رسول اللہ ﷺ اپنے خطبہ کے شروع میں یہ الفاظ پڑھا کرتے تھے’’جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔
ہدایت اور گمراہی کے کچھ اسباب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا

’’جو لوگ اللہ کی راہ میں کوشش کرتے ہیں اللہ ان کے لیے (ہدایت) کے رستے کھول دیتا ہے۔(العنکبوت : 69)

إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللهِ لَا يَهْدِيهِمُ اللهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (نحل:104)

اور جو لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اللہ انہیں ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔
اس مختصر مضمون میں قرآن کی آیات پیش کی گئی ہیں جن سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتی ہے کہ قرآن اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے شک اور شبہ سے پاک ہے اس کی بتائی ہوئی ہر بات سچ اور حق ہے جو شخص حق کو سمجھنا چاہے اس کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے اللہ رب العزت ہم کو کتاب وسنت کی اتباع کی توفیق عطا فرماتےکیونکہ توفیق دینے والی ذات تو صرف اللہ کی ہے۔
1۔فرمان باری تعالیٰ ہے:

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ (البقرۃ:2)

’’ قرآن مجید شک سے پاک ہے۔‘‘
قرآن مجید نے جو بھی باتیں بیان کی ہیں کسی ایک بات میں بھی شک کی گنجائش نہیں ہے آج تک قرآن کی کسی ایک بات کو بھی کوئی غلط ثابت نہیں کر سکا نہ قیامت تک کوئی غلط ثابت کر سکتاہے۔
2۔ فرمان الٰہی ہے :

فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ ( البقرۃ : 23)

’’ا س جیسی کوئی ایک سورت بھی نہیں بناسکتا۔ ‘‘
یہ چیلنج چودہ صدیوں سے آج تک موجود ہے کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی اس جیسی ایک سورت بھی نہ بنا سکا نہ قیامت تک بنا سکتا ہے یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔
3۔رب العالمین کا فرمان ہے :

وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْهِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا (نوح: 16)

اللہ تعالیٰ نے چاند کو روشن اور سورج کو چراغ بنایا ۔
آج سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ درحقیقت چاند کی سطح سے منعکس ہونے والی شمسی روشنی سے چاند چمکتا نظر آتا ہے۔
قرآن مجید نے یہ حقیقت 14 سو سال قبل بتا دی تھی۔
4۔ فرمان الٰہی ہے :

أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا

’’ کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا اور پہاڑوں کو میخیں (نہیں بنایا) ۔(نبا:6۔7)
پہاڑ زمین پر گڑے ہوتے ہیں پہاڑ جتنا زمین کے اوپر ہیں اس سے دس گناہ زیادہ زمین کے اندر ہیں یہ حقائق قرآن نے بیان کئے جو آج ہوبہو پورے ہورہے ہیں ۔
5۔ اللہ کا فرمان ہے:

فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ يَّخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ

’’ انسان دیکھے اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے اسے ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیاہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے ۔ ( طارق 5۔7)
آج جدید سائنس یہ تسلیم کررہی ہے کہ انسان اس پانی سے پیدا ہوتا ہے جو سینے اور پیٹھ کے بیچ سے نکلتا ہے قرآن نے اس بات کو 1400 برس قبل ہی بتا دیا تھا ۔
6۔ فرمان ربانی ہے :

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ

’’ بلاشبہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے ایک محفوظ قرار گاہ(رحم) میں نطفہ بنا کر رکھا پھر ہم نے نطفے کو خون کی پھٹکی بنایا پھر ہم نے خون کی پھٹکی کو لوتھڑے میں ڈھالا پھر ہم نے لوتھڑے سے ہڈیاں بنائیں پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھادیا پھر ہم نے اسے ایک اور ہی صورت میں بنادیا پس بڑا بابرکت ہے اللہ جو سب سے عمدہ بنانے والا ہے۔‘‘ (مومنون : 12۔14)
یہ وہ حقیقت ہے جو اللہ رب العزت نے کئی صدیاں پہلے بیان فرما دی تھی اور آج کی جدید سائنس اسے لفظ بہ لفظ تسلیم کرتی ہے کہ انسان کی پیدائش رحم مادر میں بالکل اسی طرح ہوتی ہے یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے کیونکہ قرآن نے جو حقیقت بیان کی تھی اس وقت دور جدید کے کوئی آلات موجود نہ تھے جو اس کیفیت کو بیان کرتے ۔
7۔ اللہ کا فرمان ہے :

اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَهٗ ( القیامۃ : 3۔4)

’’کیا انسان سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہیں کر پائیں گے کیوں نہیں بلکہ ہم تو اس کی پور پور ٹھیک کرنے پر قادر ہیں ۔
پوری دنیا میں کوئی بھی دو انسان ایسے نہیں ہیں جن کی انگلیوں کے نشانات ایک جیسے ہوں آج پوری دنیا میں انسان کی شناخت اس کی انگلیوں کے نشان سے کی جارہی ہے قرآن نے قیامت والے دن بھی انسان کو دوبارہ اٹھانے کا تذکرہ کرتے ہوئے انگلیوں کے پوروں کا تذکرہ کیا ۔
آج انگلیوں کے پوروں، نشانات کی جو حقیقت کھلی ہے 14 صدیاں قبل یہ حقیقت کس کو معلوم تھی یقیناً صرف اللہ رب العزت کو ہی معلوم تھی۔
8۔ فرمان الٰہی ہے :

سُبْحٰنَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُوْنَ

’’ پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے ان چیزوں کے جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود ان کی اپنی جنس( نوع انسانی) کے اور ان اشیاء کے بھی جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں ۔ ( یس : 36)
آج سائنس یہ انکشاف کر رہی ہے کہ ہر چیز کے جوڑے ہیں پودوں اور پھولوں کے بھی اللہ نے یہ خبر 1400 برس قبل اپنے نبی علیہ السلام پر وحی کے ذریعے سے بتادی تھی پتا چلا کہ قرآن آسمانی کتاب ہے اللہ کا کلام ہے شک سے پاک ہے ۔
9۔ فرمان الٰہی ہے:

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسٰـنًا حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا (احقاف:15)

’’ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس ماہ(30 مہینے) کی مدت ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:

وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ

’’مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہتا ہے ۔ ( البقرۃ : 233)
پہلی آیت میں حمل اور دودھ پلانے کی مدت 30 ماہ بیان ہوئی دوسری آیت میں صرف دودھ پلانے کی مدت 24 ماہ بیان ہوئی 30 ماہ سے 24 ماہ دودھ پلانے کے منفی کئے تو باقی 6 ماہ بچے قرآن کے اعتبار سے حمل کی مدت کم سے کم 6 ماہ ہوئی۔
جنین کی پیدائش کی مدت 9 ماہ شمار کی جاتی ہے مگر آج کی جدید سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں 6 ماہ کی مدت گزارنے کے بعد صحیح سالم پیدا ہوسکتاہے۔
یہ حقیقت قرآن نے کئی صدیاں قبل بیان کر دی تھی۔
10۔ اللہ کا فرمان ہے:

وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا يَرْكَبُوْنَ

’’ ان کے لیے ایک نشانی( یہ بھی) ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا اور ان کے لیے اس جیسی اور چیزیں پیدا کیںجن پر یہ سوار ہوتے ہیں ۔ (یس 41۔42)
قرآن نے یہ حقیقت کئی سو سال قبل بیان کر دی تھی غور کریں اللہ فرما رہا ہے کہ ان کے لیے کشتی جیسی اور سواریاں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں ۔
کتنی جیسی سواریاں کونسی ہیں ؟ کار ، ٹرین، جہاز……
کیا یہ سواریاں اس دور میں تھیں جس وقت قرآن نازل ہوا ہرگز نہیں یقیناً ہم کو ماننا پڑے گا قرآن اللہ کا کلام ہے۔
تلک عشرۃ کاملۃ
اس جیسی بہت ساری باتیں مزید بتائی جاسکتی ہیں قرآن کی ہر بات بالکل سچ اور حق ہے ۔
جو حق کو سمجھنا چاہتا ہو اپنے آپ کو آگ سے بچانا چاہتا ہو اس کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے کے بعد نبی علیہ السلام کے طریقے کو اپناتے یقیناً یہ ہی کامیابی کا راستہ ہے۔
اللہ رب العزت سے ہم توفیق کا سوال کرتے ہیں کیونکہ توفیق دینے والی ذات تو صرف اللہ کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے