اسرائیل نے باہر سے آنے والے یہودیوں کو آباد کرنے کے لیے نئی بستیاں تعمیر کیں اور معاشی مراعات سے نوازا لیکن مقامی فلسطنیوں کا جینا حرام کر دیا اگر کسی فلسطینی مسلمان کی مزاحمت پر ایک یہودی ہلاک ہوجاتا تو اس قصبہ پر بمباری شروع ہوجاتی اس طرح فلسطینی ہجرت کرکے سرحدی علاقوں میں کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوتے رہے جو خوراک کی قلت پر مردار جانوروں کا گوشت کھا کر پیٹ کی آگ بجھاتے رہے تا حال اسرائیل میں یہودیوں کی تعداد میں اضافہ جاری ہے جبکہ ہجرت کی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔
شام میں بشار الاسد کے حامی قلیل تعداد میں ہیں لیکن وہ ملک کے اہم اور حساس عہدوں پر چھائے ہوئے ہیں۔شام کے مقامی لوگوں نے عرب بہار سے متاثر ہوکر جمہوری حقوق کے لئے احتجاج کیا تو شامی فوج نے ان کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ عوام کی طرف سے مزاحمت شدت اختیار کر گئی تو سرکاری طیاروں نے اُن پر بمباری شروع کر دی دو لاکھ سے زیادہ بے گناہ شہری ہلاک ہوچکے ہیں اس کے باوجود تحریک حریت میں کمی نہ ہوئی جس طرح لٹیرا موقع کی مناسبت سے واردات کرتا ہے اسی طرح اہل مغرب نے عراق میں داعش کو جنم دیا جس نے آناً فاناً ایک علاقہ پر قبضہ کر لیا اور دہشت گردوارداتوں کی وجہ سے جہاد کو بدنام کر رہی ہے شام کے مزاحمت کاروں نے بعض علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیا تو اُس وقت داعش نے شام میں مداخلت شروع کر دی اور نام نہاد خلافت تسلیم کرنے کے لیے مقامی مزاحمت کاروں سے برسرپیکار ہوگئی۔امریکہ مشرق وسطی میں آمروں کا تختہ الٹنے تک جمہوریت کے متوالوں کی سرپرستی کرتا رہا لیکن شام میں بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی توروس نے سگنل ملنے پر داعش کی آڑ میں کارپٹ بمباری شروع کر دی۔ روس اور شام کی مشترکہ فوج شمالی شام کے جن علاقوں میں آپریشن کررہی ہے وہاں ترکمان اور سنی قبائل آباد ہیں تاکہ بشار کے مخالفین نقل مکانی کر جائیں اور وہاں روسی فوج کے لئے محفوظ ایربیس اور ٹھکانے بنائے جا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں سے بشار کے مخالفین لاکھوں کی تعداد میں شام سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ترکی نے ہزاروں کوپناہ دی ۔ دیگر مہاجرین سرحدوں پر براجمان ہیں اہل یورپ کے مسلمان ہونے کی پاداش میں ان پر دروازے بند کر دیئے۔ فلسطین کی تاریخ کو شام میں دوہرایا جا رہا ہے۔ ایران، عراق اور لبنان سے بشار کے اقتدار کو سہارا دینے کیلئے پاسداران انقلاب کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں وہ حکومت کو عسکری امداد دے رہے ہیں وہاں شام میں مستقل سکونت اختیار کر رہے ہیں۔
افغانستان، عراق، لیبیا وغیرہ میں مذاکرات کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی بلکہ فوجی آپریشن سے بعض آمروں کا اس طرح خاتمہ کیا کہ ان کے خاندان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔
لیکن شام کے معاملہ میں مسئلہ فلسطین کی طرح مذاکرات کا ڈھونگ رچا ہوا ہےتاکہ کسی دوران بشار کے مخالفین شام اور روس کی بمباری اور داعش کی دہشت گردی سے مرتے رہیں یا بے دخلی پر مجبور ہوتےر ہیں۔ شامی صدر اور اس کے اتحادیوںکی تگ و دو ہے کہ مخالفین زیادہ سے زیادہ بیرون ملک ہجرت کر جائیں جو باقی رہ جائیں ان کو عرب و کرد و داعش و القاعدہ اور شیعہ وسنی میں تقسیم کر دیاجائے پھر جب مذاکرات میں شامی اپوزیشن کو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی انتخابات پر آمادہ کر لیا جائے تو اس وقت بشارکے جیتنے کے امکان روشن ہوجائیں۔ سوچنے پر مجبور ہیں کیا عراق میں آمریت کی چکی میں پسنے والی عوام کا خمیر مٹی سے تھا اور اہل شام کا خمیر پتھر سے ہے۔ جمہوریت کے چیمپئن اہل مغرب کا دوہرا معیار کیوں؟
ایران، عراق اور لبنان وغیرہ بشار کے اقتدار کو سہارا دینے کیلئے اعلانیہ عسکری حمایت کررہے ہیں کسی نے اعتراض نہیں کیا جب سعودی عرب نے شامی عوام کو ظلم سے بجانے کیلئے زمینی فوج بھیجنے کا اعلان کیا تو بشارکے حامیوں کا سیخ پا ہونا چہ معنی وارد؟
صیہونی مشرق وسطیٰ میں مذہبی ونسلی فساد کے شعلے بھڑکا کر گریٹ اسرائیل کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ بہترین تدبیر کرنے والا اور کارساز ہے۔ مغربی تہذیب وتمدن کی تأثر پذیری کی وجہ سے امت مسلمہ کی اکثریت ذکر الٰہی اور جہاد فی سبیل اللہ کی برکات سے محروم ہوچکی تھی وہ مشرق وسطیٰ کی آگ سے کندن بن کر نکلے گی جس طرح ان کے اسلاف نے عرب وعجم میں دعوت وجہاد کا پرچم بلند کیا اسی طرح اُن کی روحانی اولاد کائنات میں اسلام سے محروم لوگوں کے سینوں کو ایمان کے نور سے منور کریں گے۔
ان شاء اللہ