انسان سب سے پہلے جس ادارے سے مانوس ہوا وہ خاندان ہے، خاندان معاشرے کا قدیم ترین انسٹی ٹیوشن ہے اور یہ نہ صرف معاشر ے کے وجود کی بنیاد ہے بلکہ یہ ایک معاشرے کو قائم رکھنے کے لیے اور زوال پذیر ہونے سے بچانے کےلیے اخلاقیات کی درسگاہ بھی ہے جبکہ ایک مسلم خاندان کی اخلاقی اقدار اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہوتی ہیں جو اسے باقی معاشروں سے ممتاز کرتی ہیں ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
دشمنانِ اسلام نے جب سے عالم اسلام کے خلاف جنگ کا علم بلند کیا ہے تب سے مسلمانوں کے خاندانی نظام کی عمارت ان کا بڑا ہدف بنی ہوئی ہے جس کی تخریب وانتشار کے لیے ان کی مشق ستم جاری ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس عمارت کی تباہی پورے معاشرے کی تباہی ثابت ہوگی قرون اولیٰ میں مسلمانوں نے اس ادارے کے بچاؤ کے لیے دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے لیکن آخری دو صدیوں میں دشمن اس میں نقب لگانے میں کامیاب ہوگیا اٹھارویں اور انیسویں صدی میں خاص طور پر اس ادارے کی تباہی کے لیے مختلف جدید طریقے آزمائے گئے ہیں سب سے پہلے غزو فکری کے لیے ایسے عیسائی مشنری اسکول تعمیر کئے گئے جہاں تعلیم کے ساتھ مغربی ثقافت پروان چڑھی ۔ حقوق نسواں کے نام پر آزاد یٔ نسواں کی تحریکیں چلائی گئیںذرائع ابلاغ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ۔بہت سے نام نہاد اسکالرز وجود میں آئے، ٹی وی چینلز پھر انٹرنیٹ نے ذہن سازی کی اور بے حیائی کا زہر عام ہوتا گیا اسلامی ممالک میں پہلا ہدف مصر بنا اور آزادیٔ نسواں کی تحریک مغربی مفہوم کے ساتھ پورے زور وشور سے چلائی گئی جدت پسند مغربی تحریک کے دلدادہ لوگوں کی تائید حاصل ہوئی تو لٹریچر عام ہوا ۔
مرقص قبطی نے 1894 میں اپنی کتاب ’’المرأۃ فی الشرق‘‘ یعنی مشرقی عورت کے ذریعے پردہ کے انکار کی دعوت دی یہی سلسلہ قاسم امین نے آگے بڑھایا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ 1921ء میں روم میں آزادیٔ نسواں کے نام پر کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شریک ہونے والی چند ماڈرن مصری خواتین نے واپس پہنچ کر مصر کی سڑکوں پہ اپنے حجاب اتار کر پاؤں میں روندھ ڈالے۔ یہ سلسلہ ایران میں رضا شاہ کہ حکم امتناع حجاب کے ساتھ یوں آگے بڑھا کہ اسکولز ،یونیورسٹیز اور دفاتر کے دروازے با حجاب لڑکیوں اور عورتوں پر بند ہوگئے 1925 میں ترکی میں حجاب پر باقاعدہ پابندی لگ گئی پھر یہی سلسلہ افغانستان جیسے ملک تک جا پہنچا امان اللہ خان استعمار کا ایجنٹ بنا عرب ممالک بھی اس تحریک کا شکار ہوئے بہت سی این جی اوز وجود میں آئیں اکیلی ھدی شعراوی نے مصر میں 25 تنظیموں کی بنیاد ڈالی اس ساری کاوش کا مقصد عورت کو حقوق دلانا نہیں تھا بلکہ عورت کو حقوق کا دھوکہ دے کر اباحیت عام کرنا ، فحاشی پھیلانا،عفت وعصمت پامال کرکے مسلمان عورت کو بازار کی زینت بنا کر خاندان کے انسٹی ٹیوشن کو تباہ کرنا تھا۔سن 2000م میں نیویورک میں عورت کے نام پہ ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاس ہونے والی قرارداد یں نوجوانوں کے لیے جنسی آزادی واباحیت اولاد کو ماں باپ کی فرمانبرداری سے نکال کر مطلق آزادی کی راہ پر ڈالنا اسلام کے نظام وراثت کا خاتمہ جیسی نہ صرف اسلام مخالف بلکہ فطرت انسانی کے خلاف شقوں پر مشتمل ہونے کے ساتھ خاندانی نظام کی مکمل تباہی کا ایجنڈا لیے ہوئے تھیں ۔ سوال یہ ہے کہ جس آزادی کا راگ الاپا جاتارہا ہے کیا حقیقتاً وہ آزادی ہے یا غلامی اور مغرب مردوزن کی جس برابری کی بات کرتا ہے اس کی حقیقت کیا ہے اس کےلیے ماضی اور حال میں اسلامی معاشرے کے علاوہ دیگر تہذیبوں اور معاشروں میں عورت کا جو حال رہا ہے اس کا معروضی تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔ یونان کی قدیم تہذیب کو دیکھیں تو عورت یونان کے بازاروں میں بکنے والی ایک جنس کا نام تھا جس کی وجہ سے بے حیائی اور فواحش نے وہاں رواج پایا جو یونانی تہذیب کی تباہی کا سبب بنا۔ روم میں بھی عورت کوکوئی حق حاصل نہیں تھا جبکہ تمام حقوق مرد کے لیے تھے یہاں تک کہ وہ عورت کو قتل بھی کرسکتا تھا اس کے بچوں کو بیچ سکتا تھا۔ ہندو دھرم میں عورت مرد کا سایا سمجھی جاتی تھی اور اپنے شوہر کی موت کے ساتھ اس کی چنا میں جلا دی جاتی ۔ یہودیوں کے ہاں اس کی حیثیت نوکرانی اور خادمہ سے زیادہ نہ تھی جس کا وراثت میں کوئی حصہ نہ تھا عیسائی اسے شیطان کا ہتھیار گردانتے تھے ، پوپ تو نولیان کہتا ہے کہ عورت انسانی نفس میں شیطان کے داخلے کا راستہ ہے اور تو اور 1586ء تک ھنری ہشتم کے زمانے میں برٹش پارلیمنٹ میں یہ بحث ہو رہی تھی کہ عورت کیا ہے بڑی بحث و تمحیص کے بعد آخر یہ فیصلہ ہوا کہ عورت انسان ہے مگر اسے مرد کی خدمت کے لیے پیداکیا گیا ہے اگر ابھی اس دور کو دیکھا جائے تو مغرب نے عورت سے راحت وسکون چھین کر اسے بے رحم معاشرے کے سپرد کر دیا ہے اٹھارہ سال کی بچی کو گھر سے لقمۂ حیات کے لیے نکال باہر کیا جاتاہے گھر رہنا چاہے تو گھر رہنے کا کرایہ ، کھانے کا بل ادا کرے۔
اب آیئے اسلام کی طرف جس نے اسے وہ مقام عطا کیا کہ جس کا تصور بھی مغربی عورت کے لیے محال ہے انسان ہونے کے ناطے اسے مرد کے برابر قرار دیا۔
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا(النساء : 1)’’ تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کیا‘‘
عزت وتکریم میں برابر کا حصہ دار بنایا۔
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل : 70)یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا ’’إنما النساء شقائق الرجال ‘‘سنن أبي داود (1/ 61) عورتیں مردوں کے ہی مثل ہیں۔
وہ جو خود بکنے والی متاع حقیر تھی اسے تجارت کا حق دیا گیا چنانچہ ربیع بیت معوذ عطر کی تجارت کرتیں ، ام شریک دار الضیافہ کی مالکن تھی ایک کام ہی اگر مرد کرے تو اسے اجرت زیادہ ملتی ہے جبکہ عورت کو 59 سے 78 فی صد مرد کی نسبت اس کام میں کم اجرت دی جاتی ہے یہ مغرب کا حال ہے جبکہ اسلام نے ایسی کوئی تفریق نہیں رکھی۔ اسلام عورت کو کمائی کے لیے گھر سے باہر نکالنے کی بجائے اسے گھر کی مالکن بناتا ہے اور اس کے نان ونفقہ کا ذمہ دار مرد کو ٹھہراتا ہے۔
لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ(الطلاق : 7) کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے ‘‘
اور رسول مقبول ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ(وصحيح مسلم (2/ 890) تم پر ان کا رزق اور لباس کی معقول ذمہ داری ہے‘‘
اسی طرح دیت ، میراث، استئذان، حق مہر ، تجارت ، خلع، تعلیم وتعلم کے حقوق سے نوازا اسے مختلف امور میں عزت وتکریم دی، ماں ہے تو اس کے قدم تلے جنت رکھ دی ، بیوی ہے تو خیر متاع الدنیا قرار دیا اور وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء : 19) ’’اوران کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو‘‘
کا حکم ربانی آیا بیٹی کے لیے آپ ﷺ نے فرمایا ’’مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ، وَأَطْعَمَهُنَّ، وَسَقَاهُنَّ، وَكَسَاهُنَّ مِنْ جِدَتِهِ كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(سنن ابن ماجه (2/ 1210)’’جسکی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے (جزع فزع نہ کرے کہ بیٹیاں ہیں) اور انہیں کھلائے پلائے۔ پہنائے اپنی طاقت اور کمائی کے مطابق تو یہ تین بیٹیاں (بھی) روز قیامت اس کے لئے دوزخ سے آڑ اور رکاوٹ کا سبب بن جائیں گی‘‘
مرد کو قوام بنا کر اس کا محافظ وخادم وسربراہ بنادیا کیونکہ کوئی بھی ریاست بغیر سر براہ کے نہیں چل سکتی گھر بھی ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس میں مرد سربراہ ہے دوسرا سربراہ ہونے پر معاملات بگڑجائیں گے پھر ایک منطقی سی بات بھی ہے کہ اس چھوٹی سی ریاست کے بنانے اس کے قائم رکھنے تک مرد اپنا مال خرچ کرتا ہے لہٰذا اگر یہ ریاست ٹوٹے گی تو نقصان بھی اس کا زیادہ ہوگا لہذا وہ اسے توڑنے سے پہلے سو بار سوچے گا ۔ قرآن کریم بیان کرتاہے : اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ(النساء : 34)’’مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں‘‘
اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوام بنایا ہے اور ہماری حکومت اسے غلام بنانا چاہتی ہے اور وہ سربراہ اور راعی ہے یہ اسے رعایا بنانا چاہتےہیں قرآن اسے بہت سی اخلاقی پابندیوں کے ساتھ تأدیب کا حق دیتا ہے یہ اس سے حق چھین کر عورت کو دینا چاہتے ہیں اسے محافظ سے مجرم بنانا چاہتے ہیں یہ خالق ومالک سے بڑھ کر عورت کو حقوق دینا چاہتے ہیں بعجلت بل پاس کرتے ہیں اور مردوں کو اپنے ہی گھر سے بے دخل کرکے دو دن باہر رکھنا چاہتے ہیں قرآن جو معاملہ (حکماً من أہلہ وحکماً من أہلھا) کہہ کر گھر میں بٹھانا چاہتاہے یہ اسے قابل دست اندازی پولیس بنانا چاہتے ہیں اسے کڑا پہنا کر ذلیل کرنا چاہتے ہیںجو ایک دوسرے کے امین ہیں عزت کے پاسدار ہیں ان کے درمیان بداعتمادی کی دراڑ پیدا کرکے خاندانی انسٹی ٹیوشن کو برباد کرنے کی استعماری کوششوں کو ایک جست میں عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں مگر ایسا ان شاء اللہ ہوگا نہیں شریف گھرانوں میں ۔
عجیب معاملہ ہے بسم اللہ سے بات شروع کرتے ہیںماشاء اللہ کا دھوکہ دے کر الحمدللہ پہ بات ختم کرتے ہیںاور ساتھ ہی اس ملک کا تشخص لبرل بتاتے ہیںدیوالی میں شریک ہوتے ہیں اور ہولی کا رنگ بھرنا چاہتے ہیں یوم اقبال کو بھولتے ہیں اور دیوالی یا د رکھتے ہیں ، میلاد النبی ﷺ کی محفل بپا کرتے ہیں اور توہین رسالت گوارا کرتے ہیں ملعونہ کو ڈھیل دیتے ہیں جاں نثار کی جان لیتے ہیں عجیب سامعاملہ ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح ایک اعلیٰ وکیل کی شہرت رکھتے تھے جو پیسوں کی خاطر کبھی غلط مقدمہ کی وکالت کا ذمہ نہ لیتے بلکہ جس معاملے کو خود صحیح سمجھتے وہی مقدمہ لڑتے گستاخ رسول راج پال کو قتل کرنے والے غازی علم الدین کے بچانے کے لیے قائد اعظم نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جسے جسٹس شادی لال نے مسترد کردیا کیونکہ وہ شادی لال تھا غازی علم دین شہید کا جسد خاکی علامہ اقبال مفکر پاکستان نے لحدمیں اتارا ۔ نامعلوم بانی پاکستان اور مفکر پاکستان صحیح راستے پر تھے یا اب کے لیگی راہنما اصلاح کررہے ہیںحرمت رسول ﷺ پہ فداہونے والے غازی علم دین ہوں یا ملک ممتاز وہ جان دے کربھی زندہ رہتے ہیں البتہ اپنی پہچان بدلنے والے مٹ جاتےہیں مارچ کا مہینہ پھر وعدے یاد دلارہاہے کہ یہ ملک کلمہ لا إلٰہ الا اللہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اور یہی اس کی بقا کا ضامن ہے قرآن پاک مومنوں کی تعریف یوں کرتا ہے: الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ(الحج: 41)’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے ‘‘۔ اللہ تعالں خواص کے گناہوں اور ظلم کے فیصلوں پہ عوام کو نہ پکڑے دعا ہے کہ
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل کہ جسے اندیشۂ زوال نہ ہو