ممکن ہے کہ انتہائی متاثر کن شخصیات کی فہرست میں محمد ﷺ کا شمار سب سے پہلے کرنے پر چندا حباب کو حیرت ہواور کچھ معترض بھی ہوں لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی۔
محمد ﷺ نے عاجز انہ طور پر اپنی مساعی کا آغاز کیا اور دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک کی بنیاد رکھی اور اسے پھیلایا وہ ایک انتہائی موثر سیاسی رہنمابھی ثابت ہوئے، آج تیرہ سو برس گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلم اور گہرے ہیں۔
اس کتاب میں شامل متعددافراد کی یہ خوش قسمتی رہی کہ وہ دنیا کے تہذیبی مراکز میں پیدا ہوئے او ر وہیں ایسے لوگوں میں پلے بڑھے جو عموماً اعلی تہذیب یافتہ یا سیاسی طور پر مرکزی حیثیت کی اقوام تھیں ۔ اس کے برعکس ان کی پیدائش جنوبی عرب میں مکہ شہر میں 570ء میں ہوئی یہ تب تجارت فنون اور علم کے مراکز سے بہت دور دنیا کا دقیانوسی گوشہ تھا۔ وہ چھ برس کے تھے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ ان کی پرورش عام وضع پر ہوئی ۔ اسلامی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہ ’’ان پڑھ‘‘ تھے، پچیس برس کی عمر میں جب شادی ایک اہل ثروت عورت سے ہوئی تو ان کی مالی حالت میں بہتری پیدا ہوئی، تاہم چالیس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے لوگوں مین ان کا ایک غیرمعمولی انسان ہونے کا تاثر قائم ہوچکا تھا ۔
تب زیادہ تر عرب اصنام پرست تھے وہ متعدد دیوتاؤں پر ایمان رکھتے تھے، مکہ میں البتہ عیسائیوں اور یہودیوں کی مختصر آبادیاں بھی موجود تھیں انہی کے توسط سے آپ واحد الٰہِ مطلق کے تصور سے شنا سا ہوئے ۔ جب ان کی عمر چالیس برس تھی انہیں احساس ہوا کہ لٰہِ واحد کی ذات مبارک ان سے اپنے فرشتے جبریل علیہ السلام کی وساطت سے ہم کلام ہے اور یہ کہ انہیں سچے عقیدے کی تبلیغ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
تین برس تک وہ اپنے قریبی عزاء واقرباء میں ہی اپنے نظریات کا پر چار کرتے رہے قریب613 عیسوی میں انہوں نے کھلے عام تبلیغ شروع کی آہستہ آہستہ انہیں ہم خیالوں کی معیت حاصل ہوئی تو مکہ کے بااختیار لوگوں نے ان کی ذات میں اپنے لیے خطرہ محسوس کیا۔622 ء میں وہ اپنی حفاظت جان کی غرض سے مدینہ چلے گئے (یہ مکہ کے شمال میں دوسو میل کے فاصلے پر واقع ایک شہر ہے) وہاں انہیں ایک بڑے سیاست دان کی حیثیت حاصل ہوئی۔
اس واقعہ کو ’’ہجرت‘‘ کہاجاتا ہے یہ نبی ﷺ کی زندگی میں ایک واضح موڑ تھا ۔ مکہ میں تو انہیں چند رفقاء کی جمعیت حاصل تھی مدینہ میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی جلد ہی ان کی شخصیت کے اثرات واضح ہوئے اور وہ ایک مکمل فرمانروا بن گئے اگلے چند برسوں میں ان کے پیروکار وں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور مدینہ و مکہ کے بیچ چند جنگیں لڑی گئیں جن کا اختتام 630ء میں آپ کی فتح مندی اور مکہ میں بطور فاتح واپسی پر ہوا ان کی زندگی کے اگلے ڈھائی برسوں میں عرب قبائل سرعت سے اس نئے مذہب کے دائرے میں داخل ہوئے 632ء میں آپ کا انتقال ہوا تو آپ جنوبی جزیرہ ہائے عرب کے موثر ترین حکمران بن چکے تھے۔
عرب کے بدو قبائل تند خو جنگجوؤں کی حیثیت سے جانے جاتے تھے لیکن دہ تعداد میں کم تھے، شمالی زرعی علاقوں میں آباد وسیع بادشاہتوں کی افواج کے ساتھ ان کی کوئی برابری نہیں تھی تاہم آپ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ انہیں یکجا کیا یہ واحد راست الٰہ پر ایمان لے آئے ان مختصر عرب فوجوں نے انسانی تاریخ میں فتوحات کا ایک حیران کن سلسلہ قائم کیا ۔جزیرہ ہائے عرب کے شمال میں ساسانیوں کی نئی ایرانی سلطنت قائم تھی۔ شمال مغرب میں بازنطینی یا مشرقی سلطنت روما تھی جس کا محور کا نسٹنٹی لوپل تھا ۔ بالحاظ تعداد عرب فوج کا اپنے حریفوں سے کوئی جوڑ نہیں تھا۔ تاہم میدان جنگ میں معاملہ مختلف تھا ان پر جوش عربوں نے بڑی تیزی سے تمام میسوپوٹیمیا، شام اور فلسطین فتح کیا ۔642ء میں مصر کو بانطینی تسلط سے چھینا، جبکہ 637ء میں جنگ قادسیہ اور 642ء میں نہاوند کی جنگ میں ایرانی فوجوں کو تاخت وتاراج کیا۔
تاہم نبی اکرم ﷺ کے جانشیں اور قریبی صحابہ ابو بکر اور عمر بن الخطاب کی زیر قیادت ہونے والی ان عظیم فتوحات پر ہی مسلمانوں نے اکتفاء نہ کیا ۔711ء تک عرب فوجیں شمالی افریقہ کے پار بحر اوقیانوس تک اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ چکی تھیں۔ پھر یہ شمال کی طرف مڑے اور آبنائے جبرالٹر کو عبور کرکے اسپین میں ’’ویسی گوتھک‘‘ سلطنت پر قبضہ کیا۔ ایک دور میں تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ مسلمان تمام مسیحی یورپ پر قابض ہوجائیں گے تاہم732ء میں طور کی مشہور جنگ میں جبکہ مسلمان فوجیں فرانس میں داخل ہوچکی تھیں فرانک قوم کی فوجوں نے انہیں بالاخر شکت فاش دی۔ جنگ و جدل کی اس صدی میں ان بدوی قبائل نے نبی کے الفاظ سے حرارت لیکر ہندوستان کی سرحدوں سے بحراوقیانوس تک ایک عظیم سلطنت استوار کرلی اتنی بڑی سلطنت کی اس سے پہلے تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ جہاں ان افواج نے فتوحات حاصل کیں وہاں بڑے پیمانے پر لوگ اس نئے عقیدے کی جانب مائل ہوئے۔
لیکن یہ تمام فتوحات پائیدار ثابت نہیں ہوئیں، ایرانی اگرچہ اسلام سے وفادار رہے لیکن انہوں نے عربوں سے آزادی حاصل کرلی اسپین میں سات صدیاں خانہ جنگی جاری رہی اور بالآخر تمام جزیرہ ہائے اسپین پر پھر سے مسیحی غلبہ ہوگیا۔ قدیم تہذیب کے یہ دوگہوارے میسوپوٹیمیااور مصر عربوں کے تسلط میں ہی رہے۔ یہی پائیداری شمالی افریقہ میں بھی قائم رہی۔ اگلی صدیوں میں یہ نیا مذہب مسلم فتوحات کی حقیقی سرحدوں سے بھی پرے پھیل گیا۔ آج افریقہ اور وسطی ایشیا میں اس مذہب کے کروڑوں پیروکار موجود ہیں یہی حال پاکستان، شمالی ہندوستان اور انڈونیشیا میں بھی ہے۔ انڈونیشیا میںتو اس مذہب نے ایک متحد کردینے والے عنصر کا کردار ادا کیا ہے۔
برصغیرپاک وہند میں ہندو مسلم تنازعہ ایک اجتماعی اتحاد کی راہ میں حائل ہنوز ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح انسانی تاریخ پر محمد ﷺ کے اثرات کا تجزیہ کر سکتے ہیں تمام مذاہب کی طرح اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں یہی وجہ ہے کہ قریب سبھی عظیم مذاہب کے بانیان اس کتاب میں شامل ہیں۔ اس وقت عیسائی مسلمانون سے بالحاظ تعداد زیاددوگنے ہیںاسی لیے یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے کہ محمد ﷺ کو عیسیٰ علیہ السلام سے بلند مقام دیا گیا ہے ۔ اس فیصلہ کی دو بنیادی وجوہات ہیں اول مسیحیت کے فروغ میں یسو ع مسیح(عیسیٰ علیہ السلام) کے کردار کی نسبت اسلام کی ترویج میں محمد ﷺ کا کردار کہیں زیادہ بھر پور اور اہم رہا۔ ہر چند کہ عیسائیت کے بنیادی اخلاقی اعتقادات کی تشکیل میں یسوع کی شخصیت بنیادی رہی ہے (یعنی جہاں تک یہ صہیونی عقائد سے مختلف ہیں)۔ یسنٹ پال ہے ہی صحیح معنوں میں عیسائیت کی ترویج میں حقیقی پیش رفت کی۔ اس نے عیسائی پیروکاروں میں اضافہ بھی کیا اور وہ عہد نامہ جدید کے ایک بڑے حصے کا مصنف بھی ہے۔
محمدﷺ نہ صرف اسلام کی الہامیت کی تشکیل میں فعال تھے بلکہ اس کے بنیادی اخلاقی ضوابط بھی بیان کیے، علاوہ ازیں انہوں نے اسلام کے فروغ کے لیے بھی مساعی کیں اور اس کی مذہبی عبادات کی بھی توضیح کی۔
عیسیٰ علیہ السلام کے برعکس محمدﷺ نہ صر ف ایک کامیاب دنیا دار تھے بلکہ ایک مذہبی رہنما بھی تھے ۔ فی الحقیقت وہی عرب فتوحات کے پس پشت موجود اصل طاقت تھے۔ اس اعتبار سے وہ تمام انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ متاثر کن سیاسی قائد ثابت ہوتےہیں۔
بہت سے اہم تاریخی واقعات کے متعلق کہا جاسکتا ہےکہ وہ ناگزیر تھے اگر ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی خاص سیاسی قائد نہ بھی ہوتاوہ وقوع پذیر ہوکر ہی رہتے ۔ مثال کے طور پر اگر سائسن بولیور کبھی پیدا نہ ہوتا پھر بھی شمالی امریکی کالونیاں اسپین سے آزاد ی حاصل کرہی لیتی لیکن عرب فتوحات کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا ہے۔ محمد ﷺ سےپہلے ایسی کوئی مثال ہی موجود نہیں ہے۔ اس امر پر اعتبار کرنے میں ہچکچاہٹ کی کوئی وجہ نہیںہے کہ پیغمبر کے بغیر یہ فتو حات ممکن نہیں تھیں۔ تاریخ انسانی میں ان سے مماثل ایک مثال تیرہویں صدی عیسوی میں ہونے والی منگولوں کی فتوحات ہیں جو بنیادی طور پر چنگیز خان کے زیر اثر ہوئیں یہ فتوحات عربوں سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہونے کے باوجود ہر گز پائیدار نہیں تھیں۔ آج منگولوں کے قبضہ میں صرف وہی علاقے باقی رہ گئے ہیں جو چنگیز خان کے دور میں ان کے تلسط میں تھے۔
عرب فتوحات کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے ۔ عراق سے مراکش تک عرب اقوام کی ایک زنجیر پھیلی ہوئی ہے یہ صر ف اپنے مشترکہ عقیدے ’’اسلام‘‘ہی کے سبب باہم متحد نہیں ہیں بلکہ ان کی زبان، تاریخ اور تمدن بھی مشترک ہیں ۔ قرآن نے مسلم تہذیب میں مرکزیت پیدا کی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اسے عربی میں لکھا گیا۔ شاید اسی باعث عربی زبان باہمی ناقابل فہم مباحث میں الجھ کر منتشر نہیں ہوئی گو درمیان کی تیرہویں صدی میں ایسا امکان پیدا ہوچلاتھا ۔ بلاشبہ ان عرب ریاستوں کے بیچ اختلافات اور تقسیم موجود ہے۔ یہ بات ناقابل فہم بھی ہے لیکن یہ جزوی بعد ہمیں اتحاد کے ان اہم عناصر سے صرف نظر کرنے پر مائل نہیں کرسکتا جو ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایران اور انڈونیشیا دونوں تیل پیدا کرنے والے اور مسلمان ممالک ہیں۔ لیکن1973-74ء کے موسم سرما میں ہونے والے تیل کی تجارت کی بندش کے فیصلے میں شامل نہیں تھے یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ تمام عرب ریاستیں اور صرف عرب ریاستیں ہی اس فیصلے میں شریک تھیں۔
مغربی اور غیر مسلم مشاہیرومستشرقین کےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو اقوال و خیالات نقل کے گئے ہیں۔آپ بھی اسکوملاحظہ فرمائیں:
(1)مجھے امید ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب میں تمام ممالک کے پڑھے لکھے اور دانشمند لوگوں کو جمع کر سکوں گا اور قرآن کے بتائے ہوے اصولوں کے مطابق ایک ہمہ جہت عالمی نظام حکومت قائم کرلوں گا کہ جو سچائی پر مبنی ہوگا اور انسان کو حقیقی مسرت دے سکے گا۔
(نپولین بونا پارٹ – “بوناپارٹ ایٹ اسلام “، پیرس -١٩١٤ )
(2)میرا اس پر یقین پہلے سے بڑھ چکا ہے کہ یہ تلوار نہیں تھی جس کے ذریعے اسلام نے اپنا مقام حاصل کیا بلکہ ایک غیر لچکدار سادگی، پیغمبر اسلام کی نفس کشی، اپنے وعدوں کا احترام، اپنے دوستوں اور ماننے والوں کے لیے انتہائی درجہ کی وابستگی، انکی بہادری اور بے خوفی اور اپنے خدا اور اپنے مشن پر غیر متزلزل اور مطلق ایمان نے انھیں کامیابیاں دلائیں اور اسی سے انہوں نے ہر مشکل پر قابو پایا ۔( گاندھی : ینگ انڈیا -١٩٢٤ )
(3)اگر مقصد کی عظمت، وسائل کی قلت اور حیرت انگیز نتائج کسی انسان کی غیر معمولیت کا معیار ہوں تو کون ہے جو جدید انسانی تاریخ میں محمد کا مقابلہ کر سکے؟۔ زیادہ مشہور لوگوں نے ہتھیار بنائے، قوانین بنائے اور سلطنتیں تخلیق کیں اور کچھ پایا تو یہ کہ انکی مادی طاقت انکی آنکھوں کے سامنے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ اس شخص نے افواج، قوانین، سلطنتوں، عوام اور خواص کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ دنیا میں رہنے والی ایک تہائی آبادی کے کروڑوں انسان ان سے متاثر ہوے بغیر نہ رہ سکے۔ اور اس بھی زیادہ اس شخص نے مذہبی رسومات کو، نام نہاد خداؤں کو، ادیان کو، خیالات و نظریات کو، ارواح اور عقائد کو متاثر کیا ۔ جسکا مقصد کبھی بھی بادشاہت نہیں رہا جو کہ صرف ایک عظیم الشان مقصد سے وابستہ رہا کامیابی اور تحمل کے ساتھہ ۔ اسکی بے انتہا عبادات اور اپنے رب سے مکاشفات، اسکی موت اور بعد از مرگ اسکی کامیابی اسکی وہ خوبیاں ہیں جو کسی مکر و فریب کی بجائے ایمان کی اس بلند ترین حالت کو ثابت کرتی ہے جو قوت دیتی ہے بنیادی عقیدے کو بحال کرنے کی۔ یہ بنیادی عقیدہ دو اجزا پر مشتمل ہے ایک جز تمام خداؤں کا انکار کرتا ہے تو دوسرا جز بتاتا ہے خدا کیا ہے۔ ایک جز تلوار کے زور پر جھوٹے خداؤں کو دور کرتا ہے تو دوسرا جز تبلیغ کے زور پر اصل خدا سے تعارف کراتا ہے۔
محمد کیا نہیں تھے ؟ ایک فلاسفر، خطیب، رسول، قانون ساز، جنگجو، نظریات کو فتح کرنے والے، ایک عقلی عقیدہ کو بحال کرنے والے، ٢٠ سرحدوں والی سلطنتوں اور ایک روحانی سلطنت کے خالق…انسانی عظمت کے کسی بھی معیار کو لے لیجئے، ہم صرف ایک سوال کرتے ہیں کہ کیا کوئی محمد سے عظیم شخص آیا ہے ؟
(لامارٹیں – “تاریخ ترکی” ١٨٥٤ – جلد دوئم صفحہ ٢٧٦-٢٧٧ )
(4)میرا یقین ہے کہ اگر محمد جیسے شخص کو جدید دنیا کی مطلق العنان حکومت سونپ دی جائے تو وہ اس دنیا کے مسائل اس طرح سے حل کرے گا کہ دنیا حقیقی مسرتوں اور راحتوں سے بھر جائے گی۔ میں نے انھیں پڑھا ہے وہ کسی بھی طرح کے مکر و فریب سے کوسوں دور ہیں انہیں بجا طور پر انسانیت کا نجات دہندہ کہا جاسکتا ہے۔ میں نے پیشینگوئی کی تھی کہ محمد کا عقیدہ یورپ کے لئے آنے والے کل میں اتنا ہی قابل قبول ہوگا کہ جتنا آج قابل قبول بننے لگا ہے۔( جارج برنارڈ شا – “حقیقی اسلام ” ١٩٣٦ – جلد ٨ )
(5)یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک آدمی خالی ہاتھہ جنگ و جدل میں مشغول قبائل اور بدوؤں کو اس طرح سے آپس میں جوڑ لے کہ وہ ٢٠ سال کے مختصر عرصہ میں ایک انتہائی
طاقتور اور مہذب قوم بن جائیں ؟
جھوٹ اور تہمتیں جو مغربی اقوام نے اس شخص پربڑے جوش و خروش سے لگائی ہیں خود ہمارے لئے شرمندگی کا باعث ہیں۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک آدمی خالی ہاتھہ جنگ و جدل میں مشغول قبائل اور بدوؤں کو اس طرح سے آپس میں جوڑ لے کہ وہ دو دہائیوں سے بھی کم کے مختصر عرصہ میں ایک انتہائی طاقتور اور مہذب قوم بن جائیں ؟ ایک تنہا مگر عظیم شخص ایک اولو العزم انسان جسے اس دنیا کو روشن کرنا تھا کیونکہ اسکا حکم اسے اسکے خدا نے دیا تھا( تھامس کارلائل – ہیروز اینڈ ہیروز ورشپ )
(6)ہمیں اسکے دین کے فروغ سے زیادہ اسکے دین کی استقامت پر حیرت ہونی چاہیے۔ وہی خالص اور مکمل احساس جسے اس نے مکّہ اور مدینہ میں کندہ کیا وہی احساس ہمیں ١٢ صدیاں گزرنے کے بعد بھی قرآن کے ماننے والے انڈین، افریکی اور ترکوں میں نظر آتا ہے۔ مسلمانوں نے بڑی کامیابی سے ان ترغیبات کا مقابلہ کیا جو انسانوں کی کسی بھی عقیدے سے وابستگی کو کم کر کے انکو انکے نفس کی خواھش پر چھوڑ دیتی ہیں۔ ” میں اللہ واحد و لاشریک پر ایمان لاتا ہوں اور اس بات پر کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ” یہ ایک سادہ اور نہ قابل ترمیم دینی اعلان ہے۔یہاں خدا کے منطقی تصور کو بتوں کے ذریعے گھٹایا نہیں اور نہ ہی رسول کی عظمت کو انسانی حدوں سے بڑھایا گیا۔اسکی زندگی نے ایسی مثال قائم کی جس نے اسکے ماننے والوں کو مذہب اور معقولیت کی حدوں میں رکھا۔(ایڈورڈ گبن اور سائمن اوکلے – ” تاریخ سلطنت شام و عرب “ – لندن ١٨٧٠ – صفحہ ٥٤ )
(7)وہ خود میں ایک قیصر اور پوپ تھے پاپائیت سے منسوب الزامات اور دعووں سے مبرّا اور قیصرآنہ فوج اور شان و شوکت، محافظین، محلات اور آمدنی کے بغیر۔ اگر کبھی بھی کسی بھی شخص کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اس نے الوہی حکومت کی ہے تو وہ شخص محمد کے علاوہ کوئی اور ہو نہیں سکتا بغیر الوہیت کے، الوہیت کی تمام تر طاقت لئے ہو۔( بوس ورتھ اسمتھ – محمد اور محمدی عقیدہ – ١٨٧٤ لندن – صفحہ :٩٢)
(8)یہ نا ممکن ہے کسی بھی ایسے شخص کے لئے جس نے عرب کے عظیم پیغمبر کی زندگی اور اسکے کردار کے بارے میں پڑھا ہو ۔ جو یہ جانتا ہو کہ اس پیغمبر نے کیا تعلیم دی اور کیسے زندگی گزاری وہ اسے اپنے دل میں اس عظیم پیغمبر کے لئے انتہائی احترام کے علاوہ کچھ اور محسوس کرے۔ اگرچہ میں انکے بارے میں آپ سے کچھ بھی کہوں، بہت سارے لوگ ایسے بھی ہونگے جن کے نزدیک میری باتیں نئی نہیں ہیں لیکن ابھی تک خود میں جب بھی اس عظیم پیغمبر کے بارے میں پڑھتی ہوں تو اس عظیم استاد کے لئے تعریف و توصیف کی ایک نئی لہر میرے اندر اٹھتی ہے اور احترام کا ایک نیا جذبہ میرے اندر کروٹ لیتا ہے۔
( اینی بیسنٹ – ” محمد کی زندگی اور انکی تعلیمات ” – مدراس ١٩٣٢ – صفحہ ٤ )
(9)اپنے عقیدے کی خاطر کسی بھی قسم کے ظلم اور زیادتی کو برداشت کرنے کی آمادگی، اسکے ماننے والوں کا بلند اخلاق و کردار، اسکے ماننے والوں کا رشد و ہدایت کے لئے اسی کی طرف دیکھنا اور اسکی کامیابیوں کی شان و عظمت، یہ سب اسکی ایمانداری اور دیانت داری کی طرف دلالت کرتی ہیں اسی لئے یہ خیال کرنا کہ وہ (معاذ الله ) جھوٹے تھے، مشکلات کو حل کرنے کی بجائے بڑھا دیتا ہے۔ مزید برآں مغرب میں کسی بھی عظیم شخص کی ایسی بے توقیری اور قدر ناشناسی نہیں دیکھی گئی ہے جیسا کہ محمد کے لئے کی گئی ہے۔( منٹگمری واٹ – مکّہ والے محمد – آکسفورڈ ١٩٥٣ – صفحہ ٥٢ )
(10)انسان کامل، محمد جو ٥٧٠ ء میں ایک ایسے قبیلے میں پیدا ہوئے جو بتوں کو پوجتا تھا۔ پیدائشی یتیم تھے۔ وہ خاص طور پر غریبوں اور ضرورت مندوں، بیواؤں اور یتیموں، غلاموں اور پسے ہوؤں کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ بیس سال کی عمر میں وہ ایک کامیاب تاجر بن گئے تھے اور ایک دولتمند بیوہ کے لئے تجارتی منتظم بن گئے تھے۔ جب پچیس سال کے ہوئے تو انکی آجر انکی خوبیوں اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انھیں رشتہ بھیجا۔اور باوجود اسکے کہ وہ ان سے ١٥ سال بڑی تھیں، نا صرف شادی کی بلکہ جب تک زندہ رہیں اپنے آپ کو اپنی بیوی کے لئے وقف رکھا‘‘
” ہر بڑے پیغمبر کی طرح وہ بھی خدا کے الفاظ و پیغام کو محض اپنی بشری کمزوریوں کی وجہ سے دہرانے میں متردد تھے۔ لیکن فرشتہ نے انھیں حکم دیا کہ’’پڑھ ‘‘ ۔ امی ہونے کے باوجود انہوں نے وہ الفاظ دوہرائے جنہوں نے زمین کے ایک بڑے حصّے میں انقلاب برپا کر دیا ” خدا ایک ہے ” ۔
’’ محمد سب سے زیادہ عملیت پسند تھے جب انکے پیارے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہوا، تو اسی دن سورج گرہن ہوا جسکو خدا کی طرف سے تعزیت قرار دیا جانے لگا۔ جس کے رد میں محمد کو یہ کہنا پڑا کہ گرہن لگنا قدرت کا ایک نظام کے تحت ہے۔ کسی کی زندگی اور موت کو اس سے منسوب کرنا حماقت ہے۔‘‘
محمد کی وفات پر جب لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا تو اسکے جانشین نے اس ہسٹیریا کو ایک تاریخی، انتہائی اعلیٰ و بہترین خطاب سے رفع کیا کہ ” اگر تم میں سے کوئی محمد کی پرستش کرتا تھا تو محمد وفات پا چکے ہیں لیکن اگر تم خدا کی پرستش کرتے ہو تو وہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔
( جیمز اے مچنر – ” اسلام : ایک غلط سمجھا گیا دین ” – ریڈرز ڈائجسٹ -مئی ١٩٥٥- صفحہ ٦٨-٧٠ )
(11)ممکن ہے کہ انتہائی متاثر کن شخصیات میں محمد کا شمار سب سے پہلے کرنے پر کچھ لوگ حیران ہوں اور کچھ اعتراض کریں۔ لیکن یہ وہ واحد تاریخی ہستی ہیں جو کہ مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر یکساں طور پر کامیاب رہے”
” ہم جانتے ہیں کہ ساتویں صدی عیسوی میں عرب فتوحات کے انسانی تاریخ پر اثرات ہنوز موجود ہیں۔ یہ دینی اور دنیاوی اثرات کا ایسا بینظیر اشتراک ہے جو میرے خیال میں محمد کو انسانی تاریخ میں سب سے متاثر کن شخصیت قرار دینے کا جواز دیتا ہے۔
( مایکل ایچ ہارٹ – ١٠٠- عظیم آدمی )
(12)یہ وہ پہلا مذہب ہے جس نے جمہوریت کی تبلیغ اور اسکی ترویج کی ۔ جب مسجد میں پانچ وقت اذان دی جاتی ہے اور نمازی، نماز کے لئے اکھٹے ہو جاتے ہیں تو اسلامی جمہوریت مجسم ہوجاتی ہے اور کسان اور بادشاہ گھٹنے سے گھٹنا ملائے خدا کی تکبیر بیان کرتے ہیں
( سروجنی نائیڈو – اسلام کے آئیڈیلز – مدراس ١٩١٨ )
(13)وہ انکا نہایت ایماندار حفاظت کرنے والا تھا جن کی اس نے حفاظت کی، گفتار میں انتہائی شیریں اور متحمل ۔ جنہوں نے بھی اسے وہ احترام کے جذبے سے مغلوب ہوئے ۔ جو اسکے قریب آئے اس پر فدا ہوئے۔ جنہوں نے بھی اسکے بارے میں کچھ بتانا چاہا، یہی کہا کہ ” میں نے ان جیسا نا پہلے نا بعد میں کبھی دیکھا ہے ” انکی خاموشی میں بھی انکی عظمت تھی لیکن جب بھی انہوں نے بات کی زور دیکر اور بہت سوچ بچار کرکے کی اور کوئی بھی انکی کہی ہوئی بات کو بھول نا سکا( اسٹینلے لینی پول – ٹیبل ٹاک آف دی پرافٹ )
(14)ہمیں اسلام اور پیغمبر اسلام کو انکی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔اسلام کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بہت زیادہ غلط سمجھا گیا دین ہےآپ ہندو مت کو سمجھنے کے لئے ہندو انتہا پسندوں کی طرف نہیں دیکھتے، سکھ مذھب کو سمجھنے کے لئے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور اسکے ساتھیوں کی طرف نہیں دیکھتے اسی طرح آپکو اسلام سمجھنے کے لئے اسکے نام نہاد پیروکاروں کی بجائے پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو دیکھنا چاہیے۔ لوگوں کو ایک بات سمجھنا چاہیے کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا۔ انڈونیشیا اور ملائشیا میں کبھی اسلامی فوج داخل نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اسکے باوجود وہاں پر ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا۔ محمد صلی اللہ علیھ وسلم نے ہمیں ایک قادر مطلق خدا کی عبادت کرنا سکھائی۔دوسرے مذھب کے برعکس جہاں مختلف کاموں کے لئے مختلف خدا ہیں۔
( خشونت سنگھ – مالا پرّم ٹاون ہال – فروری ٢٠١٠ )
(15)غزوہ احد میں ہر شہید مسلمان نے اپنے پیچھے بیویاں اور بچیاں چھوڑیں جن کا کوئی والی وارث نہیں تھا اس غزوہ کے بعد قرانی آیت نازل ہوئیں جن میں چار شادیوں کی اجازت دی گئی تھی۔ اسلام میں کثیر الازدواجی کی اجازت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسے عورت کے مصائب اور تکلیف کا ایک بڑا سبب بتایا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ اجازت دی گئی اس وقت یہ ایک نہایت عمدہ معاشرتی قدم تھا۔اسلام سے پہلے مردوں اور عورتوں کو ایک سے زیادہ بیویاں اور شوھر رکھنے کی اجازت تھی۔ شادی کے بعد عورتیں اپنے میکے میں ہی رہتیں تھیں جہاں انکے شوہر ان سے ملنے آتے۔یہ معاشرتی سیٹ اپ ایک قانونی قحبہ گری سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ شوہروں کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے بچوں کی ولدیت کا تعین مشکل تھا اور بچے اپنی ماں سے پہچانے جاتے تھے اسی وجہ سے مرد نان و نفقہ اور اولاد کی پرورش سے آزاد رہے۔اسلام سے پہلے عورت حق وراثت اور حق ملکیت سے محروم تھی۔جو بھی آمدنی اسکی طرف آتی تھی وہ اسکے گھر والوں خاص طور گھر کے مردوں کے پاس چلی جاتی تھی۔ عورت کے لئے کاروبار چلانا اور جائیداد کا انتظام و انصرام سنبھالنا ایک مضحکہ خیز خیال محسوس ہوتا تھا۔ عورت کو کوئی انفرادی حقوق حاصل نہیں تھے اور اسکی حیثیت مرد کی ملکیت سے زیادہ نہیں تھی۔
اسلامی کثیر الازدواجی در حقیقت ایک سماجی قانون سازی ہے۔ جس میں عورت کو مرد کی خواھش پورا کرنے کا آلہ نہیں بنایا بلکہ کمزور اور بے سہارا خواتین کے لئے گھروں کا اور نگہبانوں کا انتظام کیا،تمام تر حقوق،عزت اور احترام کے ساتھ اور سب سے بڑھ کر وراثت میں وہ حقوق دے جو مغربی خواتین کو ١٩ صدی عیسوی تک میسر ہی نہیں تھے۔
(کیرن آرمسٹرانگ – ” محمد : ہمارے عہد کے نبی‘‘)
امیں اس سے ہر وہ شے مراد لی جاتی ہے جو کسی نبی یا ولی یا بزرگ کی جانب منسوب کردی جائے ،خواہ یہ نسبت درست اور ثابت ہو یا نہیں،سطور مذیلہ میں ہمارا مقصود رسول اللہ ﷺ کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ہے،رسول اللہ ﷺ چونکہ مجسم خیر و برکت تھے لہذا آپ کے آثار حسیّہ کے ذریعے خیر و برکت کی امید رکھنا فطری امر ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی حیات میں تبرک کی صورتیں:ااا
جب تک آپ ﷺبقید حیات تھے آپکی ذات اور استعمال شدہ اشیاء سے تبرک حاصل کرنا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں رائج تھا،بلکہ خود نبی مکرمﷺ اس کے مواقع فراہم کرتے تھے،جیسا کہ درج ذیل دلائل سے واضح ہے:
سیدناانس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:نبی کریم ﷺنے سر کے بال منڈھوائے،پھرسیدنا ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلاکر انہیں اپنے بال دیئے اور کہا:
انہیں لوگوں میں تقسیم کردو۔(مسلم:3215)
نیز اسطرح کے موقع پر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حرص و رغبت بھی دیدنی ہوتی جیسا کہ انس نے کہا کہ جب بال کاٹنے والے نے آپکے بال کاٹے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین آپکے ارد گرد منڈلانے لگے:
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خواہش ہوتی کہ کوئی بال گرنے نہ پائے مگر کسی کے ہاتھ میں۔(مسلم:6188)
یہی کیفیت آپ ﷺکے وضو کے استعمال شدہ پانی کے ساتھ ہوتی،جیسا کہ مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِیعِ نے کہا کہ:
’’نبی ﷺ جب وضو کرتے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین آپکے وضو کے پانی کے حصول کی خاطر گویا لڑنے کو تیار ہوجاتے‘‘
حتیٰ کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کے لعاب مبارک کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے،جیسا کہ عروہ بن مسعود الثقفی نے کہا:
’’اللہ کی قسم نبی ﷺ جب تھوکتے تو صحابہ y اسے کیچ کرلیتےموہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرتا،پھر وہ اسے اپنے چہروں،اور جسموں پر مل لیتے۔ (بخاری:2581)
bنیز اپنے بچوں کو مونہوں میں بھی آپ ﷺ کا لعاب دہن داخل کرنے کے لئے بے تاب رہتے ،کیونکہ وہ اسکی شفا اور برکت کا بارہا مرتبہ مشاہدہ کرچکے تھے،جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین آپکے پاس اپنے بچے لاتے تاکہ آپ انہیں گھٹی دیں اور برکت ہو۔(مسلم:5743)
(نوٹ)نبی کریم ﷺ نومولود بچوں کو گھٹی اسطرح دیتے کہ پہلے اسے اپنی گود میں لیتے،پھر کھجور منگواکر اسے چباکر نرم کرتے،پھر اسکے منہ میں تھتکارتے یعنی تھوک کے ذرات اسکے منہ میں داخل کرتے ،پھر اسے کھجور چکھاتے،گویا سب سے پہلے اسکے پیٹ میں نبی ﷺ کا لعاب مبارک داخل ہوتا۔(بخاری:5152)
سیدناسہل بن سعد رضی الله عنہ نے کہا:
نیزنبی ﷺ نے خیبر کے دن اعلان کیا کہ:
میں عَلَم اس شخص کو دوں گا،جسکے ہاتھ پر اللہ فتح عطا فرمائے گا،چنانچہ سب ہی اسکے حصول کی امید میں کھڑے ہوگئے،تو آپ نے پوچھا:علی کہاں ہیں؟،بتایا گیا کہ انکی آنکھ میں تکلیف ہے،آپ نے انہیں بلوایا اور انکی آنکھوں میں تھوکا تو وہ اسطرح صحیح ہوگئے گویا انہیں کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔ (بخاری:2783)
نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کوشش میں رہتے کہ انہیں نبی اکرم ﷺ کا جھوٹا مل جائےجسے کھا کر یا پی کر وہ خیر و برکت کا عظیم خزانہ حاصل کرلیں، جیسا کہ سہل بن سعد رضی الله عنہ نے کہا کہ:
نبی مکرم ﷺ کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی،آپ نے اس سے پیا ،آپکی دائیں جانب ایک بچہ تھا اور بائیں جانب کچھ بزرگ،آپ نے بچے سے پوچھا:کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں یہ انہیں دیدوں؟وہ بچہ ابن عباس تھے انہوں نے کہا:اللہ کے رسول اللہ کی قسم میں آپکا جھوٹا پینے پر کسی کو ترجیح نہ دوں گا،چنانچہ نبی کریمﷺ نے وہ چیز انکے ہاتھ میں پکڑادی۔ (مسلم:5412)
نیزسیدنا ابو عقیل الملیلی رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’مجھے رسول اللہ ﷺ نے ستو پلایا،جس سے پہلے آپ نے پیا،پھر آخر کا میں نے پیا،پس میں ہمیشہ اسکی سیرابی کو محسوس کرتا ہوں جب سیراب نہ ہوں،اور اسکی تری کو جب پیاسا ہوں،اور اسکی ٹھنڈک کو جب گرمی لگے‘‘(اسد الغابہ،3/218،تاریخ دمشق،44/351)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے تراشیدہ ناخنوں کو بھی بطور خیر و برکت محفواظ کرلیا کرتے تھے،جیسا کہ محمد بن زید نے کہا:
’’انکے والد نے انہیں بیان کیا کہ:وہ اور ایک قریشی نبی ﷺ کے ساتھ منحر(اونٹوں کو نحر کرنے کی جگہ،مراد منی ہے)میں تھے،اورآپ ﷺ قربانی کے جانور لوگوں میں تقسیم کررہے تھے،پس انہیں اور قریشی کو کوئی جانور نہ مل سکا،پھر رسول اللہ ﷺ نے سر کےبال ایک کپڑے میں منڈھوائے ،وہ آپ نے انہیں دیئے،تو انہوں نے ان میں سے کچھ بال لوگوں میں تقسیم کردیئے،اور آپ ﷺ نے ناخن ترشوائے تو وہ انکے ساتھی(قریشی)کو دیدیئے‘‘(احمد:16522،بیہقی کبری:91، علامہ شعیب الارناؤط نے اسے صحیح کہا)
نیزآپ ﷺ کے استعمال شدہ لباس،چادروں اور برتنوں کو بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بطور تبرک استعمال کرتے تھے،بلکہ خود نبی مکرمﷺ بھی اپنا استعمال شدہ لباس بطور خاص عنایت کیا کرتےتھےجیسا کہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
ہم نبی ﷺکی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں کہ آپ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور کہا:اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دو،یااس سے زیادہ اگر مناسب جانو،پانی اور بیری کے ساتھ،اور آخر میں کچھ کافور ملالینا،پھر جب فارغ ہوجاؤ تو (کفن پہنانے سے قبل)مجھے بتادینا، چنانچہ ہم نے آپکو بتادیا تو آپ نے ہمیں اپنی تہبند دی اور فرمایا:اسے اس میں لپیٹ دو۔(بخاری:2211)
نیزایک صحابی نےنبی اکرمﷺ سے انکی چادر مانگ لی جو آپ نے زیب تن کررکھی تھی ،جیسا کہ سہل نے کہا:
’’ایک خاتون نے نبی مکرمﷺ کو ایک چادر دی جسکے کنارےاس نے خود کڑھے تھے،آپ نے وہ چادراس انداز میں لی گویا آپکو اسکی ضرورت ہے،چنانچہ آپ اسے پہن کر باہر تشریف لائے تو ایک شخص نے اسکی تعریف کی اور کہا کہ:کس قدر خوبصورت چادر ہے،یہ آپ مجھے عنایت کردیجیے،(چنانچہ آپ نے وہ اسے دے دی)لوگوں نے اس سے کہا:تم نے اچھا نہیں کیا،نبی ﷺ نے وہ چادر ضرورتا پہنی تھی اور تم نے اسے مانگ لیا جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ نبی ﷺ کبھی منع نہیں کرتے،اس نے کہا:اللہ کی قسم میں نے اسے پہننے کے لئے نہیں مانگی،بلکہ اپنے کفن کے لئے مانگی ہے،چنانچہ وہ اسکا کفن بنی۔(بخاری:1218)
نیزسیدنا عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے کہا:نبی ﷺ کا ایک بڑا سا تھال تھا جسے الغراء کہا جاتا تھا،اسے چار آدمی مل کر اٹھاتے،جب چاشت کا وقت ہوتا تو اسے لایا جاتا اس میں ثرید بنائی جاتی،لوگ اسے کھاتے،ایک دفعہ نبی ﷺ نے فرمایا:
اسکے کناروں سے کھاؤ،اوربیچ میں ہاتھ نہ مارو،اس میں برکت ڈالی جاتی ہے۔(ابوداؤد:3775،الصحیحۃ:393)
bنیز آپ ﷺ کا پسینہ بھی بعض صحابیات جمع کرلیتیں اور اسے اپنے بچوں کے لئے اورخوشبو کا معیار بڑھانے کے لئے استعمال کیا کرتی تھیں ،جیسا کہ سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’نبی اکرم ﷺ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر جایا کرتے تھے، ایک دن آپ انکے بستر پر سوگئے،انہیں بتایا گیا کہ نبی ﷺ آپکے گھرمیں آپکے بستر پر دراز ہیں،تو وہ آئیں،نبی ﷺ کو پسینے آرہے تھے اور چمڑے(کے گدے)کے ایک کنارے پر جمع ہورہے تھے،چنانچہ انہوں نے اپنا عتیدہ(پرس نما شے جس میں خواتین اپنا قیمتی سامان رکھتی ہیں) کھولا اور آپکا پسینہ اس کی شیشیوں میں جمع کرنے لگیں،نبی ﷺ گھبرا کر اٹھے تو پوچھا:ام سلیم آپ یا کررہی ہیں؟انہوں نے کہا:ہم اپنے بچوں کے لئے اسکی برکت کی امید رکھتے ہیں،تو نبی ﷺ نے فرمایا:آپ نے درست کیا۔(مسلم:6202)
ایک روایت کے مطابق،سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
وہ آپ ﷺ کا پسینہ جمع کرکے اسے خوشبو میں ملاتیں اور شیشیوں میں رکھتیں،تو نبی مکرمﷺ نے پوچھا :ام سلیم یہ کیا ہے؟،انہوں نے کہا:آپکا پسینہ میں اپنی خوشبو میں ملاتی ہوں۔(مسلم:6203)
ایک اور روایت میں ہے کہ جب سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آگیا تو انہوں نے وصیت کی کہ:
کہ انکی تجہیز و تکفین میں وہ پسینہ ملی خوشبو استعمال کی جائے،چنانچہ ایسا ہی کیا گیا(بخاری:5925)
نیزنبی ﷺ کا پورا وجود مسعود خصوصاًہاتھ مبارک بھی انتہائی برکت والا تھا،جیسا کہ درج ذیل دلائل سے واضح ہے:
سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ:
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اپنے یہودی آقاؤں سے آقائے نامدار محمد رسول اللہ ﷺکے حکم پر مکاتبت کرلی ،انکے مالک اس شرط پر راضی ہوئے کہ وہ انہیں تین سو کھجور کے پودے لگاکر دیں اور چالیس اوقیہ چاندی فراہم کردیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کی اپیل پر انہیں پودے فراہم کردیئے،جو نبی مکرمﷺ نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے لگائے، اور آپ کے پاس مرغی کے انڈے برابر سونا آیا تو آپ نے وہ سلمان کو دیا اور کہا کہ بقیہ بھی ادا کردے،تو انہوں نے کہا کہ اس سے بقیہ پورا نہ ہوگا،تو نبی ﷺ نے اسے لیا اور اس پر اپنی زبان مبارک پھیری اور کہا کہ اب دے دو،سلمان نے کہا کہ میں نے اس سے چالیس اوقیہ چاندی بھی دے دی اور اتنی ہی میرے پاس بچ بھی گئی۔
(احمد:23789بیہقی کبری:21415، الصحیحۃ :894)
نیزسیدنا حنظلہ بن جذیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
نبی اکرم ﷺ نے انکے سر پر ہاتھ پھیرا(جب وہ چھوٹے بچے تھے)اور کہا:اللہ تجھے برکت دے،ذیال نامی راوی نے کہا:میں نے دیکھا کہ حنظلہ کے پاس سوجھے ہوئے چہرے والا انسان اور سوجھے ہوئے تھنوں جانور لایا جاتا،وہ اپنے ہاتھوں پر تھتکارکر کہتے بسم اللہ اور اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے اور کہتے کہ:رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ رکھنے کی جگہ ،پھر وہ ہاتھ اس انسان یا جانور پر پھیرتے تو وہ صحیح ہوجاتا۔ (احمد:20684،الصحیحۃ:2955)
نیزسیدناعبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ جب گستاخ رسول ابو رافع یہودی کو جہنم رسید کرکے واپس آئے تو انکی ٹانگ ٹوٹ چکی تھی،نبی مکرم ﷺ نے ان سے کہا کہ:
اپنی ٹانگ آگے کر،میں نے اپنی ٹانگ پھیلادی، پھر آپ ﷺ نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا،تو گویا اس میں کبھی درد ہوا ہی نہ تھا ۔
نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے وجود مسعود کی خیر و برکات سمیٹنے کی خاطر آپکو اپنے گھراں میں مدعو کرتے اور نفل پڑھنے کی درخواست کرتے، جیسا کہ محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا:
سیدناعتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نابینا تھے اور اپنی قوم کی امامت کرواتے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:اللہ کے رسول ،راستے میں اندھیرا اور سیلابی پانی ہوتا ہے،اور میں آنکھوں سے معذور ہوں،سو آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز ادا کرلیں،جسے میں جانماز بنالوں ،چنانچہ نبی ﷺ انکے گھر آئے،پوچھا کہ کہاں نماز پڑھوں،انہوں ایک جگہ بتائی ،تو رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ نماز ادا کی۔ (بخاری:636)
(ضروری تنبیہات)
1-مذکورہ دلائل سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ خیر و برکت آپ ﷺکی ذاتی تھی،نہ تو رسول ﷺنے یہ تاثر دیا نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسا سمجھے، بلکہ نبیﷺ نے اسطرح کے موقع پراپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کوتنبیہ فرمائی اور انکی رہنمائی کی،جیسا کہ حدیث میں آتا ہےکہ نبی ﷺ نے ایسے موقع پر جب تھوڑا سا پانی بہت سے لوگوں کو کافی ہوگیا تھا فرمایا:
اس پاک اور مبارک پانی کو لے لو اور برکت اللہ کی جانب سے ہے۔(بخاری:3386 )
2-نبی مکرم ﷺ کی حیات طیبہ میںاور آپکی وفات کے بعد بھی نیک ہستیاں موجود تھیں،مثلاً:ابوبکر و عمر و عثمان و علی وغیرہم رضی اللہ عنہم، لیکن کسی صحابی نے نبی ﷺ کے علاوہ اور کسی بھی شخصیت کے ساتھ اس طرح کا معاملہ نہیں کیا، اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاعقیدہ معلوم ہوا کہ انکے نزدیک یہ معاملہ صرف نبی ﷺ کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ مزید تفصیل آگے ذکر کی جائے گی۔
3- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا آپکے تبرکات کے ساتھ یہ سلوک آپ ﷺ سے انکی سچی محبت کا معمولی سا مظہر تھا،ورنہ اس سے بڑھ کر وہ آپ کے اشارے پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لئے بھی ہر لمحہ تیار رہا کرتے تھے،نیز آپکی اتباع و اطاعت انکی اصل شان تھی جسکے تذکرے اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بھی کئے ہیں۔
4-اظہار محبت کے علاوہ مذکورہ افعال کا ایک اور مقصد بھی تھا ،یعنی منافقین،یہود اور مشرکین مکہ کو مرعوب کرنا،جیسا کہ حدیبیہ کے موقع پر ہوا۔
5-رسول اکرمﷺ کے تبرکات کی فہرست نہایت طویل ہے، جو بلاشبہ ایک ضخیم کتاب کی متقاضی ہے ،ہم نے سطور بالا میں بطور مثال چند پہلو نقل کئے ہیں،نیز نبی مکرمﷺ کی وفات کے بعد عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین میں بھی اس نوع کے متعدد واقعات ملتے ہیں ،جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد تبرک کی صورتیں:
آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے آثار حسیہ سے تبرک حاصل کرتے رہے،جیسا کہ درج ذیل دلائل سے واضح ہے:
عبد اللہ مولی اسماء بنت ابی بکر نے کہا کہ:
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہانے ایک چادر نما کسروانی جبہ نکالاجسکا گریبان اور چاک ریشم کے تھے، اور کہا: یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا جب وہ فوت ہوگئیں تو میں نے لے لیا،نبی ﷺ اسے پہنا کرتے اور ہم اسے دھوکر (اسکا پانی)مریضوں کو دیتیں وہ اس کے ذریعے شفایاب ہوتے۔(مسلم:5530)
سیدناابو بردہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
میں مدینہ آیا،تو مجھ سے عبد اللہ بن سلام ملے اور کہنے لگے گھر چلیں،میں آپکو اس پیالے میں پانی پلاؤں گا جس میں رسول اللہ ﷺ پیا کرتے،اور آپ اس مسجد میں نماز ادا کیجیئے گا جس میں نبی ﷺ نے نماز ادا کی،لہٰذا میں انکے ساتھ گیا تو انہوں نے مجھے ستو پلایا،اور کھجوریں کھلائیں،اور میں نے انکی مسجد (جاءنماز) میں نماز ادا کی۔(بخاری:6910)
نیز ابو حازم نے کہا:
سہل نے ہمارے لئے وہ پیالہ نکالا،ہم نے اس میں پانی پیا،انہوں نے کہاکہ:بعد میں عمر بن عبد العزیز نے وہ پیلاہ ان سے مانگا تو انہوں نے وہ عمر کو گفٹ کردیا۔ (بخاری:5314)
bنیز عثمان بن عبد اللہ بن موہب نے کہا:
’’مجھے میرے گھر والوں نے چاندی کا ایک پیالہ دیکر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا،اس میں نبی ﷺ کے کچھ بال تھے،جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی تکلیف ہوتی تو وہ کوئی برتن ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتا۔ (بخاری:5557)
نیزسیدناخالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے کہا:
ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عمرہ ادا کیا،جب آپ ﷺ نے اپنے بال مونڈھے تو لوگ آپکے بالوں کی طرف لپکےمیں آپکی پیشانی کی طرف پہلے پہنچا،میں نے وہ بال ایک ٹوپی بنواکر اس میں رکھ دیئے،پھر جہاں بھی گیا مجھے فتح ملی۔(مسند ابی یعلی:7183، المستدرک:5299)
نیزسیدنا عطا مولی السائب رحمہ اللہ نے کہا کہ:
میں نے اپنے آقا سیدناسائب رضی اللہ عنہ کو دیکھا انکی داڑھی سفید تھی،اور سر سیاہ،میں نے پوچھاتو انہوں نے کہا:میرا سر کبھی بوڑھا نہ ہوگا،کیونکہ جب میں بچہ تھا ،اور بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا تو نبی ﷺ وہاں سے گذرے،آپ نے مجھے بلاکر میرا نام پوچھا،میں نے نام بتایا،پھر آپ نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا،اور کہا:اللہ تجھے برکت دے،چنانچہ نبی ﷺ کی ہاتھ رکھی ہوئی جگہ کبھی بوڑھی نہ ہوگی۔
(طبرانی اوسط:4841،طبرانی صغیر:701،طبرانی کبیر: 6693، تہذیب الآثار لابی جعفر الطبری:984،معرفۃ الصحابہ للاصبہانی،تاریخ الاسلام للذہبی،6/365)
نیزسیدنا عیسی بن طہمان رحمہ اللہ نے کہا کہ:
صحابی ٔ رسول سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے ہمارے لئے بغیر بالوں والی چمڑے کی دو جوتے نکالے،انکے دو تسمے تھے، پھر بعد میں ہمیں ثابت البنانی نے بتایا کہ وہ نبی مکرم ﷺ کی جوتے تھے۔(بخاری:2940)
یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آثار رسول ﷺ سنبھال کر رکھتے تھے۔
نیزعلامہ ابن سیرین رحمہ اللہ نے کہا کہ:
میں نے عبیدہ سے کہا،ہمارے پاس نبی ﷺ کا ایک بال ہے،جو ہم نے انس tیا انکے گھر والوں سے لیا،تو عبیدہ نے کہا:میرے پاس آپ ﷺ کا کوئی بال ہو تو وہ مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ عزیز ہو۔(بخاری:168)
(ضروری تنبیہ)
ہم پہلے بھی تنبیہ کرچکے ہیں کہ مذکورہ تمام روایات میں مذکور تبرک کے حصول کی صورتوں کا تعلق صرف اور صرف نبی ﷺ کے ساتھ مخصوص تھا،بنی ﷺ کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اور کسی بھی جلیل القدر شخصیت کی ذات یا اانکے آثار سے تبرک حاصل کرنے کو جائز نہیں سمجھا،بلکہ سیدنا عمر فاروق تو نبی ﷺ کے آثار کے ساتھ تبرک حاصل کرنا بھی ناپسند کرتے اور اسطرح کے افعال سے روکتے اور اس قسم کی اشیاء کو تلف کردیا کرتے تھے،تاکہ امت میں بدعت و شرک کا چور دروازہ”غلو“نہ کھل جائے جس سے داخل ہوکر گذشتہ اقوام گمراہ ہوگئیں،جیسا کہ درج ذیل روایات سے واضح ہے:
معرور بن سوید رحمہ اللہ نے کہا کہ:
ہم نےسیدنا عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا،جب حج سے فارغ ہوئے تو لوگ ایک طرف دوڑنے لگے،عمررضی اللہ عنہ نے پوچھو :کیا ہوا؟،لوگو نے کہا:مسجد جارہے ہیں جہاں نبی ﷺ نے نماز پڑھی تھی،تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اہل کتاب اسی طرح ہلاک ہوئے،انہوں نے اپنے انبیاء کے آثار پر عبادت گاہیں بنالیں،تم میں سے جسےاس مسجد میں نماز پڑھنے کی ضرورت (اتفاقا نہ کہ قصدا)پڑجائے،وہ نمازپڑھ لے، اور جسے نہیں پڑے تو وہ نہ پڑھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:7632،مصنف عبد الرزاق:2734،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا:الثمر المستطاب،1/417،تحذیر الساجد من اتخاذ القبور )
نیزابن عون رحمہ اللہ نے کہا کہ:
سیدناعمررضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ لوگ اس درخت کے پاس( قصداًوزیارتاً)جاتے ہیںجسکے پاس بیعت رضوان لی گئی تھی ،تو انہوں نے اس پر ڈانٹا اور اسے کاٹنے کا حکم دیا۔
(اخبار مکہ للفاکہی:2817،غزوات الرسول ﷺلابن سعد،ص:50)
حالانکہ اس درخت کا ذکر خیر قرآن مجید کی سورۃالفتح کی آیت نمبر18 میں بھی ہے۔
عابس بن ربیعہ رحمہ اللہ نے کہاکہ :
سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے،اسکا بوسہ لیا اور کہا:مجھے یقین ہے کہ تو محض پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ ہی نقصان،اور اگر میں نے نبی مکرم ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تیرا بوسہ لیتے،تو میں تیرا بوسہ نہیں لیتا۔(بخاری:1520)
حالانکہ یہ جنت کا پتھر ہے،علاوہ ازیںہر نبی و رسول کے ہونٹوں اور ہاتھوں نے اسے مس کیا،اور نبی مکرم ﷺ نے تو اسے لاتعداد مرتبہ مس کیا بلکہ خود اپنے مبارک ہاتھوں سے اسے نصب کیا۔
نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک کی مٹی سے تبرک حاصل کرنا:
bمرض الوفات میں نبی ﷺ اکثر و بیشتر فرمایا کرتے کہ:
’’تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیتے،خبردار تم قبروں پر مساجد نہ بنانا،میں تمہیں اس سے منع کررہا ہوں‘‘(مسلم:1216)
اسکی وجہ یہ تھی کو آپﷺ کو یہ خدشہ تھا کہ جس طرح سابقہ امتوںنے اپنے انبیاء کے ساتھ انکی محبت کے نام پراسقدر غلو کیا کہ انہیں الوہیت کے مرتبے تک پہنچادیا،کہیں میری امت بھی میرے بعد میرے ساتھ یہی سلوک نہ کرے ،چنانچہ آپ نے اپنی امت کو واشگاف الفاظ میں تنبیہ کردی کہ:
اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنانا،نہ ہی میری قبر کو میلہ گاہ بنانا،اور جہاں بھی ہو وہیں مجھ پر صلاۃ پڑھ لینا،کیونکہ تمہارا صلاۃ مجھ تک پہنچ جائے گا۔(ابوداؤد:2044)
اور صرف تنبیہ پر اکتفا نہ کیا ،بلکہ اللہ تعالی سے دعا بھی کی کہ: ’’یا اللہ میری قبر کو ایسا بت نہ بنادینا جسکی پوجا کی جانے لگے،اللہ کا اس قوم پر شدید غضب نازل ہوا جس نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہیں بنالیا۔ (مؤطا:593،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا:غایۃ المرام: 126)
پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپکی وفات کے بعد آپکی اس وصیت و خواہش کا احترام کیا،اور اس کی تعمیل میں سرگرم رہے،اور آپﷺ کے انہی اندیشوں کے پیش نظر اس طرح کے کسی بھی عمل کی حوصلہ شکنی کی،وگرنہ اللہ تعالی نے انہیں اسقدر مال و دولت سے نواز دیا تھا کہ وہ آپ ﷺ کا روضہ سونے ،چاندی اور لعل و جواہرات کا بنادیتے۔
نیزسہیل نے کہا کہ:
’’مجھے حسن بن حسین بن علی بن ابی طالب نے نبی ﷺ کی قبر پر دیکھا تو مجھے آواز دے کر بلایا،اسوقت وہ فاطمہ کے گھر میں رات کا کھانا کھا رہے تھے،انہوں نے کہا:آؤ کھانا کھالو،میں نے کہا:مجھے حاجت نہیں،انہوں نے کہا:کیا بات ہے میں نے تمہیں روضے کے پاس کھڑا دیکھتا ہوں؟،میں نے کہا:نبی ﷺ پر سلام عرض کرنے آیا ہوں،انہوں نے کہا:جب مسجد میں داخل ہو تبھی سلام پڑھ لیا کرو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا،نہ ہی اپنے گھروں کو قبرستان بنانا،اور تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر سلام پڑھ لیا کرنا وہ مجھ تک پہنچ جائے گا،اللہ یہود پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالایا،(پھر حسن نے کہا)تم اور جو لوگ اندلس میں ہیں برابر ہیں۔
سنن سعید بن منصور،فضل الصلاۃ علی النبی للقاضی اسماعیل بحوالہ احکام الجنائز للالبانی،ص:220
نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما نبی مکرمﷺ کی قبر کو چھونا ناپسند کرتے تھے۔
(سیر اعلام النبلاء،12/378،جزءمحمد بن عاصم بن عبد الله الثقفی الاصبہانی أبو جعفر:27)
bقاضی عیاض بن موسی نے کہا:
بعض علماء نے کہا:میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ نبی ﷺ کی قبر کے پاس آئے،رکے ہاتھ اٹھا کردعا کرنے لگے،میں سمجھا کہ وہ نماز شروع کردیں گے،پس انہوں نے سلام پڑھا اور چلے گئے،اور ابن وہب کی روایت کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ نے کہا:جب نبی ﷺ پر سلام پڑھے اور دعا کرے تو رکے اور قبر کی طرف رخ کرے نہ کہ قبلہ کی طرف،اور قریب ہو کر سلام پڑھے،لیکن قبر کو ہاتھ نہ لگائے،اور المبسوط میں کہا:میرے خیال میں نبی ﷺ کی قبر کے پاس رک کر دعا نہ کرے،بلکہ سلام پڑھتا ہوا گذر جائے اور نافع نے کہا:سیدناابن عمر رضی اللہ عنہمانبی ﷺ کی قبر پر صرف سلام پڑھتے،میں نے انہیں سینکڑوں مرتبہ دیکھا کہ وہ قبر پر آکر کہتے:نبی ﷺ پر سلام ہو،ابوبکر پر سلام ہو ،میرے والد پر سلام ہو ،پھر چلے جاتے۔
(الشفاء للقاضی عیاض بن موسی الیحصبی،2/71)
bنیز ابن الحاج المالکی نے کہا:
امام مالک رحمہ اللہ نے قبرنبویﷺ کا خانہ کعبہ کی مانند طواف کرنے اور اسے چھونے اور اسکا بوسہ لینے والوں کو ان جاہلوں کی مانند قرار دیاجن کے پاس ذرا علم نہ ہو اور ان کاموں کے بدعت ہونے کی صراحت کی،کیونکہ حصول تبرک آپکی اتبع سے ہی ممکن ہے ۔(المد،خل1/ 256 - 257)
(تنبیہ)نبی اکرم ﷺکی قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنےکے جواز پر ایک روایت پیش کی جاتی ہے،جسکی تحقیق درج ذیل ہے:
داؤد بن ابی صالح نے کہا:ایک دن مروان نے ایک شخص کو نبی ﷺ کی قبر پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے دیکھا،تو کہا:کیا تجھے پتہ ہے کہ تو کیا کررہا ہے؟،جب وہ شخص مڑا تو وہ ابوایوب انصاری تھے،انہوں نے کہا:میں نبی ﷺ کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں۔
یہ روایت ضعیف ہے،ملاحظہ ہو:
(طبرانی کبیر:3999،احمدمع تعلیقات الشیخ الارناؤط :23633،الضعیفہ:373)
نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ تو ثابت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کے آثار سے تبرک حاصل کیا لیکن آپکی قبر سے انکا تبرک حاصل کرنا ثابت نہیں،بلکہ وہ اسطرح کے افعال کی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے،جیسا کہ ہم نےعمر فاروق اور عبد اللہ بن عمراور حسن وغیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین کے حوالے گذشتہ سطور میں ہم نے ذکر کیاہے۔
نیزامام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے کہا:
نبی ﷺ کی قبر کی دیوار کو چھونا اچھا نہیں،نہ ہی اسکا بوسہ لینا،امام احمدرحمہ اللہ نے کہا:میں اس بات سے واقف نہیں،ابن الاثرم نے کہا:میں نے مدینہ کے علماء کو دیکھا،وہ نبی ﷺ کی قبر کو چھوتے نہیں تھے،ایک کونے پر کھڑے ہوکر سلام پڑھ لیتے۔(المغنی، 3/599 )
دور حاضر میں نبی ﷺ کی جانب منسوب اشیاء سے تبرک حاصل کرنا:
دور حاضر میں نبی ﷺ کی جانب بہت سی اشیاء منسوب ہیں،جو مختلف قومی یا ذاتی میوزیم وغیرہ میں رکھی ہیں،یا مختلف شخصیات کے پاس موجود ہیں،اور وقتا فوقتا انکی زیارت کا اہتمام کیا جاتا ہے،ایسا ممکن ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی استعمال شدہ کوئی شے آج بھی موجود ہو،لیکن دور حاضر میں جن اشیا کے متعلق دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ نبی ﷺ کے زیر استعمال رہ چکی ہیں،فی الواقع انکا نبی مکرمﷺ کا ہونا تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوسکا،محض دعاوی ہیں ،جنکی کوئی ثقہ رواۃ پر مشتمل،موصول سند آج تک بیان نہیں کی جاسکی،اور محض دعوے کی بنیاد پر کسی شے کا نبی ﷺ کے زیر استعمال رہنا ثابت نہیں ہوتا،کیونکہ دین اسلام کا یہی طرہ امتیاز ہے کہ اسکی ہر ہر بات سند کے ساتھ مروی ہے،اور کسی بھی بے سند بات کو دین کا حصہ نہیں سمجھا جاتا،بلکہ اسے نبی ﷺ پر بہتان اور جھوٹ کہا جاتا ہے ،جسکی شدید وعید بیان کی گئی ہے،جیسا کہ نبی مکرمﷺ نے فرمایا:
’’مجھ پر جھوٹ نہ باندھنا ،جس نے مجھ پر جھوٹ بولا،تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے‘‘(بخاری:106)
ذیل میں چند مؤرخین و علماء کرام کی تصریحات ذکر کی جارہی ہیں،ملاحظہ ہو:
”الآثار النبویہ“کے مؤلف اور مشہور محقق و مؤرخ و سیاح،احمد تیمور پاشا،نےاپنی کتاب کے صفحہ نمبر:78 میںاستنبول میں رکھے نبی ﷺ کی جانب منسوب اشیاء کا ذکر کرنے کے بعد لکھا:
’’بالکل واضح ہے کہ یہ آثار صحت کا احتمال رکھتے ہیں،لیکن ہم نے کسی بھی ثقہ راوی کو نہیں دیکھا کہ وہ نفی یا اثبات کے ساتھ انکا تذکرہ کرتا ہو،اور ان میں سے کچھ تو بلا شبہ دل میں شکوک و شبہات پیدا کردیتے ہیں‘‘
عصر حاضر کے عطیم محقق امام ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے کہا:’’ہمیں یقین ہے کہ نبی اکرمﷺ کے آثار، کپڑے، بال، فضلات وغیرہ کھوچکے ہیں، ان میں سے کسی ایک کے بھی موجود ہونے کاقطعا امکان نہیں‘‘(التوسل،ص:145)
نیز کہا:’’دور حاضر میں نبی ﷺ کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ممکن نہیں،کیونکہ انکا وجود ہی نہیں،اور آجکل لوگ مختلف ممالک میں مختلف مواقع پر کسی شیشی میں محفوظ بالوں کے ذریعے جو تبرک حاصل کرتے ہیں،اسکی شریعت میںکوئی دلیل نہیںنہ ہی ایسا صحیح سندوں سے ثابت ہے۔‘‘(دفاع عن الحدیث النبوی،ص:76)
نیز کہا:’’صلح حدیبیہ کے بعد نبی ﷺ نے حکیمانہ اسلوب ،اور بہترین طریقے سے مسلمانوں کو اس تبرک سےدور کیا اورہٹایا،اور انکے لئے اس سے بہتر اعمال صالحہ کی جانب انکی رہنمائی کی جیسا کہ آئندہ حدیث اسکی دلیل ہے، عبدالرحمن بن ابی قراد سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دن وضو کیا،تو آپکے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس سے(اپنے اعضا وغیرہ)پَوچھنے لگے، نبی ﷺ نے ان سے کہا:ایسا کیوں کرتے ہو؟،انہوں نے کہا:اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی محبت میں،تو نبی ﷺ نے فرمایا:جسے پسند ہو کہ اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرے تو وہ جب بھی بات کرے سچ بولے،اور اسکے پاس جب بھی امانت رکھوائی جائے تو وہ اسے ادا کردے،اور اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔
(بیہقی شعب الایمان:1533،الصحیحۃ:2998 )
علامہ البانی رحمہ اللہ کی اس بات کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے ،سیدناعمرو بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
’’رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی درہم چھوڑا نہ دینار نہ غلام نہ لونڈی نہ ہی کوئی اور شے،سوائے ایک سفید خچر،اسلحہ کے اور کچھ زمین چھوڑی جسے صدقہ کردیا تھا‘‘(بخاری:2588)
bنیز:آپ ﷺ کے آثار میں سے جو تھوڑی سی اشیاء رہ گئی تھیں،وہ بھی مرور زمانہ کے ساتھ مختلف جنگوں اور حادثات میںگم ہوتی گئیں، مثلاًآپکی انگھوٹی کنویں میں گرگئی بعد میں تلاش کے باوجود نہ مل سکی،ایسے ہی 656ھ میںسلطنت عباسیہ کے آخر میں جب تاتاریوں نے بغداد کو نذر آتش کیا تو آپکی چادر بھی کھوگئی ،نیز دمشق میںنبی ﷺ کی جانب منسوب دو جوتے بھی 803ھ میں فتنہ تیمور لنگ کے دوران کہیں کھو گئے،ایسے ہی آپکی دیگر اشیاء بھی ایک ایک کرکے گم ہوتی گئیں،اور فی زمانہ کوئی بھی ایسی شے (فیما اعلم)موجود نہیں جو آپ کے زیر استعمال رہ چکی ہو،واللہ اعلم بالصواب۔
نیزغیر نبی مکرم ﷺ کے آثار سے تبرک کے متعلق امام شاطبی رحمہ اللہ نے کہا:’’نبی مکرمﷺ کی وفات کے بعد کسی ایک صحابی سے بھی ثابت نہیں کہ اس نے آپکے بعد کسی کے ساتھ ایسا کیا ہو(یعنی انکے آثار سے تبرک لیا ہو)جبکہ نبی ﷺنے اپنے بعد امت میں سب سے افضل سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ کو چھوڑا،وہ آپکے خلیفہ بنے،انکے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا،نہ ہی سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ،حالانکہ وہ بھی امت میں موجود تھے،ایسے ہی سیدنا عثمان پھرسیدنا علی پھر دیگر تمام صحابہy،جن سے افضل اس امت کا کوئی فرد نہیں،ان میں سے کسی ایک کے متعلق بسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی تبرک لینے والے نے مذکورہ طریقوں(جس طرح نبی ﷺ کے آثار سے تبرک لیتے تھے)یا اس سے ملتے جلتے طریقوںپر ان سے تبرک لیا ہو،بلکہ لوگوں نے انکے ان افعال و اقوال و سیر کی پیروی پر اکتفا کیا جن میں انہوں نے نبی ﷺ کی اتباع کی ہو،چنانچہ ان امور کے ترک پر یہ ان(صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین)کا اجماع ہوا۔ (الاعتصام،1 /311)
نیز نبی مکرم ﷺ کے آثار کو بطور وسیلہ بنانے کا مسئلہ بھی آجکل رائج ہوتا جارہا ہے،یہ موضوع مستقل تحریر کا متقاضی ہے،یہاں اس بارے میں علامہ البانی کا ایک اقتباس نقل کردینا کافی ہوگا،انہوں نے کہا:
’’توسل اور تبرک کے مابین فرق ثابت کرنے کے بعد ہمیں یقین ہے کہ نبی ﷺ کے آثار کا وسیلہ نہیں بنایا جاسکتا،ان سے فقط تبرک لیا جاسکتا ہے،یعنی انکے ذریعے کچھ دنیاوی خیر و بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے،جیسا کہ اسکی وضاحت گذر چکی،ہم سمجھتے ہیں کہ نبی ﷺ کے آثار کا وسیلہ بنانا یقیناً غیر شرعی ہے،اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق یہ دعوی کرنا کہ وہ ان آثار کا وسیلہ بناتے تھے دراصل ان پر بہتان ہے،جو ہم سے اختلاف رائے رکھتا ہو اس پر دلیل پیش کرنالازم ہے کہ وہ ثابت کرے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی دعاؤں میں کہتے تھے،مثلا:یااللہ تیرے نبی کے تھوک کے واسطے ہمارے بیماروں کو شفا دے،یا اپنے نبی کے پیشاپ یا پاخانےکے طفیل ہمیں جہنم سے بچالے،کوئی بھی عقل مند اس طرح کی بات کو محض روایت کرنا پسند نہیں کرے گا چہ جائیکہ اس پر عمل کرنا‘‘(التوسل،ص:145)
وما علینا الا البلاغ المبین ،واللہ ولی التوفیق
زوجات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کل تعداد 12 تھی۔ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو ان میں سے 10 حیات تھیں. سیدہ خدیجہ اور سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ ما سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہی انتقال فرما چکی تھیں۔
خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا
سودیٰ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا
عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا
حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا
زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا
أم سلمہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا
زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا
صفیہ بنت حیی بن أخطب رضی اللہ عنہا
أم حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا
ماریہ بنت شمعون المصریہ رضی اللہ عنہا
میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے وقت ان میں سے کتنی کنواری تھیں اور کتنی پہلے سے شادی شدہ؟
شادی کے وقت صرف ایک کنواری تھیں اور وہ ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، جبکہ باقی سب ہی ثیبات تھیں۔
کیا سب کی سب عرب تھیں؟
جی ہاں، سب کی عرب تھیں ما سوائے سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کے، وہ جزیرہ العرب کے باہر سے تھیں اور ان کا تعلق مصر کی کی سر زمین سے تھا۔
کیا وہ سب کی سب مسلمان تھیں؟
جی ہاں، سب کی سب مسلمان تھیں ما سوائے دو کے: سیدہ صفیہ یہودیہ تھیں اور سیدہ ماریہ مسیحیہ تھیں، رضی اللہ عنہن جمیعاً
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تمام شادیوں کا سبب شہوت تھی؟
اگر حبیبنا صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی شدہ زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہم یہ جان لیتے ہیں کہ شہوت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ختم ہی ہو چکی تھی، لیجئے اس بار عقلی دلیل دیتا ہوں:
1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع سے لیکر 25 سال کی عمر تک کنوارے رہے۔
2 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 25 سال سے لیکر 50 سال کی عمر تک (یہ بات ذہن میں رکھیئے کہ یہی عمر حقیقی جوانی کی عمر ہوتی ہے) ایک ایسی عورت سے شادی کیے رکھی جو کہ نہ صرف آپ ﷺ سے 15 برس بڑی تھیں بلکہ اس سے قبل دو اور اشخاص کے نہ صرف نکاح میں رہ چکی تھیں بلکہ ان سے اولادیں بھی تھیں۔
3 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 50 سال کی عمر سے 52 سال کی عمر تک بغیر شادی کے (بغیر بیوی کے) حالت افسوس میں رہے اپنی پہلی بیوی کی وفات کی وجہ سے۔
4 رسول اللہ ﷺنے 52 سال کی عمر سے لیکر 60 سال کی عمر کے درمیانے عرصے میں متعدد شادیاں کیں (جن کے سیاسی، دینی اور معاشرتی وجوہات ہیں۔)
کیا یہ بات معقول لگتی ہے کہ 52 سال کی عمر کے بعد ہی ساری شہوت کہل کر سامنے آ جاتی ہے؟
اور کیا یہ بات بھی معقول ہے کہ شادیوں کو پسند کرنے والا شخص، عین شباب میں، ایک ایسی ثیب عورت سے شادی کرے جو اس سے پہلے دو شادیاں کر چکی ہو اور پھر اس عورت کے ساتھ بغیر کوئی دوسری شادی کیے 25 سال بھی گزارے۔
اور پھر اس عورت کی وفات کے بعد دو سال تک بغیر شادی کیے رکا رہے صرف اس عورت کی تکریم اور اس کے ساتھ وفاء کے طور...
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شادی فرمائی وہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے تھی، اور بوقت شادی سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی عمر اسی (80) سال تھی، یہ زمانہ اسلام میں ہونے والی پہلی بیوہ تھیں. ان سے سرکارِ دوعالم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کا مقصد نہ صرف ان کی عزت افزائی کرنا تھی بلکہ ان جیسی اور بیوہ خواتین کو معاشرے میں ایک با عزت مقام عطا فرمانا تھا جس کی ابتداء آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے آپ سے فرمائی. چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دوسروں کو ایسا کرنے کا حکم بھی فرما سکتے تھے مگر نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ عمل فرما کر آئندہ بنی نوع آدم کیلئے ایک مثال قائم کر دی.
یہ سب کچھ کہنے کے بعد ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ:
نبی مکرم ﷺنے دو طریقوں سے شادیاں کیں:
1 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک مرد (صرف سیدہ خدیجہ سے شادی کی)
2 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک رسول (باقی ساری خواتین سے شادیاں کیں)
کیا محمد رسول اللہ اکیلے ہی ایسے نبی ہیں جنہوں نے متعدد شادیاں کیں یا دوسرے نبیوں نے بھی ایسا کیا؟
جی ہاں۔ کئی رسولوں اور نبیوں نے (مثال کے طور پر) سیدنا ابراہیم، سیدنا داؤود اور سیدنا سلیمان صلوات اللہ وسلامہ علیہم أجمعین نے ایسا کیا.
اور یہ سب کچھ آسمانی کتابوں میں لکھا ہوا ہے، تو پھر بات کیا ہے کہ مغربی ممالک اسی بات کو ہی بنیاد بنا کر ہم پر حملے کرتے ہیں؟ جبکہ حقیقت کا وہ نہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ یہ سب کچھ ان کے پاس لکھا ہوا بھی ہے۔
آئیے اب ان سیاسی، اجتماعی اور دینی وجوہات پر بات کرتے ہیں جن کی بناء پر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو متعدد شادیاں کرنا پڑیں:
متعدد شادیوں کی وجوہات
تاکہ اسلام نہایت ہی اہتمام سے اپنی مکمل خصوصیات اور تفاصیل کے ساتھ (مثال کے طور پر نماز اپنی پوری حرکات و سکنات کے ساتھ ) نسل در نسل چلتا جائے. تو اس کیلئے تو بہت ہی ضروری تھا کہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےگھر میں داخل ہوں اور وہاں سے یہ ساری تفاصیل ملاحظہ کریں اور امت کی تعلیم کیلئے عام کریں.
اس مقصد کیلئے اللہ سبحانہ و تعالی نےسیدہ عائشہ سے رسول اکرم ﷺ کی شادی لکھ دی، ان کی کم عمری کی بنا پر ان میں سیکھنے کی صلاحیتیں زیادہ تھیں (عربی مقولہ ہے: العلم فی الصغر کالنقش علی الحجر بچپن میں سیکھا ہوا علم پتھرپر نقش کی مانند ہوتا ہے) اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺکے وصال کے بعد بیالیس (42) برس زندہ رہیں اور دین کی ترویج و اشاعت کا کام کیا۔
اور آپ رضی اللہ عنہا لوگوں میں سب سے زیادہ فرائض و نوافل کا علم رکہنے والی تھیں۔ اور زوجات الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اجمالی طور پر روایت کردہ احادیث کی تعداد تین ہزار 3000ہے۔
جہاں تک سیدہ عاشہ رضی اللہ عنہا کی کم عمری کی شادی سے شبہات پیدا کئے جاتے ہیں یہ تو عرب کے صحرا کے دستورتھے کہ ایک تو بچیاں بھی ادہر جلدی بلوغت کو پونہچا کرتی تھیں اور دوسرا کم سنی میں شادیاں بھی کی جاتی تھیں، اور پھر یہ دستور اس زمانے میں صرف عربوں میں ہی نہیں تھا بلکہ روم و فارس میں بھی یہی ہوتا تھا.
دوسری وجہ:
تاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایک ایسا رشتے باندھ دیا جائے جو امت کو مضبوطی سے جکڑے رکہے۔ یہی وجہ تھی کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر کی بیٹی سے شادی فرمائی۔ سیدنا عثمان سے اپنی دو بیٹیوں کی شادی فرمائی اور اپنی تیسری بیٹی کی شادی سیدنا علی سے کی۔ رضی اللہ عنہم جمیعا وأرضاہم
تیسری وجہ:
بیواؤں کے ساتھ رحمت والا سلوک اور برتاؤ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود بیواؤں (سیدہ سودہ، أم سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہن) سے شادیاں فرمائیں
چوتھی وجہ:
اسلامی شریعت کا مکمل طور پر نفاذ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اپنے آپ پر لاگو کرکے دوسروں اور بعد میں آنے والے مسلمانوں کیلئے اسوہ بنادیا. چاہے یہ بیواؤں کی عزت و تکریم کا معاملہ تھا یا اسلام میں داخل ہونے والے ان نو مسلموں کے ساتھ رحمت و شفقت کے اظہار کیلئے تھیں مثال کے طور پر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کے اسلام میں داخل ہونے کے بعد فرمائی. اور سیدہ صفیہ کی عزت و منزلت کو یہودیوں میں ایک مثال بنا دیا.
پانچویں وجہ:
محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم – تاکہ دنیا کے ہر خطے اور طول و عرض کے ملکوں تک محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے دِلوں میں گھرکر جائے، اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ماریا (مصریہ) سے شادی کر کے خطہ عرب سے باہر کے ملکوں کو بھی اپنی محبت میں پرو کر رکھ دیا، اور اسی طرح سیدہ جویریہ سے شادی کا معاملہ ہے جو کہ ان کے قبیلہ (بنو المصطلق) کے اسلام لانے کا سبب بنا، حالانکہ اس وقت یہ سارا قبیلہ غزوہ بنی المصطلق کے بعد مسلمانوں کی قید میں تھا جو کہ بذاتِ خود ایک بہت ہی مشہور واقعہ ہے۔
جب کسی جج کے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو تو وہ پہلے یہ دیکھتا
ہے کہ آیا کسی نافذ شدہ قانون کی بنا پر مقدمے کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اگر کسی قانون کا اطلاق ہوتا ہو۔ تو وہ قانون پر فیصلہ کر دیتا ہے۔ لیکن اگر قانون اس مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لئے کافی نہ ہو تو پھر جج انصاف کے اصول تلاش کرتا ہے یعنی قانون میں جو خلا ہو اس کو انصاف سے پُر کرتا ہے۔ اور کسی انصاف کے اصول کی بنا پر فیصلہ کر دیتا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کے پاس جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تو نبی مکرم ﷺ پہلے یہی دیکھتے کہ آیا قرآن کے کسی حکم سے مقدمہ کا فیصلہ ہو سکتا ہے اگر ہو سکتا تو نبی مکرم ﷺ قرآن کی بنا پر فیصلہ کرتے۔ اگرچہ ایسا بھی ہوتا کہ آپ ﷺ اپنے حکم کے ذریعے قرآن کے احکام کی تشریح یا تاویل کر دیتے۔ لیکن اگر اس معاملہ کے متعلق قرآن کی کوئی نصّ موجود نہ ہوتی تو نبی مکرمﷺ خود اس پر حکم صادر فرماتے کیونکہ نبی مکرم ﷺ خود شارع تھے۔ یا جو کچھ نبی مکرم ﷺ کی رائے میں انصاف ہوتا، اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ چنانچہ جو تشریح یا تاویل نبی مکرم ﷺ نے نصِ قرآن کی کی، یا جو حکم نبی مکرم ﷺ نے خود صادر فرمایا۔ یا جس انصاف کے اصول کو نبی مکرم ﷺ نے نافذ کر دیا، وہ ہمارے لئے قانون ہے۔ اسی طرح بجائے کسی مقدمے کے اگر کوئی معاملہ نبی مکرم ﷺ کے روبرو پیش ہوا جس میں احکام جاری کرنے کی ضرورت تھی۔ تو جیسی صورت مقدمہ کے فیصلہ کی تھی، ایسی ہی صورت اس معاملہ کے فیصلہ کی بھی ہوئی اور اسی طرح نبی مکرم ﷺ کی تشریح، (تاویل) احکام یا نافذ کردہ اصول ہمارے لئے قانون بن گئے۔ یہ ضروری نہیں کہ نبی مکرم ﷺ نے واضح الفاظ میں کوئی قانون نافذ کیا ہو۔ نبی مکرم ﷺ کے عمل سے جو لازمی نتیجہ پیدا ہوا ہو وہ بھی قانون ہے۔
ظاہر ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کی قانون سازی کا موضوع بہت وسیع ہے۔ چند صفحات میں تو یہی ہو سکتا ہے کہ اس میں کے کچھ حصوں پر تبصرہ کر دیا جائے۔ حصوں کا انتخاب میں اس نقطۂ نگاہ سے کروں گا کہ موجودہ حالات میں کس قانون کی طرف توجہ مبذول کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
1 سب سے پہلے میں اُن مشہور ہدایات کا ذِکر کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل کو دی تھیں۔ جب ان کو یمن کا حاکم مقرر کیا تھا۔ نبی مکرم ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کوئی معاملہ پیش ہو گا تو کیسے فیصلہ کرو گے۔سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔کتاب اللہ کے مطابق نبی مکرمﷺ نے سوال کیااگر کتاب اللہ میں کوئی حکم موجود نہ ہو؟سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہاتو سنتِ رسول اللہﷺ کے مطابق فیصلہ کروں گاسوال ہوا ور اگر اس میں بھی کوئی حکم موجود نہ ہو۔جواب تھا تو میں اجتہاد کرں گا۔ نبی مکرمﷺ نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے۔ اور فرمایا، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں، جس نے اللہ کے رسول ﷺ کے قاصد کو ہدایت دی۔
اس حدیث کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ اجتہاد کی بنیاد ہے۔ لیکن یہ صرف اجتہاد کی بنیاد ہی نہیں اس میں مسلمان اولی الامر کے متعلق مفصل ہدایت موجود ہے۔ اس حدیث کی رُو سے فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا اولی الامر اسلام پر قائم رہا؟ اس نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی یا نہیں؟ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہے یا شریعت کے خلاف۔
میری رائے میں اس حدیث سے مندرجہ ذیل نتائج پیدا ہوئے:
(الف) کہ اولی الامر کی نیت کیا ہونی چاہئے۔ جس وقت وہ کوئی حکم صادر کرے۔ یہ لازم ہے کہ اس کی نیت یہ ہو
کہ وہ قرآن کا پابند ہے اور پہلے قرآن و سنت سے تلاش
کرے کہ اس قضیہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کیا حکم ہے اور اگر اس کو قرآن و سنت میں صاف حکم نہ ملے۔ تو وہ کوشش کرے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں صراطِ مستقیم دریافت کرے۔ اولی الامر کے لئے لازم ہے کہ ایسی ہی اس کی نیت ہو۔ کیونکہ اعمال کا خیر و شر نیت سے متعین ہوتا ہے۔ اگر اولی الامر کا ارادہ ہی نہ ہو کہ قرآن و سنت کی پابندی کرے تو اگرچہ محض اتفاق سے اس کا عمل قرآن و سنت کے مطابق ہو جائے تاہم اس کی نافرمانی تو باقی ہی رہے گی۔ جب اللہ کی اطاعت کا ارادہ نہ ہو تو محض اس وجہ سے کوئی عمل درست نہیں ہو پاتا کہ نفسانی خواہشات کی بنا پر جو عمل کیا جا رہا ہے فی الواقع وہی ہے جس کا اللہ نے بھی حکم دیا ہے۔ جس عمل کا محرک اللہ کی اطاعت نہیں بلکہ نفسِ امارّہ ہے، وہ جہاں تک عذاب و ثواب کا تعلق ہے، درست عمل نہیں ہے۔ اگر آپ خیرات کریں اور نیت میں اس سے کسی انسان کو راضی کر کے اس سے مالی فائدہ اُٹھانے کی ہو۔ تو خیرات، خیرات نہ رہے گی۔
(ب) یہ کہ عمل کا قرآنِ پاک کے مطابق ہونا لازم ہے۔ اور جہاں ایک نتیجہ اس کا یہ ہے کہ قرآن کے مخصوص احکام کی پابندی ہو گی دوسرا نتیجہ یہ بھی ہے کہ اس کے عام احکام کی پابندی بھی لازم ہو گی۔ قرآن پاک بار بار معروف کا حکم دیتا ہے۔ اولی الامر کو خاص طور پر ہدایت کرتا ہے کہ وہ معروف کا حکم دیں۔
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ [ سورة الحج41]
لہٰذا اولی الامر خود بھی معروف کا پابند ہو گیا۔ اور اس امر کا بھی پابند ہوا کہ دوسروں کو معروف کا حکم دے۔ یعنی ایک محکمہ بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے قائم کرے۔ معروف وہ عمل ہے جس کو اسلامی ذہن رکھنے والا معاشرہ قبول کرے یعنی وہ عمل جو جمہور مسلمانوں کی رائے میں صحیح ہو جب کہ وہ اس عمل کے متعلق کوئی ذاتی خواہش نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے ذاتی مفاد اس سے وابستہ ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے بھی فرمایا ہے
’’جسے مسلمان اچھا سمجھیں اللہ کے نزدیک وہی اچھا ہے‘‘
سو اولی الامر معروف کا پابند ہو گا اور اس کا کوئی عمل جو معروف کے خلاف ہو، جائز نہ ہو گا اور لوگوں پر اس کے حکم کی پابندی لازم نہ ہو گی۔ کیونکہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا ہے
لَا طَاعَةَ لمخلوق فی معصیة الخالق
البتہ مسلمان اس کو بہانہ نافرمانی کا نہیں بنا سکتے۔ معروف ایسا عمل ہے جس کے متعلق کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا اور کسی بحث کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ سوائے اس کے کہ کوئی انسان غلط نیت سے خواہ مخواہ ایک تنازعہ پیدا کرے۔
(ج) جہاں اولی الامر سنت کا پابند ہوگا۔ وہاں اجماع بھی پابند ہو گا۔ کیونکہ رسولِ اکرم ﷺ کے ارشاد کے بموجب اجماع صحیح ہے۔ اور لہٰذا قابلِ پابندی۔
(د) اولی الامر کا صاحب اجتہاد ہونا بھی لازم ہے۔ اگر وہ اجتہاد کی قابلیت نہیں رکھتا تو اللہ و رسول کا منشا تو پورا نہ ہوا۔
2 تنازعات کے فیصلے کے متعلق نبی مکرم ﷺ نے حکم دیا کہ جب تک دونوں فریقوں کو سن نہ لیا جائے۔ فیصلہ نہ کیا جائے۔ یہ حکم نبی مکرم ﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیا تھا۔ جب ان کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا۔ ایک اور موقع پر نبی مکرم ﷺ نے حکم دیا کہ مدعی اور مدعا علیہ حاکم کے سامنے بیٹھیں۔ اس حکم کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ دونوں سے برابری کا سلوک ہو اور دونوں کو سنا جائے۔
یہ اصول کہ کسی کے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک اس کو سن نہ لیا جائے، اُن اصولوں میں سے ہے، جن کو فی زمانہ قدرتی انصاف کے اصول کہا جاتا ہے۔ یہ اصول آپ کو پاکستان، ہندوستان، انگلستان کے فیصلہ میں ملے گا۔ اور عام طور پر تمام مہذب ممالک کے قوانین میں ہو گا۔ البتہ اشتراکی ملکوں کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے بہت سے سرکاری ملازموں کو بغیر نوٹس اظہارِ وجوہ موقوف کر دیا تو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ریٹائر ججوں نے ایک قرار داد منظور کر کے حکومت کو بھیجی تھی جس میں لکھا گیا تھا کہ اسلامی انصاف کے اصولوں کے مطابق ان ملازمین کا حق ہے کہ ا ن کو موقع صفائی کا مہیا کیا جائے۔ اسلامی انصاف کا جب ذکر ججوں نے کیا تو ان کا اشارہ رسول اکرم ﷺ کی مندرجہ بالا حدیثوں کی جانب تھا۔ لیکن حکومت کے ایک وزیر نے بیان دیا کہ یہ اصول کہ ملزم کو صفائی کا موقع ملنا چاہئے ایک بورژوائی اصول ہے۔ اسی بیان کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے اشتراکی ممالک اس اسلامی اصول کو قبول نہ کرتے ہوں۔
3 دوسرا اصول جو رسولِ اکرم ﷺ نے تنازعات کے فیصلہ کے متعلق قائم کیا وہ یہ تھا کہ تنازعہ کا فیصلہ ریکارڈ پر ہوتا ہے۔ یعنی اس مواد کی بنا پر ہوتا ہے۔ جو مواد حاکم یا قاضی کے سامنے بطور حاکم یا قاضی آئے۔ ادھر ادھر کی باتیں سن کر یا کسی ایسی شہادت سے متاثر ہو کر، جو حاکم کے سامنے بطور حاکم نہیں آئی، فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اصول بھی مہذب اقوام نے قبول کر لیا ہوا ہے (سوائے کمیونسٹ ممالک کے) اور یہ مسلمہ ہے۔ اس کی دو بنیادیں ہیں۔ اول یہ کہ قانونِ شہادت کی اقسام معین کر دیتا ہے اور ان اقسام کے علاوہ مواد کو قبول نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ جو مواد حاکم کے پاس بطورِ حاکم پیش نہیں ہوا، اس کی تردید کا موقع فریقِ مخالف کو نہیں ملتا۔ اور یہ ناجائز ہے کہ تردید کا موقع فریقِ مخالف کو نہیں ملا۔ اور یہ ناجائز ہے کہ تردید کا موقع مہیا کیے بغیر کسی کے خلاف کوئی شہادت قبول کر لی جائے۔
یہاں رسولِ اکرم ﷺ کے اس فرمان کا ذکر کر دینا بھی مناسب ہو گا کہ اگر کسی نے غلط فیصلہ کرا لیا۔ تو اس نے صرف آگ کا ٹکڑا خریدا۔ جو چیز ایک فریق کے لئے حرام تھی، فیصلہ کے ذریعے حلال نہ ہو جائے گی۔ فیصلہ تو محدود مواد پر ہوتا ہے اور اس بحث پر ہوتا ہے جو حاکم کے سامنے کی جائے۔ اور یہ ہو سکتا ہے کہ جو فریق حق پر نہیں وہ اس وجہ سے مقدمہ جیت جائے کہ اس نے مواد بہتر پہنچایا یا اس کی بحث زیادہ اثر پیدا کرنے والی تھی۔
4 انسانی برابری کا عملی نمونہ اسلام نے دنیا کے روبرو پیش کیا۔ اسلام سے پہلے یورپ انسای برابری کا قائل ہی نہ تھا۔ یونانی تہذیب نے انسانوں کو چار طبقات میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ اور رومن تہذیب نے تین طبقات میں۔ یہ دونوں تہذیبیں غلاموں کو شیروں کے آگے ڈالتی تھیں۔ عیسائیت نے بھی غلاموں کو قانوناً جائز تسلیم کیا۔ اور غلاموں کو ہدایات دیں کہ وہ اپنے مالکوں کی پوری اطاعت کریں۔ غلامی کا جواز یہ بتایا کہ انسان چونکہ گنہگار ہو گیا تھا اس لئے اس کو گناہ کی سزا مل رہی ہے۔ اسلام نے آکر انسانوں کو یکسر برابر کر دیا۔ برابری انصاف کا سب سے بڑا اصول ہے اور سچ یوں کہ انصاف کی عمارت کی بنیاد برابری ہی ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے مسلمانوں کو قصاص اور دِیت میں بھی برابر کر دیا۔ قرآن پاک نے فرمایا کہ وجہِ تکریم تقویٰ ہے۔ نسل و رنگ وغیرہ کی بنا پر کوئی فوقیت کسی کو حاصل نہیں اور یہی نبی مکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا۔ اسلام نے انسانوں کو حقوق میں برابر کر دیا، اس کے متعلق نبی مکرم ﷺ کا ایک مسلسل طرزِ عمل ہے۔ جب غزوۂ خندق کے موقع پر مسلمان خندق کھود رہے تھے تو نبی مکرم ﷺ خود اپنے سر پر ٹوکری اٹھاتے تھے۔ جب مسلمانوں نے اعتراض کیا تو فرمایا: ’’کیا میں تمہارا بادشاہ بن کر بیکار رہوں؟‘‘
ایک دفعہ نبی مکرم ﷺ مسلمانوں کی ایک قطار ٹھیک کر رہے تھے۔ چھڑی نبی مکرم ﷺ کے ہاتھ میں تھی، ایک مسلمان کی پیٹھ پر لگ گئی۔ اس نے کہا نبی مکرم ﷺ میں قصاص لوں گا۔ نبی مکرم ﷺ نے پیٹھ کو ننگا کیا اور فرمایا لے لو۔ اس نے بڑھ کر مہرِ نبوت چوم لی، لیکن نبی مکرم ﷺ نے تو پیٹھ پیش کر ہی دی تھی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم رسولِ اکرم ﷺ کا چوری کے ایک مقدمہ کے متعلق ردِ عمل ہے۔ ایک اونچے گھرانے کی عورت نے چوری کی۔ جو لوگ اس کو حد سے بچانا چاہتے تھے انہوں نے سیدنا اسامہ بن زید t کو سفارشی بنا کر نبی مکرم ﷺ کے پاس بھیجا۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا۔ اسامہ t تو اللہ کی حدود میں سفارش کرتا ہے؟ اس پر سیدنا اسامہt نے فوراً کہا ’’یا رسول اللہ مجھے معاف فرمائیے مجھ سے خطا ہوئی‘‘ پھر نبی مکرم نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا۔’’لوگو تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اس سے درگزر کرتے۔ اور جب کوئی کمزور آدمی ایسے فعل کا مرتکب ہوتا۔ تو اس کو سزا دیتے۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اگر فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد ﷺ پر بھی یہ جرم وارد ہوتا تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالتا‘‘
برابری کی جو مثال نبی مکرم ﷺ نے قائم کی، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اگر خدانخواستہ فی الواقع سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کسی چوری کی مرتکب ہوتیں۔ تو ساری امت کہتی کہ ان کو ایسی سزا نہ دی جائے بلکہ امت کے کسی فرد کی جرأت ہی نہ ہوتی کہ ایسی سزا کا ذکر کرے۔ لیکن نبی مکرم ﷺ جو کچھ فرما رہے تھے اس میں کوئی مبالغہ نہ تھا۔ اور نبی مکرم ﷺ وہی کرتے جو نبی مکرم ﷺ نے زبانِ مبارک سے فرمایا۔ یہ درست ہے کہ ایسا واقع ہونے کا کوئی احتمال نہ تھا لیکن نبی مکرم ﷺ نے ایک مثال بیان کر کے انسانوں کی قطعی برابری پر مہر ثبت کر دی۔ اسی طرزِ عمل کا نتیجہ وہ برابری تھ جس کا ہم نے بعد میں مشاہدہ کیا۔ ہمارے خلیفہ یا بادشاہ نے کبھی قاضی کے سامنے پیش ہونے پر اعتراض نہیں کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پیش ہوئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ پیش ہوئے۔ خلیفہ مامون الرشید، سلطان مراد، محمد بن تغلق وغیرہ پیش ہوتے رہے۔ جہاں تک امیر کے سزا سے بچنے کا تعلق ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو بھی سزا دی حالانکہ یہ سزا مصر میں بھی، ان کو دی جا چکی تھی صرف وہ سزا لوگوں کے سامنے نہ دی گئی تھی۔ اس لئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق شریعت کا منشا پورا نہ ہوا تھا۔ اسی سزا کے نتیجہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بیٹا جاں بحق ہو گیا۔ اسی طرح سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کو بھی مصر سے بلوایا جب ان کو معلوم ہوا کہ ان کو سزا نہیں دی گئی۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے ایک قبطی کو مارا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قبطی کو بلایا اور اپنے سامنے سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کو اس سے مروایا۔ اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے۔
’’مار بڑوں کی اولاد کو‘‘
ہمارے موجودہ آئین کے مطابق صدر اور گورنر کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو سکتے۔ چاہے وہ جتنے انسانوں کو چاہیں قتل کر دیں۔ جس قدر روپیہ چاہیں غبن کر لیں۔ غرض کہ چاہے کیسا بھی جرم کریں۔ جب تک وہ صدر یا گورنر ہیں۔ ان سے کوئی باز پرس نہیں ہو سکتی۔ یہ ملحدانہ تصورات کا اثر ہے۔ ورنہ کہاں اسلام اور کہاں اس قسم کے امتیازات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ، خلیفہ مامون الرشید، سلطان مراد سب عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان کے گورنر اور صدر نہیں ہو سکتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا محاسبہ تو قوم اتنے جرم پر بھی کر سکتی ہے کہ ان کی قمیص دوسروں سے تھوڑی سی لمبی تھی۔ اور خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب سوال کیا کہ اگر میں نے فی الواقع قمیص کا کپڑا زیادہ لے لیا ہوتا تو تم کیا کرتے تو اس کا ان کو جواب ملا کہ یہ تلوار ہے اس سے تیرا سر قلم کرتے۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ اگر وہ غلطی کریں تو ان کو قتل کرنے والے موجود ہیں۔ لیکن جہاں وہ اپنی قمیص کی لمبائی کے بھی جوابدہ تھے، ہمارے حاکم قتل کے بھی جوابدہ نہیں۔ اس موقع پر سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی صلح کی گفتگو بھی یاد آگئی ہے، جو انہوں نے رومیوں سے کی تھی۔ رومیوں نے کہا ہمارا بادشاہ بڑی طاقت والا، بڑی شان و شوکت والا ہے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ تمہارا بادشاہ ایسا ہو گا۔ ہمارا بادشاہ ہم میں سے ایک ہے اگر وہ چوری کرے ہم اس کا ہاتھ کاٹ دیں۔ اگر وہ زنا کرے تو ہم اس کو سنگسار کر دیں۔ اور جب ہم اس کے پاس کسی کام کے لئے جاتے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ ہماری سنے ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ عدالت کے روبرو پیش ہونے سے ہماری عزت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے، اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ قاضی کے روبرو پیش ہوئے تو کیا ان کی عزت کم ہوئی۔ یا تاریخ میں انہوں نے اپنا مقام پیدا نہیں کیا؟ آج ہمیں اس امر کا احساس نہیں کہ ہم اس قسم کا قانون وضع کر کے اسلام پر دھبّہ لگا رہے ہیں۔ اس ملک کا بیان کردہ مذہب اسلام ہے تو کیا اسلام اس قسم کا امتیاز روا رکھتا ہے؟ آئین سے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ روا رکھتا ہے۔
5حجۃ الوداع کے موقع پر رسولِ اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو ان کے حقوق کا پرواہ نہ عطا فرمایا۔ حکم دیا کہ سب کی جان و مال، عزت اسی طرح حرام ہے جیسے اس ماہ کی حرمت، جس میں حج ہو رہا تھا۔ اس حکم کا نتیجہ ہے کہ کوئی فرد یا گروہ یا حکومت کسی مسلمان کی جان، مال یا عزت پر حملہ نہیں کر سکتے۔ اقوامِ متحدہ نے تو ۱۹۴۸ء میں انسانی حقوق کا اعلان کیا ہے اور رسول اکرم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے انسانی حقوق کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ اعلان فرد کے حقوق کو قبول کرتا ہے۔ اور حکومت کے اختیارات پر حد قائم کرتا ہے۔ اس معاملہ میں اسلام اور اشتراکیت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اشتراکیت سرے سے انسان کا کوئی حق تسلیم ہی نہیں کرتی وہ تمام حقوق حکومت کو دیتی ہے۔ جس کا اختیار ہے کہ جس فرد کی چاہے جان لے لے اور جس فرد کا چاہے مال لے لے۔ اشتراکی ممالک کی مقننہ کے قانون سازی کے اختیارات انسانی حقوق سے محدود نہیں ہوتے اور وہ جیسا چاہے قانون وضع کر سکتی ہے۔ اس کے خلاف جمہوری ممالک میں مقننہ کے اختیارات محدود ہیں۔ وہ مال لیں تو معاوضہ ادا کریں گی۔ وہ کسی کی جان نہیں لے سکتے سوائے اس کے کہ ایک قانون ہے جس کے ما تحت سوائے مستثنیات کے افراد معاشرہ فوجی خدمت پر مجبور ہوتے ہیں۔
6 قانون سازی کی ایک واضح مثال ہمیں رسولِ اکرم ﷺ کے ان احکام میں بھی ملتی ہے جس کے ذریعے انہوں نے حاکم یا قاضی کو نکاح کی تنسیخ کا اختیار دیا۔ قرآنِ پاک میں یہ وضاحت کسی جگہ نہیں کی گئی کہ حاکم یا قاضی کو اختیارِ تنسیخ نکاح حاصل ہے۔ قرآن ۔پاک میں تو صرف نکاح اور طلاق کا ذِکر ہے۔ لیکن رسولِ اکرم ﷺ کی حدیثوں سے کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ حاکم یا قاضی کویہاختیار حاصل ہے اور اب تو شرعِ محمدی ﷺ کا یہ ایک مسلمہ اصول سمجھا جاتا ہے
چنانچہ اس وقت پاکستان کے قانون کے مطابق ایک نکاح متعدد وجوہات کی بنا پر منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر زوجہ کو گزارہ دو سال سے زائد مدت نہ دیا جائے یا خاوند عادتاً بے رحمی کا مرتکب ہو یا عورت کی جائیداد پر قبضہ کرے تو عدالت نکاح کو منسوخ کر سکتی ہے۔ ایک حدیث تو اس بارے میں رسول اکرم ﷺ کی یہ ہے کہ’’اگر نکاح قائم رکھیں اور اس سے بے انصافی ہوتی توہو تو نکاح منسوخ کر دیا جانا چاہئے‘‘
اس کے علاوہ دو واقعات ہیں جن میں نبی مکرم ﷺ نے نکاح کے ختم کرنے کا خود حکم دیا۔ وہ دونوں واقعات ثابت t بن قیس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی جمیلہ رضی اللہ عنہ نے صرف اس بنا پر نکاح سے خلاصی چاہی کہ اس کا خاوند بدشکل ہے اور وہ اس کے ہمراہ نہیں رہ سکتی۔ نبی مکرم ﷺ نے حکم دیا کہ ’’جمیلہ رضی اللہ عنہا وہ باغ، جو اسے ثابت رضی اللہ عنہ بن قیس نے دیا تھا، واپس کر دے اور ثابت اس کو طلاق دے دے‘‘ دوسرا واقعہ ثابت رضی اللہ عنہ بن قیس کی دوسری بیوی حبیبہ رضی اللہ عنہا کا ہے اس نے بھی اس بنا پر نکاح سے خلاصی طلب کی کہ وہ ثابت رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ نبی مکرم ﷺ نے ثابت t کو جو اس نے دیا ہوا تھا واپس دلوا دیا وار ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ حبیبہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دے۔
7 رسولِ اکرم ﷺ نے یہ حکم دے کر کہ متوفی اور میراث پانے والے کا دین ایک ہی ہونا چاہئے، دینی رشتہ کی اہمیت ثابت کی اور یہ واضح کر دیا کہ جو ہمارے دین پر نہیں اس کے اور ہمارے درمیان کس قسم کا رشتہ نہیں ہے۔ مسلمان کا وارث صرف مسلمان ہو سکتا ہے۔ اور مسلمان غیر مسلم کا وارث نہیں ہو سکتا۔ نیز نبی مکرم ﷺ نے یہ بھی حکم دیا کہ قاتل مقتول کا وارث نہیں ہو سکتا۔ تاکہ کوئی انسان اپنے جرم سے فائدہ نہ اُٹھائے اور اپنے ہر ناجائز فعل کا خمیازہ بھُگتے۔
میں نے چند امور کی وضاحت مثال کے طور پر کی ہے۔ اگر پوری تشریح نبی مکرم ﷺ کے احکام کی کی جائے تو بہت وقت درکار ہے۔
حضراتِ گرامی! وہ سیرت یا نمونۂ حیات جو انسانوں کے لیے ایک آئیڈیل سیرت کا کام دے، اس میں چار شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:
تاریخیّت کاملیّت جامعیّت اور عملیّت
b تاریخیّت:
اس سے مقصود یہ ہے کہ ایک کامل انسان کے جو حالاتِ زندگی پیش کیے جائیں، وہ تاریخی لحاظ سے مستند ہوں، ان کی حیثیت قصوں اور کہانیوں کی نہ ہو۔ خیالی اور مشتبہ سیرتیں خواہ کتنے ہی مؤثر انداز میں پیش کی جائیں، طبیعتیں ان سے دیرپا اور گہرا اثر نہیں لیتیں اوران پر کوئی انسان اپنی عملی زندگی کی بنیاد نہیں رکھ سکتا۔
سب سے قدیم ہونے کا دعویٰ ہندوؤںکو ہے مگر ان میںسے کسی کو 'تاریخی ہونے کی عزت حاصل نہیں ہے۔ رامائن کی زندگی کے کن واقعات کو تاریخ کہہ سکتے ہیں؟ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ واقعات کس زمانہ کے ہیں۔
قدیم ایرانی مجوسی مذہب کا بانی زرتشت جوآج بھی لاکھوں لوگوں کا مرکز ِعقیدت ہے، اس کے حالات ِ زندگی محققین کی متضاد آرا سے اتنے مشکوک ہیں کہ کوئی انسان ان کے بھروسے پر اپنی زندگی کی بنیاد قائم نہیںکر سکتا۔
قدیم ایشیا کے سب سے وسیع مذہب بدھ کا ہندوستان میں برہمنوں اور وسطی ایشیا میں اسلام نے خاتمہ کیا تھا۔ایشیاے اقصیٰ میں بدھ مت کی حکومت، تہذہب اور مذہب قائم ہیں۔ لیکن یہ چیزیں بدھ کی سیرت کو تاریخ میں محفوظ نہ رکھ سکیں۔ چین کے کنفیوشس کی ہمیں بدھ سے بھی کم واقفیت ہے، حالانکہ ان کے پیروکارکروڑوں میں ہیں۔
سامی قوم کے سینکڑوں پیغمبروں کے ناموں کے سوا تاریخ کچھ نہیں بتاتی۔ سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا ہود، سیدنا صالح، سیدنا اسمٰعیل، سیدنا اسحق، سیدنا یعقوب، سیدنا زکریااور سیدنا یحییٰ علیہم السلام کی سیرتوں کے چند حصوں کے علاوہ ان کی زندگیوں کے ضروری اجزا تاریخ سے گم ہیں۔ قرآن کے سوا، یہودیوں کے اَسفار میں ان پیغمبروں کے درج حالات کی نسبت محققین کو شکوک ہیں۔ ان شکوک سے صرف ِ نظر کرنے کے باوجود ان بزرگوں کی مقدس زندگیوں کے ادھورے اور نامربوط حصے ایک کامل انسانی زندگی کی پیروی کا سامان نہیں کر سکتے۔
b کاملیّت:
عزیزو!کسی انسانی سیرت کے دائمی نمونۂ عمل بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے تمام حصے روزِ روشن کی طرح دنیا کے سامنے ہوں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس کی سیرت کہاں تک انسانی معاشرہ کے لیے ایک آئیڈیل زندگی کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آج بدھ کے پیروکار دنیا کی چوتھائی آبادی پر قابض ہیں، مگر تاریخی حیثیت سے بدھ کی زندگی صرف چند قصوں اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر اسے تاریخ کا درجہ دے کر بدھ کی زندگی کے ضروری اجزا تلاش کریں تو ہمیں ناکامی ہوگی۔ یہی حال زرتشت کا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (گیارہواں ایڈیشن) کے آرٹیکل زراسٹر کے مضمون نگار نے لکھا ہے:
'اس کی جائے پیدائش کی تعیین سے متعلق شہادتیں متضاد ہیں... زرتشت کے زمانے سے ہم قطعاً ناواقف ہیں۔
انبیاے سابقین میں سب سے مشہور زندگی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی ہے۔ موجودہ تورات کے مستند یا غیر مستند ہونے سے قطع نظر، تورات کی پانچوں کتابوں سے ہمیں ان کی زندگی کے کس قدر اجزا ملتے ہیں؟ تورات کی پانچویں کتاب میں جو کچھ لکھا ہے، وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی تصنیف نہیںہے۔ دنیاآپ کے اس سوانح نگار سے واقف نہیں ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ۱۲۰ سال عمر پائی۔ اس طویل سوانح کے ضروری اجزا ہمارے پاس کیا ہیں: پیدائش، جوانی میں ہجرت، شادی اور نبوت پھر چند لڑائیوں کے بعد۱۲۰ برس کی عمر میں ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ انسان کو اپنی سوسائٹی کے عملی نمونہ کے لیے جن اجزا کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اخلاق و عادات اور طریقِ زندگی ہیں، اور یہی اجزا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمری سے گم ہیں۔
اسلام کے سب سے قریب العہد پیغمبر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو آج یورپین مردم شماری کے مطابق تمام دوسرے مذاہب کے پیروؤں سے زیادہ ہیں۔مگر اسی پیغمبرکے حالاتِ ِزندگی تمام دوسرے مشہوربانیانِ مذاہب کے سوانح سے سب سے کم معلوم ہیں۔ انجیل کے مطابق آپ کی زندگی ۳۳ برس تھی۔ موجودہ انجیلوں کی روایتیں اوّلاً تو نامعتبر ہیں اور جو کچھ ہیں، وہ آپ کے آخری تین سالوں کی زندگی پر مشتمل ہیں۔ آپ پیدا ہوئے، پیدائش کے بعد مصر لائے گئے، لڑکپن میں ایک دو معجزے دکھائے، اس کے بعد وہ غائب ہو جاتے ہیں اورپھر اچانک تیس برس کی عمر میں بپتسمہ دیتے اور پہاڑوں اور دریائوں کے کنارے ماہی گیروں کو وعظ کہتے اوریہودیوں سے مناظرے کرتے نظر آتے ہیں، یہودی اُنہیں پکڑوا دیتے ہیں اور رومی عدالت اُنہیں سولی دے دیتی ہے۔ تیسرے دن ان کی قبر ان کی لاش سے خالی نظر آتی ہے۔ تیس برس اور کم از کم پچیس برس کا زمانہ کہاں اور کیسے گزرا؟ دنیا اس سے ناواقف ہے اور رہے گی...!
b جامعیّت:
میرے دوستو! کسی سیرت کے عملی نمونہ بننے کے لیے تیسری ضروری شرط جامعیت ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ مختلف طبقات ِ انسانی یاایک فرد ِ انسان کو اپنی ہدایت اور ادائیگی فرائض کے لیے جن مثالوں اور نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب اس 'آئیڈیل زندگی میں موجود ہوں۔اللہ اور بندے اور بندوں کے مابین فرائض اور واجبات کو تسلیم اور اُنہیں ادا کرنے کا نام 'مذہب ہے۔ہر مذہب کے پیروؤں پر فرض ہے کہ وہ ان حقوق و فرائض کی تفصیلات اپنے اپنے بانیوں کی سیرتوں میں تلاش کریں۔
جو مذاہب خدا کو تسلیم ہی نہیں کرتے،جیسے بدھ مت اور جین مت کے متعلق کہا جاتا ہے، تو ان کے بانیوں میں محبت ِ الٰہی اور توحید پرستی وغیرہ کی تلاش ہی بیکار ہے۔ جن مذاہب نے خدا کو کسی نہ کسی رنگ میں تسلیم کیا ہے، ان کے بانیوں کی زندگیوں میں بھی خدا طلبی کے واقعات مفقود ہیں۔ توحید اور اس کے احکام اور قربانی کی شرائط کے علاوہ تورات کی پانچوں کتابیں یہ نہیں بتاتیں کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے تعلقات ِ قلبی، اطاعت و عبادت اوراللہ کی صفات ِ کاملہ کی تاثیر ان کے قلب اَقدس میں کہاں تک تھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کاآئینہ انجیل ہے۔ انجیل میں ایک مسئلہ کے علاوہ کہ خدا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا باپ تھا، ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ اس دنیاوی زندگی میں باپ اور بیٹے میں کیا تعلقات تھے؟
اب حقوق العباد کو لیجئے، بدھ اپنے اہل و عیال، دوست اور حکومت وسلطنت کے بارِ گراںکو چھوڑ کر جنگل چلے گئے۔ اسی لیے بدھ کی زندگی اس کے ماننے والوں کے لیے قابلِ تقلید نہیں بنی، ورنہ چین، جاپان، سیام، وانام، تبت اور برماکی سلطنتیں، صنعتیں اور دیگر کاروباری مشاغل فوراً بند ہوجاتے اور بجاے آباد شہروں کے صرف سنسان جنگل رہ جاتے۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں جنگ و سپہ سالاری کا پہلو نمایاں ہے۔اس کے علاوہ ان کے پیروکاروں کے لیے دنیاوی حقوق و فرائض کا کوئی نمونہ موجود نہیں ہے۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا پیغمبرانہ طرز ِ عمل یقینا ہر حرف گیری سے پاک ہوگا، مگر ان کی موجودہ سیرت کی کتابیں ان اَبواب سے خالی ہیں۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ تھیں، انجیل کے مطابق ان کے بھائی بہن بلکہ مادی باپ تک بھی تھا۔ مگر اُن کی سیرت اِن رشتہ داروں سے آپ کا طرزِ عمل اور سلوک نہیں بتاتی۔ دنیا ہمیشہ انہی تعلقات سے آباد رہی ہے اور رہے گی۔ آپ نے محکومانہ زندگی بسر کی، اس لیے ان کی سیرت حاکمانہ فرائض کی مثالوں سے خالی ہے۔
b عملیّت:
'آئیڈیل لائف کا آخری معیارعملیت ہے۔یعنی بانی ٔ مذہب جو تعلیم دیتا ہے، اس پر خود عمل کرکے اس تعلیم کو قابلِ عمل ثابت کیا ہو۔ انسانی سیرت کے کامل ہونے کی دلیل اس کے نیک اَقوال و نظریات نہیں بلکہ اس کے اعمال و کارنامے ہوتے ہیں۔
عزیزو!جس نے اپنے دشمن پر قابو نہ پایا ہو، وہ معاف کرنے کی عملی مثال کیسے دکھا سکتا ہے۔ جس کے پاس کچھ نہ ہو، وہ غریبوں کی مدد کیسے کر سکتا ہے۔ جو بیوی بچے اور عزیز واحباب نہ رکھتا ہو، وہ انہی تعلقات سے آباد دنیا کے لیے مثال کیونکر بن سکتا ہے۔ جسے دوسروں کو معاف کرنے کا موقع نہ ملا ہو، اس کی زندگی غصہ آور لوگوں کے لیے نمونہ کیسے بنے گی۔ اس معیار پر بھی سیرت ِ محمدی ﷺکے سوا کوئی دوسری سیرت پوری نہیں اتر سکتی۔ آئیڈیل اور نمونۂ اتباع شخصیت کی سیرت میں یہ چار باتیں پائی جانی چاہئیں:
تاریخیّت، جامعیّت، کاملیّت اور عملیّت
میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں اِن خصوصیات سے خالی تھیں، بلکہ اُن کی سیرتیں جو عام انسانوں تک پہنچیں، وہ اِن خصوصیات سے خالی ہیں۔ ایسا ہونا مصلحت ِ الٰہی کے مطابق تھا تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ وہ انبیا محدود زمانہ اور متعین قوموں کے لیے تھے، اس لیے ان کی سیرتوں کو آئندہ زمانہ تک محفوظ رکھنا ضروری نہیں تھا۔ صرف سیدنا محمدﷺ تمام اقوام کے لیے اور دائمی نمونۂ عمل بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپ کی سیرت کوہر حیثیت سے مکمل اور ہمیشہ کے لیے محفوظ رہنے کی ضرورت تھی۔یہی 'ختم نبوت کی سب سے بڑی عملی دلیل ہے۔
آئیے! اب اِن چاروں معیاروں کے مطابق پیغمبر اسلام سیدنا محمد ﷺکی سیرتِ مبارکہ پر نظر ڈالیں:
b سیرتِ محمدی ﷺکی تاریخیت:
سب سے پہلی چیز 'تاریخیت ہے۔ مسلمانوں نے اپنے پیغمبراور ہر اس چیز اور اس شخص کی جس کا ادنیٰ سا تعلق بھی آپﷺ کی ذات ِ مبارک سے تھا، جس طرح حفاظت کی ہے اس پر دنیا حیرت زدہ ہے۔آپ ﷺ کے اقوال، افعال اور متعلقاتِ زندگی پر مشتمل سرمایۂ روایت ضبط ِتحریر ہو چکا تو اسے روایت کرنے والے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین رحمہ اللہ، تبع تابعین رحمہ اللہ اور بعد کے چوتھی صدی ہجری تک کے راویوں کے نام، حالات اور اخلاق و عادات کو بھی لکھا گیا۔جن کی تعداد جرمن ڈاکٹر اسپرنگر کے نزدیک پانچ لاکھ ہے۔
حیات ِ نبوی ﷺکے آخری سال حجۃ الوداع میں حاضر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی جن میںسے گیارہ ہزار کے نام و اَحوال آج تحریری شکل میں محفوظ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول معظمﷺکے اقوال و افعال اور واقعات میں سے کچھ نہ کچھ حصہ دوسروں تک پہنچایا ہے۔ ہزاروں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو کچھ دیکھا اور جانا، وہ سب دوسروں کو بتایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے بعد فوراً ہی دوسری نسل اِن معلومات کی حفاظت کے لیے کھڑی ہو گئی۔
پیغمبر ِاسلام ﷺنے اپنی احادیث دوسروں تک پہنچانے کی تاکید کے ساتھ یہ تنبیہ بھی کر دی تھی کہ ’’جو کوئی میرے متعلق قصداً جھوٹ منسوب کرے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے‘‘۔اس اعلان کا اثر تھا کہ بڑے بڑے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین روایت ِحدیث کرتے وقت کانپتے تھے۔
عربوں کا حافظہ تیز تھا۔یہ فطری قاعدہ ہے کہ جس قوت سے جتنا کام لیا جائے، اتنا ہی وہ ترقی پاتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین نے قوت ِ حفظ کو معراجِ کمال تک پہنچایا۔ایک ایک محدث کو کئی کئی ہزار اور کئی کئی لاکھ احادیث یادتھیں۔
ابتدا میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے احادیث کولکھنابوجوہ مناسب نہ سمجھا، مثلاً:
b آغاز میں رسول اللہ ﷺ نے قرآن کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرمایا تھا تاکہ قرآن اور غیر قرآن آپس میں مل نہ جائیں۔ ازاں بعد قرآن مکمل محفوظ ہونے پر احادیث لکھنے کی اجازت مل گئی۔
b صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کواس بات کا اندیشہ تھا کہ تحریری مجموعہ پاس ہونے سے لوگ حفظ کرنے سے جی چرانے لگیں گے۔
b عربوں میں ابھی تک کوئی واقعہ لکھ کر محفوظ رکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ وہ کوئی چیز تحریر کر بھی لیتے تھے تو اسے چھپائے رکھتے تھے۔
حضرات! عہد ِ نبوی ہی میں احادیث کا تحریری سرمایہ جمع ہونا شروع ہو چکا تھا۔ فتح مکہ پر رسول اللہ ﷺ کا خطبہ لکھا گیا۔آپ نے مختلف حکمرانوں کو تحریری خطوط روانہ کیے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے خود آپ سے سن کر احادیث لکھی تھیں ۔ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، سیدنا ابوبکر بن عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ اور متعدد اشخاص کے پاس زکوٰۃ کے احکام لکھے ہوئے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک صحیفہ تھا۔رسول اللہﷺنے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ جو یمن کے گورنر تھے، اُنہیں میراث، صدقات اور دِیت سے متعلق ہدایات لکھ کر دیں۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ اپنے وطن واپس ہوئے تو آپﷺ نے اُنہیں ایک تحریر لکھوا دی جس میں نماز، روزہ، سود، شراب اور دیگر احکام تھے۔ غالباً ملکِ یمن سے سیدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری جواب دیا کہ سبزیوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر سیدنا ضحاک رضی اللہ عنہ نے بتایا :رسول اللہ ﷺ نے ہمیں لکھوایا کہ شوہر کی دِیت میں بیوی کا حصہ ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایات کا ایک تحریری مجموعہ اہل طائف کے پاس تھا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایتوں کا ایک مجموعہ وہب نے اور دوسرا سلیمان بن قیس نے تیار کیا تھا۔ سیدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے اُن کے بیٹے ایک نسخہ روایت کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ حافظِ حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ دوسرے صحابی ہیں جن سے بکثرت احادیث مروی ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے غلام ابورافع رضی اللہ عنہ سے آپ کے کارنامے لکھا کرتے تھے۔آپ کے خادم سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ کہتے تھے کہ لوگ اُن سے سنتے اور پھر جا کر اسے کر لکھ لیتے ہیں۔ ان کے بیٹے عبدالرحمن ایک کتاب لائے اور قسم کھا کر کہا کہ یہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خود لکھی ہے۔
دوستو! اگر تحریر ہی قابلِ وثوق ہے تو عہدِ نبوی میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے احادیث لکھیں ۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کی زندگی میں زہری رحمہ اللہ، ہشام رحمہ اللہ، قیس رحمہ اللہ، عطا رحمہ اللہ، سعید بن جُبَیر رحمہ اللہ اور سینکڑوں تابعین نے یہ تمام روایات تحقیق کرکے ہمیں فراہم کر دیں۔ صرف امام زہری رحمہ اللہ ہی کا تحریری مواد اتنا تھا کہ کتابیں جانوروں پر لاد کر لائی گئیں۔ بطورِ مثال امام زہری رحمہ اللہ نے اتنی محنت سے احادیث ِ نبوی جمع کیں کہ وہ مدینہ کے ایک ایک شخص حتی کہ پردہ نشین خواتین سے جا کر رسول اللہ ﷺ کے اقوال و حالات پوچھتے اور اُنہیں قلمبند کرتے تھے۔
یہ غلط ہے کہ تدوین و تحریرِ حدیث کا کام ایک سو برس بعد تابعین نے شروع کیا۔ تابعین وہ شخصیات ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات نصیب نہیں ہوئی مگروہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مستفید ہوئے، خواہ وہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ہوں یا آپ کی رحلت (۱۱ھ) کے بعد پیدا ہوئے، وہ سب تابعین ہیں۔ آپ کی زندگی ہی میں تابعین کا عہدکم از کم ۱۱ہجری سے شروع ہو گیا تھا۔ لہٰذا جو کام ۱۱ھ میں شروع ہوا، کہا جا سکتا ہے کہ اس کا آغاز تابعین نے کیا۔
مسلمانوں کے فن سیرتِ نبوی کا پہلا اُصول یہ تھا کہ واقعہ اس شخص کی زبان سے بیان ہو جو خود شریکِ واقعہ تھا، ورنہ شریکِ واقعہ تک تمام درمیانی راویوں کے نام بالترتیب بتائے جائیں۔ یہ بھی تحقیق کی جائے کہ وہ کون تھے، ان کے مشاغل اور چال چلن کیسی تھی، ثقہ تھے یا غیر ثقہ، نکتہ رس تھے یا سطحی الذہن اور عالم تھے یا جاہل؟ ہزاروں محدّثین نے اپنی عمریں اس کام میں کھپا دیں، ہزاروں میلوں کا سفر کیا اور لاکھوں لوگوں سے ملے۔
پھر عقلی اعتبارسے روایات پرکھنے کے اُصول الگ ترتیب دئیے۔راویوں کی چھان بین میں اتنی دیانتداری دکھائی کہ وہ واقعات اسلام کا فخر ہیں۔ راویوں میں بڑے بڑے حکمران اور اُمرا بھی تھے مگر محدّثین نے بلاخوف سب کو وہی درجہ دیا جو اُنہیں مل سکتا تھا۔ وکیع رحمہ اللہ کے والد سرکاری خزانچی تھے مگر جب وکیع رحمہ اللہان سے روایت کرتے تو اُن کی تائید میں ایک اور راوی کو ضرور شامل کرلیتے، یعنی تنہا اپنے باپ کی روایت تسلیم نہ کرتے۔ معاذ رحمہ اللہ بن معاذکو دس ہزار دینار پیش کیے گئے کہ وہ ایک شخص کے متعلق خاموش رہیں اور اسے معتبر یا غیر معتبر کچھ نہ کہیں۔ معاذ رحمہ اللہ نے اَشرفیوں کا توڑا حقارت سے ٹھکرا دیا۔
محدّثین نے جھوٹی اور ضعیف روایتیں بھی محفوظ کیں تاکہ مخالفین یہ کہہ نہ سکیں کہ مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کی کمزوریاں چھپانے کے لیے کئی روایتیں غائب کر دیں۔ محدّثین نے اپنے نبی ﷺکی طرف منسوب صحیح و غلط سارا مواد لا کر سامنے رکھ دیا اور اُصول مقرر کرکے ان دونوں کے درمیان فرق بتا دیا۔ یہ تمام روایات آج بھی دنیا کے سامنے موجود ہیں اور انہی اصولوں کے تحت ہر واقعہ پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔
عزیز قارئین! اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہنبی رحمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات وواقعات پرمواد کے مآخذ کیا تھے۔سیرتِ پاک ﷺکا سب سے اہم، سب سے مستند اور صحیح ترین ماخذ خود قرآن ہے جس کی صحت و معتبری میں دشمن بھی شک نہ کر سکے۔قبل از نبوت کی زندگی، یتیمی، غربت، تلاشِ حق، نبوت، وحی، اعلان و تبلیغ، معراج، مخالفین کی دشمنی، ہجرت، لڑائیاں اور اخلاق سب قرآن میں موجود ہیں۔
دوسرا ماخذ ایک لاکھ کے قریب احادیث ہیں۔ صحاحِ ستہ ہیں جن کا ایک ایک واقعہ تولا اور پرکھا ہوا ہے۔مسانید ہیں جن میں ضخیم ترین امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (م ۲۴۴ھ) کی المُسْنَد ہے۔مسانید میں ہر صحابی کی روایتیں الگ الگ ہیں۔
تیسرا ماخذ مغازی ہیں جو زیادہ تر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور لڑائیوں سے متعلق ہیں۔ مثلاً مغازی عروہ بن زبیر رحمہ اللہ (م ۹۴ھ)، مغازی زہری رحمہ اللہ (م۱۲۴ھ)، مغازی ابن اسحق رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ) اور مغازی واقدی رحمہ اللہ(م ۲۰۷ھ) وغیرہ۔
سیرت ِ محمدی کا چوتھا ماخذ کتب ِتاریخ ہیں۔ ان میں طبقات ابن سعد رحمہ اللہ(م۲۰۷ ھ)، تاریخ صغیر و کبیر امام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ) اور تاریخ طبری رحمہ اللہ(م ۳۱۰ھ) وغیرہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺکے معجزات اور روحانی کارناموں پر مشتمل کتبِ دلائل النبوت ہیں،مثلاً ابن قتیبہ رحمہ اللہ (م ۲۷۶ھ)، بیہقی رحمہ اللہ (م۴۵۸ھ) اور ابونعیم اصفہانی رحمہ اللہ(م۴۳۰ھ) وغیرہ کی کتب۔پھر آپ کے اخلاق اور معمولاتِ زندگی پر لکھی گئی کتب ہیں،مثلاً امام ترمذی رحمہ اللہ (م۲۷۹ھ)، ابوالعباس مستغفری رحمہ اللہ (م ۴۳۲ھ) اور قاضی عیاض رحمہ اللہ (م۵۴۴ھ) کی کتابیں۔پھر مکہ اور مدینہ پر کتابیںہیں جن میں مقامی حالات اور مقامات کے نام و نشان ہیں جنہیں آپ ﷺ سے کوئی تعلق ہے، مثال کے طور پر ازرقی (م ۲۲۳ھ) کی اخبارِ مکہ اور ابن زبالہ رحمہ اللہ کی اخبارِ مدینہ وغیرہ۔
عہدِ رسالت سے آج تک ہر زمانہ، ہر ملک اور ہر زبان میں آپ ﷺ پر لاتعداد کتب لکھی گئیں۔ ہر مصنف نے سینکڑوںاور ہزاروں اشخاص سے سن اور پڑھ کر سیرت ِ محمدی کو دوسروں تک پہنچایا۔حدیث کی پہلی کتاب المَوطأ کو اس کے مصنف امام ما لک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) سے ۶۰۰ لوگوں نے سنا جن میں حکمران، فقہا، علما، اُدبا اورشعراء سب ہی تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ) تصنیف الجامع الصحیح کو انکے صرف ایک شاگرد فربری رحمہ اللہسے ساٹھ ہزار لوگوں نے سنا۔
بتاؤ! کس شارع یا بانیٔ دین کی سوانح عمری اس احتیاط اور اہتمام کے ساتھ مرتب ہوئی؟ یہ تاریخیّت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کس کے حصہ میں آئی؟
مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں نے بھی سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا پروفیسر مارگیولیوتھ بھی اپنی کتاب 'محمد(۱۹۰۵ء) میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہواکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سوانح نگاروں کا ایک نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ ہے، لیکن اس میں جگہ پالینا قابلِ عزت ہے۔
جان ڈیون پورٹ ۱۸۷۰ء میں اپنی کتاب 'اپالوجی فار محمد اینڈ دی قرآن ان الفاظ سے شروع کرتے ہیں:
'بلا شبہ تمام قانون سازوں اور فاتحین میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے حالات ِ زندگی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے وقائع عمری سے زیادہ مفصل اور سچے ہوں۔
b سیرتِ محمدی کی کاملیّت:
حضرات! کوئی انسانی زندگی خواہ کتنی ہی تاریخی ہو، وہ جب تک کامل نہ ہو ہمارے لیے نمونہ نہیں بن سکتی، کسی زندگی کی کاملیّت اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتی جب تک اس کے تمام اجزا ہمارے سامنے نہ ہوں۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی ولادتِ مبارک سے لےکر رحلت تک زندگی کا مختصر لمحہ بھی تاریخ کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہے۔
بطورِ مثال امام ترمذی رحمہ اللہ کی 'شمائلِ ترمذی، قاضی عیاض رحمہ اللہ کی 'الشفاءاور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی 'زادالمعاد کے ابواب سے اندازہ لگالیں کہ آپ ﷺ کے جزئی واقعات بھی کس طرح قلم بند کیے گئے۔ مثلاً آپ کی شکل و صورت، اسماے گرامی، عمر،بال، کنگھی، خضاب، سرمہ، لباس، عمامہ، پائجامہ، موزے، پاپوش، انگوٹھی، خاموشی، گفتگو، تبسم، مزاح، خوشبو، تلوار، زرہ، خود، رفتار، نشست، تکیہ و بستر، وضو، پیالہ، کیا اور کیسے کھاتے پیتے، رات کو باتیں کرنے، سونے اور عبادت کرنے کے طریقے، گریہ، اخلاق، حجامت، خواب،خطبہ، سواری، سفر، جہاد، معمولاتِ عیادت و ملاقات، مجالس، اپنے اور دوسروں کے گھروں میں جانے کا انداز اور طریقہ، یادِ ِ الٰہی، اللہ پر توکل، صبر و شکر، استقامتِ عمل، حسن معاملہ، عدل و انصاف، سخاوت، ایثار، مہمان نوازی، تحفے قبول کرنا، احسان نہ قبول کرنا، عدمِ تشدد،مساوات، شرم وحیا، اپنے ہاتھ سے کام کرنا، ایفاے عہد، دشمنوں سے عفو و درگزر، غلاموں اور قیدیوں سے سلوک،اہل کتاب، منافقین اورغیرمسلموں سے برتاؤ، غریبوں سے محبت، بچوں پر شفقت، عورتوں سے برتاؤ، اولاد سے محبت، نکاح، بیویوں سے سلوک، ازدواجی تعلقات کا طریقہ، خرید و فروخت،حوائجِ ضروری کے آداب اور جانوروںسے سلوک اور اُن پر رحم وغیرہ۔
اس اجمالی تفصیل سے اندازہ لگالیں کہ جب ان جزئیات کو محفوظ رکھا گیا ہے تو بڑی اور اہم باتوں کی کیا کچھ تفصیل ہو گی۔
میرے دوستو! بڑے سے بڑا انسان جس کی ایک ہی بیوی ہو، یہ ہمت نہیں کر سکتا کہ بیوی کو یہ اجازت دے کہ تم میری ہر بات اور ہر حالت سب کو کہہ دو۔ رسول اللہﷺ کی نو بیویوں کو عام اجازت تھی کہ خلوت اور رات کی تاریکی میں مجھ میں جو دیکھو، وہ جلوت اور دن کی روشنی میں سب کو برملا بیان کر دو۔مسجدِنبوی کے چبوترہ پر رہنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم دن رات آپ کے حالات دیکھنے اور اُنہیں دوسروں کو بیان کرنے میں مصروف رہتے۔ دن میں مدینہ کی تمام آبادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر اَدا کا مشاہدہ کرتی۔ جنگوںمیں ہزارہا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کے شب و روز دیکھے۔ حجۃ الوداع میں تقریباً ایک لاکھ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی زیارت کی۔ ہر شخص کو حکم تھا کہ آپ کی ہر حالت و کیفیت منظر عام پر لائی جائے۔اس اخلاقی اعتماد کی مثال کہیں اور مل سکتی ہے؟
رسول اللہ ﷺہمیشہ اپنے پیروکاروں ہی کے درمیان نہیں رہے۔ آپ نے نبوت سے پہلے چالیس اور نبوت کے بعد تیرہ برس قریشِ مکہ میںگزارے جنہوں نے آپ کو صادق اور امین کا خطاب دیا۔ وہ آپ کے دعواے نبوت پر برہم ہوئے، گالیاں دیں، نجاستیں ڈالیں، پتھر پھینکے، قتل کی سازشیں کیں، ساحر، شاعر اور مجنون کہا، مگر کوئی آپ کے اخلاق و اعمال کے خلاف ایک حرف بھی نہ کہہ سکا۔
رسول اللہ ﷺپر ابتدا میں ایمان لانے والے کوئی مچھیرے یا غلام قوم کے نہیں بلکہ ایک ایسی آزاد قوم کے لوگ تھے جو اپنی عقل و دانش میں ممتازتھی۔ جو کبھی کسی کے محکوم نہیں ہوئے تھے۔ان کی تجارت دنیا میں دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھی۔ بھلا ایسے لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حال چھپا رہ سکتا تھا؟
سیرت ِ محمدی کے آئینہ میں دیکھ کر ہر شخص اپنے جسم و روح، ظاہر و باطن، قول و عمل اور آداب و رسوم کی اصلاح کر سکتا ہے۔ کوئی اور انسانی زندگی اس کاملیّت کے ساتھ دنیا کے سامنے موجود نہیں ہے،اس لیے تمام انسانوں کے لیے یہی ایک کامل نمونہ ہے!
b سیرتِ محمدکی جامعیّت
حضرات! محبت ِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے ہر مذہب یہی بتاتا ہے کہ اس کے بانی کی نصیحتوں پر عمل کیا جائے۔ اسلام نے ایک بہتر تدبیر بتائی ۔ اس نے اپنے پیغمبر کا عملی نمونہ سب کے سامنے رکھ دیا اور اللہ کی محبت اس عملی نمونہ کی پیروی سے مشروط کر دی۔
کسی مذہب کے حلقہ ٔ اطاعت میںشامل اشخاص مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں حکمران، رعایا، سپہ سالار، سپاہی، فاتح، مفتوح، جج، مفتی، غریب، دولتمند، عابد، زاہد، مجاہد، اہل وعیال، دوست و احباب، تاجر، خریدار، امام، مقتدی، اُستاد، شاگرد، جوان، بچے، شوہر اور باپ سب شامل ہیںجنہیں عملی نمونہ کی ضرورت ہے۔ اسلام اُنہیں اتباعِ سنّت ِ نبوی کی دعوت دیتا ہے۔ پیغمبر ِ اسلام ﷺ کی سیرت میں ہر انسان کے لیے نمونے اور مثالیں ہیں ۔
انسان مختلف لمحوں میں مختلف افعال کرتا ہے: چلنا، پھرنا، اُٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ہنسنا، رونا، پہننا، اُتارنا، نہانا، دھونا، لینا، دینا، سیکھنا، سکھانا، مرنا، مارنا، مہمان بننا، میزبانی کرنا، عبادت، کاروبار، راضی ہونااور ناراض ہونا، خوش اور غمزدہ ہونا، کامیاب اور ناکام ہونا، شجاعت، بزدلی،غصہ، رحم،سخت گیری، نرم دلی، انتقام، معافی، صبر، شکر، توکل، رضا، قربانی و ایثار ،عزم واستقلال، قناعت واستغنا، تواضع وانکساری، نشیب و فراز اور بلند و پست وغیرہ ان تمام افعالِ انسانی اور احساسات ِ قلبی کی راہنمائی کے لیے ایک عملی نمونہ کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا عملی نمونہ جس میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی صرف شجاعانہ قوتیںیا سیدنا عیسیٰ علیہ اسلام کا صرف نرم اخلاق ہی نہ ہو بلکہ یہ دونوں صفات معتدل حالت میں موجود ہوں۔ سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا موسیٰ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام، سیدنا سلیمان، سیدنا داؤد، سیدنا ایوب، سیدنا یونس سیدنا یوسف اور سیدنا یعقوب علیہم السلام سب کی زندگیاں سمٹ کر محمدرسول اللہ ﷺ کی سیرت میں سما گئی ہیں۔
دوستو!دنیا میں دو طرح کی تعلیم گاہیں ہیں: ایک وہ جہاں صرف ایک فن جیسے میڈیکل، انجینئرنگ، آرٹ، تجارت، زراعت، قانون یا عسکری تعلیم دی جاتی ہے۔ دوسری یونیورسٹیاں ہیں جو ہر قسم کی تعلیم کا انتظام کرتی ہیں۔ صرف ایک ہی فن اور علم جاننے والوں سے انسانی سوسائٹی مکمل نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ان سب کے مجموعہ سے کمال کو پہنچتی ہے۔
آؤ! اب اس معیار سے مختلف انبیاے کرام کی سیرتوں پر غور کریں۔ سیدنا موسیٰ علیہ اسلام کی تعلیم گاہ میں صرف فوج کے افسرو سپاہی، قاضی اور کچھ مذہبی عہدیدار ملتے ہیں اور سیدنا عیسیٰ علیہ اسلام کے مکتب میں چند زاہد فقرا فلسطین کی گلیوں میں ملیں گے۔
لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاںاصمحہ حبشہ کا نجاشی بادشاہ، عامر بن شہر رضی اللہ عنہ ہمدان کا رئیس، بلال رضی اللہ عنہ جیسے غلام اور سمیّہ رضی اللہ عنہا جیسی لونڈیاں سب ہیں۔ ملکوں کے فرمانروا، دنیا کے جہانبان، عقلاے روزگار اور اسرارِ فطرت کے محرم اس درسگاہ سے تعلیم پا کر نکلے ہیں۔ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ ہیں جن کی مشرق سے مغرب تک فرمانروائی اور عدل و انصاف کے فیصلے ایرانی دستور اور رومی قانون کو بے اثر کر دیتے ہیں۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ دنیا کے فاتح اعظم اور سپہ سالار اکبر ثابت ہوتے ہیں۔ سیدناعمر، سیدناعلی ،سیدنا ابن عباس، سیدناابن مسعود ، سیدناعبداللہ بن عمرو بن العاص،سیدہ عائشہ، سیدہ اُمّ سلمہ ،سیدنا اُبی بن کعب ، سیدنامعاذ بن جبل اورسیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ جیسے فقہا نے دنیاکے قانون سازوں میں بلند درجہ پایا۔
ستر صحابہ اکرام پر مشتمل اہل صفہ جن کے پاس مسجدِنبوی کے چبوترہ کے سوا کوئی اورجگہ نہیں تھی، دن کو مزدوری کرتے اور رات عبادت میں گزارتے تھے۔ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے دربار ِ رسالت سے 'مسیحِ اسلام کا خطاب پایا۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ زہد و تقویٰ کی تصویر ہیں۔ بہادر کارپردازوں اور مدبّرین میں طلحہ رضی اللہ عنہ، زبیر رضی اللہ عنہ، مغیرہ رضی اللہ عنہ، مقداد رضی اللہ عنہ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہیں۔ سمیّہ رضی اللہ عنہا، یاسر رضی اللہ عنہ اور خبیب رضی اللہ عنہ جیسے بے گناہ مقتول ہیں جنہوں نے جانیں قربان کر دیں مگر حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ بلال رضی اللہ عنہ، خباب رضی اللہ عنہ، عمار رضی اللہ عنہ، زبیر رضی اللہ عنہ، سعید رضی اللہ عنہ بن زید جیسے بھی ہیں جنہوں نے کفارِ مکہ کے مظالم برداشت کیے۔
میرے عزیزو! درسگاہیں اپنے شاگردوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ تعلیم انسانی کی ان درسگاہوں کا جن کے اساتذہ انبیا کرام ہیں، جائزہ لیں تو کہیں دس بیس، کہیں ساٹھ ستر، کہیں سو دوسو، کہیں ہزار دوہزار اور کہیں پندرہ بیس ہزار طالب علم آپ کو ملیں گے۔ جب مدرسہ نبوت کی آخری تعلیم گاہ کو دیکھیں گے تو ایک لاکھ سے زیادہ طلبا بیک وقت نظر آئیں گے۔ دوسری نبوت گاہوں کے طلبہ کہاں کے تھے، کون تھے،اُن کے اخلاق وعادات و دیگر سوانح زندگی کیا تھے؟ اس کا کوئی جواب نہیں مل سکتا۔ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی درسگاہ کے ہر طالب علم کی ہر چیز معلوم ہے۔ اس درسگاہ کے بانی کی دعوت جامع اور عالمگیر تھی کہ نسلِ آدم کا ہر فرزند اور ارضِ خاکی کا ہر باشندہ اس میں داخل ہوا یا داخلہ کے لیے اسے آواز دی گئی۔
تورات کے انبیا عراق یا شام یا مصر سے آگے نہیں بڑھے۔ عربوں کے قدیم انبیا بھی اپنی قوموں سے باہر نہیں گئے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے مکتب میں بھی غیر اسرائیلی طالب علم کا وجود نہیں تھا۔ ہندوستان کے داعی آریہ ورت سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اگرچہ بدھ کے پیروؤں نے بدھ مت دوسری قوموں تک پہنچایا مگر یہ عیسائیوں کی طرح بعد کے پیروؤں کا فعل تھا۔
اب ذرا محمد رسول اللہ ﷺ کی درسگاہ دیکھیں: ابوبکر و عمر ، عثمان و علی رضی اللہ عنہم مکہ کے، ابوذر اور انس رضی اللہ عنہم تہامہ کے، ابوہریرہ اور ابوموسیٰ اور معاذ رضی اللہ عنہم یمن کے، منذر بحرین کے، عبید رضی اللہ عنہ و جعفر رضی اللہ عنہ عمان کے، فردہ رضی اللہ عنہ شام کے، بلال رضی اللہ عنہ حبشہ کے، صہیب رضی اللہ عنہ روم کے اورسلمان رضی اللہ عنہ ایران کے رہنے والے ہیں۔ پیغمبر اسلام ۶ھ میں تمام قوموں کے سلاطین اور حکمرانوں کے نام دعوت ِ اسلام کے خطوط بھیجتے ہیں۔ درسگاہ ِ محمدی میں یہ جامعیّت نمایاں ہے کہ اس میں داخلہ کے لیے رنگ، وطن، نسل اور زبان شرط نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے داخلہ کھلاہے۔
دوستو! آپ نے درسگاہ ِ محمدی کی پوری سیر کر لی جس میں آپ نے ہر رنگ اور ہر ذوق کے طالب علم دیکھے۔ آپ نے کیا فیصلہ کیا ؟ اس کے سوا کیا فیصلہ ہو سکتا ہے کہ محمد رسول اکرمﷺکی ذات انسانی کمالات اور صفات ِ حسنہ کا کامل مجموعہ تھی۔ آپ کا وجودِ مبارک ایک ابرِ باراں تھا جو پہاڑ، جنگل، میدان، کھیت، ریگستان اور باغ ہر جگہ برستا تھا اور ہر ٹکڑا اپنی اپنی استعداد کے مطابق سیراب ہو رہا تھا اورقسم قسم کے درخت اور رنگارنگ پھول اور پتے اُگ رہے تھے۔
b سیرتِ محمدکی عملیّت :
عزیز جوانو! یہ انبیاے کرام اور بانیانِ مذاہب کی موجودہ سیرتوں کا وہ باب ہے جو تمام تر خالی اور سادہ ہے، لیکن محمدعربیﷺ کی سیرت کا یہی باب سب سے بڑا اَور ضخیم ہے۔ سیرتِ محمدی کا روشن ترین پہلو یہ ہے کہ آپ نے بطورِ پیغمبراپنے پیروکاروں کو جو نصیحت فرمائی، اس پر پہلے خود عمل کرکے دکھادیا۔
عام پیروکاروں کو دن میں پانچ وقتوں کی نمازوں کا حکم تھا، مگر آپ ﷺنے آٹھ وقت نماز پڑھی۔ عام مسلمانوں پرروزو شب میں سترہ رکعتیں فرض ہیں، مگر آپ ہر روز کم و بیش پچاس ساٹھ رکعتیں اَدا فرماتے تھے۔ پنجگانہ نمازیں فرض ہونے کے بعدنمازِ تہجد مسلمانوں کو معاف ہو گئی تھی مگر آپ اسے تمام عمر ہر شب اَدا فرماتے رہے۔مکہ میںکئی دفعہ دشمنوں نے دورانِ نماز آپ پر حملہ کیا۔ دشمنوں کے خلاف معرکوںحتی کہ مرض الموت میں بھی آپ کی نماز ترک نہ ہوئی۔ ساری زندگی میں صرف دو مرتبہ نماز قضا ہوئی۔
آپﷺ نے روزہ کا حکم دیا۔ مسلمانوں پر سال میں تیس روزے فرض ہیں، مگر آپ کا کوئی ہفتہ اور کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ جاتا تھا۔ آپ دو دو تین تین دن بغیر کھائے پیئے متصل روزہ رکھتے تھے۔
آپ نے زکوٰۃ اور خیرات کا حکم دیا تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ جو کچھ آیا، سب اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔ فتح خیبر کے بعد سال بھر کا غلّہ ازواجِ مطہرات کو دے دیا جاتا تھا مگر سال ختم ہونے سے پہلے وہ ختم ہو جاتا،اس لیے کہ اس کا بڑا حصہ اہل حاجت کی نذر کر دیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ بحرین سے خراج کامال آیا۔ فرمایا: مسجد میں ڈال دو۔ صبح نماز کے بعد ڈھیر کے پاس بیٹھ گئے اور تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ جب سب ختم ہو گیا تو دامن جھاڑ کریوں کھڑے ہوگئے کہ یہ گویا غبار تھا جو دامن پر پڑ گیا تھا۔ ایک دفعہ نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد خلافِ معمول فوراً تشریف لے گئے او ر پھر باہر آئے۔ پوچھنے پر فرمایا: ’’مجھے نماز میں یاد آیا کہ سونے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا گھر میں پڑا ہے، خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ رات آ جائے اور وہ محمد کے گھر پڑا رہ جائے‘‘
آپ نے زہد و قناعت کی تعلیم دی تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ فتوحات کی وجہ سے جزیہ، زکوٰۃ، عشر اورصدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے مگر آپ کے گھر میں وہی فقر و فاقہ تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺرحلت فرماگئے مگرآپ کو دو وقت بھی سیر ہو کرکھانا نصیب نہ ہوا۔ آپ کی رہائش ایک کمرہ تھی جس کی دیوار کچی اور چھت کھجور کے پتوں اور اونٹ کے بالوں سے بنی تھی۔ آپ کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جو بدنِ مبار ک پر کپڑا ہوتا تھا، اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہی نہیں تھا جو تہہ کیا جاتا۔
آپ نے مساوات کی تعلیم دی۔ آپ نے خود مساوات، اخوتِ انسانی، اور جنسِ انسانی کی برابری کی یہ عملی مثال پیش کی کہ ایک غلام کو اپنا فرزندِ متبنٰی بنایا، اپنی پھوپھی زاد بہن کو ایک غلام سے بیاہا اور مطلّقہ عورتوں سے شادی کی۔
آپ نے ایثار کی تعلیم دی توایثار میں بھی اپنا نمونہ پیش کیا۔آپ کے پاس چادر نہیں تھی۔ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہانے چادر لاکر پیش کی۔کسی نے کہا: کتنی اچھی چادرہے۔ آپ نے چادر فوراً اُتار کر اسے دے دی۔
عزیزو! آؤ دشمنوں کو پیار کرنے کی عملی مثال پیغمبر اسلام ﷺمیں آپ کو دکھاؤں۔ مکی حالات چھوڑتا ہوں کہ محکومی، بیکسی اور معذوری، عفوودرگذر اور رحم کے ہم معنی نہیں ہوتے۔ ہجرت کے وقت سو اُونٹ کے لالچ میں محمد ﷺکاتعاقب کرنے والے سراقہ رضی اللہ عنہ کی جان بخشی کر دی۔ کفار کے سرغنہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے دن معافی مل گئی۔ سب سے بڑے دشمن ابوجہل کے بیٹے عکرمہ رضی اللہ عنہ آئے تو فرمایا: '’’اے مہاجر سوار! تمہارا آنا مبارک‘‘۔یہ اسے کہاگیا جس نے آپ ﷺ پر نجاست ڈلوائی، حالت ِنماز میں آپ پر حملہ کیااور آپ کے گلے میں چادر ڈال کر قتل کرنا چاہا۔ پیغمبر اسلام کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے قاتل ہبار بن الاسود کو معاف کر دیاگیا۔ زہر بجھی تلوار سے قتل کے لیے آنے والا عمیر بن وہب گرفتار ہونے پر رہا کر دیاجاتا ہے۔ آپ ﷺنے آپ پر پتھر برسانے والوں، آپ کادانت شہید اور چہرہ خون آلود کرنے والوں کے لیے دعاکی۔
آپ کو جھٹلانے، گالیاں دینے، راستے میں کانٹے بچھانے اور غریب و بیکس مسلمانوں کو ستانے والے سردارانِ قریش فتحِ مکہ کے دن صحنِ حرم میں سرجھکائے سامنے بیٹھے تھے۔ پیچھے دس ہزار خون آشام تلواریں محمد رسول اللہ کے ایک اشارہ کی منتظر تھیں، لیکن وہ سب معاف کر دیئے گئے۔
میرے دوستو!کیا پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ ﷺکے سوا،انسانی تاریخ میں ایسی عملی ہدایتوں اور کامل مثالوں کا کوئی اور نمونہ کہیں نظر آتا ہے۔
-----
الحمد للّٰہ الذی انزل علٰی عبدہ الکتاب ولم یجعل لہ عوجا، وصلّی اللّٰہ وسلّم علٰی من کانت حیاتہ واخلاقہ للقرآن تطبیقا قولا وعملا وخُلقا
امّا بعد: الحمدللہ ۱۴۳۲ھ کے بعدمیری کتاب ’’قواعد ِقرآنیہ‘‘ کئی بار شائع ہو چکی ہے۔ زیرنظر کتاب اسی کا خلاصہ ہے، جسے میں قارئین ِ کرام کی خدمت ُمیں پیش کر رہا ہوں۔ کیونکہ کئی حضرات نے بار بار مطالبہ کیا کہ اصل کتاب کو مختصر کیاجائے،تاکہ اِسے مساجد میں پڑھنے میں آسانی ہواور جو زبانیں مسلمان بولتے ہیں اُن زبانوں میں اِس کا ترجمہ کیا جا سکے۔ اور اس لیے بھی اختصار کر دیا کہ اصل کتاب میںبعض لمبی لمبی تفصیلات ہیں، مثلاً لغت اور بلاغت سے متعلقہ بحثیں ہیں، جسے صرف عربی کاماہر ہی سمجھ سکتا ہے، یا پھر جو شخص معانی میں تفصیلات کا خواہش مند ہو وہ سمجھ سکتا ہے۔ البتہ قواعد ِقرآنیہ میں بیان ہونے والی مثالوں میں سے چند ایک کو ضرور ذکر کردیا ہے۔
جو شخص حوالوں کے بارے میںتسلی کرنا چاہے میں اُسے اصل کتاب دیکھنے کامشورہ دوں گا، زیر نظر کتاب میں تفصیلی حوالوں کو بھی حذف کر دیا ہے، البتہ احادیث کے حوالوں کو اختصار کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی جناب میں التجا کرتا ہوں کہ میری محنت کو قبول فرمالے اور جو بھی اس کو پڑھے اور اس کو عام کرنے میں حصہ ڈالے،ان سب کو نفع پہنچائے ۔ والحمد للّٰہ ربّ العالمین
پہلا اصول:
وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا [البقرة: 83]
’’اور لوگوں سے اچھی بات کرو!‘‘
جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے ‘مل جل کررہنا انسان کی فطرت کا حصہ ہے اور روزانہ مختلف قسم کے معاملات کو نمٹانے کی خاطر لوگوں سے ملنا اس کی مجبوری ہے۔ اور ان لوگوں کی عقل وسمجھ اوراخلاق بھی مختلف ہوتے ہیں۔ چنانچہ کبھی اچھی بات سنتا ہے اور کبھی برُی،اور کبھی ایسی بات سننی پڑتی ہے جس سے اس کو غصہ آجاتا ہے۔ ایسے موقع پر زیرنظر اصول کی ضرورت پیش آتی ہے (اور لوگوںسے اچھی بات کرو) تاکہ زبان سے متعلقہ معاملات کو قابو میں لایا جا سکے۔
اس اصول کو قرآنِ کریم میں کئی جگہ تکرار کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَقُل لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُـوا الَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ
’’اور میرے بندوںسے کہہ دیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالیں۔‘‘(بنی اسرا ئیل:۵۳)
اوراسی کے قریب ترین اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اہل ِ کتاب سے بھی بحث و مباحثہ ہو تو عمدہ طریقے سے کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تُجَادِلُوْا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ (العنکبوت:۴۶)
’’اوراہل کتاب کے ساتھ بحث و مبا حثہ نہ کرو،مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو، سوائے ان کے جوان میں ظالم ہیں۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ:۸۳)
’’اورلوگوںسے اچھی بات کرو۔‘‘بنی اسرائیل کو جو متعدد احکام دیے گئے اس ضمن میں یہ حکم آیا تھا ۔
سورۃ البقرہ مدنی سورت ہے، جبکہ اس سے پہلے مکی سورت میں یہ عمومی حکم بایں الفاظ آچکا تھا:
وَقُل لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ
’’اور میرے بندوںسے کہہ دیجیے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالیں۔‘‘ (بنی اسرا ئیل:۵۳)
اب ہمارے سامنے مضبوط اور واضح احکام ہیں، اِن میں سے کسی چیز کو مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا، البتہ اہل ِ کتاب کا معاملہ الگ ہے کہ بحث و مباحثہ کی صورت میں ان سے سخت بات کی جاسکتی ہے، جس کی تفصیل ودلیل گزر چکی ہے۔
ہمیں اس قاعدے کی اکثر ضرورت رہتی ہے، بالخصوص جب ہمیں معاملات نمٹانے میں مختلف قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے،اِن میں مسلمان بھی ہوتے ہیں اورکافر بھی، اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، کوئی بڑا ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا۔ بلکہ اچھی بات کی تو ہمیں اپنے قریبی رشتہ داروں سے معاملہ کرتے وقت ہمیشہ ضرورت رہتی ہے، جیسے کہ والدین، خاوند، بیوی اور اولاد، حتیٰ کہ جوملازم وغیرہ ہماری خدمت کر رہے ہوتے ہیں ان کے ساتھ بھی اچھی بات کی ضرورت رہتی ہے ۔
اے مؤمن ! جب تم قرآن کا مطالعہ کرو گے تو تمہیں بہت سارے مواقع پر نظر آئے گا کہ قرآن نے اس امر کی تاکید کی ہے۔ اس قاعدے کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
1 والدین کے ساتھ معاملہ کرتے وقت :
وَلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلاًكَرِيمًا [الإسراء: 23]
’’اورنہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا،بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام کے ساتھ بات چیت کرنا۔‘‘
2 ضرورت مند مانگنے والے سے بات چیت کرتے وقت:
فرمایا: وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْهَر [الضحى: 10]
’’اور نہ سائل کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔‘‘
3جب انسان کے پلے ایسے لوگ پڑجائیں جن میں ادب واحترام کی کمی ہو:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوْا سَلٰمًا
’’اور جب کم علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگیں تو وہ کہہ دیتے ہیںکہ سلام ہے!‘‘[الفرقان: 63]
یعنی وہ لوگ اہل جہالت اور کم عقل لوگوں سے منہ پھیر لیتے ہیں، یا پھر اچھے لفظوں سے جواب دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے، بلکہ اس طرح کی بحثوں میں پڑ کر اپنی محنت اوروقت کو ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
جب انسان دیکھتا ہے کہ قرآنِ حکیم کو ماننے والی امت اس قاعدے پر عمل کرنے میں شدید کوتاہی کا شکار ہے تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ اور اس کوتاہی کی بہت ساری شکلیں ہوتی ہیں:
۱)غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت: قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والے پرلازم ہے کہ وہ اپنے دل سے پوچھے کیا ہم مسلمان اس بات کے زیادہ حق دار نہیں کہ عیسائیوں سے زیادہ اس قاعدے پر عمل کریں؟ یہ لوگ اچھی بات کی بہت زیادہ کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اپنے دین کی طرف کھینچ کر لے آئیں، جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے آنے کے بعد منسوخ کر دیا ہے۔ کیا اہل اسلام اس قاعدے پر عمل کے زیادہ حق دار نہیں ہیں تاکہ لوگوں کو اس عظیم دین کی طرف لے آئیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرما لیا ہے؟
۲)والدین کے ساتھ معاملہ کرنے میں ۔
۳)زندگی کے ساتھی(خاوند /بیوی)کے ساتھ معاملہ کرنے میں۔
۴)اولاد کے ساتھ معاملہ کرنے میں۔
۵)ملازمین اور خدمت گاروں کے ساتھ معاملہ کرنے میں۔
دوسرا اصول:
یہ ایک عظیم اصول ہے جس کاہر مسلمان کی زندگی میں خاصا بڑا اثر ہے بشرطیکہ اسے یہ بات سمجھ آجائے کہ ایمانیات کا اِس اصول سے بڑا گہرا رشتہ ہے۔ جان لیں اس کا نام ہے ’’قضاوقدر‘‘ پر ایمان لانا۔
یہ اصول اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے سلسلے میں بیان ہوا ہے،جو سورۃ البقرہ میں آیا ہے۔ فرمایا:
وَعَسٰی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّہُوَشَرٌّ لَكُمْ [البقرة: 216]
’’اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بُری جانو، اوردراصل وہی تمہارے لیے بھلی ہو،اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کواچھی سمجھو،حالانکہ وہ تمہارے لیے برُی ہو۔ حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بے خبر ہو۔‘‘
اسی قسم کی بات سورۃ النسا ء میں عورتوں سے جدائی کے حوالے سے بھی بیان ہوئی ہے،فرمایا:
فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا كَثِيرًا [النساء: 19]
’’گو تم انہیںناپسندکرو،لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کوبُراجانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کردے۔‘‘
اس اصول کی مختصرسی وضاحت:
ہوتا یہ ہے کہ بسا اوقات انسان پر تکلیف دہ تقدیر کا فیصلہ آجاتا ہے، جو اس کے دل کو ناپسند ہوتا ہے ۔چنانچہ کبھی تو وہ گھبرا جاتا ہے یا غمگین ہو جاتا ہے۔ اس کا گمان ہوتا ہے کہ اس کی ساری اُمیدوں کا جنازہ نکل گیا ہے یا اس کی زندگی ہی ختم ہو گئی ہے۔ اچانک حالات پلٹا کھاتے ہیں اور یہی تکلیف دہ تقدیر اس کے حق میں رحمت بن جاتی ہے، اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی۔
اور اس کا اُلٹ بھی ہو جاتا ہے۔ کتنے ہی انسان ایسے ہوتے ہیں جو کسی مقصد کی خاطر محنت کرتے ہیں کہ بظاہر اس میں خیر ہے اور اس کو پانے کے لیے آخری حد تک کوشش بھی کرتے ہیں، قیمتی سے قیمتی چیزکوحصولِ مقصد کے لیے خرچ کر ڈالتے ہیں اور نتیجہ بالکل اُلٹ نکلتا ہے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی تو دل کو اس بات پر پختہ کر لوکہ اس قرآنی اصول پر زندگی گزارنے سے انسان کا دل اطمینان اور سکون سے بھر جاتا ہے، اور جس بے قراری نے لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے یہ اس کو ختم کردیتا ہے، یہ پریشانی خواہ کسی حادثے کی وجہ سے آئی ہو یا کسی بھی دن کی تکلیف دہ تقدیر کی وجہ سے ہو ۔
اگر ہم قرآنِ کریم میں مذکور واقعات پر غور کریں یا تاریخ کے اوراق پلٹیں یا اپنے ارد گرد کے حالات کا جائزہ لیں تو بہت سارے عبرت ناک واقعات ملیں گے۔ ہم چند ایک کا تذکرہ کرتے ہیں تاکہ ہر غمگین آدمی کے لیے تسلی کا سامان ہو جائے اور ہر غم زدہ دل کے زخم کے لیے مرہم بن جائے۔
1سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی والدہ ماجدہ کااپنے بیٹے (سیدنا موسیٰ علیہ السلام)کو سمندر میں ڈالنے کا واقعہ: جب آپ اس معاملے پر غورکرو تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے فرعونیوں کے ہاتھ لگنے کی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو کس قدر تکلیف ہو سکتی تھی۔ اس سب کے باوجود کہ اس کے نتائج کس قدر اچھے تھے اورمستقبل میں اس کے کتنے فائدے سامنے آئے۔
یہ قاعدہ بیان کرنے کے بعد آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ [البقرة: 216]
’’اور اللہ کو خوب پتا ہے اور تمہیں کچھ معلوم نہیں!‘‘
2سیدنا یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کا واقعہ : غور کرو گے تو معلوم ہو گا کہ مذکورہ بالا آیت سیدنا یوسف علیہ السلام اور آپ کے والد گرامی سیدنا یعقوب علیہ السلام کے واقعہ پر پوری طرح صادق آتی ہے۔
3 اُس لڑکے کا واقعہ جسے اللہ تعالیٰ کے حکم سےسیدنا خضر علیہ السلام نے قتل کر دیا تھا: اُنہوں نے قتل کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا:
وَاَمَّا الْغُلٰـمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَا اَنْ یُّرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًافَاَرَدْناَ اَنْ یُّبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًاً مِّنْہُ زَکٰوۃً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا [الكهف: 81]
’’اور اُس لڑکے کے ماںباپ ایمان والے تھے، ہمیںخوف ہوا کہ کہیںیہ انہیں اپنی سرکشی اور کفرسے عاجزوپریشان نہ کر دے۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ انہیں اِن کا پروردگار اِس کے بدلے اس سے بہتر پاکیزگی والا اور اس سے زیادہ محبت اورپیاروالا بچہ عنایت فرمائے۔‘‘
یہاں کچھ دیر ٹھہر کر ہم غور کر لیںکتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کی تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے اولاد نہیں لکھی۔ اس وجہ سے اُن کو پریشانی بھی ہوتی ہے اور یہ فطری بات ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا غم ان کو نڈھال کیے رکھے اور محرومی کا احساس غالب رہے اور اس طرح وہ دنیا کا کوئی کام نہ کر پائیں۔
جس شخص کے ہاں اولادنہ ہو وہ اس آیت پر غور کر لے،صرف اس لیے نہیں کہ اس کا غم دور ہو جائےبلکہ اس لیے کہ اس کے دل کو اطمینان آجائے اور اسے انشراحِ صدر ہو جائے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیرکو اپنے حق میں رحمت سمجھے اور اسے دل سے مان لےاور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی وجہ سے اسے اس نعمت سے محروم کیا ہے۔ اسے کیا خبراگر اس کے ہاں اولاد ہو تی تو یہ اولاد اپنے والدین کی بدبختی کا سبب بن جاتی اور انہیں پریشان کرتی ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیتی اور ان کی نیک نامی کو بٹہ لگا دیتی!
4 حدیث میں آیا ہے کہ جب سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے خاوند کا انتقال ہو گیا، تو اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ، فَیَقُولُ مَا أَمَرَهُ اللّٰهُ:[إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ][البقرة: 156]
اللهُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی، وَأَخْلِفْ لِی خَیْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَخْلَفَ اللهُ لَهُ خَیْرًا مِنْهَا
’’جس مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم مطابق کہے:
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِنْھَا
ہم سب اللہ تعالیٰ کے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ اے اللہ ! میری مشکل پر مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس کے بدلے میں بہتر عطا فرما!) تو اللہ تعالیٰ اسے اس (گم ہونے والی چیز) سے بہتر عطا کر دیتا ہے۔‘‘
سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو میں نے ( دل میں) کہا : کونسا مسلمان ابو سلمہ سے بہترہو سکتا ہے؟ ابو سلمہ کا گھرانہ سب سے پہلے ہجرت کرکے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔پھر میں نے آپ ﷺ کی سکھائی ہوئی دعا کہہ لی تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو میرے نصیب میں لکھ دیا۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز:ح ۹۱۸)
اس احساس پر غور کریں جو سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو لاحق ہوا۔ اور اس طرح کا احساس اُن عورتوں کو پریشان کرتا ہے جو ایسے رشتوں کو کھو بیٹھتی ہیں جن سے اُن کا اسی دنیوی زندگی میں گہرا رشتہ ہوتا ہے اور زبانِ حال سے کہہ رہی ہوتی ہیں کہ میرے خاوند سے بہتر کون ہوسکتا ہے؟ جب سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے شریعت کے حکم کے مطابق صبر کیا۔
اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ [البقرة: 156]
پڑھا اور مسنون دعا پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے اتنا خوبصورت نعم البدل عطا فرمایا، جس کا انہوں نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا تھا ہر مؤمن عورت کا یہی کردار ہونا چاہیے کہ وہ اپنی خوش قسمتی کوچھوٹا نہ کر لے اور نہ ہی اسے زندگی کے دروازوں میں سے کسی ایک دروازے یا چوکھٹ کے ساتھ باندھ لے۔ یہ بات صحیح ہے کہ وقتی غم اور مصیبت سے سب کو سابقہ پیش آتا ہے، انبیاء و رُسل علیہم السلام اس سے محفوظ نہیں رہے۔ نامناسب بات صرف یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی اور اس کی خوشیوں کو کسی ایک چیز کے ساتھ جوڑ لے، یا کسی مرد، عورت یا استاد سے نتھی سمجھ لے۔
5ارد گرد میںپھیلے ہوئے واقعات کو دیکھیں، اگرچہ وہ بہت زیادہ ہیں، بر سبیل ِ مثال ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں کہ ایک آدمی ایئر پورٹ پر آیا۔ وہ تھکا ہوا تھا اور سو گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ جہاز پرواز کر گیا۔ اس جہاز میں تین سو سے زیادہ مسافر تھے۔ جب اس مسافر کی آنکھ کھلی تو جہاز تھوڑی دیر پہلے جا چکا تھا اور اس کا سفر رہ گیا۔ اسے سخت پریشانی اور شدید شرمندگی ہوئی۔ اس صورتِ حال پر چند ہی منٹ گزرے تھے کہ اس جہاز کے گرکر تباہ ہونے کی خبر آگئی، جس میں تمام لوگ جل کر مر گئے۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے : کیا پرواز کا نکل جانا اس آدمی کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوا؟ لیکن عبرت حاصل کرنے والے اور نصیحت پانے والے کہاں ہیں؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بھر پور توکل کرے اور جائز اسباب کا ممکنہ حد تک استعمال بھی کرے۔ اس کے باوجود اگر نتیجہ مرضی کے خلاف نکل آئے تو قرآنِ کریم میں بیان ہونے والے اس اصول کو یاد کر لے:
وَعَسٰی اَنْ تَکْرَہُوْاْ شَیْئًا وَّہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْج وَعَسٰی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْـتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ [البقرة: 216]
’’اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بُری جانو اوردراصل وہی تمہارے لیے بھلی ہو،اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کواچھی سمجھو،حالانکہ وہ تمہارے لیے برُی ہو۔ حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بے خبر ہو۔‘‘
تیسرا اصول
وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْ [البقرة: 237]
’’تم آپس میں اعلیٰ اخلاق کو مت بھولو!‘‘
یہ آیت ِ کریمہ اخلاقیات کے اصولوں میں سے ایک اہم اصول کو بیان کر رہی ہے اور اس دین کی عظمت کو بیان کر رہی ہے اور بتارہی ہے کہ یہ دین ہر چیز کو شامل ہے اور اس کے اصول بہت عظیم ہیں۔ سورۃ البقرہ میں احکام ِ طلاق کے ضمن میں یہ آیت آئی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِیضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَ الَّذِی بِیَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ [البقرة: 237]
’’اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے ’’انہیںہاتھ لگایا ہو،اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کر دیا ہو،تومقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو۔یہ اوربات ہے کہ وہ خود معاف کر دیں یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔ تمہارا معاف کر دینا تقویٰ کے بہت قریب ہے، اور آپس میں اعلیٰ اخلاق کو مت بھولو، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے ۔‘‘
اس اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو حکم دے رہا ہے جن کو ایسے رشتے نے آپس میں جوڑ دیا تھا جو انسانی تعلقات میں سب سے زیادہ پاکیزہ رشتہ ہے،یعنی میاں بیوی کا رشتہ،کہ وہ جدائی اور دوری کے موقع پر بھی اپنے سابقہ تعلقات اور رشتہ کو مت بھولیں۔
پہلے ترغیب دی کہ معاف کر دیا جائے، چنانچہ فرمایا:
اِلاَّ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ عُقْدَةُ النِّكَاحِ
’’یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کر دیں یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے‘‘ اور اس کے بعد مذکورہ بالا قاعدہ بیان کیا، اور یہ سب ا س لیے کیا کہ معاف کرنے کی تر غیب ہواور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے ۔ (البقرة: 237)
عام طور پر میاں بیوی کے رشتے میں روشن پہلو غالب رہتے ہیں اور دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی خاطر قربانی دیتے ہیں۔ پھر اگر کسی موڑ پر پہنچ کر معاملہ طلاق تک آجائے تو اب یہ نہیں بھول جانا چاہیے کہ اس میاں بیوی کے جوڑے میں وفا شعاری اور اعلیٰ اخلاق کا رشتہ بھی تھا۔ اگرچہ بدن ایک دوسرے سے دور ہو گئے ہیں، لیکن اخلاقی تعلق تو باقی ہے، اور اس قسم کے پیش آنے والے حالات ان اخلاقی قدروں کو ختم نہیں کر سکتے ۔
معاف کر دینے کا نتیجہ کس قدرعظیم ہے کہ وہ دور ہونے والے کو نزدیک کر دیتا ہے اور دشمن کو دوست بنا دیتا ہے۔
جب لوگوں میں اعلیٰ اخلاق کی عادت پڑ جائے تو خطا کار کے لیے اپنے گناہ کا اعتراف کر لینا آسان ہو جاتا ہے اور حقدار کے لیے معاف کر دینا آسان ہو جاتا ہے۔ اور جب لوگ اپنے حقوق معاف نہ کریں تو نتائج بھی اُلٹ ہی نکلتے ہیں۔اگر میاں بیوی کے درمیان اس قاعدے کو اپنا لیا جائے یا ہر اُس شخص کے درمیان اختیار کر لیا جائے جس کے ساتھ ہمارا کسی بھی قسم کا تعلق ہے، تو زندگی خوبصورت ہو جائے۔وفا اوراعلیٰ ترین تعلقات کی چندجوڑوں نے نادرمثالیں چھوڑی ہیں، اگرچہ ان کے درمیان طلاق یا وفا ت کی وجہ سے علیحدگی ہو چکی تھی۔
ایک مثال پیش کرتا ہوں جو مجھے معلوم ہے،ممکن ہے نادر مثال ہو۔ ایک آدمی کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، اُس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جو اُس کے بچوں کی ماں بھی تھی۔ اُس نے اس طلاق یافتہ بیوی کو بچوں سمیت اوپر کی منزل میں رہائش دے دی اور خود نیچے والی منزل میں رہنے لگا، خود ہی بجلی اور ٹیلیفون کا بل دیتا، سارے گھر کا خرچہ برداشت کرتا۔ (معاملات اس قدر مثالی تھے کہ) اہل محلہ میں سے اکثر کو خبر ہی نہیں ہوئی کہ ان کے درمیان طلاق ہوچکی ہے۔ میرے خیال میں اس شخص نے قرآنِ کریم کے اس حکم کی عظیم مثال قائم کر دی ہے جس میں فرمایا گیا ہے:
وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْ [البقرة: 237]
’’اور آپس میں اعلیٰ اخلاق کو مت بھولو!‘‘
سیرت النبی ﷺ میں ایک عظیم مثال موجود ہے، اور آپﷺ کا توسارا کردار ہی قرآنِ کریم کی زندہ تفسیر تھی،کیونکہ آپ ﷺ نے قرآنِ کریم کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کر کے دکھایا تھا۔ ہوا یوں کہ آپﷺ طائف گئے اور وہاں کے لوگوں کو مہینہ بھر اسلام کی دعوت دیتے رہے، لیکن سوائے تکلیف اور پریشانی کے کچھ ہاتھ نہیں لگا، بالآخر مکہ مکرمہ تشریف لے آئے اور مطعم بن عدی کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر مطعم بن عدی نے اپنے چاروں بیٹوں کو حکم دیا، وہ مسلح ہو کر خانہ کعبہ کے چاروں کونوں پر کھڑے ہو گئے۔ جب قریشیوں کو اس بات کی خبر ہوئی تو انہوں نے مطعم سے کہا : ’’تم اس مقام کے آدمی ہو کہ جس کی پناہ کوتوڑانہیں جاسکتا۔‘‘
مطعم بن عدی حالت ِ شرک پر ہی مر گیا تھا، لیکن آپ ﷺ اس کا احسان نہیں بھولے، کیونکہ مطعم نے آپ ﷺ کو اُس وقت پناہ دی تھی جب چند لوگوں کو چھوڑ کر سارا مکہ آپ کا دشمن تھا۔ آپﷺ نے اس کے احسان کا اعتراف اُس وقت کیا جب غزوۂ بدر ختم ہو گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’آج اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتااور وہ ان غلیظ لوگوں (کافر قیدیوں) کے بارے میں سفارش کرتا تو میں اُس کی خاطر اِن سب کو چھوڑ دیتا۔‘‘ (صحیح البخاری؍۳۹۷۰)
حدیث کا معنیٰ یہ ہے کہ اگر مطعم مجھ سے بغیر کسی معاوضے اور بدلے کے ان لوگوں کو چھوڑنے کا کہتا تو میں انہیں چھوڑ دیتا، کیونکہ اُس نے مجھے اپنی پناہ میں قبول کیا تھا تو میں اس کے احسان کا بدلہ چکا دیتا۔ لوگوں کو بھلائی سکھانے والی ذات (محمدﷺ) پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہزاروں صلاۃ وسلام ہوں۔
ہماری روزانہ کی زندگانی میں اس قاعدے کو نافذ کرنے شکلیں:
1 کام کے مقام پر لوگوں سے تعلقات: سرکاری نوکری ہو یا نجی اداروں میں ملازمت یا اپنی ذاتی تجارت،ہر شکل میں ہمیں دوسروں کے ساتھ اکٹھا ہونا ہوتا ہے۔ ایسا اتفاق ہوتا رہتا ہے کہ کوئی ساتھی کام سے فارغ کر دیا جاتا ہے،یا اپنی مرضی و اختیار سے وہ کام چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ہے۔ اِن حالات میں مذکورہ بالا قاعدے پر عمل کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ چنانچہ دونوں فریقوں کو اعلیٰ اخلاق کو فراموش نہیں کر دینا چاہیے۔ کیا ہی خوبصورت بات ہو کہ اگر ایک ساتھی یہ بات برملا کہہ دے کہ ایک وقت تک مل جل کر کام کرنے کے بعد اگرچہ ہم دور ہو گئے ہیں، لیکن اس جدائی کا یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ ہم باہمی محبت واحترام بھی بھول جائیں اور مشترکہ مفادات میں تعاون کو ترک کر بیٹھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو افراد یا ادارے جانے والے ساتھی کے احترام میں اعزازی یاالوداعی پارٹی دیتے ہیں اور اس اصول پر عمل کر کے دکھاتے ہیں یقینا تم انہیں عظیم کہتے ہو۔ یہ ایسی خوشگوار یادیں ہوتی ہیں جو جانے والا بھول نہیں پاتا۔ اگر تم اس خوبصورت واقعے کے اثرات کو محسوس کرنا چاہتے ہو تو جو لوگ سرکاری محکموں میں یا نجی اداروں میںلمبے عرصے تک کام کرتے رہے ہوں اور جب وہ جا رہے ہوں اور کوئی ان کے بارے میں ایسا اہتمام نہ کرے، حتیٰ کہ شکریے کا سر ٹیفکیٹ تک نہ دیا جائے تو ان کی نفسیاتی حالت میں جو ٹوٹ پھوٹ آتی ہے اس کا ذرا اندازہ کر لیں۔
2 اپنے اساتذہ کے ساتھ وفا کرنا،اور طالب علم کے دل میں اچھے جذبات کا محفوظ رہنا۔ میں ذاتی طور پر ایک استادکو جانتا ہوں جو سعودی عرب کے ایک علاقے میں خدمات انجام دے رہا ہے، اُس نے وفا کی مثال قائم کی ہے۔ اُس نے نا صرف اپنے اساتذہ کے ساتھ حسن ِ معاملہ رکھا، بلکہ جب اُس کے استاد فوت ہوگئے تو آگے بڑھ کر ان کی اولاد کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا۔ تمہاری خوشگوار حیرت میں اضافہ ہوگا جب تمہیں یہ معلوم ہوگاکہ اس نے سعودی عرب سے باہر سے آنے والے اساتذہ سے بھی رابطہ رکھا، خواہ ان اساتذہ کا تعلق مصر،شام یا کسی دوسرے ملک سے تھا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کا بھلا کرے،اور امت میں اس جیسے وفا شعاروں کا اضافہ کرے۔
3 پڑوسیوں اور اہل مسجد کے ساتھ اعلیٰ اخلاق سے پیش آنا۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگوں ہیں کہ ہمیں اچھے اخلاق اوراچھے اعمال کی ہدایت دے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی اچھائی کی ہدایت نہیں دے سکتا، اور ہمیں برے اخلاق سے محفوظ رکھے، اور وہی برے اخلاق سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ (جاری ہے)
قرآن مجید کا تعارف:
اللہ تعالی نے ہمارے پیارے رسول ﷺ کو انتہائی بلند مقام عطا فرمایا اور مختلف معجزات (Miracles) سے نوازا۔ جن میں سب سے عظیم و سنہری معجزہ قرآن کریم ہے۔
قرآن کریم کا انتہائی مختصر تعارف اور خصوصیات درجِ ذیل ہیں:
1ـ قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے :
جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے:
وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ (التوبۃ: 6)
اور اگر ان مشرکوں میں سے کوئی آپ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دیجئے تاآنکہ وہ (اطمینان سے) اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے (کرنا چاہئے) کہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے۔
2ـ قرآن مجید اللہ کے پاس لوح محفوظ میں ہے:
فرمان الٰہی ہے:
بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ (آیت:22)
بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے، جو لوح محفوظ میں (درج ہے)۔
3ـ قرآن مجید کی حفاظت کی ضمانت خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:9)
بےشک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بےشک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں ۔
صرف قرآن مجید کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اللہ کی قدرت کاملہ کے ذریعہ قرآن کریم ہمیشہ محفوظ رہے گا۔
4ـ قرآن کریم انمول معجزہ ہے:
قرآن مجید اللہ کی طرف سے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا گیا ایک ایسا انمول معجزہ (Miracle) ہے جس کی زبان صرف نفیس ہی نہیں بلکہ عربی زبان کا شاہکار (Master piece)ہے، اسلوب بڑا نرالہ ہے، اور اثر انگیزی کا تو یہ عالم ہے کہ مشرکین مکہ بھی اس کے قائل تھے، نیز یہ معجزہ مستقل و ابدیہے ۔قرآن مجید جیسا کلام کوئی نہیں لا سکتا جیساکہ ارشاد الٰہی ہے:
قُلْ لَّیِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا (بنی اسرائیل:88)
کہہ دے اگر سب انسان اور جن جمع ہوجائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لاسکیں گے، اگرچہ ان کا بعض بعض کا مددگار ہو ۔
5قرآن مجید کامل ہدایت ہے (Complete Guidance)
قرآن کریم تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہترین رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ (البقرۃ: 185)
’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ہدایت کی اور (حق و باطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں‘‘
6قرآن مجید تمام جہانوں کے لئے ہدایت ہے:
وَمَا ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ (القلم:52)
حالانکہ وہ تمام جہانوں کے لیے نصیحت کے علاوہ کچھ بھی نہیں
7ـقرآن مجید میں کسی قسم کا کوئی بھی تضاد (Contradiction) نہیں:
قرآن مجید میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ اس کے مضامین میں مکمل ہم آہنگی (Harmony) اور ارتباط (Integrity)پایا جاتا ہے۔اللہ تعالی وحدہ لا شریک کا فرمان ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا(النساء: 82)
تو کیا وہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے، اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔
8ـقرآن مجید انتہائی مؤثر (Effective) کلام ہے:
قرآن کی تاثیر کا عالم یہ ہے کہ کوئی شخص قرآن کے معانی و مفہوم کو نہ بھی سمجھتا ہو اس کے باوجود اگر وہ قرآن کی تلاوت سنے تو اس کے دل کی کیفیت بدل جاتی ہے اور اسے سکون ملتا ہے۔ اسی لئے مشرکین مکہ اسے جادو سے تعبیر کیا کرتے تھے۔فرمان الٰہی ہے:
وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَہُمْ ۙ ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ (الأحقاف: 7)
’’اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا حق کے بارے میں، جب وہ ان کے پاس آیا، کہتے ہیں یہ کھلا جادو ہے‘‘
9ـ قرآن کریم ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے:
ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ٻ فِیْہِ ڔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ
یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں، اس میں ان ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے (البقرۃ:2)
10ـ قرآن مجید میں سچی پیشن گوئیاں ہیں:
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے جو پیش گوئیاں ذکر فرمائی ہیں ان میں سے کچھ واقع ہوچکی ہیں جبکہ باقی پیش گوئیاں بھی واقع ہوکر ہی رہیں گی۔جیسا کہ سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالی نے فرمایا:
وَاِنْ کَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَکَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْکَ مِنْہَا وَاِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَکَ اِلَّا قَلِیْلًا (سورۃ الاسراء: 76)
قریب تھا کہ یہ لوگ آپ کو اس سرزمین (مکہ) سے دل برداشتہ کردیں تاکہ آپ کو یہاں سے نکال دیں ۔ اور ایسی صورت میں آپ کے بعد یہ لوگ بھی یہاں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں گے۔
یہ پیشین گوئی غزوہ بدر اور فتح مکہ کے موقعوں پر پوری ہوئی اور کئی کفار ہلاک ہوگئے اور کئی ذلت و رسوائی کے ساتھ بھاگ گئے۔ اور کچھ مسلمان ہوگئے۔
11ـ قرآن کی بدولت ہی عزت و کامیابی نصیب ہوتی ہے:
فرمان نبوی ﷺ ہے:
إِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَاما وَیَضَعُ بِہِ آخَرِیْنَ
بے شک اللہ تعالی اس کتاب (قرآن) کی بدولت بہت سی قوموں کو ترقی دیتا ہے اور اسی کی وجہ سے بہت سی قوموں کو رسوا کردیتا ہے۔(مسلم)
اقبال نے کہا تھا:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
12قرآن کریم کے نزول، حفظ و کتابت، جمع و تدوین کے اعتبار سےمراحل :
اللہ سبحانہ وتعالی کے فضل و کرم سے قرآن کریم نزول سے لے کر مصحف کی صورت تک چند اہم مراحل سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے۔اس لئے اختصار کے ساتھ ان مراحل کو تحریر کرنا نہایت قابل ذکر ہے۔
