام میں سے ایک بہت بڑے شعار کا ترک لازم آتا ہے؛ چنانچہ! اہل ثروت پر قربانی کرنا ہی لازم ہے۔ (مرعاۃ المفاتیح: ۵/۷۳)
قربانی کے روحانی فوائد:
اللہ تعالی نے فرمایا:
لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الحج:37)
اللہ تک نہ انکے گوشت پہنچتے ہیں نہ ہی انکے خون،لیکن اس تک تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔
تقوی کا محل انسان کا دل ہے جو اسکی روحانی صفات(ایمان،عقیدہ وغیرہ) کا مرکز ہے،یعنی قربانی ایمان میں اضافے اور عقیدہ توحید میں رسوخ کا باعث بنتی ہے،کیونکہ اللہ کا نام لے کر جانور کے گلے پر چھری چلانے کا عمل دل میں موجود اس عزم مصمم کا حسی مظہر ہے،جسکے ہوتے ہوئے وہ اللہ کی راہ میں کسی بھی طرح کی عملی قربانی پیش کرنے سے نہیں چوکتا،اور یہ وصف اللہ کو نہایت ہی محبوب ہے ،اسکے ذریعے اس نے ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی آزمائش کی،جس پر پورا اترنے کی صورت میں اللہ تعالی نے انہیں آنے والی انسانیت کا امام اور مقتدی وپیشوا بنادیا،نیز اللہ کا نام لے کرقربانی کا وجود تقوی و ایمان کے وجود کی حسی دلیل ہے،اور تقوی و ایمان کی موجودگی اس کائنات کے وجود کی وجہ ہے،جسکا معنی ہے کہ ہرہر شے اپنی فطری ذمہ داریوں کی انجام دہی میں لگی رہے گی، چنانچہ جب دنیا سے ایمان و تقوی کا وجود ختم ہوجائے گا تو قیامت رونما ہوجائے گی،جیسا کہ نبی ﷺنے فرمایا:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ عَلَى أَحَدٍ يَقُولُ: اللهُ , اللهُ
قیامت اس شخص پر قائم نہ ہوگی جو کہتا ہو:اللہ،اللہ۔ (مسلم:393)
قربانی کے معاشرتی فوائد:
قربانی کے بہت سے معاشرتی فوائد بھی ہیں ،مثلا لوگ قربانی کے جانوروں میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوتے ہیں،قربانی کے جانوروں کی حفاظت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں،ساتھ مل کر قربانی کرتے ہیں،قربانی کا گوشت ایک دوسرے کو تحفۃ بھیجتے ہیں،ایک دوسرے کو گوشت کھانے کی دعوت دیتے ہیں،قربانی کی کھالیں مستحقین کو دیکر انکی مدد کرتے ہیں،الغرض قربانی معاشرے کے افراد میں ایک دوسرے کے لئے الفت و چاہت اور ادب و احترام پیدا کرنے ،معاملات کو مشترکہ طور پر اجام دینے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے اور ایک دوسرے کو تحائف دینے اور صلہ رحمی کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں،کیونکہ اسی الفت اور باہمی ارتباط سے معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔
آخر میں عرض ہے کہ قربانی کی اس عظیم روایت نے انسانیت کو بہت کچھ دیا ہے اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا،یہ انسانیت کی فلاح و بہبود کی بہترین صورت ہے،خاص طور پر غربت کے ستائے ہوئے اور بے روزگاروں کے لئے یہ بہت بڑی نعمت ہے جسکا کوئی بدل
نہیں،مزید بر آں یہ رب کائنات کی خوشنودی کے حصول کا بہترین ذریعہ بھی ہے ، ،لہذا قربانی کی مخالفت برائے مخالفت کے بجائے اسے رواج دیں اور اسکے دنیاوی و اخروی فوائد سے فیضیاب ہوں۔
اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ماہنامہ تحقیقی، اصلاحی و دعوتی ماھنامہ مجلہ جس میں حالاتِ حاضرہ، کی مناسبت سے قرآن سنت کی روشنی میں مضامین اور تحقیقی مقالات شائع کئے جاتے ہیں
ماھنامہ اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال بلاک 5،پوسٹ بکس نمبر11106، پوسٹ کوڈ نمبر75300 کراچی پاکستان
Phone: +92 0213 480 0471
Fax: +92 0213 4980877
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.