جمعۃ المبارک کا دن اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے یہ دن بے شمار فضائل وبرکات کا مرکب ہے جس طرح رمضان المبارک کا مہینہ تمام مہینوں سے افضل ایسے ہی جمعۃ المبارک سید الایام یعنی سارے دنوں کا سردار ہے اس مقدس دن کے کئی آداب،فضائل اور خصوصیات ہیں ان میں سے سورۃ الکہف کی تلاوت کرنا بھی ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے :

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الْجُمُعَتَيْنِ (المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 399)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اما م کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھی اس کے لیے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک نور پھوٹے گا۔
ایک روایت میں ہے :

عَنْ حَدِيثِ أَبِي الدَّرْدَاءِ، يَرْوِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْفِ، عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ (سنن أبي داود 4/ 117)

’’سيدناابوالدرداءرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہنبی کریمﷺ نے فرمایاجس نے سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کر لیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔‘‘
ہم جمعۃ المبارک کے دن سورۃ الکہف کیوں پڑھتے ہیں؟
یہ سورۃ کریمہ ویسے تو کئی معانی،مفاہیم اورمسائل پر مشتمل ہے ان ہی میں بطور خاص اور بنیادی و اساسی طور پرچار قصوں ،چار فتنوں اور چار سفینۂ نجات پر مشتمل ہے۔

چار قصے:

۱۔ اصحاب کہف ، جن کا ذکر قدرے تفصیل سے کیا ہے اس مناسب سے اس سورت کا نام بھی کہف ہے۔
۲۔ دو باغ والوں کا قصہ
۳۔ موسیٰ اور خضر علیہما السلام کا قصہ
۴۔ذوالقرنین کا قصہ
۱۔ اصحاب کہف :
اس قصہ میں فتنۂ دین یعنی دین کی وجہ سے آنے والی آزمائش کا تذکرہ ہےکیونکہ یہ ان نوجوانوں کا واقعہ ہے جو پکے سچے مومن تھے جو ایک کافرانہ ملک میںزندگی گزار رہے تھے چنانچہ جب ان کے اوران کی قوم کے مابین کشیدگی بڑھ گئی تو اپنے دین کو بچانے کے لیے وہاں سے ہجرت کی ٹھان لی چنانچہ اس پکے ٹھکے اور کھرے اور سچے ایمان کی وجہ سےاللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے غار کوان کے لیے جائے اقامت بنا دیا جن پر سورج طلوع وغروب کے وقت ظاہر ہوتاتھا لمبا عرصہ سونے کے بعد جب جاگے تو پوری بستی کو ایمان کی حالت میں پایا۔
سفینۂ نجات :
اس فتنے سے بچاؤ کا طریقہ’’صحبت صالحہ‘‘ یعنی اچھی صحبت ہے،نیک اور متقی لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور میل جول رکھناہے۔
۲۔ دو باغ والوں کا قصہ :
اس قصہ میں مال اور اولاد کے فتنے کا ذکر کیا گیا ایک ایسے شخص کا قصہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کی برکھا برسائی ہوئی تھی لیکن بدلے میں بجائے حمد وشکر کرنے کے ناقدری اور ناشکری پر اترپڑا ان سب احسانات کو پس پشت ڈال کر سرکشی اور بغاوت کی کشتی پر سوار ہوکر ثابت ایمان لوگوں پر طعن وتشنیع اور شکوک وشبہات کی جسارت کرتا تھا اپنے ساتھی کی نصیحت کے باوجود بھی انعامات الٰہی کا ذرا برابر شکر ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے غضب الٰہی نازل ہوا اور ہر قسم کا پھل فروٹ کھیتی باڑی ، ہرے بھرے کھیت ملیا میٹ ہوگئے۔
نادم اس وقت ہوا جب ندامت فائدہ مند نہ تھی۔

راہ نجات :

اس سے بچنے کا طریقہ ’’حقیقت دنیا کی معرفت حاصل کرناہے‘‘ کیونکہ جب انسان دنیا کی حقیقت سے صحیح طور پر آگاہ وآشنا ہوجاتا ہے تو اس قسم کے فتنوں سے محفوظ رہتا ہے۔
۳۔ موسیٰ اور خضر علیہما السلام کا قصہ :
اس قصہ میں علم کے فتنے کا تذکرہ ہوا ہے کیونکہ جب موسیٰ علیہ السلام سے یہ سوال کیاگیا کہ اس روئے زمین میں سب سے زیادہ صاحب علم(بڑا عالم) کون ہے؟ تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ’’میں‘‘ ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی نازل فرمائی کہ یہاں پر ہمارا ایک اور بندہ ہے جو آپ سے زیادہ علم کا حامل ہے تو موسیٰ علیہ السلام نے ان کی طرف رخت سفر باندھ لیا تاکہ ان سے کسب علم فرمائیں ۔(بخاری کتاب العلم باب ما یستحب للعالم إذا سئل أی الناس أعلم ، حدیث:121)
یادرہے کہ کبھی کبھار حکمت الٰہی مخفی ہوتی ہے لیکن اس کی تدبیر کرنے والا بڑا حکیم ہوتاہے جس کی مثال اس قصہ میں کشتی وغیرہ کی ہے۔
زینۂ نجات :
اس موقعہ پر بچاؤ کا طریقہ صرف’’ تواضع، عاجزی وانکساری‘‘ میں ہے چاہے کتنا بھی علم کیوں نہ ہو کیونکہ پھل دار درخت ہی جھکا کرتا ہے۔
۴۔ذوالقرنین کا قصہ :
جس میں اقتدار وغلبہ کے فتنہ (آزمائش) کو ذکر کیا گیا اس میں ایک عظیم حاکم وبادشاہ کا تذکرہ ہے جو علم وقوت کی دولت سے مالا مال تھا پوری زمین کی سیر کی، لوگوں کی مدد ومساعدت اور خیر کو ہر جگہ پھیلایا ایک مضبوط بند (دیوار) بنا کر یاجوج وماجوج کی پیدا کردہ مشکلات کا سد باب کیا ایک ایسی قوم کی ایسی ترتیب وتنظیم کردی جو دوسروں کی گفتگو تک سمجھ نہیں پاتے تھے۔
سبیل نجات :
اس صورت میں بچاؤ کا طریقہ صرف’’اخلاص‘‘ ہے کیونکہ جب تک اخلاص نہ ہوگا تو اس مخلوق کو سنبھالنا،منظم طریقے سے چلانا، ہر ایک کو تعدی وطغیان اور ظلم وستم کے گرداب سے چھڑا کر میانہ روی اور عدل وانصاف کے خوبصورت گلستان میں جمع کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔
قارئین کرام! سورت کے درمیان میں ابلیس لعین کا تذکرہ ہوا ہے یعنی دو قصوں کے بعد اور دو سے پہلے جس سے معلوم ہوتاہے کہ فتنوں کا محرک اصلی اور اساس یہی ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں ان الفاظ سے کیا ہے :

اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا (سورۃ الکھف:50)