پہلا مرحلہ:
قرآن مجید کا نزول:
سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق قرآن مجید دو (2) مرتبہ نازل ہوا:
(پہلی مرتبہ) قرآن مجید لیلۃ القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے بیت العزت یعنی ’البیت المعمور‘ میں ایک ہی مرتبہ مکمل نازل کیا گیا۔ اور اس کے بعد دوسری مرتبہ آسمان دنیا سے بتدریج (وقتا فوقتا) ہمارے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہﷺ کے مبارک قلب (دل) پر نازل کیا گیا۔ (الحاکم)
پہلی مرتبہ مکمل قرآن مجید رمضان کے مہینے میں لیلۃ القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے ’البیت المعمور، میں نازل کیا گیا۔ اس بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ
’’بےشک ہم نے اسے ایک بہت برکت والی رات میں اتارا، بےشک ہم ڈرانے والے تھے ‘‘(الدخان:3)
اس آیت کریمہ میں جس برکت والی رات کا ذکر ہے اس سے مراد لیلۃ القدر کی رات ہے جیساکہ سورۃ القدر میں ارشاد الٰہی ہے:
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ (القدر:1)
’’بلاشبہ ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا‘‘
اور یہ بات واضح ہے کہ لیلۃ القدر کی رات رمضان میں ہوتی ہے اور قرآن مجید کا نزول بھی رمضان کے مہینہ میں لیلۃ القدر میں ہوا۔جیساکہ مندرجہ ذیل آیت میں مذکور ہے:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرۃ:185)
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘
دوسری مرتبہ آسمان دنیا سے بتدریج (وقتا فوقتا) قرآن نازل ہونے کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلًا(سورۃ الاسراء: 106)
اور عظیم قرآن، ہم نے اس کو جدا جدا کرکے (نازل) کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور ہم نے اسے نازل کیا، (تھوڑا تھوڑا) نازل کرنا۔
دوسرا مرحلہ:
جمع و تدوینِ قرآن مجید بمعنی حفظ و کتابت قرآن مجید، یہ چونکہ اللہ کی سچی کتاب ہے اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے ہدایت ہے اس لئے اللہ تعالی نے ہی اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور فرمایا:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:9)
’’یقینا ہم نے ہی الذکر اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘
قرآن کریم کی حفاظت کے مختلف انداز ہیں جن کا تعلق مختلف ادوار سے ہے۔
(۱) نبی مکرمﷺ کا زمانہ۔
(2) سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا زمانہ
(3) سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ
1 نبی کریمﷺ کے زمانے میں جمع القرآن:
پیارے نبیﷺ کے زمانے میں قرآن مجید کی حفاظت دو طریقوں سے ہوئی۔
1ـ حفظ 2ـ کتابت
(الف) عہد نبوی ﷺ میں جمع القرآن بمعنی حفظِ قرآن:
اللہ ذوالجلال کا فرمان ہے:
اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہ (القیامۃ:17)
بلاشبہ اس کو جمع کرنا اور ( آپ کا ) اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید کو نبی مکرمﷺ کے سینے میں محفوظ فرمایا اور یہی وجہ ہے اللہ کے رسولﷺ نے دو مرتبہ قرآن حکیم جبرائیل علیہ السلام کو سنایا۔نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بھی قرآن مجید کو حفظ کیا، جن میں سے سات حفاظ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام صحیح بخاری میں سرفہرست ہیں۔ سیدناعبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ، سیدناسالم بن معقل (مولی ابی حذیفہ) رضی اللہ عنہ ،سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ،سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہم،سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ،سیدنا ابوزید رضی اللہ عنہ۔(بخاری)
(ب) عہد نبوی ﷺ میں جمع القرآن بمعنی کتابتِ قرآن
پیارے نبیﷺ نے بعض جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وحی لکھنے کی ذمہ داری دی جن میں سرفہرست سیدنا علی،سیدنا معاویہ،سیدنا ابی بن کعب اورسیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہم وغیرہ ہیں۔ پیارے نبیﷺ ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رہنمائی کرتے کہ کس آیت کو کونسی سورت میں لکھنا ہے۔یہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین (کاتب وحی) متعدد جگہوں اور مختلف چیزوں (درختوں کی چھال، پتھر، چمڑے وغیرہ) پر قرآن لکھا کرتے تھے۔ (الحاکم)
2 سیدناابو بکرt کے زمانے میں جمع القرآن:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کی حفاظت کا انداز:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سنہ 12 ہجری میں جنگ یمامہ واقع ہوئی جس میں ستر (۷۰) حفاظ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوئے۔سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس ڈر کو محسوس کیا کہ قرآن کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے، اسی لئے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گزارش کی کہ قرآن کو ایک جگہ لکھ کر جمع کیا جائے،لہذا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ ذمہ داری زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو سونپ دی۔
ابوبکر t کے زمانے میں جمع القرآن بمعنی کتابتِ قرآن:
سیدنازید بن ثابت t فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن مجید کو ان مختلف جگہوں سے جمع کرلیا جہاں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے زمانہء نبوت میں لکھا تھا نیز جن صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قرآن مجید یاد تھا ان سے بھی موافقت لی۔وہ قرآن مجید کے جمع شدہ نسخہ ابوبکر t کے پاس تھا پھرسیدنا عمر tکے پاس رہا اور پھرسیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنھما کے پاس رہا۔ (بخاری)
سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کیا گیا نیز اس میں وہ سات حروف (قراءت و لہجے) اسی انداز سے موجود تھے جس طرح قرآن مجید نازل ہوا تھا۔
3سیدنا عثمان tکے زمانے میں جمع القرآن:
اسلامی فتوحات کی وجہ سے حفاط صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین مختلف جگہوں میں چلے گئے، اور ہر علاقہ والوں نے اپنے علاقہ میں رہائش پذیرصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ان کے لہجہ میں قرآن سیکھا۔چونکہ قرآن مجید کے بعض الفاظ مختلف حروف کے ساتھ نازل ہوئے تھے لہٰذا جب مختلف علاقوں کے لوگ ایک جگہ جمع ہوتے اور ایک دوسرے کا مختلف اندازِ تلاوت سنتے تو حیران ہوجاتے، اکثر لوگ تو مان لیتے کہ یہ سب ہی طریقے صحیح ہیں لیکن کبھی کبھی یہ بات ضرور انہیں ستاتی تھی کہ ان حروف یا لہجوں میں سے کون سا لہجہ سب سے اعلی ہے۔
ایک وقت ایسا آیا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں درج ذیل ہے:
سیدناحذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہلِ عراق اور اہلِ شام کی جنگوں (جنگ ارمینیہ اور جنگ آذربایجان) کے موقعہ پر میں نے لوگوں میں قراءتِ قرآن کے بارے میں شدید اختلاف دیکھا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس سے آگاہ کیا، تو انہوں نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے وہ قرآن کریم کے نسخہ (جو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لکھے تھے) منگوالئے، اور زید بن ثابت، عبد اللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ھشام رضی اللہ عنہم (ان چاروں صحابہ کرام) نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے ان صحیفوں کو مزید نقل کرکے ایک ہی قراءت (قریش کی زبان) میں متعدد مصاحف میں جمع کیا۔ اس کے بعد سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنھا کو ان کے صحیفے بھجوادیے اور ایک ہی قراءت والے مصاحف کو مختلف مقامات پر بھجواکر حکم دیا کہ اس کے علاوہ جو بھی نسخہ کسی کے پاس ہو تو وہ جلا دے تاکہ آئندہ اختلاف کی گنجائش نہ رہے۔
اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن حکیم کے سات حروف (قراءت) کی بجائے ایک ہی قراءت (قریش کی زبان) پر جمع کیا گیا جو کہ اللہ کے فضل و کرم سے کسی تبدیلی کے بغیر ہم تک پہنچا۔
سوالات:
س۱: مشرکین مکہ قرآن کریم کو جادو سے کیوں تعبیر کرتے تھے؟
س2: نزول کے اعتبار سے قرآن مجید کی کونسی دو (۲) قسمیں ہیں، مختصر جواب دیں۔
س3: پہلی مرتبہ قرآن مجید کہاں سے کہاں تک نازل ہوا؟
س4: پہلی مرتبہ قرآن کریم کس رات میں نازل ہوا؟ وہ رات رمضان کی لیلۃ القدر تھی یا شعبان کی پندھرویں شب؟
س 5:دوسری مرتبہ قرآن حکیم کا نزول کہاں سے کہاں تک ہوا؟
س6: کیا قرآن مجید نبیﷺ کے مبارک دل پر ایک ہی مرتبہ نازل ہوا یا مختلف اوقات میں نازل ہوا؟
س7: کیا قرآن اللہ کا کلام ہے؟
س8: کیا نبی مکرمﷺ اور صحابہ کرام y کو قرآن مجید یاد تھا؟
س9:پیارے رسول ﷺ کے زمانے میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قرآن کو کس طرح لکھا؟ ایک ہی جگہ یا مختلف چیزوں پر؟
س10:سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کی قرآن کریم کو کس طرح جمع کیا گیا نیز کس انداز سے لکھا گیا؟
س11: سیدناعثمان رضی اللہ عنہ میں زمانے قرآن مجید کو کس طرز پر جمع کیا گیا؟
ہمارے ملک پاکستان کا بااثر طبقہ ، حکمران اور سیاستدان اکثر اغیار کی تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں گویا کہ انہی کے تنخواہ دار ہیں ان کی نمک حلالی کرنے میں بہت پیش پیش رہتے ہیں انہی کے ہم نوالہ ، ہم پیالہ ہونے کا دم بھر تے ہیں ، شکل وصورت ، وضع قطع حتیٰ کہ لباس بھی انہی کا زیب تن کرتے ہیںپھر زبان بھی انہی کی بولیں گے ، اپنے مذہب ، قوم اور ملک کی کیا پرواہ؟، ملک کی اشرافیہ کی یہ حالت ہے کہ انہیں اپنی قومی زبان تک نہیں آتی کہ وہ اپنا مافی ضمیر قوم کو سمجھا سکیں، دل ودماغ کچھ اور سوچ رہے ہوتے ہیں اور زبان سے کچھ اور پھول جھڑ رہے ہوتے ہیں، اپنے مذہب کے بنیادی عقائد وارکان کی بھی انہیں خبر تک نہیں، شریعت اسلامیہ سے بالکل نابلد ہیں ایک سابق وزیر کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ آذان بج رہا ہےایک ملک کے نامی گرامی قانون دان ہیں، انہیں اس بات کا بھرم ہے کہ میرے دم سے ہی پاکستانی عدالتوں کا نظام چل رہا ہے جب انہوں نے عوام کے سامنے سورت فاتحہ پڑھنا چاہی جو صرف سورت فاتحہ بھی نہ پڑھ سکے، یہ و وہ سورت ہے جو ہر نماز کی ہر ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اور بچوں کو بھی یاد ہوتی ہےاور ایک سابق وزیر داخلہ کو سورہ اخلاص بھی پڑھنی نہ آئی ، یہ ان کی دینی قابلیت ہے ، مسلمان ہونے کے ناطے ، جس علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے اور یہ اشرافیہ ملک و قوم اور نہ ہی مذہب کے وفادار ہیں بلکہ یہ وفاداریاں اغیار کی ننبھاتےتے ہیں، سابق انڈس واٹر کمشنر سید جماعت علی شاہ ہندوستان میں پاکستان کے مندوب بن کر جاتے تھے مگرنمائندگی ہندوستان کی کرتےہیں۔
ایسے ہی ایک صاحب قوم کے خیر خواہ اور مسیحا بننے کی ان تھک کوشش کر رہے ہیں ، وہ قوم کو سبز باغ دکھلارہے ہیں ، حقیقت میں وہ بھی غیر وں کے فرمانبردار ہیں ان کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے ان کے ماضی کا داغدار ہونا تو سب کو معلوم تھا مگر حال کا اب پتہ چلا ہے کہ سابقہ بیوی فرماتی ہیں کہ میرے اور عمران کے کتوں کی بھی آپس میں نہیں بنی ۔
اس کے ساتھ جماعت اسلامی کی عقل کا بھی ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے کہ ملک میں اسلامی نظام کی تنفیذ کا دعویٰ کیا جاتا ہے اس ملک کو اسلامی، فلاحی اسٹیٹ بنائیں گے اس ملک کو سیکولر نہیں بننے دیں گے جماعت سے ایسی توقع کی جانی بھی چاہیے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ملک کو لادین قوتوں کے ہاتھ میں نہیں جانے دیں گے مگر جماعت اسلامی سے پوچھا جائے کہ حالیہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کن سے کی جارہی ہے ؟ ان سے جن کے گھر میں کتے پلتے ہیں جن کے کتوں کے لیے روم اور بیڈ مخصوص ہیں کیا یہ سیکولر ذہن رکھتے والے لوگ نہیں ، جماعت اسلامی تو ایک نظریاتی جماعت ہے ، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ بھی کرسی اور اقتدار کی ہوس میں اس قدر آگے چلی جائےکہ ملحدانہ خیالات رکھنے والے لوگوں سے الحاق کرلے گی ، ہم اپنے حکمرانوں کی بات کر رہے تھے بات کہیں اور نکل گئی ہمارے حکمران اغیار کی غلامی میں بہت آگے نکل گئے ہیں کہ انہیں نہ اپنے دین کی کوئی خبر اور نہ ہی ملکی قوانین کا کوئی علم ہے ملکی آئین یہ بات واضح طور پر مکتوب ہےکہ پاکستان کا سپریم لاء قرآن وسنت ہوگاکوئی قانون اگر قرآن وسنت کے متصادم د ہوگا تو اسے کالعدم قرار دیدیا جائے گا ۔
۱۴ نومبر ۱۹۹۱ء کو پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ نے ہر قسم کے سودی کاروبار کو حرام قرار دیکر ملکی معیشت کو جلد اس سے پاک کرنے کا تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا اور ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹کو سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بنچ نے بھی اس کی توثیق کی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ، جس کے آئین میں سود کو ختم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے اس مملکت کے صدر ممنون حسین کو یہ جرأت ہوتی ہے کہ وہ علماء سے کہتے ہیں کہ ’’ہائوس بلڈنگ کے قرضے پر سود کی ادائیگی کے لیے راستہ نکالیں‘‘ ۔ ہاؤس بلڈنگ کے قرضے حکومت کے زیر انتظام دیے جاتے ہیں اور صدر محترم اپنے ماتحت محکمے کو سود سے منع نہیں کر سکتے لیکن علماء سے کہتے ہیں کہ کوئی راستہ نکالیں۔ یعنی حکومت تو یہ حرام کھاتی رہے گی، آپ دینے والوں کی تسلی کے لیے کوئی راستہ نکالو۔ یہ توقع علماء سے کیوں لگائی گئی۔ اس لیے کہ اس مملکت خداداد پاکستان کے کچھ اسکا لرز نے ایک ایسے بینکاری نظام کو حیلوں کے ذریعے اسلامی بنا کر پیش کیا جس کی ساری کی ساری اساس ہی سودی نظام پر ہے، ان لوگوں کا حال بھی علمائے یہود کا سا ہے جن کا خاصا تھا کہ حیلہ سازی و بہانہ بازی اور مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات سے روگردانی کا راستہ نکالنا ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے اپنی امت کے بارے میں ایسے ہی ایک خطرے سے آگاہ فرمایا:’’عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:تَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ، قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ: اليَهُودَ، وَالنَّصَارَى قَالَ: فَمَنْ‘‘(صحيح البخاري 4/ 169)
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم لوگ اپنے سے پہلے لوگوں کی (ایسی زبردست پیروی کرو گے (حتیٰ کہ) ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز پر (یعنی ذرا سا بھی فرق نہ ہوگا) حتیٰ کہ اگر وہ لوگ کسیسانڈے کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی داخل ہو گے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہود و نصاری مراد ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اور کون مراد ہوسکتا ہے۔
’’جب سپریم کورٹ نے اپنے تاریخ ساز فیصلے مورخہ 23 دسمبر 1999ء میں بینکاری سود کو حرام قرار دیا تو اقتدار کے ایوانوں میں ہل چل مچ گئی۔ فوری طور پر جو پالیسی ترتیب دی گئی اس کے اہم ستون یہ تھے۔ 1- عدالتوں کے ذریعے سود کے حرام ہونے کو متنازعہ رکھا جائے تا کہ پوری قوم کنفیوژن کا شکار رہے۔2 – حکومت عدالت میں یہ مؤقف اختیار کرے کہ اسلام نے تو اصل میں رباء کو حرام قراردیا جب کہ بینکاری سود تو رباء ہے ہی نہیں۔ -3 موجودہ جدید بینکاری کی طرز پر ایک اسلامی بینکاری نظام قائم کیا جائے جو سودی نظام کے شانہ بشانہ چلتا رہے اور جسے اسلامی قرار دینے کے لیے شریعہ ایڈوائز مقرر کیے جائیں۔
یوں ایک ہی بینک لوگوں کو یہ سہولت دے کہ اگر وہ چاہیں تو اسلامی بینکاری کے تحت اکاؤنٹ کھولیں یا عام بینکاری کے تحت۔ یعنی چاہے تو اس بینک کی دکان سے حرام کاروبار کریں یا حلال۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک قصاب کی دکان پر خنزیر اور بکری کا گوشت بیک وقت دستیاب ہو۔ اس وقت 22 اسلامی بینک بیک وقت یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں اور ان بینکوں میں بیٹھے شریعہ ایڈوائزر اور مفتیان کرام خاموش ہیں بلکہ اسٹیٹ بینک کا شریعہ ایڈوائزی بورڈ بھی خاموش ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک قصاب کی دکان پر خنزیر کا گوشت بھی بک رہا ہو اور آپ کہیں کہ میں تو اس بات کی تنخواہ لیتا ہوں کہ یہاں بکری کا گوشت خالص ہے یا نہیں۔ اگر اسلامی بینکاری واقعی حلال ہے تو مروجہ بینکاری کو بند کیوں نہیں کرتے۔ سب کچھ تو ویسا ہی ہے‘ عمارت‘ چیک بک‘ اے ٹی ایم کارڈ‘ قرضہ اسکیمیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم نے ہی تو حیلہ سازی سے انھیں قائم رکھا ہوا ہے۔ صرف ایک شرعی حیلہ بیان کر دوں۔ اجارہ سکوک‘ یہ ایک طرح کے بانڈ کی قسم ہے۔ مثلاً واپڈا اگر ایک ڈیم بنانا چاہتا ہے تو وہ اپنے ڈائریکٹروں کی ایک کمپنی بنائے گا جسے SPV یعنی Siecial Purpose Vehicle کہتے ہیں۔
یہ کمپنی اس ڈیم کی عالمی کنسلٹیسٹ سے قیمت لگوائے گی جسے Valuation کہتے ہیں۔ یہ قیمت اسلامی بینک اجارہ سکوک کی انوسٹمنٹ کے ذریعے ادا کر دیں گے جس سے وہ ڈیم بنے گا۔ اب یہ کمپنی جو اسی ادارہ کے ڈائریکٹروں پر مشتمل ہو گی‘ ڈیم کو واپڈا کو استعمال کرنے کے لیے دے گی۔ اب واپڈا سے جو رقم کمپنی حاصل کرے گی اسے سود نہیں کرایہ کہا جائے گا۔ اس پر سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہر صبح اس ڈیم کا کرایہ سودی بینکوں کے سود کی شرح ناپنے کے نظام KIBOR یا LIBOR کے ذریعے ادا ہو گا۔ یعنی جس دن شرح کم اس دن کرایہ کم اور جس دن شرح زیادہ اس دن کا کرایہ زیادہ۔ کیا خوبصورت نفع اور نقصان کی حصہ داری نکالی ہے۔ کیا کسی عالم دین نے اپنا مکان کرائے پر دیا ہے اور ہر روز اس کا کرایہ KIBOR یا LIBOR کے ریٹ دیکھ کر وصول کرتا ہو۔ پوری کی پوری اسلامی بینکاری حیلہ سازی پر مبنی ہے جسے اسلامی بینکاری تو نہیں حیلہ بینکاری کیا جا سکتا ہے‘‘(اقتباس از اوریامقبول )
سود تو وہ لعنت ہے جو صرف ملت اسلامیہ میں ہی حرام نہیں بلکہ ہندو مذہب جو کہ کروڑوں معبودوں کے پجاری ہیں ان کے مذہب میں بھی یہ حرام ہے، جس کا اندازہ آپ اس عبارت سے بخوبی لگا سکتے ہیں، جیساکہ مغل شہزادے 'داراشکوہ اور معروف ہندوپنڈت کے درمیان ہونے والے مکالمے سے واضح ہے ۔داراشکوہ نے پنڈت صاحب سے پوچھا کہ کیا مسلمان پر سود کا لیناحرام اور اہل ہنود پر حلال ہے ؟تو پنڈت صاحب نے جواب دیا: اہل ہنود پر سود لیناحرام سے بھی زیادہ برا ہے ۔اس پر دارا شکوہ نے سوال کیا کہ پھر سود لیتے کیوں ہیں ؟تو پنڈت جی نے کہا کہ یہ رواج پاگیا ہے اور اس کا رواج پانا اس کے نقصان سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ہے۔[اسرار معرفت :۲۱]
اغیار نے ملت اسلامیہ کو ہر دور میں معاشی، معاشرتی،غرض ہر قسم کا نقصان پہنچایا۔ملت اسلامیہ کے معاشی نظام کو نا کام کرنے کے لیے اُنہوں نے کبھی سرمایہ دارانہ نظام مسلط کیا،کبھی اشتراکی نظام کے فوائد بتا کر ملت اسلامیہ کی ہر سطح پر بیخ کنی کی ہے تاکہ مسلمان ہمیشہ کے لیے اقتصادی طور پر غلام بن کر رہیں۔لیکن افسوس صد افسوس مسلمانوں نے اپنے پاس الٰہی تعلیمات ہوتے ہوئے بھی اغیار کی تقلید کی اور اس میں اپنی معاشی کامیابی اور نجات سمجھنے لگے
رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي، لَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَنَظَرْتُ فَوْقَ - قَالَ عَفَّانُ: فَوْقِي - فَإِذَا أَنَا بِرَعْدٍ وَبَرْقٍ وَصَوَاعِقَ "، قَالَ: " فَأَتَيْتُ عَلَى قَوْمٍ بُطُونُهُمْ كَالْبُيُوتِ فِيهَا الْحَيَّاتُ تُرَى مِنْ خَارِجِ بُطُونِهِمْ، قُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ أَكَلَةُ الرِّبَا(مسند أحمد (14/ 285)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شب معراج میں جب ہم ساتویں آسمان پرپہنچے تو آپ ﷺنے اوپر کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا تو اچانک گرج، بجلی اور کڑک محسوس کی آپﷺ نے ارشاد فرمایا ایک ایسی قوم پر میرا گزرہوا جن کے پیٹ ایسے تھے جیسے (بڑے بڑے ) مکان ہوں جن میں سانپ (بھرے ہوئے) تھے جو پیٹوں سے باہر صاف طور پر نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبریل یہ کون لوگ ہیں انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں‘‘
افسوس کی بات یہ ہے اس مملکت خداداد کے سربراہ بجائے اس کے کہ اس نظام کو ختم کریں اس کی حلت کی حیلہ سازی کا راستہ نکالنا چاہتے ہیں، سود کی سنگینی میں احادیث مذکورہ کے علاوہ اور بھی بے شمار نصوص وارد ہوئے ہیں ایک اور حدیث مبارکہ میں میرے اور آپ کے آقا جناب محمدرسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے، جسے سیدنا عبد اﷲ بن حنظلہ رضی الله عنہ نے روایت کیا ہے کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”سود کا ایک درہم ، جسے انسان جانتے بوجھتے کھاتا ہے ، وہ 36 مرتبہ زنا کاری سے بھی بدتر ہے “۔ ( صحیح : مسنداحمد ، طبرانی )
آج ہم اللہ کے عذاب کو دعوت دینے جارہے ہیں جو رب پچھلی قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے جو کہ ہم سے کہیں زیادہ طاقتور تھیں، اگر ہم نے بھی اپنی روش نہ بدلی توورنہ ایک دن ہم اپنے ہاتھوں سے ہی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔
اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ماہنامہ تحقیقی، اصلاحی و دعوتی ماھنامہ مجلہ جس میں حالاتِ حاضرہ، کی مناسبت سے قرآن سنت کی روشنی میں مضامین اور تحقیقی مقالات شائع کئے جاتے ہیں
ماھنامہ اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال بلاک 5،پوسٹ بکس نمبر11106، پوسٹ کوڈ نمبر75300 کراچی پاکستان
Phone: +92 0213 480 0471
Fax: +92 0213 4980877
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.