’’کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے۔‘‘
اور یہ حقیقت ہے شیطان لعین بنی آدم(اولادِ آدم) کا ازل سے ابد تک دشمن ہے اور جس نے وعدہ کر رکھا ہے اور اپنا ہدف ومقصد زندگی ہی انسانیت کو بہکانے،گمراہ کرنے اور ذلت وضلالت کے دلدل میں گرانا ہے، جس کے دل میں عداوت انسان کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے انسان کا اپنے رب سے تعلق توڑنے اس کو کفر وشکر ،بدعت وگمراہی کی تاریکیوں میں دھکیلنے کی سرتوڑ کوشش کرتاہے ہر موقعہ پر انسان کو دھوکہ دے کر خودکو خوف خدا کا پیکر سمجھ کر بھاگ کھڑا ہوتاہے۔جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
كَمَثَلِ الشَّيْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ ۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ (سورۃ الحشر 16)
’’شیطان کی طرح کہ اس نے انسان سے کہا کفر کر، جب کفر کر چکا تو کہنے لگا میں تجھ سے بری ہوں میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔‘‘
سورت کہف کا دجال کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
جیسا کہ ہم نے ابتداء میں احادیث ذکر کی تھیں جن میں تھا کہ جمعۃ المبارک کے دن اس سورت کے پڑھنے والا دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دجال قیامت سے پہلے کم وبیش ان فتنوں کے ساتھ نمودار ہوگا وہ درج ذیل ہیں :
فتنۂ دین :
اللہ کو چھوڑ کر لوگوں سے اپنی عبادت کرنے کا مطالبہ کرے گا ، خود خدائی کا دعویدار بن جائے گا جس کا تذکرہ احادیث مبارکہ میں بکثرت آیا ہے ہم بطور نمونہ چند احادیث ذکر کریں گے۔

فَيَأْتِي عَلَى الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ، فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ(صحيح مسلم (4/ 2252)

’’پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں دعوت دے گا تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس کی دعوت قبول کرلیں گے ۔‘‘
اسی طرح جو لوگ اس پر ایمان نہیں لائیں گے ان کو کئی مشکلات سے دو چار کرے گا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:

ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ، فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ، فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ، فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ

’’پھر وہ ایک اور قوم کے پاس جائے گا اور انہیں دعوت دے گا وہ اس کے قول کو رد کر دیں گے تو وہ اس سے واپس لوٹ آئے گا پس وہ قحط زدہ ہو جائیں گے کہ ان کے پاس دن کے مالوں میں سے کچھ بھی نہ رہے گا ۔‘‘
۲۔ فتنۂ مال :
اس کے پاس مال کی فراوانی ہوگی کہ آسمان کو حکم دے گا تو بارش برسنا شروع ہوجائے گا زمین کھیتی اگانا شروع کر دے گی اس کے پاس ایک جنت ہوگی جس کا تذکرہ حدیث میں یوں آیا ہے ۔

فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتُمْطِرُ، وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ، فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ، أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًا، وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا، وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ

پھر وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین سبزہ اگائے گی اور اسے چرنے والے جانور شام کے وقت آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے لمبے تھن بڑے اور کو کھیں تنی ہوئی ہوں گی ۔

وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ، فَيَقُولُ لَهَا: أَخْرِجِي كُنُوزَكِ، فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ

اور اسے کہے گا کہ اپنے خزانے کو نکال دے تو زمین کے خزانے اس کے پاس آئیں گےجیسے شہد کی مکھیاں اپنے سرداروں کے پاس آتی ہیں۔

عَنْ حُذَيْفَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الدَّجَّالِ إِنَّ مَعَهُ مَاءً وَنَارًا فَنَارُهُ مَاءٌ بَارِدٌ وَمَاؤُهُ نَارٌ (صحيح البخاري کتاب الفتن باب ذکر الدجال رقم الحديث 7130)

سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے دجال کے بارے میں فرمایا کہ اس کے ساتھ پانی اور آگ ہوگی اور اس کی آگ ٹھنڈا پانی ہوگی اور پانی آگ ہوگا۔
3 سلطنت واقتدار کا فتنہ :
زمین کے ایک بڑے حصے پر وہ حکومت کرے گا یعنی سواء مکہ ومدینہ کے ہرجگہ پر اپنی سلطنت قائم کرے گا۔ جس کا تذکرہ حدیث مبارکہ میں یوں آیا ہے :

لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ، إِلَّا مَكَّةَ، وَالمَدِينَةَ، لَيْسَ لَهُ مِنْ نِقَابِهَا نَقْبٌ، إِلَّا عَلَيْهِ المَلاَئِكَةُ صَافِّينَ يَحْرُسُونَهَا(صحيح البخاري کتاب فضائل المدينۃ باب لا يدخل الدجال المدينۃ رقم الحديث 1881)

کوئی ایسا شہر نہیں ملے گا جسے دجال پامال نہ کرے گا، سوائے مکہ اور مدینہ کے، ان کے ہر راستے پر صف بستہ فرشتے کھڑے ہوں گے جو ان کی حفاظت کریں گے۔

قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ کَسَنَةٍ وَيَوْمٌ کَشَهْرٍ وَيَوْمٌ کَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ کَأَيَّامِکُمْ

ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ زمین میں کتنا عرصہ رہے گا آپ ﷺ نے فرمایا چالیس دن اور ایک دن سال کے برابر اور ایک دن مہینہ کے برابر اور ایک دن ہفتہ کے برابر ہوگا اور باقی ایام تمہارے عام دنوں کے برابر ہوں گے ۔
سفینۂ نجات :
۱۔ صحبت صالحہ :
جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ ۚ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ وَكَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا (سورۃ الکھف 28)

’’اور اپنے آپ کو انھیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضا مندی چاہتے ہیں)، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنی پائیں کہ دنیاوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا۔ دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے ۔‘‘
یعنی یہ آپ کو خطاب ہے آپ ﷺ ان لوگوں کے ساتھ رہیں خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ،طاقتور ہوں یا ضعیف یہ نیک لوگوں کی صحبت ہے سرداران قریش کی فکر مت کریں کہ ان کی وجہ سے ان نیک لوگوں کی صحبت کو ختم کر دیں۔
اس کی وضاحت ایک حدیث میں آئی ہے جو نیک لوگوں کی صحبت میں رہنے پر ابھارتی اور ترغیب دیتی ہے:

عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ، كَحَامِلِ المِسْكِ وَنَافِخِ الكِيرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الكِيرِ: إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً (صحيح البخاري کتاب الذبائح والصيد باب المسک رقم الحديث 5534)

سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے ( جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو ) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا ( کم از کم ) تم اس کی عمدہ خو شبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے ( بھٹی کی آگ سے ) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک نا گوار بد بو دار دھواں پہنچے گا ۔
۲۔ دنیا کی حقیقت کی پہچان :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِيْمًا تَذْرُوْهُ الرِّيٰحُ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا(سورۃ الکھف 45)

’’ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال (بھی) بیان کرو جیسے پانی جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں اور اس سے زمین کا سبزہ ملا جلا (نکلتا) ہے، پھر آخرکار وہ چورا چورا ہو جاتا ہے جسے ہوائیں اڑائے لیئے پھرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے ۔‘‘
اس آیت کریمہ میں حقیقت دنیا کو بڑے ہی واضح انداز میں بیان کیاگیا ہے کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان بچے کی صورت میں اس دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ بڑھتے بڑھتے زندگی کے زینے چڑھتے چڑھتے عالم شباب میں پہنچ جاتاہے خوبصورتی اور رعنائی اس سے جھلک رہی ہوتی ہے مضبوط ،طاقتور اور توانا جسم کا حامل ہوتاہے لیکن جلدی سے چاندی سر میں چمکنے لگتی ہے سر کے بال جھڑ جاتے ، اس خوبصورتی کو آہستہ آہستہ گھن لگ جاتاہے وہ توانا جسم اپنے کمزوری کی جانب بڑھ رہا ہوتاہے حتی کہ خود کو سنبھالنے کے لیے دوسروں کا محتاج ہوجاتاہے، ہاتھ میں چھڑی پکڑ کر ہی زندگی کے دن گزارنا شروع کر دیتاہے دیکھتے ہی دیکھتے موت کی خبر سنائی دیتی ہے اسی طرح دنیا سے اس کا وجود ہی ختم ہوجاتاہے صرف باتیں باقی رہ جاتی ہیں وقت گزرنے سے لوگ تو اس کو بھی بھول جاتے ہیں یہ ہے دنیا کی حقیقت۔ کیا اس دنیا کی خاطر ہم سب کچھ کر رہے ہیں ، حلال وحرام کی تمییز نہیں،اپنے دوست واحباب ،رشتہ دار و اقارب کی پہچان نہیں اپنے ہی گھمنڈ میں سینہ تان کر اکڑ کر چل رہے ہیں کہ پل کی خبر نہیں کیا ہونے والا ہے۔
۳۔ عاجزی وانکساری :
ہیں تو موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی، براہ راست اللہ تعالیٰ سے گفتگو کرنے والے جن کا لقب ہی کلیم اللہ ہے لیکن عاجز ی وتواضع اس حد تک ہے کہ حصول علم کے لیے سفر کی صعوبتیں برداشت کیں جب وہاں پہنچے تو یہ سننے کو ملا کہ واپس چلے جاؤ آپ صبر نہیں کر سکتے لیکن جواب میں تواضع اور ادب کے موتی بکھیرتے ہوئے کہتے رہے :

قَالَ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ صَابِرًا وَّلَآ اَعْصِيْ لَكَ اَمْرًا(الکھف 69)

موسٰی علیہ السلام نے جواب دیا کہ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور کسی بات میں میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔

۴۔ اخلاص :
دنیا کی ریل پیل میںہر ایک دوڑ رہا ہے ناگہانی صورت یہ ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ بھی خود کو منصب سلطنت کا اہل سمجھتاہے لیکن یہ نصیب کی بات ہے کہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ، اجمالی طور پر نظر دوڑائیں تو کتنے لوگ ہیں جو اس منصب ،اقتدار وسلطنت کے متلاشی ہیں اس کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے اس کو پانے کے لیے چاہے کچھ بھی کرنا پڑے کر گزرتے ہیں کیا یہ معاملہ اتنا ہی آسان ہے کیا صرف اس مسند وکرسی پربیٹھنا ہی ہے۔ اس کی کیا مسؤولیت ہے کیا ذمہ داری ہے ؟ اس کے متعلق کیا حقوق ہیں ؟ ہم نے تو اس کو بازیچۂ اطفال بنا دیا ہے ورنہ یہ اتنا بھاری کام ہے کہ اس کا نام سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ وَلِيَ الْقَضَاءَ أَوْ جُعِلَ قَاضِيًا بَيْنَ النَّاسِ فَقَدْ ذُبِحَ بِغَيْرِ سِكِّينٍ(سنن الترمذي کتاب الاحکام باب ما جاء عن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم في القاضي رقم الحديث 1325)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جس شخص کو منصب قضا پرفائز کیا گیایا جولوگوں کا قاضی بنایا گیا( گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کیاگیا۔‘‘
اتنا بھیانک اور سخت ہے۔جس کی زندہ مثال ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں سے ملتی ہے کہ جب امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے سعید بن عامر جمحی کو گورنر بنانے کی پیشکش کی تو سیدنا سعید بن عامر رضی اللہ عنہ اس امر سے آشنا تھے فوراً قسمیں دینے لگے کہ امیر المؤمنین اللہ کا واسطہ ہے کہ مجھے اس آزمائش میں مت ڈالو ۔(تاریخ الاسلام : ۲/۳۵۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ : ۳/۳۲۶۔ حلیۃ الأولیاء  ۱/۲۴۴)
اگر اقتدار مل جائے تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنے اندر اخلاص پیدا کریں تو سارے معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا (سورۃ الکھف:110)

’’آپ کہہ دیجئے کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے،تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘
جمعہ کے دن اس سورت کے پڑھنے کے یہ کچھ اسرار ورموز تھے جن کو نہایت اختصار سے پیش کیا گیا ہے ۔ بارگاہ الٰہی میں بدست دعا ہوں کہ ہم سب کو کتاب وسنت کا صحیح فہم عطا فرمائے اور جملہ فتنوں سے محفوظ فرمائے۔
آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے